عابد انوریہ عام بات ہے کہ مسلم مسائل کو حکومت ہند سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ کلرک سے لیکر اعلی افسران کا رویہ معاندانہ، متعصبانہ اور معاندانہ ہوتا ہے۔کوئی بھی فائل جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے متعلق ہوکاروائی کے لئے آگے نہیں بڑھتی۔ خاص طور پر جب وقف املاک کی حفاظت کی بات آتی ہے تو اس میں افسران کی دلچسپی لینا تو دور کی بات اس پر ذرا بھی توجہ نہیں ڈالتے اور وہ فائل الماری کی زنیت بن کر دھول چاٹتی رہتی ہے۔مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں بہت سارے منصوبے بنتے ہیں اور فائل پر کاغذی کارروائی بھی ہوتی ہے مجہول اخبارات میں اشتہارات بھی شائع ہوتے ہیں لیکن عملی جامہ کے مرحلے میں وہ منصوبے کبھی بھی داخل نہیں ہوتے بلکہ بہت سارے منصوبوں کے بارے میں اس وقت پتہ چلتا ہے جب وقت نکل چکا ہوتا ہے۔ بروقت، مناسب جگہ اور مناسب اخبارات میں اشتہارات نہیں دیتے جسے مسلمان پڑھتے ہیں۔مقصد صرف کاغذی خانہ پری کرنا ہوتا مسلمانوں کی فلاح و بہبود نہیں۔ اس کے لئے افسران طرح طرح کے ہتھکنڈے اپناتے ہیں تاکہ کسی صورت میں فوائد ان تک نہ پہنچ سکیں۔اسی طرح کئی مسائل ہیں جو حکومت کی لاپروائی، غفلت اور منصوبہ بند سازش کے نتیجے میں کبھی حل نہیں ہوئے۔مسلم جائدادوں کو مختلف نام دیکر قبضہ کرلیاجاتا ہے ان میں وقف جائداد بھی ہے۔وقف املاک کی تباہی کی ایسی ان کہی داستان ہے جسے سننے کے بعدہرانسان کا حکومت، عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ پرسے اعتماد اٹھ جائے گا۔ وقف املاک کو جس طرح ایک منصوبہ بند طریقہ سے تباہ کیا گیااور اسے چوراہے پر پڑا ہوا سامان تصور کرکے جس طرح اسے تقسیم کیا گیا جتنا دردناک ہے اتنا افسوسناک بھی۔ان جائدادوں کے قابضین میں سبھی طبقہ کے لوگ شامل ہیں جہاں مسلم قائدین کی مجرمانہ غفلت شامل ہے وہیں متولیوں اور وقف جائدادوں کی نگرانی کرنے والوں کی بدنیتی بھی قابضین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ابتداء ہی سے وقف کے تعلق مسلم معاشرہ، مسلم سیاست داں، حکومت کے وزراء اورافسران کا رویہ معاندانہ رہا ہے۔ وقف بورڈ کی جائدادوں پر سب سے بڑا قابض مرکزی اور ریاست حکومت کی ایجنسیاں،دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے)، وزارت دفاع اور ریاستوں کی ڈیولپمنٹ اتھارٹیز شامل ہیں۔ مہاراشٹر ہو یا آندھرا پردیش، دہلی یا ہو دیگر ریاستیں وہاں کی حکومتی ایجنسیوں نے سب سے زیادہ وقف بورڈ کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔اس صورت حال میں مسلمان سات پشتوں تک ان جائدادوں کو وگزار نہیں کراسکتے جب تک کہ وہ حکومت،وزرائے اورافسران کے انتخاب میں اہم رول ادا نہیں کرنے والوں میں شامل نہ ہوجائیں۔ اس لئے علاحدہ انڈین وقف سروس کی تشکیل ازحد ضروری ہے۔
مسلمانوں کی بدحالی کا پتہ لگانے کے لئے قائم کی گئی سچر کمیٹی نے جہاں مسلمانوں کی زبوں حالی کا ذکر کیاتھا وہیں مسلمانوں کی وقف جائداد کی بدحالی کا بھی اپنی رپورٹ میں تذکرہ کیا تھا اور اس کی حفاظت کے لئے کئی سفارشیں بھی کی تھیں ان میں وقف کیڈر کا بھی ہے۔ اپنی رپورٹ پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ”کہ وقف املاک کے تحفظ کے وقف سروس کاقیام بے حد ضروری ہے“۔ وقف بورڈ کے انتظام وا نصرام سنبھالنے والے نچلے درجے کے افسران ہوتے ہیں۔ اس کے پاس انتظامی اختیارات بھی نہیں ہوتے وہ صرف خط لکھ سکتے ہیں یا سفارش کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج وقف املاک تباہ ہورہے ہیں۔ زکوۃ فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر ظفر محمود نے اس ضمن میں ایک تحریک چھیڑدی ہے کہ اوقاف کی دیکھ ریکھ اور انتظام و انصرام کے لئے علاحدہ انڈین وقف سروس کی تشکیل ضروری ہے اور جب تک اس کی تشکیل نہیں ہوجاتی اس وقت تک وقف جائداد کی حفاظت محض خواب و خیال ہوگا۔ سچر کمیٹی کی یہ سفارش وزارت اقلیتی امور میں دھول پھانک رہی ہے جب حق معلومات کے تحت فائل کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس پر ایک ڈپٹی سکریٹری ویریندر سنگھ نے یہ نوٹ لکھا ہے کہ ”اس سفارش کو ماننا غیر مناسب ہوگا“۔ جب اس ضمن میں وزارت اقلیتی امور سلمان خورشید سے رجوع کیاگیا تو ان کا جوا ب تھا ”گھیٹوائزیشن“ (ghettoisation) ہوگا۔ یعنی مسلمانوں کیلئے الگ دنیا بسانے کے متردادف ہوگا۔ سوال یہ ہے جب کیرالہ، کرناٹک اور تمل ناڈو میں مندوروں کی جائداد کے علاحدہ نظام قائم ہے تو مسلمانوں کے لئے کیوں نہیں۔کیرالہ، کرناٹک اور تمل ناڈو میں اس نظام کے تحت صرف ہندوؤں کا ہی تقرر ہوتا ہے اور اس کے لئے باضابطہ امتحان بھی ہوتا ہے جس میں صرف ہندو حضرات ہی شرکت کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ زکوۃ فاؤنڈیشن کے صدرنے انڈین وقف سروس کیڈر کی تشکیل کے لئے دلائل پیش کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ آئین ہند کے چیپٹر چودہ میں نیا آل انڈیا سروس کیڈر بنانے کا طریقہ کار موجود ہے۔ اس کے لئے کسی قانون میں ترمیم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آئین کادفعہ پندرہ ہر طرح کے تعصب سے پاک کی ضمانت دیتا ہے اس لئے ایسا نہ کرنا دفعہ پندرہ کی خلاف ہوگی۔
انڈین وقف سروس کیڈر بنانے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ کیوں کہ کوئی بھی باضابطہ اور اختیار سے لیس وقف بورڈ کا سی ای او نہیں ہوتا۔ زیادہ تروقف بورڈ کے سی ای او کمتر درجہ کے افسران ہوتے ہیں جسے کسی محکمہ اعلی افسر گھاس نہیں ڈالتے اور نہ ہی اس کی نوٹس پر کارروائی تو دور کی بات جواب دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ڈاکٹر ظفر محمود صاحب پنجاب وقف بورڈ (مشترکہ پنجاب، ہریانہ ہماچل) کے سربراہ رہ چکے ہیں اورانہیں اس کا عملی تجربہ بھی ہے۔اس لئے اس سروس کے قیام کے لئے پورے ملک میں اس مطالبہ کو ایک تحریک کی شکل دینی چاہئے تاکہ یہ حقیقت کی شکل لے سکے۔ وقف بورڈ اور وقف املاک کی حفاظت کے لئے جوابدہ، ذمہ دار اور اختیارات سے لیس افسران کی بے حد ضرورت ہے جو انڈین وقف سروس کی شکل میں ہی مل سکتے ہیں۔اس کے لئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے بھی اپنی سفارشات میں طاقتور سی ای او کی بات کہی ہے۔اس کے علاوہ دہلی وقف بورڈ کے پاس سی ای او ہوتا تو نور مسجد کی شہادت کا سانحہ بھی پیش نہیں آتا۔
۶۰۰۲ میں حکومت نے وقف جائدادوں کے تعلق سے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے چیرمین کے رحمان خاں تھے۔ اس کمیٹی نے پورے ملک کادورہ کرکے وقف کی صورت حال کو جاننے کی کوشش کی تھی اور کمیٹی نے ۳۲ اکتوبر ۸۰۰۲ کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پیش کردی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک میں پھیلی ہوئی وقف جائدادوں میں سے ۰۷ سے ۰۸ فیصد پر غاصبانہ قبضہ ہے یا غیر قانونی تصرف میں ہے۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ اگرچہ وقف سے متعلق قانون ۴۵۹۱ سے نافذ ہے لیکن بدقسمتی سے یہ قانون وقف جائدادوں کو واپس لینے، قبضے ختم کرانے، خلاف قانون تصرف کو ختم کرانے میں موثر ثابت نہیں ہوا ہے اور اسی طرح ۵۹۹۱ کا وقف ایکٹ بھی اسی طرح ناکام رہا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے اپنے جائزہ میں پایا تھا کہ وقف بورڈ کے چیف ایگزی کیوٹیو افسر کے پاس اختیارات نہ ہونے کے سبب وہ وقف جائدادوں کو غاصبوں کے قبضہ سے آزاد کرانے میں ناکام رہے ہیں اسی لئے اس کمیٹی نے اپنی تیسری رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ سیکشن ۴۵ میں ایک نئے ذیلی سیکشن (۵) کا اضافہ کردیا جائے جس کی رو سے وقف بورڈ کے سی ای او کو وہی اختیارات دے دئے جائیں جو کلکٹر، اسسٹنٹ کلکٹر، ایس ڈی ایم کے پاس ہیں لیکن حکومت نے اس سفارش کو اب تک نافذ نہیں کیا ہے۔مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے جابجا اپنی رپورٹ میں سی ای او کی کارکردگی اور نااہلی اور ریاستی حکومتوں کے سی ای او کر مقرر کرنے کے رویے تئیں اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے۔ ہندوستان کے تمام ریاستی وقف بورڈوں کے بارے میں کمیٹی کی رائے اچھی نہیں ہے اور نہ ہی کسی بھی وقف کی کارکردگی سے یہ کمیٹی خوش نظر آتی ہے۔ ہر وقف بورڈ کی نااہلی کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی نے کھل کرکا اظہار خیال کیا ہے۔ اپنی رپورٹ میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے لکھا ہے کہ ”ملک میں وقف بورڈوں کی حالت کے جائزہ کے بعد پتہ چلا ہے کہ اکثر ریاستوں میں وقف بورڈوں کی تشکیل نہیں ہوئی ہے۔کمیٹی یہ لکھنے پر مجبور ہے کہ بہار اورآندھرا پردیش جیسی بڑی ریاستوں میں بھی جہاں وقف کی جائدادیں اور املاک ہیں وہ وقف بورڈوں کے تشکیل میں پیش قدمی نہیں کررہی ہیں“۔ کمیٹی اپنی رپورٹ میں آگے لکھا ہے ”ایسا لگتاہے کہ اکثر ریاستیں وقف ایکٹ ۵۹۹۱ کے نفاذ میں دلچسپی اور ارادہ نہیں رکھتی ہے۔ وقف کی جائدادوں اور املاک کی نگرانی اور نظام کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ریاست میں وقف بورڈ ہوں اور مؤثر ڈھنگ سے کام کریں۔ کمیٹی وقف معاملات میں ریاستی حکومتوں کی عدم تعاون کے رویے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے“۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں وقف بورڈ کو سیاسی مفاد کے استعمال پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”کمیٹی پرزور سفارش کرتی ہے کہ ریاستی حکومتیں وقف بورڈوں کو سیاسی سرپرستی کے لئے نہ استعمال کریں۔ سیاست کو وقف بورڈ سے دور رکھنا چاہئے۔وقف کا تعلق مذہبی اور خیراتی اداروں سے ہے اور بہت ہی مقدس کردار نبھاتی ہے۔ ان اداروں کے پاس کمیونٹی کا وافر قیمتی اثاثہ ہے۔ غیر ذمہ دار اور نااہل لوگوں کو وقف بورڈ کا ذمہ دار نہیں بنانا چاہئے۔اس سے وقف کی منشا کو ضر ب پہنچے گا۔
مرکزی حکومت سمیت ریاستی حکومتوں کا منشاکبھی بھی وقف جائدادوں کا تحفظ اور ناجائز قابضین سے وقف املاک کو واگزار کرانا نہیں رہا۔ ہمیشہ ایسے لوگوں کووقف بورڈ کا چیرمین یا ایسے بے اختیار افسران کو بورڈ کا سی ای او بنایا جاتا ہے جن کا مقصد تنخواہ لینا اور وقف جائداد پر قابضین کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی وقف بورڈ نے وقف جائداد کو آزاد کرانے میں دلچسپی نہیں لی۔ دہلی وقف بورڈ کے ایک سابق چیرمین نے وزارت حاصل کرنے کے لئے وقف بورڈ کی نہایت قبرستان کی قیمتی زمین جس کی قیمت اربوں روپے تھی دہلی حکومت کو پارک بنانے کے لئے دے دی جب کہ دہلی کے باشندے اپنے مردوں کو دفن کے لئے زمین کو ترس رہے ہیں۔ سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ وقف بورڈ کا سی ای او کوئی طاقت ور افسر نہیں ہوتا۔ایسے افسران مقرر کئے جاتے ہیں جو کسی کام کے نہ ہوں اور وقف بورڈ کے سی ای او اختیارات بھی حاصل نہیں ہوتے اس لئے بعض سی ای او چاہتے ہوئے وقف جائدادوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت افسران کا رویہ بھی وقف جائدادوں کے بارے میں ٹال مٹول کا رہتا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ وقف بورڈ میں سی ای او کل وقتی نہیں ہوتے بلکہ زیادہ تر جز وقتی رکھے جاتے ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ ”وقف بورڈ مستقل سی ای او تقرری کے معاملہ میں بھی حکومت کی لاپروائی کا شکار ہیں۔ سی ای او وقف بورڈ کا اہم رکن ہوتا ہے۔ درحقیقت وہی بورڈ کی جہت و سمت متعین کرتا ہے۔ تاہم کمیٹی کے پاس موجود وسائل کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اکثر و بیشتر ریاستوں نے سی ای او کو بمشکل بورڈ کا اہم رکن سمجھا ہے۔ اہم ریاستوں نے کل وقتی سی ای او کی تقرری میں دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔ نتیجتاً وقف بورڈ کی پوری مشنری بگڑ گئی ہے“۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک کی مختلف ریاستوں میں رجسٹرڈ وقف املاک کی تعداد 4.9 لاکھ سے زیادہ ہے۔ صرف مغربی بنگال میں سب سے زیادہ وقف املاک 148,200 ہیں۔ اس کے بعداترپردیش میں 122,839 وقف کی جائیدادہیں۔ اسی طرح دہلی، مہاراشٹر، کیرالہ، کرناٹک اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں بھی کافی بڑی تعداد میں وقف املاک ہیں جن کا مجموعی تخمینہ تقریبا ۶ لاکھ ہے۔ وقف املاک کی وسعت واہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد ہندوستان میں سب سے بڑی اراضی وقف بورڈ کے پاس ہے۔ وقف بورڈ پر قبضہ کے معاملے میں سب سے اعلی درجہ ریاست آندھرا پردیش کو حاصل ہے۔ آندھرا پردیش میں تقریباً ایک لاکھ ۵۴ ہزار ۴۴۵/ ایکڑ وقف کی زمین ہے جس میں سے ۱۸ (اکیاسی) ہزار ۱۹۵ ایکڑ زمینوں پرناجائز قبضہ ہے۔مہاراشٹر میں وقف کی زمین ۶۴ ہزار ۰۴۳ ہیکٹر ہے جس میں سے ۰۷ فیصد زمینوں پر ناجائز قبضہ ہے۔اسی طرح دیگر ریاستوں کا حال ہے جہاں حکومت یا اس کی ایجنسیوں اور دیگر لوگوں نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ قبضہ کرنے والوں میں مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلی ولاس راؤ دیش مکھ کے بھائی دلیپ دیش مکھ کے ٹرسٹ کا نام بھی شامل ہے جس نے اورنگ آباد میں ۰۳ بیگھ وقف زمین پر قبضہ کیا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ آندھرا پردیش میں ایک مذہبی تعلیمی ادارے جامعہ نظامیہ کی 490 ایکڑ زمین پر حیدرآباد اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے قبضہ کرلیا ہے۔ اسی طرح درگاہ حسین شاہ ولی کی 1654 ایکڑ اراضی مختلف اداروں نے آپس میں بانٹ لی ہے۔ اس میں سے 250 ایکڑ زمین انڈین سکول آف بزنس کو، 200 ایکڑ زمین مولانا آزاد یونیورسٹی اور 660 ایکڑ زمین ریاستی انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن کو دے دی گئی۔اگر انڈین وقف سروس کی تشکیل پہلے سے ہوئی ہوتی تو کھربوں روپے کی وقف جائداد وں پرقبضہ نہ ہوا ہوتا اور یہاں کے مسلمان نان شبینہ کے محتاج نہ ہوتے۔ اس لئے حکومت اس طرح کا کوئی کیڈر کی تشکیل نہیں کرنا چاہتی جس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ ہو یا مسلمانوں کے وقف املاک کا تحفظ ہو۔ اس کے لئے مسلمانوں کو خود آگے آنا ہوگا اور ناجائز قابضین سے وقف جائدادوں کو واگزار کرانے کے لئے منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ لڑائی لڑنی ہوگی۔ جب ہندوؤں کی وقف جائدادوں کے لئے علاحدہ نظام موجود ہے تو مسلمانوں کے لئے کیوں نہیں ہے جب کہ مسلمانوں کو اس کی سخت ضرورت ہے۔
2011 میں لکھا گیا ایک مضمون
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment