عابد انور
استعما ریت مخالف مہم میں اردو صحافت کا کر دار نا قابل فرا موش ہے، ہندوستا ن کی تمام ریاستوں سے نکلنے والے اردو اخبار ات میں فر نگی آمریت، مطلق العنا نیت کے خلاف مشتر کہ آوازیں بلند کی گئیں، کر نا ٹک، مدھیہ پر دیش، دہلی، اترپر دیش، مہا راشٹر، اور دیگر علا قوں کے ایسے اردواخبار ات کی فہر ست کا فی طویل ہے جن کا مقصد فر نگی استبدا د، ظلم و عد وا ن کے خلاف آواز بلند کر نا تھا او راردو صحافت کی اسی انقلا بی آوازکا اثر ہے کہ 1857 کی بغا وت ملک کے کو نے کو نے تک پہنچی او ر تمام لوگ بلا تفریق مذہب و ملت انگریزی اقتدا ر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ مساجد و منا در میں انگریزوں کے خلاف بددعاؤ ں کا سلسلہ شروع ہو ا۔ اور لو گ یہا ں تک دعا کر نے لگے کہ پھر سے مغلیہ سلطنت قائم ہو اور کوئی مغل بادشاہ یہاں کا اقتدا ر سنبھا ل لے اور یہ دعا مسلمانوں نے نہیں بلکہ ہندوؤں نے مانگی تھی۔ چھوٹے چھوٹے ضلعوں اور چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں انگریزوں کے خلاف ایک ہی جوش و جذبہ پر وان چڑھ رہا تھا اور اس جذبہ کو اردو اخبار ات مزید توانا ئی اور تحرک عطا کر رہے تھے۔
خفیہ انقلابی تحریک کا اثر سب سے زیادہ دہلی میں تھا ملک بھر سے مجاہدین یہاں جمع ہورہے تھے اس میں مغل شہزادے پیش پیش تھے۔ جیسا کہ ساورکر نے لکھا ہے کہ خفیہ انقلابی تحریک سب سے زیادہ دہلی میں جڑ پکڑ رہی تھی اور مغل شہزادے اس کام میں مصروف تھے، مائیں بچوں سے دعا کراتی تھیں کہ فرنگی غارت ہوجائیں۔ ایک فرانسیسی خاتون مسز انگلیسی نے اپنی سرگزشت میں لکھا ہے کہ,, مسلمان اپنی مسجدوں میں اور ہندو مندروں میں دعا کرتے تھے کہ ہندوستانی سلاطین گورکانیہ (مغلیہ) کی اولاد میں سے کسی کا راج ہو“۔ ص 215
ملک کے اخبار ات نے بھی صحافتی محاذ پر انگریزوں کے خلا ف ایک مو رچہ کھول دیا اور ان کے ظلم و جبر کی خبروں سے خلق خدا کو روشناس کر کے ان کی قومی و مذہبی غیر ت و حمیت کو للکار نے لگے۔ اس طرح پوراملک انگریزوں کے ظلم و جبر سے آہستہ آہستہ روشنا س ہوتا گیا۔ اس وقت کے اخبار ا ت نے بلا خوف وخطر انگریزوں کے خلاف خبریں شا ئع کیں اور قومی جذبا ت سے انگریزحکمرا نوں کو بھی آگا ہ کیا۔ اگر یہ اخبار ات نہ ہو تے تو شا ید انگریزوں کی آمریت سے لوگ آشنا نہ ہوپا تے۔ ان اخبارا ت نے اس وقت نہ صرف یہ کہ اپنے ملک ومٹی کی محبت میں کسی انجا م کی پر وا ہ نہیں کی بلکہ بے خطر سارے اخبار ات آتش نمرود میں کود پڑے او ران اخبارات کے اس عشق اور جنوں کا ہندوستا نی عوام نے بھی یوں احترا م کیا کہ اخبار ات کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے بھی انگریزوں کے خلاف مورچہ سنبھال لیا۔
یہ تھا اردو صحافت کا کر شمہ کہ جس نے ایک لمحہ میں ہندوستا نیوں کے ذہن و دل کو بدل ڈالاکل تک جو انگریزوں کی وفا دا ری میں تھے وہ ان کے خلاف ہوگئے اور اس طرح گویا پور ے ہندوستان میں انگر یز مخالف مشن کو مکمل کا میا بی ملی، اس کا میا بی کا سہر ا اردو اخبار ات کے سر ہے۔
۷۵۸۱ انگریزوں کے خلا ف بغا وت کی ایک علا مت ہے اور اسے ملک گیر پیمانہ پر جنگ آزادی کا نقطہ آغاز ما ناجا تا ہے او راسی کی بنیا دپر 1857کے تنا ظر میں اردو اخبارا ت کے کردارکی بابت گفتگو ہو رہی ہے مگر دیکھا جا ئے تو انگریزوں کے خلاف اردو صحافت نے ”فوجی اخبار“ کے ذریعے جو بگل بجا یا تھا ا سے اردو صحافت نے فراموش کردیا ہے۔ انگر یزوں کی ریشہ دوانیوں اور سا زشوں کے خلاف سب سے پہلی آواز فو جی اخبار سے بلند ہو ئی جو ٹیپو سلطا ن کے حکم سے جا ری ہوا، یہ ٹیپو سلطان کے سر کا ری مطبع سے شا ئع ہو تا تھا۔ یہ اخبار فوجیوں کے لیے تھا،ٹیپو سلطا ن کی شہا دت کے بعد انگریزوں نے جس طرح ان کی تمام چیزیں لوٹ لیں،اسی طرح اس اخبار کی فا ئلیں بھی ضبط کر لیں۔
ایک اور اخبار سفیر کر نا ٹک کے نا م سے ۳ ما رچ 1857کو نکلنا شروع ہوا جس کا تذکرہ مشہور ومعروف محقق امتیاز علی خا ں عر شی نے اپنے ایک مضمو ن”قدیم اخبار ات کی کچھ جلدیں“ میں کیا ہے۔ اسی طرح کر نا ٹک کے مشہور محقق این سیتا رام شا ستری نے کرنا ٹک کے ایک اور اخبار قا ضی الملک کا ذکر کیا ہے۔ جو 1854میں منظرعا م پر آیا تھا اور ایک عشرہ تک جاری رہا۔ان اخبار ات کی جلدیں دستیا ب نہیں ہیں لیکن با ضابطہ اخبار جس پر محققین متفق ہیں اور جس کی جلدیں بھی کتب خا نوں میں دستیا ب ہیں وہ ہے,,قا سم الاخبار“ اس کے مالک و مدیر محمد قاسم غم تھے جنہوں نے ۱۶۸۱ میں یہ اخبار جا ری کیا تھا۔اس ہفت روزہ اخبار میں ملکی وغیر ملکی سما جی، سیاسی مو ضوعا ت پر مضامین اور خبریں ہو تی تھیں،ہر شما رے میں پا بند ی سے ادا ریہ لکھا جا تا تھا جو اس وقت کے عصری مسا ئل پر محیط ہو تا تھا۔”قا سم الا خبار“ کے ایک اداریہ کا اقتبا س ملا حظہ کریں جس سے اردو اخبار کی بیدار مغزی اورعصری مسائل سے آگہی کا اندازہ ہو تا ہے۔
”چو نکہ روز بروز انگریزی مدر سے اجرا ء ہوتے ہیں اس لیے لوگوں کا گما ن ہو تا ہے کہ سر کا رکا ارادہ ہم سب کو زبان انگریزی زبان سکھانا ہے۔ جب انگریزی پڑھنا لو گ شروع کر تے ہیں پھر ہنر سیکھنے سے باز رہتے ہیں جب انگریزی سیکھنے میں ان کے اوقا ت صرف ہوتے ہیں تو ہنر نہیں سیکھتے، پھر جب سر کاری خدمتیں ان کو نہیں ملتیں، غریب اور مفلس ہو جا تے ہیں، ہم کو یا د ہے کہ چند روز پیشتر ایک افسر صاحب کہتے تھے کہ ان دنوں انگریزی پڑھے آسا نی سے مل جا تے ہیں، گھوڑے کا کا م کر نے کے لیے اس آسا نی سے سا ئس نہیں ملتے جبکہ ابھی یہ حا لت ہے آئندہ کیا ہو گی؟َ“۔ اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ ہندوستا ن میں مسلم حکو مت کے زوال کے بعد بے روزگا ری میں کس قدر اضا فہ ہو ا تھا، کر نا ٹک میں اردو میں صحافت کی داغ بیل ڈالنے والا اخبار با لا ٓخر سماجی اور استعماریت پسندوں کی چیرہ دستیوں کا شکا رہوگیا۔
اسی طرح کرناٹک کے ایک اور اخبار محافظ بنگلور کابھی ذکر ملتا ہے جس کے مدیر عبدالحفیظ آرام تھے، محمد قاسم غم کے قاسم الاخبار کے علاوہ عیسائی مشنریوں کے گمراہ کن پروپیگنڈہ سے مسلمانوں کو محفوظ و مامون رکھنے کے لئے اخبار شمس جاری کیا تھا جو دس روزہ تھا۔
ایک انگریزمحقق کے مطابق 1857کی جنگ آزادی سے قبل میرٹھ سے ایک خفیہ اخبار نکلتا تھا جس کا نام غالباً ”پیغام آزادی“ تھا۔ جو آسٹریلیا میں پیدا ہونے والے ناول نگار جان لینگ کے پریس میں چھپتا تھا گرچہ اس کی کوئی کاپی دستیاب نہیں ہے اس اخبار میں ایسٹ انڈیا کے مظالم کی داستان اور عوام کو پریشان کرنے سے متعلق خبریں ہوا کر تی تھیں۔ جان لینگ کی دہرہ دون کے مسور ی میں مشتبہ حالت میں موت ہوئی تھی۔ محقق کے مطابق علاقائی زبان کا اخبار تھا تو ظاہر ہی سی بات ہے کہ وہ اردو کا اخبار رہا ہوگا۔
اسی طرح اترپردیش سے نکلنے والے اخبار طلسم جس کے ایڈیٹر پبلیشر محمد یعقوب صاحب تھے، ان کا تعلق فرنگی محل سے تھا،کا کردار انقلابی اور انگریز مخالف تھا۔ مولانا احمد اللہ شا ہ جیسے مجا ہد کوجب پولیس نے گر فتار کر نے سے منع کر دیا تھا اس کے بعد مسلح دستے گرفتاری کے لیے روانہ کیے گئے۔ تو اس وقت لکھنو کے اخبار طلسم نے ۶ ما رچ 1857کے شما رے میں مولاناکی گرفتاری کی خبر اس طرح دی تھی:
”مثل مشہور ہے تلوا راور گولی کی لڑائی دو سے پانچ آدمی کی صف آرائی کیا، زخموں سے چور ہوئے با دہ اجل سے مخمور ہوئے.... شاہ صا حب نے جر أت سے جھپٹ کر ہا تھ مارا، تلوارکا پھلڑا ٹوٹ گیا مجبور ہو ئے جی چھوٹ گیا،اس گولی کا زخم سینے پر کھا یا... شاہ صا حب نہتے گرفتار ہوئے“ (خورشید مصطفے رضوی،۷۵۸۱ ص : ۴۲۴۔)
لکھنو کے ایک اخبار ”سحر سا مری“ نے مار چ 1857کے اپنے شما رے میں فیض آبا د کے وا قعا ت کو بیان کر تے ہو ئے لکھا تھا، ہر گلی کو چے میں معہ ہمرا ہا ن خاص ہتھیار باندھے پھر تے تھے کہ شہر کے مر دما ن پولس یہ حا ل دیکھ کر بر اہ تعرض گھیر تے تھے۔ رفتہ رفتہ خبر ہوئی کہ بلوے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سپا ہیا ن سر کار نے تگ و دو بے شمار کی ہتھیار لے لینے میں تکرار کی..... خورشید مصطفے رضوی،۷۵۸۱ ص : ۴۲۴۔
لکھنو میں مولانا احمدا للہ شاہ کی سر گرمیوں کے متعلق اخبار طلسم نے 21نو مبر کے شمار ے میں لکھا ہے کہ دو شنبہ او رپنچ شنبے کو وہاں مجمع کثیر ہو تا ہے۔ شہر کا بر نا وپیر ہو تا ہے۔ مجلس حال و قا ل کی ہو تی ہے لیکن نئی چال کی ہو تی ہے کہ عین جوش حال میں فرش پر آگ گرا تے ہیں نہ فرش پہ دھبہ لگتا ہے نہ حلق میں چھا لے نظر آتے ہیں،خورشید مصطفے رضوی،۷۵۸۱ ص : ۴۲۴۔
ملک میں انگریزوں کے خلا ف نفرت کے لا وے پھوٹ رہے تھے۔جہاد سے سر شار مجاہدین اور ان کے رہنماؤں نے ملک بھر میں دور ے کئے جگہ جگہ جہادکی تلقین کی پہلے تو صرف مسلمانوں کی حما یت حا صل ہوئی لیکن بعد میں کچھ ہندو بھی سا تھ آئے۔اس پر روشنی ڈالتے ہوئے اخبار طلسم لکھتا ہے :
”چنا نچہ جا بجا خفیہ پھر تی ہونے لگی، عہد وپیما ن کے سا تھ اسم نویسی ہو نے لگی، عشرے کا روز ٹھہرا حسب وعدہ لو گوں کے جماؤ ادھر ادھر ہوئے مگر حکا م خبر دار تھے کچھ بن نہ پڑی۔ طلسم 19 ستمبر 1854، ۱۴، ۰۲۴
1857کی جنگ آزادی کا ذکر آئے اور آگرہ سابق اکبر آباد کا ذکر نہ ہو یہ ہوہی نہیں سکتا جس طرح دہلی، لکھنو، میرٹھ اور دیگر شہروں کے اخبارات کو مجاہدین آزادی کے لئے کام کرنے کا فخر حاصل ہے، اسی طرح آگرہ کو بھی حاصل ہے۔ یہاں اس طرح انگریزوں کے خلاف لاوا پھوٹ پڑا تھا اور آگرہ کے اردو اخبارات نے اس لاوے کو گاؤں گاؤں قریہ قریہ عوام الناس تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آگرہ کے خاص اخباروں میں 1854میں صدر الاخبار، 1854میں قلب الاخبار، اخبار النوح اور آگرہ سے ہی منشی نولکشور نے 1856میں سفیرآگرہ نام سے اخبار نکالا تھا۔ بریلی سے 1847میں ایک اخبار عمدۃ الا خبار جا ری ہو ا تھا جس کو سر کاری سر پر ستی حاصل تھی۔
اسی طرح دہلی سے شائع ہونے والے اخبارات نے اس وقت کے حالات کی تصویر کشی کی اور ہندوستانی قوم کو انگریزوں کے مظالم سے آگاہ کیا اور دہلی کے عوام پر گزرنے والی قیامتوں کا بھی ذکر کیا جس سے پورے ہندوستان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ دہلی کے ”دہلی اردو اخبار“ نے 17مئی 1857کے شمارہ میں جنگ آزادی کی تصویر کشی کر تے ہوئے لکھا:
,, دہلی چھا ؤ نی کے دیسی سپا ہی بھی بغا وت پر کمر بستہ ہو چکے تھے جس کے انگریز افسر انبا لے روانہ ہو ئے، بہت سے راہ میں پانی پت اور کر نا ل میں ما رے گئے اور صرف تین انگریز انبالے تک پہنچے۔ چھا ؤ نی کے باغی سپا ہی نے کشمیر ی درواز ے کے انگریزو ں کو قتل کیا اور قلعے میں آگئی“، ۷۵۸۱، ص، ۶۶۲۔
1857کے بعد دہلی کے حا لات بہت خرا ب ہو گئے تھے۔ ہر طرف انقلا بی کے بھیس میں لٹیرے گھو م رہے تھے اور میم یہاں بھی چھپی ہوئی ہے کا بہا نہ بنا کر ان کے مال اسبا ب لوٹ لیتے تھے جن سے دہلی کے عوا م کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس وقت کے حا لا ت کا,,دہلی اردو اخبار“ نے کچھ اس طرح نقشہ کھینچا:
”شہر بہت لٹتا ہے لوگوں نے یہ افعا ل اختیار کئے ہیں کہ تلنگوں کی صور ت بن کر شہر کو لوٹنا اختیا ر کیا۔ اس طرح سے کہ بندوقیں وغیرہ اسبا ب و آلا ت میگزین اور کو ٹھیوں سے انگریزوں کے لوٹ اپنے تئیں تلنگوں کے بھیس میں ظا ہر کرکے لوٹنا شروع کیا، چنا نچہ پا نچ آدمی کل گرفتار ہو ئے انجا م کو ظا ہر ہوا کہ کوئی کہارہے مسمن صا حب کا اور اہیر اور ایک چما ر ہے حو مندی چھا و نی میں جوتا بنا تا تھا دو اور چما ر”ص ۷۶۲
اردو اخبار ات نے اپنی ابتدا ئی اشاعت سے ہی عوا م کی تر جما نی کی اور ہمیشہ عوام کی فلا ح و بہبود والی خبر وں کو جگہ دی اور وہ جنگ آزا دی میں بھی عوام کی رہنما ئی کر تے ہو ئے نظر آئے اور اخبارا ت نے کبھی حکمر انوں کے آگے سر خم نہیں کیا بلکہ ظا لم انگریز حکمرا ں کے خلاف را ئے عا مہ ہموار کر نے میں نما یاں خدمات انجا م دیں جیسا کہ گورنر جنر ل لا رڈ کیننگ نے 13جون کے اپنے مکتوب میں ہندوستا نی اخبار ات کے 1857کے کردار کے بار ے میں لکھا تھا:
”اس با ت کو لو گ نہ تو جا نتے تھے نہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں میں دیسی اخباروں میں خبر شا ئع کرنے کے آڑ میں ہندوستا نی باشندوں کے دلوں میں دلیرا نہ حد تک بغا وت کے جذبات پید ا کر دیئے ہیں یہ کام بڑی مستعدی چا لا کی اور عیار ی کے سا تھ انجا م دیا گیا۔ص ۳۴۳
ہندوستا ن کے اردو اخبارا ت نے توپ و تفنگ اور تختہ دار کی پر واہ کئے بغیر ظا لم انگریز سے ہندوستا ن کو آزاد ی دلانے کے لیے اپناسب کچھ دا ؤ پر لگا دیا تھا۔ اردو اخبارا ت اپنے اخبار میں وہ سب کچھ شا ئع کر تے تھے جو آزادی کی لوکو تیز کر نے میں معا ون ہو تے تھے۔ یہ وہ اخبارات تھے جو سب کچھ اپنے بل پر کر تے تھے لیکن سچ با ت کہنے او ربا طل سے لو ہا لینے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ حتی کہ ملک کو انگریز وں سے نجا ت دلا نے کے لئے اردو اخبار ”اخبار الظفر“ نے یہ جہا د کا فتوی شا ئع کیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا،
“کیا فرما تے ہیں علما ئے دین اس امر میں کہ اب جو انگریز دلی پر چڑھ آئے ہیں اور اہل اسلا م کی جان و ما ل کا ارا دہ رکھتے ہیں اس صورت میں اب اس شہر والوں پر جہاد فرض ہے یا نہیں اوراگر فرض ہے تو فرض عین ہے یا نہیں اور اوپر لوگ جو شہروں او ربستیوں کے رہنے والے ہیں، ان کو بھی جہا د چاہیے یا نہیں، بیا ن کرو اللہ تم کو اجردے گا۔
جو اب۔ در صور ت مر قو مہ فرض عین ہے اور تمام اس شہر کے لو گوں کی اور استطا عت ضرور ی ہے اس کی فرضیت کے وا سطے چنانچہ اس شہر والوں کی طاقت مقا بلہ اور لڑا ئی کی ہے۔، بسبب کثر ت اجتما ع افو اج کی اور مہیا ااور مو جود ہونے آلا ت حر ب کے تو فر ض عین ہو نے میں کیا شک رہا اور اطراف و حوا لے کے لوگوں پر جو دور ہیں با وجود خبر کے فرض کفا یہ ہے“ ص خور شید مصطفے رضوی،ص ۸۴/۷۴۳ فتویٰ کا نصف حصہ یہاں نقل کیا گیا ہے۔ اس پر ۷۳ علما ء و فقہا کے دستخط ہیں۔
اردو کے اخبار ا ت نے جس طرح لوگوں میں جذبہ جہا د پیدا کیا،اسی طرح حب الوطنی کے جذبا ت بھی پیدا کیے، یہاں تک کہ ملک بھر میں انگریزوں کے خلا ف نفرت کی فضاتیار ہو ئی تاجر سے حکمرا ں بننے والے انگریزوں کو ملک سے نکالنے کے لیے بلا تفریق مذہب وملت ایک پلیٹ فا ر م پر لوگ اکٹھا ہو گئے او ر۷۵۸۱ کی جنگ کا بگل بجا۔
دہلی کا اردو اخبار دہلی 1857ء میں مجا ہدین کے کا رنا مے اور ان کی مستعدی پر اظہار خیا ل کر تے ہوئے لکھتا تھا۔
”بعض آدمی از روئے قسم کے کہتے ہیں کہ جس دن پہلے ترک سوا ریہا ں آئے تو آگے آگے سا نڈ ہنیا ں بھی دیکھی گئیں۔ جن پر سبز پوش سو ار تھے پھر دفعتہ وہ نظر سے غا ئب تھیں صرف تر ک سوار قتال کر تے تھے بلکہ جو شخص انگریزوں کو پا تا تھا کھیرے ککڑی کی طرح کا ٹ ڈالتا تھا اور بری طرح سے ٹا نگ گھسیٹ کے پھینک دیتا تھا“۔
دہلی سے ہی شا ئع ہو ئے والے اردو اخبار دہلی نہ صرف مجا ہدین کی سر گر میوں، قلعہ دہلی کی حا لت حب الوطنی پر روشنی ڈا لتے تھے بلکہ اقتصا دی حا لا ت پر بھی گہر ی نظر ہوتی تھی۔
دہلی اردو اخبار نے ۱۱مئی 1857کے شما رے میں اس وقت کے چشم دید حا لا ت بیان کر تے ہوئے لکھا ہے۔
”دیکھا کہ جا نب بازا ر کشمیری دروازے سے لوگ بلا تحا شا بھاگے چلے آتے ہیں..... بے تکلف واسطے دریا فت حا ل کے سیدھا اسی طرف روانہ ہوا کہ زیر کوٹھی سکندر صا حب پہنچ کر ایک آوا ز بلند بندوقوں کی باڑ کی سا منے سے سنا ئی دی آگے چلا تو دیکھا کہ صا حب بہادر جیو شمشیر بر ہنہ در کف سر اسیمہ و بد حواس بے تحاشا بھا گے چلے آتے ہیں اور پیچھے پیچھے ان کے چند تلنگے بندوقوں کو سر کر تے چلے آتے ہیں ……۔
دہلی سے بہا در شا ہ ظفر کی ملکیت میں سراج الاخبار کے نام سے یک اور اخبار شا ئع ہوا تھاجس کا اجراء 1841ء میں ہوا تھا۔ یہ ہفتہ وار اخبارفارسی زبان میں تھا جو ہر اتوار کو شا ئع ہو تا تھا یہ اخبار مطبع سلطا نی سے شا ئع ہو تاتھا۔ اس مطبع کی مختلف مطبو عات آزاد لا ئبریری میں موجود ہیں۔ یہ اخبار بہادر شا ہ ظفر کے روزنا مچوں پر مشتمل ہو تا تھا۔سیر سید احمد خاں کے بھائی سیدمحمد خا ں کی ملکیت میں دہلی سے ایک اور اخبار سید الا خبار شا ئع ہوتاتھا۔ مطبع سید الاخبار کو یہ فخر حا صل تھا کہ انہوں نے دیوان غا لب شا ئع کیا تھا۔
رامیس پریس سے ایک ہفتہ وار فا رسی اخبار آئینہ سکندر ی 1822میں جا ری ہوا تھا، ہر جمعر ات کو شا ئع ہو تا تھا 1833تک یہ صرف فار سی اخبار رہا لیکن 1834کے بعد اس اخبار میں اردو ضمیمہ کا اضا فہ کیا گیا، شہر سرکاری اخبار تھا جو ممبئی کے گورنر کے ایما ء پر جا ری ہو اتھا، اس اخبار کی خصو صیت یہ تھی کہ یہ لیتھو کی بجا ئے ٹا ئپ پر چھپتاتھا۔
دہلی سے مطبع کشف الاخبار جن کے ما لک منشی امان علی لکھنوی تھے اور ان کے انتقا ل کے بعد ان کے صاحبزادے مفتی غلا م حسین نے عنا ن اختیار سنبھا لی اس مطبع سے کشف الاخبار،1855میں جاری ہوا تھا۔ جنگ آزادی کی تحریک کو جلا بخشنے اور پروان چڑھانے میں جن دیگر دہلی کے اردو اخباروں نے حصہ لیا ان میں 1844میں شائع ہونے والا صادق الاخبار بھی ہے جس کے مدیر جمیل الدین خاں تھے۔ 1854میں کریم الاخبار کے نام سے ایک اور اخبار جاری ہوا تھا۔
مدھیہ پر دیش میں بھی اردو صحا فت نے آزادی کی جنگ میں اہم رول ادا کیا ہے یہاں سے پہلا اردواخبار بھوپال اخبار 1849میں نکلنا شروع ہو ا لیکن بھو پا ل کا با ضابطہ اخبار ہفتہ روزہ عمدۃ الاخبار ہے جو 1871میں شا ئع ہو ا تھا جس کے مدیر حکیم اصغر حسین اخگر تھے یہ بارہ صفحا ت پر مشتمل اخبارتھا۔ بھو پا ل سے شائع ہو نے والا دوسرا اخبار دبیر الملک تھا جس کی ادارت مولا نا امجد علی اشہری کر تے تھے۔ عمدۃ الاخبار میں قارئین کی دلچسپی کے لیے وہ تمام ضروری چیزیں تھیں سر کاری گزٹ کے علا وہ سیا سی، سما جی، ادبی، مذہبی، سائنسی، خبریں ہو تی تھیں۔
پنجاب کے اردو اخبارات کا بھی کافی مثبت کردار رہا۔ 1850میں منشی ہر سکھ رائے نے لاہور سے,,کوہ نور“ نکالا جو 50سال تک جاری رہا۔ منشی کنڈا مل نے گوجرانوالہ سے گلزار پنجاب، منشی دیوان چند نے سیالکوٹ سے 1850میں خورشید عالم کے نام سے اخبار نکالا۔ اسی طرح مدراس سے بھی کئی اہم اخبارات شائع ہوئے تھے جیسے کہ ۸۴۸۱ میں اعظم الاخبار، 1849میں تیسیرالاخبار، 1849میں آفتاب عالم اور 1852میں جامع الاخبار۔
اس کے علاوہ جس طرح تحریک شاہ ولی اللہ اور جنگ آزادی کی شمع جلانے میں علماء صادق پور اور دیگر علماء بہار نے کارنامہ انجام دیا اسی طرح بہار میں اخبارات میں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان میں 1867سے عظیم الاخبار پٹنہ، 1868میں اخبارالاخبار مظفرپورو غیرہ تھے۔ ایک تحقیق کے مطابق1845 میں ہندوستانی زبانوں کے 26اخبارات نکلتے تھے جن میں اردو اخباروں کی تعداد 19تھی-
اس طرح پورے ہندوستا ن سے اردو اخبار ات نے جنگ آزاد ی کی تحریک میں اہم رول ادا کیا، اس وقت کی صحافت پر نظر ڈالی جا ئے تو محسوس ہو تا ہے کہ تمام تر بے سرو سا ما نی کے باوجو د ان اخبار ات نے انگریزوں کے خلاف عوام کی صرف ذہن سا زی نہیں کی بلکہ قریہ قر یہ نگر نگر ایک ایسی لہر پید اکر دی جس سے انگریز لرزہ بہ اند ام ہو گئے۔ اور انہیں تمام تر وسائل اور اختیا رات اور اقتدا رکے باوجود یہ محسوس ہونے لگا کہ پورا ملک ان کے خلاف ہے اور عوامی جذبا ت کا سیلا ب ان کے خلاف امڈ پڑا ہے۔ موج خون سر سے گزرجانے کے باوجود ہندوستانی عوام کے اندر جوش وجذبہ کی طغیانی دیکھ کر خود انگریز بھی ششدر و حیران تھے۔
Comments
Post a Comment