ہندوستان چین کے مابین توازن اور حقائق

 

عابد انور


Thumb

15 Oct 2019 

ہندوستان اور چین کے درمیان تعلقات ہمیشہ تلخ و شیریں کے دور سے گزرتے رہے ہیں۔ شاید کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جس میں یہ بات سامنے نہ آتی ہو کہ چینی فوج ہندوستانی سرحد میں گھس آئی، چینی فوج نے ہندوستانی علاقے میں سڑک بنالی، دونوں کے درمیان تو تو میں میں ہوگئی، ڈوکلام اور لداخ کے علاقے خاص طور پر اس کے لئے جانے جاتے ہیں۔ اس کے لئے اکسائی چین کا مسئلہ بھی ہے لیکن چین کے تئیں ہندوستانی قوموں میں کوئی نفرت دکھائی نہیں دیتی جس طرح پاکستان کے سلسلے میں زہر سرایت کرچکا ہے۔کشمیر میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو پاکستان کے نام پر یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ نفرت عروج پر ہوجاتی ہے لیکن چین کے معاملے میں ایسا ویسا کچھ نہیں ہے حالانکہ چین اور پاکستان گہرے دوست ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے مفادات نگہبان بھی ہیں۔ چین کی پاکستان کے جس قدر گہری دوستی ہے وہ دوستی ہندوستان کے ساتھ نہیں ہے۔ چین ہندوستان کو ایک بڑے بازار کی شکل میں دیکھتا ہے۔ یہی وجہ سے اس سال کے اخیر تک دونوں ممالک کے درمیان تجارت ایک کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ سردست اس وقت چین کے ساتھ ہندوستان کی تجارت تقریبا محض 19ارب ہے اور چین ہندوستان سے پانچ گنا زیادہ ہے۔اس کے باوجود ہندوستان کو چین سے نہ تو تجارت سے گریز ہے اور نہ ہی کسی تعلقات ختم کرنے میں دلچسپی بلکہ جس طرح چنئی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے صدر شی جن پنگ کا استقبال کیا اور گہرے تعلقات کی دہائی دی وہ قابل غور ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کے معاملے میں چین پاکستان کے ساتھ ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ کشمیر کا ایک حصہ ’اکسائی چین‘ چین کے قبضے میں ہے۔ اس کے علاوہ چینی صدر جن پنگ نے مودی کے سامنے عمران خاں کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے مودی کو آگاہ جس کو کہا گیا ہے کہ ’مودی نے سن لیا‘۔خبروں میں بتایا گیا کہ بات چیت میں جموں کشمیر کے سلسلے میں کوئی ذکر نہیں ہوا۔ بات چیت میں جموں و کشمیر کی صورتحال کا کوئی ذکر نہیں ہو۔ اس بارے میں ہندوستان کا موقف چین کو پہلے سے پتہ ہے۔ دونوں رہنماؤں نے خارجہ پالیسی کے لیے خود مختار بنانے اور دو طرفہ تعلقات کو کسی تیسرے ملک کے خیالات اور نقطہ نظر سے آزاد رکھنے کی ضرورت بھی کو قبول کیا۔ بین الاقوامی امور میں دونوں رہنماؤں نے کثیر جہتی فورم پر تعاون بڑھانے کی ضرورت محسوس کی اور عالمی تجارتی تنظیم میں اصلاحات، موسمیاتی تبدیلی کی کوششوں اور اقوام متحدہ میں اصلاحات کے بارے میں بات ہوئی۔
چین کے بارے میں ہندوستان سمیت پوری دنیا میں وہی بات معلوم ہے جو چین بتاتا ہے، اس کے پاس کیا ہے، کیا نہیں ہے اس کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ چین کی خاصیت ہے کہ وہ دنیا کو اپنے بارے میں بہت کم ہی معلوم ہونے دیتا ہے اور اگراس کے پاس ایک روپے ہے تو وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کے پاس پچاس پیسے ہی ہیں جب کہ ہندوستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ خاص طور موجودہ حکومت کے کسی اعداد و شمار میں بھروسہ کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ دنیا کی یہ پہلی حکومت ہے جو فراٹے سے جھوٹ بولتی ہے اور ہر معاملے میں جھوٹ بولتی ہے۔ اسے ہندوستان کی ساکھ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ وہ اپنے ’ڈینگ‘کے معاملے میں کسی چیز سے سمجھوتہ نہیں کرتی۔ ڈرامے، ناٹک، ایکٹنگ اس حکومت کی گھٹی میں ہے۔جیسا کہ ابھی حالیہ چنئی کے مہابلی پورم میں ڈراما کیا گیا، جس سے ملک کے وقار پر دھبہ لگا ہے۔ چین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب بارہویں صدی میں چھوٹی میزائل بناچکا تھا تو دنیا بارود کے نا م سے بھی ناواقف تھی۔پریس اور کاغذ کی ایجاد کا سہرا بھی چین کے سر جاتا ہے اور چین نے دو تین سو سال تک دنیا کو خبر نہیں ہونے دی کہ اس کے پاس پریس اور کاغذ ہے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم چین کے مزاج کو سمجھ سکیں کہ پوشیدہ رکھنے میں کس قدر ماہر ہے۔ جو چین کو جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو چین کے برابر پہنچنے کے لئے پچاس سال لگیں گے۔اگر اس وقت چین ہندوستان کو الیکٹرانک سامان سپلائی بندکردے تو ہندوستان کی سانس رک جائے گی۔ گرچہ چین کو زبردست تجارتی خسارہ ہوگا۔
ہندوستان اور چین پر نظر ڈالیں تو چین کے مقابلے میں ہندوستان کہیں نظر نہیں آتا ہے اور ہر معاملے میں چین ہندوستان سے بہت آگے ہے۔ 2014 سے پہلے والی ترقی پچاس سال تک ہندوستان ہوتی رہے تو چین کے مقابلے میں پہنچے گا۔دونوں ملکوں کے مابین جدید تعلقات کا آغاز 1950ء سے ہوتا ہے جب ہندوستان نے شروع میں ہی تائیوان سے تعلقات ختم کر کے پی آر سی کو برعظیم چین کی مستقل حکومت کے طور پر تسلیم کیا۔ چین اور ہندوستان دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک (فہرست ممالک بلحاظ آبادی ہیں اور سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرنے والے ممالک (فہرست ممالک بلحاظ خام ملکی پیداوار میں بھی شمار کیے جاتے ہیں۔ دونوں کے درمیان میں باہمی ڈپلومیٹک اور معاشی رشتے مضبوط ہوئے ہیں۔ عہد قدیم سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان میں ثقافتی اور معاشی رشتے رہے ہیں۔ شاہراہ ریشم نہ صرف ایک تجارتی راستہ تھا بلکہ مشرقی ایشیا میں بدھ مت کے پھیلنے کا اہم ذریعہ بھی بنا۔ ہندوستان کا رقبہ، 32,27,469 مربع کلو میٹر ہے تو چین کا 95,96,960مربع کلو میٹر ہے۔ ہندوستان کی آبادی  1.32بلین ہے تو چین کی آبادی 1.37 بلین ہے۔ ہندوستان کا ساحلی علاقہ 7516کلو میٹر ہے تو چین کا ساحلی علاقہ 14,500کلو میٹر ہے۔ ملک کی خام پیداوار2256بلین ڈالر ہے تو چین کا 11,218بلین ڈالر ہے۔ہندوستان فی کس جی ڈی پی  6616ہے جب کہ چین کی فی کس جی ڈی پی 15,399ہے۔ ہندوستان میں فی کس آمدنی1743 ڈالر ہے جب کہ چین میں فی کس آمدنی 8806 ڈالر ہے۔ہندوستان میں متوقع عمر 69.9سال ہے جب کہ چین میں متوقع عمر 75.7برس ہے۔ہندوستان میں شرح خواندگی 74.04 ہے جب کہ چین میں شرح خواندگی 91.6ہے۔ ہندوستان کے پاس فوج 12,00,00ہے جب کہ چین کے پاس 23,00,000فوج ہے۔ ہندوستان میں برآمدات 423بلین ڈالر ہے جب کہ چین میں 2560 بلین ڈالر ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں درآمدات  516بلین  ڈالر ہے جب کہ چین میں درآمدات 2148بلین ڈالر ہے۔ چین ہندوستان سے بندرگاہوں کے معاملے میں بہت آگے ہے۔ ہندوستان کے پاس 12بڑی بندرگاہیں ہیں اور 200چھوٹی بندرگاہیں ہیں، جب کہ چین کے پاس 200بڑی بندرگاہیں اوردو ہزار درمیانے درجے کی بندرگاہیں ہیں۔ اسی طرح فضائی نقل و حمل میں بھی چین ہندوستان سے آگے ہے۔ ہندوستان کے پاس 126 ایر پورٹ ہیں، جب کہ چین کے پاس 220ایرپورٹ  ہیں۔ ریلوے نیٹ ورک کے معاملے میں ہندوستان کے پاس  11,2,630 کلو میٹر ہے تو چین کے پاس  12,10000 ریلوے نیٹ ورک ہے۔ ہندوستان میں فی دس ہزار چار افراد ملک چھوڑ دیتے ہیں جب کہ چین میں فی دس ہزار میں صرف تین افراد ہی ملک چھوڑتے ہیں۔ ہندوستان میں حکومتی رقبہ 74  فیصد ہے جب کہ چین میں حکومت رقبہ محض46 فیصد ہے اس کے باوجود چین ہم سارے معاملوں میں آگے ہے۔ بے روزگاری میں شرح چین میں زیادہ ہے اور ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح 9.8فیصد ہے جب کہ چین میں یہ 10.5فیصد ہے۔دنیا میں رابطہ قائم کرنے کے لئے  چین کا انٹرنےؑٹ نظام ہندوستان سے کئی گنا تیز ہے۔ ہندوستان میں تیز رفتار انٹرنیٹ کے معاملے میں انٹرنیٹ رسائی 1.3ہے تو چین تیز رفتار انٹرنیٹ رسائی  18.6ہے۔ افریقی ممالک میں سرمایہ کاری کے معاملے میں بھی چین ہندوستان سے آگے ہے۔ افریقی ممالک میں ہندوستان کی سرمایہ کاری 16.9بلین ڈالر ہے تو چین کی سرمایہ کاری 34.7بلین ڈالر ہے۔  ہندوستان ایک معاملے میں چین سے بہتر ہے وہ جمہوری نظام (نام نہاد ہی سہی) ہندوستان میں حکومتی نظام جمہوری پارلیمانی ہے جب کہ چین میں یک جماعتی غیر جمہوری نظام ہے۔ 
1980ء کی دہائی کے بعد دونوں ملکوں نے اپنے اقتصادی تعلقات کو استوار کیے ہیں۔ 2008ء  میں چین ہندوستان کا سب سے بڑا اقتصادی پارٹنر بنا ساتھ ہی دونوں ممالک نے اپنی حکمت عملی اور فوجی تعلقات بھی مضبوط کیے۔تجارت اور معاشیات کے علاوہ بھی دونوں ملک کے تعلقات رہے ہیں اور عرصہ دراز تک دونوں ملک ایک دوسرے میں دلچسی لیتے رہے ہیں۔سابق ہ وزیر اعظم چین وین جیا باو اور سابق وزیر اعظم ہند منموہن سنگھ دونوں ملکوں نے درمیان میں عالمی تجارت کو 2015ء تک 100 بلین امریکی ڈالر تک پہونچانے کا ہدف بنایا تھا۔ 2017-2018ء تک ہندوستان اور چین کے مابین تجارتی لین دین 89.6 بلین امریکی ڈالر تک پہونچ گیا،لیکن اس میں ہندوستان کو 62.9 امریکی ڈالر کا تجارتی خسارہ جھیلنا پڑا جس کا سیدھا فائدہ چین کو ہوا۔ ہانگ کانگ کے ساتھ ہندوستان کا لین دین 34 بلین امریکی ڈالر کا تھا۔ بی بی سی کے مطابق ایک سروے میں پایا گیا کہ 33 فیصدہندوستانی  چین کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ 35 فیصد ہندوستان  چین کو ہندوستان کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہیں 27 فیصد چینی عوام ہندوستان کا اچھا مانتے ہیں جبکہ 35 فیصد عوام ہندوستان کو پسند نہیں کرتے۔مالی سال 2018 اور 2019ء میں ہندوستان کو چین کے ساتھ تجارت میں ستاون بلین ڈالر کے خسارے کا سامنا رہا تھا۔اس توازن کو دور کرنا بہت مشکل ہے۔کیوں کہ جہاں ایک طرف ہندوستانی کمپنیوں معیار کا معاملہ وہیں سخت مسابقت اور تحفظات بھی ہیں۔ چین کی صنعتی تحفظ کی پالیسی ہندوستانی کمپنیوں کیلئے  چینی مارکیٹ تک رسائی مشکل بناتی ہے۔ نئی دہلی چین کو انڈین انفارمیشن ٹیکنالوجی، دوائیوں اور زرعی ادویات کیلئے مارکیٹ کھولنے کی تگ و دو کرتا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ تجارتی عدم مساوات کے خاتمے کیلئے سرمایہ کاری پر بھی زور دیتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ وہ شعبے جن میں ہندوستان کو سبقت حاصل ہے، جیسا کہ ادویہ سازی  جہاں عالمی مارکیٹ میں بھارت کا20 فیصد شئیر ہے، ان میں بھی  ہندوستان  چین میں جگہ نہیں بنا سکا ہے۔ ہندوستانی کمپنیاں جن کی چین میں رسائی ہے،وہ بھی  مارکیٹ تک محدود رسائی کا شکوہ کرتی ہیں۔تاہم ہندوستان  کی طرف سے جوابی وار کے طور پر چینی درآمدات کو روکنا یا کم کرنا نقصان دہ ہو گا کیونکہ ہندوستان کی صنعت سازی سستے چینی مال (آئی ٹی اور الیکٹرانکس مصنوعات کیلئے) پر انحصار کرتی ہے۔
 ہندوستان اور چین نے دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک مذاکرات کو بڑھانے کا عزم کرنے کے ساتھ دو طرفہ تجارتی خسارے کو دور کرنے کے لئے ایک اعلی سطحی ادارہ جاتی نظام بنانے اور حفاظت اور  سیکورٹی فورسز کے درمیان باہمی تبادلے اور رابطہ بڑھانے پر اتفاق کیا۔وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کی دوسری غیر رسمی سربراہ مذاکرات کے بعدزیر اعظم نے کہا کہ ووہان اسپرٹ کے بعد چنئی رابطہ سے دونوں ممالک کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا۔دونوں ممالک کے درمیان سیاحت اور عوام کے درمیان رابطہ اور تعلقات کو وسیع  پیمانے پر بڑھانے کے بارے میں اتفاق اور اس کے بارے میں متعدد اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ چین کے صدر نے ہندوستانی صنعتی دنیا سے چین میں  انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فارماسیوٹیکلز کے میدان میں سرمایہ کاری کرنے کی  دعوت دی۔ مشرقی ایشیائی ممالک کے درمیان مجوزہ علاقائی مجموعی اقتصادی  شراکت کے معاہدے پر بھی بات چیت کی اور مسٹر مودی نے کہا کہ اس معاہدے کو متوازن ہونا چاہئے۔ دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تجارتی نقصانات کو کم کرنے اور کاروبار، سرمایہ کاری اور خدمات کے معاملے میں تعاون بڑھانے کے اقدامات کرنے کے لئے ایک اعلی سطحی نظام قائم کرنے کا فیصلہ کیا جس میں چین کی جانب سے نائب وزیر اعظم ہو چنہوا اور ہندوستان کی جانب سے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن شامل ہوں گی۔ چینی صدر نے کہا کہ چین تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے تیار ہے اور اس سمت میں سنجیدگی سے قدم اٹھانا چاہتا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے مینوفیکچرنگ میں شراکت کرنے اور اس کے لئے خصوصی سیکٹروں کی شناخت کئے جانے پر اتفاق ظاہر کیا۔اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر 70 خصوصی انعقاد کئے جائیں جن 35 چین میں اور 35 ہندوستان میں ہوں گے۔ہندوستان کے لئے اپنا تجارتی خسارہ کم کرنا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ عالمی معیار کے حساب سے ہندوستانی کمپنیاں دوا بنانے میں ناکام ہیں۔بہت سے ممالک سے شکایتیں بھی آتی ہیں۔ ہندوستان میں نقلی دواؤں کی وجہ سے یہاں کا بازار بدنام ہے۔ ہندوستان ادویہ سازی اور آئی ٹی میں چین میں داخل ہوکر اپنا تجارتی خسارہ کم کرسکتا ہے لیکن پہلے اسے اپنے نظریہ میں توازن اور مثبت سوچ پیدا کرنی ہوگی۔کچھ ممالک کے ساتھ دہرے معیار کو تیاگ کرنا ہوگا۔ 

Comments