عابد انور
جمہوریت کے معنی عوامی حکومت کے ہیں ریاست اور سماج کی سیاسی تنظیم کی ایک شکل جس کے تحت قانونی طور پر اقتدار اعلیٰ اور ادنیٰ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور قانون کی نظر میں تمام شہری مساوی اور برابر ہو تے ہیں،انہیں ریاست کے معاملات میں حصہ لینے اور فیصلہ کرنے سمیت تمام سیاسی،سماجی، معاشرتی حقوق اور انتخابات میں حصہ لینے کی آزادیاں حاصل ہوتی ہیں اور تمام شہریوں کے مذاہب محفوظ ہوتے ہیں اس سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جا تا ہے ان کی جان ومال کی حفاظت کی ضمانت دی جاتی ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔حقیقی جمہوریت سوشلسٹ جمہوریت ہے، سوشلسٹ ملکوں کے آئین میں افراد کو بھر پور سیاسی حقوق، اور آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے تقریر و تحریر کی آزادی، اکٹھا ہوکر ریلی اور مظاہرے کرنے کی اجازت، اپنے مطالبات حکومت کے سامنے پیش کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، نیزمذہبی آزادی، فرد اور گھر کا احترام حکومت کا فریضہ ہوتا ہے، سوشلسٹ جمہوریت شہریوں کے لئے کام، آرام،تفریح، تعلیم گاہوں، مدرسوں اور کالجوں کا اہتمام کرتی ہے،بوڑھے کو پینشن، معذوروں کی دیکھ بھال کا نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ اس کی ضمانت بھی دیتی ہے، اس کے ساتھ سوشلسٹ جمہوریت ریاست، سیاسی آزادیوں کو محنت کش عوام کے مفادات کے مغائر کے استعمال پر روک لگا تی ہے، او رپابندی عائد کرنے والا قانون منظور کرتی ہے۔
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام کی حکومت کہا جا سکتا ہے۔ آمریت کے برخلاف اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں: بلا واسطہ جمہوریت اور بالواسطہ جمہوریت۔ بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن ہو۔ اس طرز کی جمہوریت قدیم یونان کی شہری مملکتوں میں موجود تھی اور موجودہ دور میں یہ طرز جمہوریت سوئٹیزلینڈ کے چند شہروں اور امریکا میں نیو انگلینڈ کی چند بلدیات تک محدود ہے۔جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعاً ناممکنات میں سے ہے۔ پھر قانون کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی۔ اس لیے جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی۔ چنانچہ ہر شخص کے مجلس قانون ساز میں حاضر ہونے کی بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لیے جاتے ہیں جو ووٹروں کی طرف سے ریاست کا کام کرتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کار فرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکین مملکت کا انتخاب درست اور شفاف ہو۔
جمہوریت کا لفظ در حقیقت انگریزی لفظ "democracy" کا ترجمہ ہے اور انگریزی میں یہ لفظ یونانی زبان سے منتقل ہوکر آیا ہے۔ یونانی زبان میں“demo”عوام کو اور“cracy”حاکمیت کو کہتے ہیں۔ عربی میں اس کا ترجمہ دیمقراطیہ کیا گیا ہے۔جمہوریت کی اصطلاحی تعریف بایں الفاظ کی گئی ہے: "حکومت کی ایک ایسی حالت جس میں عوام کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے"۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس نے جمہوریت کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے کہ: "جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں "۔سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے:
"goverment of the people,by the people,for the people
یعنی عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لئے۔
جمہوریت کی جامع تعریف میں خود علمائے سیاست کا بڑا اختلاف ہے، لیکن بحیثیت مجموعی اس سے ایسا نظام حکومت مراد ہے جس میں عوام کی رائے کو کسی نا کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہو۔
جمہوریت کا سراغ سب سے پہلے ہندوستان میں ملتا ہے۔ سو برس قبل مسیح یعنی گوتم بدھ کی پیدائش سے قبل ہندوستان میں جمہوری ریاستیں موجود تھیں جنہیں "جن پد" کہا جاتا تھا۔ یونان میں بھی جمہوریت موجود رہی ہے لیکن وہاں جمہوریت کا تصور سادہ اور محدود تھا۔ سادہ اس معنی میں کہ یونان میں جو ریاستیں تھیں وہ شہری ریاست کہلاتی تھی۔ یہ چھوٹے چھوٹے شہروں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک شہر ایک مستقل حکومت ہوتا تھا، دوسرا شہر دوسری حکومت اور تیسرا شہر تیسری حکومت۔ شہر بھی بڑے نہیں ہوتے تھے۔ یونان کا سب سے بڑا شہر ایتھنز تھا جس کی آبادی زیادہ سے زیادہ دس ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ لہذا وہاں جمہوریت کا تصور یہ تھا کہ بادشاہ خاص خاص اور بڑے فیصلوں میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے ساری آبادی کو اکٹھا کر لیتا اوریہ اسی جگہ ممکن ہے جہاں چھوٹا سا ملک اور مختصر سی آبادی ہو۔ چنانچہ جو بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں مثلاً روم کی سلطنت تو وہاں یہ صورت ممکن نہیں تھی۔ چنانچہ وہاں جمہوریت کا تصور اس حد تک محدود ہو گیا کہ بادشاہ اپنے مشورے کے لیے کوئی کونسل یا مجلس شوری بنا لیتا تھا۔ اس کا نتیجہ رفتہ رفتہ یہ نکلا کہ جمہوریت کا حقیقی تصور (یعنی عوام کو پالیسی سازی میں حصہ دار بنایا جائے) عملاً مفقود ہوتا گیا اور اس کی جگہ مطلق العنان بادشاہت نے لے لی۔ یوں چھوٹی چھوٹی بادشاہت کے قیام کے بعد جمہوریت کا تصور ناپید ہو گیا۔
اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں اس تصور کا دوبارہ احیا ہوا۔ اس وقت جمہوریت نے ایک منضبط شکل اختیار کی اور وہ جمہوریت وجود میں آئی جو آج موجود ہے۔ اسے لبرل ڈیموکریسی اور اردو میں "آزاد خیال جمہوریت" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جن مفکرین نے جمہوریت کی صورت گری کی اور جن کو آزاد خیال جمہوریت کا بانی سمجھا جاتا ہے وہ والٹیئر، مونٹیسکو اور روسو ہیں۔ یہ تینوں فرانس کے فلسفی ہیں، انہی کے افکار ونظریات کے ذریعہ جمہوریت وجود پزیر ہوئی۔
جمہوری حکومت کا طریقہ کار
چوں کہ مطلق العنان حکومت میں تمام اختیارات ایک ہی شخص کے پاس ہوتے تھے، اس لیے مونٹیسکو نے اس کو لوگوں کے نقصان اور ظلم کا باعث قرار دیا اور یہ کہا کہ ریاست کے اختیارات تین قسم کے ہوتے ہیں لہذا تینوں اختیارات کسی ایک شخص یا ادارے میں مرتکز نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ تینوں ادارے ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہونے چاہئیں۔ چنانچہ قانون سازی کا اختیار رکھنے والے ادارے کو مقننہ کہا جاتا ہے اور جمہوریت میں یہ اختیار پارلیمنٹ یا اسمبلی کو حاصل ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق ملک کے نظم ونسق کا اختیار جس ادارہ کو حاصل ہوتا ہے اسے انتظامیہ یا عاملہ کہا جاتا ہے جس کا سربراہ صدارتی نظام میں صدر مملکت اور پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم ہوتا ہے۔ قانون کی تشریح اور تنازعات کا تصفیہ کرنے والے ادارہ کا نام "عدلیہ" ہے جو ملک کی عدالتوں کی شکل میں وجود میں آتا ہے۔ اسی وقت سے جمہوریت کا یہ نظام جاری ہے۔ 9 ستمبر 2013ء کے ”Borgen Magazine”کے مطابق دنیا بھر میں جمہوری ممالک کی تعداد 123 ہے۔
جمہوریت کے فوائد
ماضی میں مذکورہ تینوں قسم کے اختیارات ایک شخص یا ایک جہت میں مرکوز رہتے تھے۔ وہی قانون بناتے وہی لاگو کرتے اور وہی تنازعات کا تصفیہ کرتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر انتظامیہ کوئی گڑبڑ کرے تو اس کے خلاف فریاد بھی اسی کے پاس لے جانی پڑتی تھی۔مونٹیسکو نے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تجویز دی کہ حکومت کے تینوں اعمال الگ الگ اداروں کے پاس ہونے چاہیے اور ان میں سے ہر ایک کو خود مختار ہونا چاہیے یعنی کوئی ادارہ دوسرے کے دباؤ میں نہ ہو۔ مقننہ قانون بنائے، اس کو نافذ انتظامیہ کرے اور عدلیہ خود مختار ہونی چاہیے، تاکہ اگر کسی کو مقننہ یا انتظامیہ سے کوئی شکایت ہے تو وہ عدلیہ کے پاس جائے اور عدلیہ اس کو بلا خوف رفع کرے، انصاف کی بالا دستی قائم ہو اور ہر شخص کو اس کا حق ملے۔
امریکہ کی جمہوریت میں پہلی بار ایک عورت اور سیاہ فام کے درمیان عہدہ صدارت کے لئے زبردست مقابلہ تھا جس میں دونوں نے انتہائی شدومد کے ساتھ اپنی مہم چلائی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار کوئی سیاہ فام صدر منتخب ہواتھا۔ ہندوستانی جمہوریت کی خوبی ہے کہ یہاں پہلے سے ہی ایک خاتون صدر جمہوریہ رہ چکی ہیں اورایک خاتون (اندرا گاندھی) بھی ایک طویل عرصہ تک ہندوستان کی وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ یہاں اقلیتوں میں جس میں سکھ،مسلم اور دوسری اقلیتں شامل ہیں اعلی عہدوں کو رونق بخش چکے ہیں - ہندوستانی جمہوریت میں یہ کارنامے پہلے ہی انجام دئے جاچکے ہیں جو امریکہ نے اب دیا ہے۔
جمہوریت جس میں آمریت، فسطائیت اورفاسسٹ نظام کی جگہ عوامی نظام ہوتا ہے اور تمام مناصبِ مملکت عوام کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، تمام اختیارات کے حامل بھی عوام ہی ہوتے ہیں۔جمہوریت، ملوکیت کو ختم کرکے عوام کو ان کے حقوق دلانے کے لئے میدان عمل میں آئی ہے،جمہوریت کے نزدیک حاکمیت کا حق کسی سرمایہ دار، مخصوص فرد، یا خاندان اور قبیلے کو نہیں بلکہ عوام کو ہے۔ اپنے لئے قانون بنانا بھی ان ہی کا کام ہے۔جمہوریت نے بادشاہت پر ضرب کاری لگا کر نہ صرف بادشاہت کا خاتمہ نہیں کیا، بلکہ اس کے شعلہ نے سرمایہ داروں اور خاندانی حکومتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیااور ہر جگہ عوامی نظام قائم کرکے اس کے خاندانی رعب و دبدبہ جس نے غریبوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا اور مزدور طبقے کو آہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا، انہیں اس کے چنگل سے نکالا اور انہیں وہ تمام حقوق، مراعات، تعلیم اور ملا زمتوں کے سہولیات مہیا کئے جو اعلیٰ خاندان اور اعلیٰ طبقہ کے لئے مخصوص تھیں،اسلام نے بھی آج سے چودہ سو سال پہلے یہی سبق اہل دنیا کو دیا تھا اور یہ نظام تمام ممالک میں رائج تھے اور اعلیٰ ادنی کے امیتازی فرق نسلی تعصب کو مٹا تے ہوئے کہا تھا سبھی ایک ہیں‘ نہ ایک چھوٹے کو بڑے پر‘ اور بڑے کو چھوٹے پر فوقیت حاصل ہے۔
اسلام میں جمہوریت کا تصور
اگر جمہور پر غور کیا جائے تو تین چیزیں سامنے آتی ہیں‘ جمہور‘ جمہوریہ‘ جمہوریت‘ متعدد مکتب فکر مختلف سوسائٹیوں کے مجموعے کا نام جمہور ہے اور جب یہی جمہوری اجتماعی حاجتوں اور تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے جو نظام و دستور بناتا ہے وہ جمہوریہ کہلاتا ہے اور آگے جو تصور و نظریہ جمہور کے عزائم و جذبات کی ترجمانی کرے وہ جمہوریت ہے۔ اسلام نے جہاں بنی نوع انسان کو ضلالت و گمراہی کے ماحول سے نکالا وہیں اخوت و مروت مساوات و برابری کادرس دیتے ہوئے جمہوری نظام پر زور دیا اور تمام شعبہاء جات کے احکامات صادر فرمائے اس سلسلے میں قرآن کریم اسی نظام کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے کہتا ہے وامر ھم شوری بینہم اور کہیں اسی مضمون سے دلچسپی لے کر توجہ دلاتے ہوئے کہتا ہے وشاور ھم فی الامریعنی جو بھی کام کرو مشورہ کے ساتھ اجتماعیت کے ساتھ کرو‘ تاکہ سماج و معاشرہ میں صحیح تربیت اور صالح جمہوریت پیدا ہوسکے اور ہر متنفس آزاد ہو کر اطمینان و سکون کی سانس لے سکے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کہیں شخصی حکومت کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ سرکا دوجہان نے فرمایا کہ اگر تم اپنی مملکت کے شیرازوں کو مضبوط بنانا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ وعلیکم الجماعۃتم اجتماعیت کو اپناؤ عوام کو نظر انداز مت کرو‘ بلکہ حکومت کی تمام قوت عوام کے ہاتھ میں دو‘ اور دوسری جگہ اسی دستور کو مستحکم بنانے کے لئے ارشاد فرمایا جو جماعت سے الگ ہوگیا اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔
اسلام نے قوانین جمہوری کا وہ نقشہ کھینچا اور حضرات خلفاء راشدین کے ہاتھ وہ شاندار نمونہ پیش کیا کہ ہوشیار مغرب نے اپنی کامیابی کی اساس اسی کو سمجھا اور اسی کو اپنا کر اس نے کامیابی بھی حاصل کی۔گاندھی کو جب حکومت حضرت عمرؓ پر نظر پڑی تو متحیر ہوگئے اور کہا کہ واقعتاً جمہوریت کی فلاح و بہبود ہے تو اسی میں ہے اس سے باہر نہیں۔ چنانچہ تمام سرکاری محکمات کے ذمے داران کو لکھا کہ اگر تم جمہوری ہندوستان کو کامیاب بناناچاہتے ہو تو خلیفہ ئ اسلام حضرت عمرؓ کے طریقے اور اس کے جیسے نظام کو عمل میں لاؤ۔ آج یورپین اور اہل مغرب خوش ہیں کہ جمہوری طرز حکومت اس کی طبع رساء کا نتیجہ ہے حالانکہ اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتاہے کہ کون اس کا موجد ہے کس کے سر اس کے تقدم کا سہرا بندھا ہوا ہے جب عرب حجاز میں اسلام کا پرچم لہرایا تھا تو اس وقت یورپ اور مغرب طفل مکتب تھے ان کے یہاں شخصی حکومتیں تھیں اور ان کے دستور میں عورتیں تمام حقوق سے محروم کردی گئی تھیں‘ مساوات نام کی کوئی چیز نہیں تھی اس وقت تک مسلمانوں کو آئین جمہوریت کی مکمل تعلیم دی جاچکی تھی‘ افسوس کہ بعد کے ملوک وسلاطین اسلام نے اپنی ذاتی منفعت کی بناء پر اس کی قدرنہ کی اور جمہوری حکومت کے بجائے شخصی حکومت کی نگہداشت کی۔
ہندوستان کی جمہوری طرز حکومت
یہ ہندوستانی جمہوریت ہی دین ہے کہ آج ایک دلت خاتون یہاں وزیر اعلی ہے. اور ایک سکھ وزیر اعظم کے عہدے کو وقار بخش رہا ہے اور کئی دلت صدر جمہوریہ، وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے عہدے پر فائز ہوئے اور آج حکومت کے ہر شعبے میں ان کا عمل دخل ہے اگر جمہوریت نہ ہوتی تو یہ ممکن نہ تھا خاص طور پر جہاں طبقاتی، سرمایہ دارانہ، ذات پات، مذہب. نسل اور چھواچھوت کا نظام قدیم زمانے سے رائج ہو۔
ہندوستان کی موجودہ طرز جمہوریت جو سب سے زیادہ مہلک اور نقصاندہ تصور کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی بنیادطبقاتی اور ذاتی احساسات پر ہے۔ملک میں ایک سے زئد یعنی سیکڑوں پارٹیاں ہیں اور ہر پارٹی ایک خاص طبقے کا ترجمان ہوتی ہے اور سبھوں کے مفادات نہ صرف جدا گانہ ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے متصادم بھی۔ ہر ایک پارٹی کا بنیادی اصول‘دوسری پارٹی کے بنیادی اصول سے ہٹ کر الگ الگ ہوتے ہیں۔ ایک پارٹی دوسری پارٹی کے مفاد کا کھلے عام مخالفت کرتی ہے چاہے وہ مفاد صحیح ہویا غلط۔ عوامی مفاد ذاتی مفاد کے محدود دائرے میں سمٹ کر رہ جاتاہے،آج ہر پارٹی دوسری پارٹی سے محاذ آرائی کرتی ہے اوراپنے مفاد کے لئے عوامی مفادکا قتل کرتی ہے۔
عالمی یوم جمہوریت (انگریزی: International Day of Democracy) بین الپارلیمانی یونین کے تحت ہر سال دنیا بھر میں 15 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کی ابتدا 2008ء میں ہوئی۔اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے 2007ء میں اپنے 62 ویں سیشن کے ایجنڈا آئٹم نمبر 12 کی قرارداد نمبر 62/7 کے ذریعے ہر سال یہ دن منانے کی قرارداد منظور کی تھی۔ اس دن کو منانے کا مقصد بین الاقوامی سطح پر نئی جمہوریتوں کی حمایت کرنا اور ملکوں میں حکومتی سطح پر جمہوریت کے فروغ کے اقدامات کرنا ہیں۔مشعر جمہوریت (Democracy Index) اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی طرف سے مرتب کیا گیا ایک مشعر ہے جو 167 ممالک میں جمہوریت کا معیار ہے۔ جن میں سے 166 خود مختار ممالک ہیں اور 165 اقوام متحدہ کے رکن ممالک ہیں۔
بہت عمدہ اور وقیع مضمون۔ اس میں جہاں عام قاری کے لیے جاننے اور سیکھنے کی بہت سی چیزیں ہیں۔ وہیں ایک سیاسی علوم کے طالب علم کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ مضمون حالات حاضرہ کا ایک خوبصورت جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ReplyDelete