بابری مسجد فیصلہ: ’آستھا‘کی دستاویزات اور فرامین پر فتح




   عابد انور

یہ مضمون 2019 میں لکھا گیا تھا

جس فیصلہ کا اندیشہ تھا وہی ہوا، بابری مسجد ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کے ہاتھ نکل گئی۔جہاں واحدانیت کا صدا بلند ہوتی تھی اب وہاں بت پرستی کا دور شروع ہوگا۔ مسلمانوں کو امید تھی کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت اور انصاف کا آخری سہارا سپریم کورٹ سے انصاف ضرور ملے گا۔ ہر انسان کی آخری امید اور امید کی آخری کرن سپریم کورٹ ہی ہوتا ہے لیکن وہیں پر انصاف کا خون ہوگیا اور قانون، دلائل، دستاویزات اور احکامات و فرامین کی جگہ عقیدت، آستھا اور جذبہ کے جیت ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے اس اعتراف کے باوجود کہ مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور 1992میں بابری مسجد کو غلط طریقے سے منہدم کی گئی، منہدم کرنے والوں کو ہی مسجد کی جگہ حوالے کردی۔ سپریم کورٹ 1949میں چوری چھپے مسجد میں مورتی رکھ دی گئی تھی سپریم کورٹ نے اس کو غلط مانا لیکن ساتھ میں کہا کہ رام میں لوگوں کی آستھا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دلیل کے طور پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اس لنگڑی لولی دلیل کو تسلیم کرلی جس کو مورخین نے یکسر مسترد کردیا تھا۔ سپریم کورٹ نے تمام دستاویزات، فرامین، قبضہ اور تمام دلائل کو نظر انداز کردیا جنہیں مسلم فریق نے پیش کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے جن نکات کو بیان کیا ہے اس میں تضاد ہے اور اس کے فیصلے تضادات سے بھرپور ہیں۔ فیصلے ہمیشہ آسٹھا اور عوامی جذبات پر نہیں ہوتے بلکہ دلائل اور حقاؒئق کی بنیاد پر ہوتے ہیں جسے سپریم کورٹ نے پوری طرح نظر انداز کردیا ہے۔ جس پر پورے ملک کے دانشور، صحافی، وکلاء، سابق جج اور سماجی کارکنوں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے اجودھیابابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ میں متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے مکمل  2.77 ایکڑ متنازعہ اراضی کو شری رام جنم بھومی ٹرسٹ کو سونپنے اور سنی وقف بورڈ کو مسجد کی تعمیر کے لئے  اجودھیا میں ہی پانچ ایکڑ اراضی دینے کا فیصلہ سنایا۔اس فیصلے کے ساتھ ہی، ملک میں کئی دہائیوں پرانے تنازعہ حل ہو گیا۔ اس فیصلے نے اجودھیا میں شری رام مندر کی تعمیر کی راہ بھی ہموار کردی۔ملک کے چیف جسٹس جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے 6 اگست سے مسلسل 40 دن تک اس معاملے کی سماعت کے بعد 16 اکتوبر کو اس معاملے میں فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔9 نومبر 2019کو  فیصلہ سنانے والی آئینی بینچ میں جسٹس گگوئی کے علاوہ جسٹس شرد اروند بوبڈے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس ایس عبدالنظیر شامل تھے۔ مسجد کے لئے اراضی کی تقسیم کا کام یا تو مرکزی حکومت نے اجودھیا ایکٹ 1993 کے تحت حاصل کردہ اراضی سے یا ریاستی حکومت اسے ایودھیا میں مناسب جگہ پر زمین دے گی۔الہ آباد ہائی کورٹ نے 30 ستمبر 2010 کو تینوں فریقوں - سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام  للا وراجان کے مابین متنازعہ اراضی کی برابر تقسیم کا حکم دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ میں اس کے خلاف 14 خصوصی اجازت درخواستیں دائر کی گئیں۔بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا کہ مرکزی حکومت تین سے چار ماہ کے اندر اندر مندر کی تعمیر کے لئے ٹرسٹ تشکیل دے اور اس کے انتظام اور انتظامات کے لئے ضروری تیاری کرے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مندر کی تعمیر کے لئے مرکزی حکومت کے ذریعہ تشکیل دی جانے والی ٹرسٹ میں نرموہی اکھاڑہ کو مناسب نمائندگی دی جانی چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ متنازعہ جگہ پر رام للا کی پیدائش کے وسیع ثبوت موجود ہیں اور ایودھیا میں رام کی پیدائش ہندوؤں کے لئے عقیدہ کی بات ہے اور اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے۔عدالت نے اپنے 1045 صفحات پر مشتمل حکم میں شیعہ وقف بورڈ کی ملکیت اور نرموہی اکھاڑے کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ مسجد خالی جگہ پر نہیں بنائی گئی تھی۔ بینچ نے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ مسجد مندر کو منہدم کرنے کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔ فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ اس معاملے میں ملکیت کا فیصلہ صرف عقیدے کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا لیکن تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ایودھیا ہے۔پچھلے پانچ سو سالوں سے جاری اس تنازع میں 206 سال کے بعد یہ فیصلہ آیا ہے۔ متنازعہ جگہ پر ہندو اور مسلم فریقوں  کے درمیان ملکیت کا تنازعہ 1813 میں شروع ہوا۔



نرموہی اکھاڑا (پٹیشن نمبر 3)، نے 17 دسمبر 1959 کو اپنے مہنت کے ذریعہ، فیض آباد سول جج کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی  تھی  جس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ انہیں رام جنم کی جگہ کا انتظام کرنے کا پورا پورا حق ہے اور اس نے اسے مندر  کے انتظام و دیکھ بھال کا پورا حق دیا جائے۔سنی وقف بورڈ (درخواست نمبر 4) نے 18 دسمبر 1961 کو فیض آباد کے سول جج کی عدالت میں دائر درخواست میں کہا تھا کہ متنازعہ جگہ عوامی مسجد ہے اور مجسموں کو ہٹا کر اس پر اسے قبضہ دلایا جانا چاہئے۔سری رام ویراجمان اور استھان رام جنم بھومی کی طرف سے یکم جولائی 1981 کو فیض آباد کے سول جج  کے سامنے ایک عرضی (درخواست نمبر 5) دائر کی گئی تھی۔ اس نے متنازعہ اراضی پر ملکیت کا مطالبہ کیا اور مدعا علیہ کو مندر کی تعمیر میں مداخلت سے روکا جائے۔ فیض آباد عدالت نے اس درخواست کو دیگر درخواستوں کے ساتھ جوڑ دیا۔ اس کے بعد، یہ تمام درخواستیں 10 جولائی 1989 کو الہ آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئیں اور 21 جولائی 1989 کو تین ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دی گئی۔ 30 ستمبر، 2010 کو، الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازعہ اراضی کو تین مساوی حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں 14 خصوصی اجازت کی درخواستیں دائر کی گئیں۔اسی کے ساتھ سپریم کورٹ نے کہا کہ  6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کا انہدام ’غیر قانونی‘ تھا اور اس طرح کا واقعہ سیکولر  ملک میں نہیں ہونا چاہئے تھا۔عدالت نے اسی بنیاد پر مسلم فریقوں کو  اجودھیا میں پانچ ایکڑ اراضی مسجد کی تعمیر کے لئے دینے کا حکم دیا ہے۔ یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کی شق  142 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئیماضی میں کی گئی غلطیوں کی اصلاح کرے۔ اگر عدالت مسلم کمیونٹی کی اہلیت کو نظرانداز کرے گی تو یہ انصاف نہیں ہوگا، جنھیں قانون کی پابند سیکولر ملک میں ناجائز طریقے سے ان کی مسجد کے ڈھانچے سے محروم کردیا گیا تھا۔آئینی بنچ نے مزید کہا کہ ……ان کی عبادت کے مقام کو غیر قانونی طریقے سے منہدم کرنے کے لئے مسلم فریق کی تلافی ضروری  جائے۔ مسلمانوں کو دی جانے والی راحت کی نوعیت کا جائزہ لینے کے بعد، ہم سنی سنٹرل وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ اراضی الاٹ کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ 

 اس وقت بحث چل رہی ہے کہ آستھا کی بنیاد پر کوئی عدالت کیسے فیصلہ کرسکتی ہے جب کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے خود کہا تھا کہ یہ زمین کے ایک ٹکڑے کا معاملہ ہے، فیصلہ آستھا کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے اجودھیا میں شری رام جنم بھومی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے عوامی جذبات، آستھا، عقیدت کو انصاف ملا ہے۔ ساتھ ہی مسٹر بھاگوت نے کہاکہ امید ہے کہ عدالت کے فیصلے کے مطابق حکومت کی جانب سے ماضی کے سبھی تنازعات کو ختم کرنے کی پہل جلد ہوگی۔آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (آئی ایم آئی ایم)کے رہنما اسدالدین اویسی نے کہاہے کہ اجودھیا معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ سے یہ واضح ہوگیاہے کہ اس میں حقائق پر آستھا کی جیت ہوئی ہے اور بابری مسجد کو گرانے والے کوہی ٹرسٹ بناکر مندر بنانے کے لیے دینا عدالت کا فیصلہ چونکانے والا ہے۔اگر بابری مسجد نہیں شہید کی جاتی تو اس معاملہ میں عدالت کیافیصلہ کرتی۔سپریم کورٹ کا فیصلہ بالاتر ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس پر تنقید نہیں کی جاسکتی۔انھوں نے کہاکہ انھیں آئین پر اعتماد ہے  اس لیے اس معاملہ میں قانونی لڑائی لڑرہے تھے۔مسلمانوں کی آنے والی نسل کویہ بتانا ضروری ہے کہ 6دسمبر 1992کو سنگھ پریوار اور کانگریس کی سازش میں بابری مسجد شہید کی گئی تھی۔ ملک نے ہندوراشٹر کی راہ پر چلنا شروع کردیاہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اجودھیا میں بابری مسجد۔رام جنم بھومی کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخ کا ایک زریں باب قرار دیا ہے۔ قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے بعد ملک کے شہریوں پر نئے ہندوستان کی تعمیر کے لیے سرگرم اور متحرک ہو جانے کی ذمہ داری بڑھ گئی۔سپریم کورٹ نے ایک ایسے اہم مسئلے پرفیصلہ سنایا ہے جس کے پیچھے صدیوں کی تاریخ ہے۔ پورے ملک کی یہ تمنا تھی کہ اس مقدمے میں سپریم کورٹ ہر دن کی شنوائی کرے اور آج فیصلہ آچکا ہے۔ جو بھی ہندوستان کی فطرت کو سمجھنا چاہے گا اسے آج کے دن اورآج کے واقعہ کا ذکر ضرورکرنا پڑے گا۔ سوا سو کروڑ ہندوستانی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی عدالت عظمیٰ میں بھی آج کا یہ دن ایک زریں باب کے مانند ہے۔



سپریم کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس اشوک کمار گنگولی نے کہا کہ ایودھیا پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے ان کے دماغ میں شک پیدا کیا ہے۔جسٹس گنگولی نے کہا، '' اقلیتوں نے نسلوں سے دیکھا کہ وہاں ایک مسجد تھی۔مسجد توڑی گئی۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وہاں ایک مندر بنے گا۔ اس فیصلے نے میرے ذہن میں ایک شبہ پیدا کیا ہے۔ آئین کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے اسے قبول کرنے میں تھوڑی دقت ہو رہی ہے۔'72سال کے جسٹس گنگولی وہی ہیں جنہوں نے 2012 میں ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ معاملے میں فیصلہ سنایا تھا۔جسٹس گنگولی نے کہا،”1856-57 میں بھلے نماز پڑھنے کا ثبوت نہ ملے ہوں لیکن 1949 سے یہاں نماز پڑھی گئی ہے۔ اس کا ثبوت ہے۔ہمارے آئین جب وجود میں آیا تو نماز یہاں پڑھی جا رہی تھی۔ ایک ویسی جگہ جہاں نماز پڑھی گئی اور اگر اس جگہ پر ایک مسجد تھی تو پھر اقلیتوں کو حق ہے کہ وہ اپنی مذہبی آزادی کا دفاع کریں۔ یہ آئین میں لوگوں کو بنیادی حق ملا ہوا ہے“۔”اس فیصلے کے بعد ایک مسلمان کیا سوچے گا؟ وہاں سالوں سے ایک مسجد تھی، جسے توڑدیا گیا۔ اب سپریم کورٹ نے وہاں مندر بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اجازت اس بنیاد پر دی گئی کہ زمین رام للا سے منسلک تھی۔ صدیوں پہلے زمین پر مالکان حق کس کا تھا اسے سپریم کورٹ فیصلہ کرے گا؟ سپریم کورٹ کیا اس بات کو بھول جائے گا کہ جب آئین آیا تو وہاں ایک مسجد تھی؟ آئین میں التزام ہے اور سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے“۔،”آئین کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا تھا اسے طے کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ تب ہندوستان کوئی جمہوری جمہوریہ نہیں تھا۔ تب وہاں ایک مسجد تھی، ایک مندر تھا، ایک بدھ مت ا ستوپ تھا، ایک چرچ تھا... اس پر فیصلہ کرنے بیٹھیں گے تو کئی مندر مسجد اور دیگر طرح کے ڈھانچے کو توڑنا ہوگا۔ ہم ماتھولجیکل 'حقائق' کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتے“۔

بابری مسجد پر فیصلہ آنے سے قبل جب تھوک سے حساب اپیل آنے لگی تھی تو یہ اندازہ ہوگیا ہے معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔ انسانیت کے دشمن، امن کے دشمن اور مسلمانوں کے دشمن جب امن کی اپیل کرنے لگیں تو معاملہ بہت سنگین ہوجاتا ہے اور ہوا بھی۔ اگر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آنے والا ہوتا تو وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کر رہے ہوتے، مسلمانوں، قتل کرنے، مسجدوں کوشہید کرنے اور مزارات اور درگاہوں کو منہدم کرنے کی بات کر رہے ہوتے۔ ان لوگوں نے اپیل کی تھی جو فیصلہ بھی ہوا خوشی نہ منائیں گے اور اگر منانا بھی ہو تو گھروں میں منائیں گے عوامی مقامات جلسے جلوس سے گریز کریں لیکن پہلا فتح کا جلوس سپریم کورٹ میں ہی نکلا۔ اجودھیا اراضی کے تنازع معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی عدالت کے احاطے میں موجود ’رام مندر‘ کے حامیوں میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی اور ’جئے شری رام‘ کا  نعرہ لگاتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔نرموہی اکھاڑا کے چیف مہنت سوامی دھرم داس اور ہندو مہاسبھا کے سوامی چکرپانی کے حامی، بہت سے وکلاء، معاملے سے منسلک فریقین اور وکلا ہی نہیں، بڑی تعداد میں اس معاملے سے غیر منسلک وکلا اور دیگر افراد کی ایک بڑی تعداد لوگ’ایک  ہی نعرہ، ایک نام، جئے شری رام، جئے شری رام‘کے نعرے لگاتے ہوئے جلوس میں شکل  چلتے ہوئے لان تک آئے۔ 40-45 منٹ تک بازی کرتے رہے۔ انہوں نے عدالت  کے لان میں ’شنکھناد‘ بھی کیا۔ 

مسلمانوں کی دریادلی کا یہ حشر ہوگا یہ کبھی سوچا نہیں گیا ہوگا۔مسلمانوں کو اتنے تنگ دل قوم سے پالا پڑے گا مسلمانوں نے کبھی یہ بھی نہیں تصور کیا ہوگا۔ 1857 کے بعد مسلمان زبردست محرومی کا شکار تھے، ان کی حکومت چھن گئی تھی، لاکھوں کی تعداد میں مسلمان قتل کئے گئے تھے، پچاس ہزار سے زائد تو علماء ہی قتل کئے گئے تھے۔ اس وقت مسلمان نہایت ہی محرومی کی حالت میں تھے اور اور تنازع سے بچنے کے لئے مسلمانوں نے مسجد کے پیچھے کے چبوترے پر اپنا دل بڑا کرتے ہوئے ہندوؤں کو پوجا کی اجازت دے دی تھی۔ سپریم کورٹ کا یہ ثبوت مانگنا کہ 1857سے مسلمان پہلے نماز پڑھتے تھے کہ نہیں اپنے آپ میں مضحکہ خیز ہے۔ مسجد کی تعمیر نماز پڑھنے کی جاتی ہے۔ نمائش کے لئے نہیں۔ اس کے برعکس ہندو فریق سے کوئی ثبوت طلب نہ کرنا اور غیر معتبر آرکیالوجیکل سروے کی رپورٹ کو تسلیم کرلینا، یہ دکھاتا ہے کہ سپریم کورٹ نے صرف آستھا کی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے۔آستھان کے سامنے تمام دلائل بونے پڑگئے۔جب کہ مورخین آرکیالوجیکل سروے کی رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا تھا۔

بابری مسجد کے تعلق جو لوگ کہہ رہے ہیں یہ معاملہ اب ختم ہوگیا ہے، کیا لگتا ہے کہ سارے معاملے ختم ہوجائیں گے، ان کی لسٹ میں متھرا کاشی سمیت کبھی تین ہزار، تو کبھی پانچ ہزار مساجد کا دعوی کرتے ہیں اس سے دستبردار ہوجائیں گے۔ موہن بھاگوت کے اس جملے پر غور کریں گے”امید ہے کہ عدالت کے فیصلے کے مطابق حکومت کی جانب سے ماضی کے سبھی تنازعات کو ختم کرنے کی پہل جلد ہوگی“۔ سپریم کورٹ نے فرقہ پرستوں کے ہاتھ میں ایسی دلیل دے دی ہے کہ جہاں چاہیں گے قبضہ کریں گے اور آستھا کا دعوی کریں گے۔مسلمانوں کے صبر و تحمل کی تعریف کرنی ہوگی کہ انہوں نے امن و امان قائم اپنی پوری ذمہ داری نبھائی۔ یہ فیصلہ ہندوستان کے ماتھے پر ہمیشہ کلنک کی مانند رہے گا۔ 


Comments