پوری دنیا میں جدید غلامی کے شکار لوگ



عابد انور 

دنیا نے چاند کو مسخر کرلیا ہے، سیاروں پر کمنڈ ڈال دیاہے، ایک سے ایک تکنالوجی کے سہارے حیرت انگیز کارنامے انجام دے رہی ہے، سال، چھ،ماہ کا سفر کچھ گھنٹوں میں لوگ طے کر رہے ہیں۔جو چیزیں پہلے ناقابل یقین تھیں ان سے لوگ روز مرہ کی زندگی میں دوچار ہورہے ہیں۔ دماغ کے دروازے اور کھڑکیاں بھی کھل رہی ہیں، انسانوں کی پوری دنیا پر نظر بھی ہے لیکن حرص، طمع، لالچ اور خودغرضی ان کی گھٹی سے نہیں گئی ہے۔ غلامی کا دور ختم ہوگیا ہے لیکن ذہنی غلامی نہیں گئی۔ ہندوستان کے عوام تو کئی طرح کی غلامیوں میں رچ بس گئے ہیں اوراسی کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں۔ دنیا کے سرمایہ داروں نے طرح طرح کی غلامی کے طریقے وضع کرلئے ہیں۔ معاشی غلامی، نظریاتی غلامی، مذہبی غلامی، سیاسی غلامی،ذات پات کی غلامی اور ذہنی غلامی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ یہ ان غلامی سے بھی بدتر غلامی ہے جو دور جہالت میں رائج تھی۔ اس سے صرف مخصوص طبقہ یا کچھ لوگوں کو نقصان ہوتا ہے لیکن اس طرح کی غلامی سے گلوبل ورلڈ میں پورا ملک اور پوری دنیا میں متاثر ہورہی ہے۔اس کا سب سے تکلیف دہ، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اور سنگین پہلو یہ ہے کہ اس غلامی کا احساس بھی نہیں ہورہاہے۔ لوگ اس بات کو محسوس تک نہیں کرپارہے ہیں کہ وہ کس طرح کی غلامی کے شکار ہیں۔ ذہن، دل اوردماغ میں اس طرح سے نفرت بھری جارہی ہے لوگوں نے اسے تریاق سمجھ لیا ہے اور اس طرح نفرت کے اسیر اور غلام بنتے جارہے ہیں۔ ملک میں آج معاشی غلامی، نظریاتی غلامی، مذہبی غلامی، سیاسی غلامی،ذات پات کی غلامی اور ذہنی غلامی کے دور گزر رہا ہے جس میں اس سے نجات کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے۔ کیوں کہ قیدی کو جب تک یہ احساس نہ ہو کہ وہ قید میں ہے یا آزاد اور آزاد ی کا ذائقہ کیا ہوتا ہے وہ قیدی اور غلامی کو ہی آزادی تصور کرے گا۔ ہندوستان اس وقت اسی کیفیت سے دوچار ہے۔زندہ رہنے اور سانس لینے کو ہی زندگی سمجھ لیا گیا ہے،دن بہ دن عام لوگوں کی حالت بدسے بدترین ہوتی جارہی ہے لیکن انہیں اس کا کوئی ادراک اور احساس تک نہیں ہے اس لئے وہ اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکتے اور جب اپنے لئے آواز نہیں اٹھاسکتے تو دوسروں پر ہونے والے ظلم اور غلامی کے خلاف آواز کیسے اٹھاسکتے ہیں۔ اس وقت ملک میں جس طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں، پاپولر فرنٹ پر چھاپے، مدارس کے سروے، وقف جائداد پر ڈاکہ،مسلم نوجوانوں کی بے جا گرفتاری جدید غلام بنانے کے حربے ہیں جس پر موجودہ حکومت شدت سے عمل پیرا ہے۔ اس کا مقابلہ شدت سے کرنے کے ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلوں کو جدید غلامی سے بچایا جاسکے۔ اس وقت میں دنیا میں پانچ کروڑ افراد جدید غلامی کے شکنجے میں ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم محنت نے یہ اعداد و شمار جاری کرکے مہذب دنیا کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا ہے۔ 



انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور متعلقہ اداروں کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں جدید افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ، تقریباً 50 ملین افراد جدید غلامی کے شکار ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ عالمی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ گھریلو ملازمین پر مشتمل ہے جو غیر رسمی ملازمت پر انحصار کرتے ہیں۔ سال 2021 میں 50 ملین افراد جدید طرز کی غلامی میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے اور گزشتہ پانچ برسوں میں اس تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے دو کروڑ 80 لاکھ افراد جبری مشقت اور دو کروڑ 20 لاکھ جبری شادیوں کا شکار ہیں۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں جدید غلامی کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2016 کے مقابلے 2021 میں مزید 10 ملین افراد جدید غلامی کا شکار ہوئے ہیں۔ خواتین اور بچے اس مسئلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔اقوام متحدہ کے لیبر انسٹی ٹیوٹ، انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن اور 'واک فری' نامی انسانی حقوق کی تنظیم نے مشترکہ طور پر 'عالمی جدید غلامی' کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ جدید غلامی سے مراد استحصال کے حالات ہیں جہاں کوئی شخص دھمکیوں، تشدد، جبر، دھوکہ دہی یا طاقت کے غلط استعمال کی وجہ سے کام سے انکار یا چھوڑ نہیں سکتا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جدید غلامی کے واقعات دنیا کے تقریباً ہر ملک میں پائے جاتے ہیں اور نسلی، ثقافتی اور مذہبی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ جبری مشقت کے کل معاملے میں سے 52 فیصد اور جبری شادیوں کا تقریباً 25 فیصد بالائی متوسط آمدنی یا زیادہ آمدنی والے ممالک میں رپورٹ کیا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل گائے رائڈر نے رپورٹ کے نتائج پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ جدید غلامی کے حالات بہتر نہیں ہو رہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی اس زیادتی کو کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جبری مشقت جبری مشقت کے زیادہ تر واقعات 86 فیصد نجی شعبے میں ہوتے ہیں۔ جنسی استحصال کے علاوہ دیگر شعبوں میں جبری مشقت جس میں رقم کا لین دین شامل ہے کل کیسز کا 63 فیصد ہے۔ جبرا جنسی استحصال، جس میں رقم کا لین دین شامل ہے، جبری مشقت کے تمام کیسز کا 23 فیصد ہے، اور ہر پانچ میں سے چار شکار خواتین یا لڑکیاں ہیں۔ جبری مشقت کا شکار ہونے والوں کی کل تعداد میں سے تقریباً 14 فیصد حکومتوں کی طرف سے مسلط کی گئی جبری مشقت کا شکار ہیں۔ جبری مشقت کے ہر آٹھ واقعات میں سے ایک بچہ شکار ہوتا ہے، جن میں سے نصف سے زیادہ رقم کے لین دین کے جنسی استحصال سے متعلق ہیں۔ جبری شادی کی رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں تقریباً 202 ملین افراد جبری شادیوں کی زندگی گزار رہے تھے جو کہ سال 2016 کے مقابلے میں 66 لاکھ کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ ماہرین کو اندازہ  ہے کہ جبری شادیوں کی اصل تعداد موجودہ اندازے سے کہیں زیادہ ہوگی۔ یہ خاص طور پر 16 سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کے لیے زیادہ ہے۔ بچوں کی شادی کو جبری شادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کیونکہ کوئی بھی بچہ قانونی طور پر اپنی شادی کے لیے رضامندی نہیں دے سکتا۔ دیرینہ پدرانہ رویوں اور طریقوں کو جبری شادیوں کی وجہ قرار دیا گیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر واقعات خاندانی دباؤ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ علاقائی آبادی کی بنیاد پر جبری شادیوں کا دو تہائی (65 فیصد) ایشیا پیسیفک خطے میں ہوتا ہے، لیکن عرب ممالک سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ اس خطے میں ہر ہزار پر 4.8 افراد کی زبردستی شادی کی جاتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے گھریلو ملازمین کے لیے صورتحال مزید مشکل ہو گئی ہے۔ تارکین وطن کے لیے خطرات  کے مطالعہ کے مطابق، تارکین وطن مزدوروں کے جبری مشقت کا شکار ہونے کے امکانات دوسرے بالغ کارکنوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ کارکنوں کی نقل مکانی سے افراد، گھرانوں، برادریوں اور معاشروں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن تارکین وطن کو جبری مشقت اور اسمگلنگ کا نشانہ بننے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ رپورٹ میں متعدد سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں جن کے ذریعے جدید غلامی کے خاتمے کی جانب ٹھوس پیش رفت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ان میں اصلاحات اور مزدوروں کی نگرانی اور قوانین کا بہتر نفاذ، حکومت کی طرف سے مسلط کی گئی جبری مشقت کا خاتمہ، کاروبار اور سپلائی چین میں جبری مشقت اور اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے مضبوط اقدامات اختیار کرنا، سماجی تحفظ کے دائرہ کار کو بڑھانا اور قانونی تحفظ کو   بغیر کسی استثناء کے 18 سال تک شادی کی عمر بڑھانا  شامل ہیں۔دیگر اقدامات کے علاوہ، مہاجر کارکنوں کے لیے جبری مشقت اور اسمگلنگ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس کے تحت منصفانہ اور منصفانہ بھرتی کے عمل اور خواتین، لڑکیوں اور کمزور افراد کی مدد میں اضافہ کرنا ہو گا۔

غربت اور سہولت کا فقدان جدید غلامی کی پہلی سیڑھی ہے۔جس کے سبب لوگ خود بخود غلامی کی زنجیروں میں جکڑ جاتے ہیں۔ وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل نے آمدنی کے حوالے سے افسوسناک انکشافات کیے ہیں۔ کونسل کے مطابق چوٹی کے ایک فیصد آبادی کی آمدنی مسلسل بڑھ رہی ہے جبکہ سب سے کم ترین آمدنی والی 10فیصد آبادی کی آمدنی مسلسل گھٹ رہی ہے۔ہندوستانی وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی) نیہندوستان میں عدم مساوات کی تازہ ترین صورت حال کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ رپورٹ ایک بھیانک تصویر پیش کرتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر آمدنی میں عدم مساوات کی خلیج کو دور نہ کیا گیا تو سماجی ترقی اور مشترکہ خوشحالی کے اہداف کا حصول مشکل تر ہوجائے گا۔یوں تو ہندوستان میں لوگوں کی گھریلو حالت، ضروریات تک ان کی رسائی، خاطر خواہ پانی کی سپلائی اور صفائی ستھرائی میں بہتری آئی ہے تاہم رپورٹ کے مطابق آمدنی میں پائی جانے والی خلیج نیز غربت او رروزگار کی صورت حال میں خاطر خواہ بہتری کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دس فیصد افراد کی ماہانہ آمدنی25 ہزار روپے ہے۔ ایک ارب 30 کروڑ سے زیادہ آبادی والے ہندوستان میں 15 فیصد آبادی کی ماہانہ آمدنی پانچ ہزار روپے یا 64 ڈالر سے بھی کم ہے۔ چوٹی کے ایک فیصد افراد ملک کی قومی آمدنی کا 5 سے 7 فیصد کماتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پریشان کن بات یہ ہے کہ ان ایک فیصد افراد کی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ سب سے کم ترین سطح کے 10 فیصد افراد کی آمدنی مسلسل گھٹتی جارہی ہے۔ہندوستان کے 'نیشنل فیملی اینڈ ہیلتھ سروے‘ کے مطابق دیہی اور شہری علاقوں میں لوگوں کی آمدنی میں کافی فرق ہے۔ یہ اس لحاظ سے باعث تشویش ہے کیونکہ ملک کی بڑی آبادی شہروں کے مقابلے دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ عدم مساوات اور غربت ایسے عناصر ہیں جو سماجی اور اقتصادی عدم مساوات کی مختلف صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ حالانکہ ہندوستان نے پانچ کھرب ڈالر کی معیشت کا ہدف مقرر کیا ہے ایسے میں غریبی اس بات کی علامت ہے کہ ملک سماجی ترقی اور ترقیاتی اہداف کے حصول سے کتنا دور ہے۔

یہ دونوں رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کس طرح برق رفتار انداز میں جدید غلامی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس کے لئے کوئی تدارکی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں بلکہ ایسے طریقے وضع کئے جارہے ہیں اور لوگوں کو غلط فہمی میں گرفتار کرنے اور گمراہی میں مبتلا رکھنے کے لئے جہالت، فریب، نفرت، عداوت اور تعصب کے بیج بوئے جارہے ہیں تاکہ یہاں کے عوام اس میں الجھے رہیں ان کی نظر غلامی کی طرف بڑھتے قدم کی طرف نہ جائے۔ یہاں کے عوام کو کس طرح اس طرح کے حالات سے مقابلہ کرنے کے لئے بیدار کیا جائے یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ اندھ بھکتی، گمراہ، حقائق کی عدم تلاش،جھوٹ پر آسانی سے یقین کرلینے کی صلاحیت جہاں کے عوام میں بدرجہ اتم موجود ہو، وہاں کے عوام کو سمجھانا بہت مشکل ہے اور راہل گاندھی کی ناکامی کی وجہ بھی یہی ہے۔ 


Comments

  1. یہ مضمون حقیقت پر مبنی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں حالت کچھ زیادہ ہی بری ہے۔

    ReplyDelete

Post a Comment