عابد انور
ہندوستان غالباً دنیا پہلا ملک ہوگا جہاں توہم پرستی، گمراہی، کذب و فریب اورعوام کو بے وقوف بنانے کاکاروبار بہت تیزی سے فروغ پاتا ہے۔ یہاں آسانی سے ایک اندھے کو آئینہ فروخت کیا جاسکتا ہے اور گنجے کو کنگھی، اندھوں اور گنجوں کے شہر میں آئینہ اور کنگھی کا کاروبار زور شور چلتا ہے۔ یہاں کے عوام کو حقائق کے ادراک میں سب سے زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے جب کہ سچ بولنے والوں کو پاس پھٹکنے تک نہیں دیتے۔ اس لئے یہا ں کے عوام ہزاروں برس سے ظلم و جبر اور استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں، مسلمانوں کی آمد سے ان کو کچھ حد تک نجات ملی تھی لیکن یہاں کے عوام اپنی فطرتک کے مطابق مسلمانوں کی قدر نہیں کی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہ جھوٹ، فریب، استحصال، جور و جفااور ذلت کی دلدل میں غوطہ لگانے کو ہی اپنی زندگی سمجھتے ہیں۔ زندہ بچ جانے کو حکومت کا احسان مانتے ہیں۔ حکومت ان کی کھال کھینچ لے لیکن وہ اف تک نہیں کہیں گے بلکہ وہ اسے ملک کے لئے قربانی تصور کرتے ہیں۔ وہ حکومت کا شکریہ بجا لاتے ہیں اس نے انہیں زندہ چھوڑ دیا ہے قتل نہیں کیا۔ وہ ظلم و جبر کے عادی ہوچکے ہیں اور انصاف کے وعدے سے ہی خوش ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ آٹھ برسوں سے یہی ہورہا ہے۔ نوٹ بندی کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں نے جان دے دی لیکن اف تک نہیں کی۔ جی ایس ٹی سے کاروبار تباہ ہوگئے لیکن زبان پر حرف شکوہ تک نہیں آیا۔ کورونا کے دوران لاکھوں لوگ طبی سہولت کی عدم دستیابی کی وجہ سے فوت ہوگئے لیکن کوئی آواز بلند نہیں کی۔ اس سے زیادہ وفاداراورسجدہ ریز قوم کہاں ملے گی۔ حکمراں کے کہنے پر تھالی اور تالی تک بجائی، ٹارچ جلائے، ہر وقت حاضر خدمت کا نعرہ بلند کیا اور اس کا بھرپور خیال رکھا کہ ان کے کسی رویے سے حکومت کی دل شکنی نہ ہو۔ ملک پوری طرح برباد ہوجائے، ملک کے سارے اثاثے فروخت ہوجائیں، بھکمری عوام کے سرپر لاد دی جاے لیکن عوام حکومت کو کوئی تکلیف پہنچانا نہیں چاہتے۔ یہ یہاں کے عوام کی اکثریت کا حال ہے۔ ایسی حالت میں کوئی منطقی بات کیسے کرسکتا ہے اور عوام اسے کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ منطقی اور عقل کی بات کرنے والا پپو کہلاتا ہے اور دھوکہ دینے والا، ظلم کرنے والا، جھوٹ بولنے والا، سارے سسٹم کو تباہ اور جمہوریت کے چاروں ستون کو روند کر منمانی کرنے والے کو یہاں کے عوام ’چانکیہ‘ کہتے ہیں۔سارا سسٹم اور جمہوریت کے چاروں ستون جب کسی کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے تو وہ خود بخود چانکیہ بن جائے گا۔ اسے کسی صلاحیت اور محنت کی ضرورت نہیں۔ اس طرح کے حالات میں کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے سامنے کیا متبادل رہ جاتا ہے اور وہ کیسے اس ناگفتہ بہ حالات سے لوہا لیں۔ کیسے غلامی، بھکمری، جہالت، ناخواندگی، طبی سہولت کے فقدان اور غربت کے زنجیروں کو توڑے جب تک کہ زنجیرمیں جکڑے شخص کو زنجیر کاٹنے کی چاہت نہ ہو۔ اس کے باوجود کانگریس پارٹی اور اس کے سابق صدر راہل عوام کو اس دلدل سے نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کنیا کماری سے کشمیر تک جاری ’یاترا‘ اسی جہد کی کڑی میں سے ایک کڑی ہے۔ سات ستمبر 2022 سے شروع ہونے والی یہ یاترا تقریباً چار ماہ پر مشتمل ہے اور جو 12 ریاستوں سے گزرے گی۔
اس سے قبل راہل گاندھی نے 7فروری 2008کو اڑیسہ کے پسماندہ ضلع نواپاڑا سے اپنی' بھارت کی کھوج ' یاترا شروع کی تھی۔ راہل گاندھی نے خود یاترا شروع کرنے کے لیے نواپا ڑاکے سیناپلی کا انتخاب کیا تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک بار سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے غربت اور بھوک کا جائزہ لیا تھا اور کوراپٹ-بولنگیر-کالاہانڈی اضلاع کے لیے ایک امدادی اسکیم شروع کی جسے کے بی کے اسکیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سے قبل 1966 میں اندرا گاندھی نے کالاہندی میں شدید قحط کے دوران سوناپلی کا دورہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں راہل گاندھی کا پروگرام ”بھارت کی کھوج“ یقینا قابل تحسین تھی۔ اس سے ملک کے خواندہ نوجوان سیاست سے وابستہ ہوئے تھے اور ہندوستانی سیاست میں بوڑھوں کا دبدبہ کم ہوا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم اور راہل گاندھی کے پرنانا جواہر لال نہرو نے ڈسکوری آف انڈیا لکھی تھی اور ان کے پڑنواسہ راہل گاندھی اپنے پرنانا کی اس کتاب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے سیکورٹی کی پرواہ کئے بغیر نکلے تھے اور اس کابھارت کی کھوج یقینا قابل تعریف قدم تھا اس سے نہ صرف انہیں ہندوستان کو سمجھنے کا موقع ملا تھابلکہ ہندوستان کی غریبی بھی دیکھنے کوملی تھی۔ ہندوستان کی تلاش انہیں ایک نئے ہندوستان سے متعارف کرایا تھا جہاں شہروں میں خوش حالی، رنگینیاں، شاپنگ مال اور سیرو تفریح اور تعیش کے بے شمار اسباب دستیاب ہیں وہیں دیہات کے لوگوں کو پیٹ بھر نے کے لئے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ راہل گاندھی نے بھارت یاترا شروع کرتے ہوئے خود کہا ہے کہ ہم وطنوں کے ساتھ بات چیت کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے اور اسے دوبارہ جوڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس پد یاترا کا مقصد معاشرے میں مکالمے کو دوبارہ شروع کرنا ہے۔بھارت جوڑو یاترا کو اپنی شخصیت کا سفر بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک طرح سے میری شخصیت کا سفر بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس دورے کے ذریعے میں اپنے ملک اور اپنے ہم وطنوں کو قریب سے اور بہتر طریقے سے سمجھ سکوں گا۔ بھارت جوڑو یاترا عوام سے جڑنے کا سفر ہے اور اس کی وجہ سے بی جے پی اور آر ایس ایس کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جس طرح ان کے نظریے نے اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے، جس طرح سے انہوں نے ملک کو تقسیم کیا ہے، نفرت پھیلائی ہے، ہم نے بی جے پی۔آر ایس ایس کے اس خیال کے خلاف یہ یاترا نکالی ہے۔وہ کسی سیاسی پارٹی کے خلاف نہیں ہیں لیکن ان کی توہین، آواز کو دبانے، اداروں کو روندنے اور اپوزیشن پر حملہ کرنے کے نظریے کے خلاف ان کی لڑائی کبھی ختم نہیں ہوگی بلکہ برسوں تک جاری رہے گی۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو سب کو کچل کر سب کو قابو میں رکھنا چاہتی ہے اور دوسری طرف یہ سوچ ہے جو بلا تفریق، بغیر دباؤ اور آزادی کے ساتھ سب کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ بی جے پی نے تمام اداروں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سی بی آئی، ای ڈی، محکمہ انکم ٹیکس جیسے اداروں کے ذریعے اپوزیشن اور دیگر نظریات کے لوگوں اور تنظیموں کو دبایا اور کچلا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے خیالات دوسروں کو دبا رہے ہیں اور بہت سی سیاسی جماعتیں اس سوچ کے سامنے سر جھکا کر سکون سے رہنا چاہتی ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں ایسی تربیت نہیں ملی اور وہ نہیں جانتے کہ اس طرح دبا کر کام کیسے کیا جائے اور نہ ہی یہ اس کے کردار میں ہے۔ اس وقت بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایسا نظریہ اقتدار میں ہے جس کی وجہ سے ملک میں اتھل پتھل ہے اور ہر کوئی اسے دیکھ اور سمجھ رہا ہے۔ پارٹی 'بھارت جوڑو یاترا' میں شامل ہو کر جبر کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔بھارت جوڑو یاترا کا مقصد بتاتے ہوئے مسٹرگاندھی نے کہا کہ اس کے ذریعے کانگریس عوام سے جڑنا اور لوگوں کے مسائل سننا اور ان کو حل کرنا چاہتی ہے۔آج ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا ہے، لوگوں کے پاس روزگار نہیں، کوئی کام نہیں ہے اور اس حکومت میں صرف دو تین تاجر آگے بڑھ رہے ہیں، ہر کام پر ان کا قبضہ ہے اور وہ امیر ہو جاتے ہیں۔ ملک میں زبردست مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، عوام بے بس ہیں اور حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے عوام کی توجہ ان سے ہٹانے میں مصروف ہے۔بی جے پی کا نظریہ صرف حملہ کرنا جانتا ہے اور اسے ترقی کے لیے اپنا کوئی خیال اور عوامی مفاد کے لیے کوئی ٹھوس نظریہ نہیں ہے۔
'بھارت جوڑو یاترا'جہاں سے گزر رہی ہے وہاں کے مقامی لوگوں میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے اور بڑی تعداد میں خواتین، بچے، بزرگ اور نوجوان اس میں شامل ہو رہے ہیں۔اس یاترا کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف کانگریس لیڈر ہی نہیں بلکہ سیول سوسائٹی سے وابستہ افراد بھی شرکت کر رہے ہیں۔ یوگیندر یادو کے علاوہ پنکج پشکر، سچن راؤ، جیسے سیول سوسائٹی سے وابستہ افراد اس یاترا میں شامل ہیں۔لوگ بھارت جوڑو یاتریوں کی حوصلہ افزائی کیلئے اپنے گھروں کی چھتوں پر، دکانوں کے باہر اور چوک میں جمع ہو رہے ہیں۔ اس دوران تمل ناڈو کے کنیا کماری کی سڑکیں کانگریس زندہ باد، راہل گاندھی زندہ باد کے نعروں سے گونج رہی ہیں۔ بھارت جوڑو یاترا کے دوران راہل گاندھی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ترنگا ہاتھ میں لے کر چل رہے ہیں۔بھارت جوڑو یاترا کے دوران راستے میں بچوں نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے ساتھ سیلفیاں لیں اور ان سے ملاقات کر کے بہت خوش نظر آئے۔ نوجوان بھی راہل گاندھی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ اس دوران کچھ نوجوان ایسی ٹی شرٹ پہنے نظر آئے جن پر بے روزگاری کے حوالہ سے عبارت چھاپی گئی ہے۔اس کے علاوہ پہلے دن سے اس یاترا میں ایک الگ تصویر بھی نظر آرہی ہے اور یاتریوں کے جوش و جذبے کو بلند رکھنے کیلئے رضاکارانہ طور پر طرح طرح کے فنون اور کرتب دکھائے جا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ بھارت جوڑو یاترا ایک دن میں اوسطاً 22 سے 23 کلومیٹر چل رہی ہے اور پانچ ماہ کے دوران یہ یاترا 12 ریاستوں سے گزرتے ہوئے 3570 کلومیٹر کا فیصلہ طے کرے گی۔
بھارت جوڑو یاترا کے شروعات سے بی جے پی بے چینی محسوس کر رہی ہے۔ کانگریس کے کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ اور قومی ترجمان پون کھیڑا نے یواین آئی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بی جے پی پد یاترا میں بھیڑ جمع ہوتے دیکھ کر پریشان ہے اور اس کے لیڈر گھبراہٹ میں ایسا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔انہوں نے مسافروں کے آرام کے لیے کیمپ سائٹ پر کئے گئے کنٹینر کے انتظامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی لگژری سہولت نہیں ہے لیکن جو لوگ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں وہ ان کنٹینرز میں فائیوا سٹار ہوٹلوں کی لگژری دیکھ رہے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی پد یاترا کے بارے میں اس طرح کا تبصرہ کر رہی ہے۔اس یاترا میں 60 کنٹینر ہیں، جن میں ہر کنٹینر میں دو افراد، چار افراد، چھ افراد اور یہاں تک کہ 12-12 مسافروں کے بیٹھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ان کنٹینرز کو کیمپ میں جمع کرنے میں تقریباً دو گھنٹے اور اگلے اسٹاپ پر ان کو ٹھکانے لگانے میں تقریباً پانچ گھنٹے لگتے ہیں، اس طرح روزانہ مسافروں کے رات کے قیام کے انتظامات کرنے میں سات سے آٹھ گھنٹے لگتے ہیں۔
بھارت جوڑو یاترا سے بی جے پی، سنگھ پریوار اور اس سے تمام ذیلی اور معاون تنظیموں میں بے چینی فطری ہے۔ جس کی سیاست، نفرت، عداوت، پھوٹ ڈالو حکومت کرو، ہندو مسلم کے درمیان انتشار اورکمزور طبقوں کا استحصال ہو، اسے جوڑو لفظ سے پریشان ہونا فطری ہے۔ بی جے پی اور اس کی آبائی تنظیم آر ایس ایس اورجن سنگھ جن کا ملک کی آزادی سے کوئی ناطہ نہیں رہا اور نہ ہی وہ لوگ ہندوستان چھوڑ تحریک سے وابستہ تھے انہیں بھارت جوڑو کیسے برداشت ہوسکتا ہے۔ اس لئے جہاں بھی جوڑنے یا ملک کو آزاد کرانے کی بات آتی ہے ان کو گراں گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے شاہین باغ تحریک کے دوران آزادی کے حق میں لگائے جانے والے نعرے سے ان کو سخت چڑھ تھی۔ لفظ آزادی ان کے لئے کسی گالی سے کم نہیں ہے۔ جن کے آباو اجداد کا جنگ آزادی میں کوئی کردار نہ رہا ہو، انگریزوں کے مخبر، ممدد اور معاون رہے ہوں ان کو لفظ آزادی، محبت، جوڑو وغیرہ جیسے لفظ کیوں کر برداشت ہوسکتا ہے۔اسی لئے انہوں نے اپنے دلال اور زر خرید میڈیاکو بھارت جوڑو یاترا کے خلاف مہم چلانے کی ذمہ داری دے دی ہے۔ جب کہ میڈیا کا کام صرف یاترا کے حالات اور مقاصد کی رپورٹنگ کرنا ہے لیکن میڈیا کنٹینر، ٹی شرٹ کی قیمت، جوتے چپل کی بات کررہی ہے۔ اگر یہی رویہ میڈیا کا جاری رہا تو میڈیا کا استقبال چپل اور جوتوں سے کیا جائے گا۔
عمدہ مضمون ہے۔
ReplyDeletebahut bahut shukriya
Delete