ہندوستانی صحافت کے پہلے شہید صحافی مولوی محمد باقر


یوم شہادت پر خاص

عابد انور 

ہندوستان میں جب سے مسلمانوں نے قدم رکھا انہوں نے ہر شعبہ حیات کو رونق بخشا اور سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی، اخلاقی اور دیگر میدان میں انمٹ نقوش چھوڑے۔ جہاں تعلیم کے لئے انہوں نے بے شمار مدارس قائم کئے وہیں صنعت و حرفت کے لئے متعد کارخانے کے لئے راستہ ہموار کیا، کاشتکاری کو نئے طریقے اور حد بندی سے زمین و جائداد کا نیاطریقہ وضع کیا۔ اسی طرح صحافت کے میدان میں بھی مسلمانوں نے ہندوستان میں نئے باب قائم کئے اور جب ملک عزیز کو خون کی ضرورت پڑی تو خون دیا، آواز کی ضرورت پڑی تو آوازدی اور صحافت کے ذریعہ انگریزی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے اخبارات کے نکالے۔ ان ہی اخبارنویسوں میں صحافی اور صحافت کی دنیا کے پہلے شہید مولوی باقر شہید تھے۔جنہوں نے اپنے اخبارکے ذریعہ نہ صرف ملک کے عوام کو بیدار کیا بلکہ جنگ آزادی کا ’الکھ‘ جگانے کے لئے مولوی باقر نے اپنے اخبار کو وقف کردیا تھا۔ 

مجاہد آزادی مولانا محمد باقر1780میں پیدا ہوئے تھے۔وہ نابغہ عصر علماء  میں سے ایک تھے جن کا شمار اعلیٰ ترین افراد میں ہوتا تھا۔ن کے مورث اعلیٰ مولانا محمد شکوہ ایران کے مشہور شہر ہمدان (ایران)سے شاہ عالم کے دور میں ہندوستان آئے تھے۔ان کا احترام شاہ عالم کے دربار میں تھا اور بادشاہ نے انہیں وظیفہ سے بھی سرفراز کیا تھا۔انھیں کے فرزند محمد اکبر کے اکلوتے جانشین مولوی محمد باقرتھے۔وہ نہ صرف نجیب الطرفین اور علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے بلکہ انہوں نے ایک باوقار خانوادے میں آنکھ کھولی تھی اور ان کے والد مولوی محمد اکبر نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی تھی۔مولوی باقرنے ابتداء میں اپنے والد ماجد کے سامنے ہی زانوئے تلمذ تہہ کیا بعد میں میاں عبدالرزاق صاحب کے شاگرد ہوئے جو دہلی کے ایک نامور عالم تھے۔ مولوی باقر 1825 میں دہلی کالج میں داخل کرادیے گئے۔ان کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر لارڈ ولیم بینٹنگ نے انھیں اعزاز سے بھی نوازاتھا۔یہ ان کی قابلیت کا ثمرہ ہی تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اسی کالج میں مدرس مقرر ہوئے اور کافی شہرت حاصل کی غالباً 1834تک تدریسی خدمات انجام دی۔ یہیں انہوں نے کالج کے پرنسپل ٹیلر کو فارسی پڑھائی اور اس دوران ان سے ان کی دوستی پروان چڑھی۔ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے بھی آراستہ تھے جس کے صلے میں انہیں تحصیلداری اور کلکٹری بھی عطا ہوئی تھی جہاں انہوں نے سولہ برس تک اپنے فرائض منصبی ادا کیے۔یہ وہی زمانہ ہے جب انہوں نے دہلی اردو اخبار شائع کرنا شروع کیا جس کی بدولت انہیں ہندوستانی صحافت کے بانیوں میں سمجھا جاتا ہے۔جب مولوی باقر نے اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا تو انہیں ایک پریس کی ضرورت محسوس ہوئی جو انہیں ان کے دیرینہ دوست مسٹرٹیلر کے توسط سے ہاتھ آگیا۔مولوی باقر نے پریس خرید لیا جو ان کے دہلی ا ردو اخبار کی اشاعت کے لئے اہم ثابت ہوالیکن ملازمت کی مجبوریوں کی بنا پر شروع میں ان کا نام عملہ ادارت میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعدمولوی باقر نے اخبارنکالنا شروع کردیا۔

یہ پہلا اخبار تھا جس میں سیاسی، سماجی، معاشی اور دیگر خبروں کو جگہ دی جاتی تھی۔ دہلی کے قدیم معاشرہ میں نت نئے خیالات، موضوعات اور سیاسی خبریں چھاپنے کا یہ ایک واحد اخبار تھا جو نہات اہم مانا جاتا تھا اس کا طرز تحریر بے پناہ جاذب اور دلچسپ تھا۔ہفت روزہ اخبار میں ادبی، سیاسی،علمی، جو بھی پہلو ہوتا تھا وہ حد درجہ دلچسپ اور حقائق پر مبنی ہوا کرتا تھا البتہ سیاسی پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہوتا تھا اور یہی اس اخبار کاطرہ امتیاز بھی تھا۔ مولانا محمد باقر انگریزوں کی غلامی سے بے حد نفرت کرتے تھے اور ان کے اقتدار و حکومت کو لمحہ بھر کے لئے قبول کرنے کے لئے راضی نہ تھے کیونکہ ان کے دل میں حقیقی آزادی کا اور وطن پرستی کا جذبہ موجزن تھا۔اس زمانہ میں آج کی طرح ذرائع ابلاغ کی سہولتیں فراہم نہیں تھیں بلکہ مغل بادشاہوں کا قائم کردہ  نظام وقائع نگاری ہی اپنے عروج و بروج پر تھا لیکن شہید مولانا محمد باقر نے اپنے اخبار میں مختلف درباروں، ریاستوں اور شہروں کی خبریں شائع کرنے کا جو اہتمام کیا تھا وہ نہایت اہم اور لائق صد تحسین تھا اور اسی وجہ سے اردو اخبار نے عوامی حلقہ میں اپنی ایک اہمیت اور الگ پہچان بنالی تھی۔

1857کی جنگ آزادی میں مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے یوں تو براہ رست جنگی کسی بھی محاذ پر فوج کی کمان نہیں سنبھالی تھی مگر پھر بھی میرٹھ کے ایک جوشیلے گروہ نے سب سے پہلے شاہ ظفر ہی کی ذات والا کو مرکز محور تصور کرتے ہوئے دہلی کی راہ اختیار کی۔اس کے بعد دوسری اور جماعتوں نے بھی شاہ ظفر ہی کے نام پر علم بغاوت بلند کر دیا اس وقت انگریزی فوجوں سے ٹکرا جانا کوئی معمولی بات نہ تھی مگرآزادی کے مت والے جاں نثار سپاہیوں نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر انگریزی فوج کا نہایت پا مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے آزادی کی راہ ہموار کردی۔

مولوی محمد باقر کے صاحبزادے اور اردو کے معروف ادیب مولانا محمد حسین آزاد کی تحریریں بھی اس میں شائع ہوتی تھیں۔اس اخبار کی کاپیاں نیشنل آرکائیوز نئی دہلی،ادارہ ادبیات اردوحیدرآباد،عثمانیہ یونیورسٹی اور مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ وغیرہ میں موجود ہیں۔ دہلی اردو اخبار دہلی سے اردو زبان میں شائع ہونے والا ایک ہفت روزہ اخبار تھا جسے مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے 1837ء  میں شائع کیا۔یہ دہلی کا پہلا اردو اخبار تھا۔ اس اخبار کے ذریعہ ہمیں اس عہد کی سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ ادبی اور علمی سرگرمیوں کا حال بھی معلوم ہوتا ہے۔ اخبار کی ماہانہ قیمت 2روپے اور زر سالانہ 20روپے تھا۔ اس کا پہلا نام ’اخبار دہلی‘تھا لیکن10مئی 1840(نمبر 168جلدنمبر3)سے اس کا نام ’دہلی اردو اخبار‘ہو گیا۔نام کی تبدیلی کے ساتھ کاغذ قدرے سفیداور کتابت قدرے جلی اور کشادہ ہو گئی۔ 12جولائی 1857کو نمبر 28جلد 19سے اس کا نام بہادر شاہ ظفر کے حکم پر ’اخبار الظفر‘کر دیا گیا۔ اخبار کا نمبر اور جلد کا شمار وہی رہا جو ’دہلی اردو اخبار‘ کاتھا اور یہ کھل کر انگریزوں کی مخالفت اور بہادر شاہ ظفر کی حمایت کرنے لگا لیکن جنگ آزادی کی ناکامی، مغلیہ سلطنت کی تاراجی کے ساتھ اور انگریزوں کی جانب سے مولوی محمد باقر کو گولی مار کر شہید کر دینے کے بعد بالآخر اس اخبار کی زندگی بھی 13ستمبر1857کو ختم ہوگئی۔مولوی محمد باقراستاد ذوق کے پرستار اورہم سبق تھے،اس لیے مرزا غالب کے بارے میں بعض خبروں کو بہت نمایاں طور پر جگہ دی جاتی تھی۔اس سلسلے میں یہ بات اہم ہے کہ جب غالب کو قمار بازی کے الزام میں سزا ہوئی تو دہلی اردو اخبار نے اسے جلی حرفوں میں شائع کیاتھا۔اس اخبار کا اپنا ایک کھلا نظریہ تھا،اخبار کے ایک شمارے میں اس نظریے کی ترجمانی کرتے ہوئے مواد کے اخلاقی معیار کے ساتھ ایڈیٹر کے اخلاقی معیار پر بھی زور دیا گیا ہے۔

بقول خواجہ احمد فاروقی:”دہلی اردو اخبار‘شاہجہاں آباد دہلی کا پہلا اردو اخبار ہے جس کے مطالعہ سے مومن و غالب،شیفتہ و آزردہ اور ذوق و ظفر کا سارا ماحول اپنی پوری سامانیوں کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے اور ہم اس جام جم میں دو دنیاؤں کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں جس میں ایک ابھرتی ہوئی ہے،دوسری ڈوبتی ہوئی۔“

 خود مولوی محمد باقر کے فرزند مولانا محمد حسین آزاد جو اس اخبار سے وابستہ تھے،اس کاسنہ اشاعت 1835بتاتے ہیں:

”1835سے دفاتر سرکاری بھی اردو ہونے شروع ہوئے۔ چند سال کے بعد کل دفتروں میں اردو زبان ہو گئی۔اس شہرمیں اخباروں کو آزادی حاصل ہوئی۔ 1836میں اردو کا اخبار دلی میں جاری ہوا اور یہ اس زبان کا پہلا اخبار تھا کہ میریوالد مرحوم کے قلم سے نکلا۔“

 مولوی ذکاء اللہ دہلوی نے اپنی تالیف ”تاریخ عروجِ سلطنت انگلشیہ ہند“ میں لکھا ہے کہ ظفر کے حکم سے وہ مال گزاری کے اس شاہی خزانے کو کامیابی سے بہ حفاظت لے کر آئے جو پیدل فوج کی ایک پلٹن چند سواروں کے ساتھ گڑ گاؤں سے دہلی لا رہی تھی اور جس پر راستے میں تین سو میواتیوں سے مڈبھیڑہونے کے بعد لڑائی ہورہی تھی۔ اس کے لیے وہ بہادر شاہ کی ہدایت پر امدادی فوجی سپاہ کو ساتھ لے کر گئے تھے۔

مولوی محمد باقر کے ایسے کارناموں سے خوش ہوکر بہادر شاہ ظفر نے اپنے نام کی مناسبت سے ان کے اخبار کا نام ’اخبار الظفر‘ کردیا جس کا اعلان 12 جولائی 1857ء کے شمارے کے سرورق پر ہوا اور اس اخبار کے آخری دس شمارے اسی نام سے شائع ہوئے۔

1857 میں ’دہلی اردو اخبار‘کے غیر معمولی کردار کے بارے میں مولانا امداد صابری رقم طراز ہیں:

”دہلی میں جب تک جنگ جاری رہی اس وقت تک دہلی اردو اخبار نے نہ صرف اپنے صفحات آزادی کو کامیاب کرنے کے لیے وقف کررکھے تھے۔ بلکہ اس کے بانی مولوی محمد باقر نے قلم کی جنگ کے علاوہ تلوار سے بھی انگریزوں سے جنگ لڑی اور جس وقت جنگ میں ناکامی ہوئی اور انگریز دہلی پر قابض ہوگیا تواخبار بند ہونے کے ساتھ مولانا محمد باقر انگریز کی گولی کا نشانہ بنے اور جام شہادت نوش کیا۔“

اخبارات کے بارے میں انگریزوں کا رویہ اور ان کا نظریہ کیا تھا۔ اس اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ محمد عتیق صدیقی نے اپنی کتاب کے پیش لفظ: ہندوستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہد میں: صفحہ5 پر لکھا ہے کہ 

''ہم نے اپنی سلطنت کی بنیادیں جن اصولوں پر استوار کی ہیں ان کی رو سے رعایا کو اخباروں کی آزادی نہ تو کبھی دی گئی اور نہ کبھی دی جائے گی۔ اگر ساری رعایا ہماری ہم وطن ہوتی تو میں اخباروں کی انتہائی آزادی کو ترجیح دیتا لیکن چونکہ وہ ہماری ہم وطن نہیں ہے اس لیے اس سے زیادہ خطرناک اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ اخباروں کی آزادی اور اجنبیوں کی حکومت ایسی چیزیں ہیں جو نہ تو ایک جگہ جمع ہوسکتی ہیں اور نہ مل کر ایک ساتھ چل سکتی ہیں۔ آزاد اخبارنویسی کا پہلا فرض کیا ہے؟ اس سوال کا یہی جواب ہوسکتا ہے کہ ملک کو بدیسی حکمرانوں سے نجات دلائی جائے اگر یوروپین اور ہندوستانی اخباروں کو آزادی دی گئی تو اس کا بھی یہی نتیجہ ہوگا''۔

 ایک انگریز مورخ گارسادتاسی کے بیان سے اس کی اور بھی وضاحت ہوجائے گی۔ جو اس نے ہندوستانی اخباروں سے متعلق اپنے خطبات میں کہے تھے۔انہوں نے اپنے خطبہ نمبر218 میں کہا تھا:

 ''ان منحوس کارتوسوں کی تقسیم کے موقع پر ہندوستانی اخباروں نے جو بد دلی پھیلانے میں پہلے ہی سے مستعدی دکھا رہے تھے، اپنی غیرمحدود آزادی سے فائدہ اٹھایا اور اہل ہند کو کارتوس کو ہاتھ لگانے سیانکار کرنے پر آمادہ کیا، اور یہ باور کرایا کہ اس حیلے سے انگریز ہندوستانیوں کو عیسائی بنانا چاہتے ہیں ''۔

 کچھ یہی خیال گورنر لارڈ کینگ کا بھی تھا جس کا اظہار اس نے اپنے انداز سے کیا تھا۔اس قانون کو صحیح ٹھہراتے ہوئے لارڈ کینگ نے 13جون1857کو کاؤنسل میں کہا تھا کہ:

اس بات کو لوگ نہ تو جانتے اور نہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں میں دیسی اخباروں نے خبر شائع کرنے کی آڑ میں ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں دلیرانہ حد تک بغاوت کے جذبات پیدا کردیے ہیں۔ یہ کام بڑی مستعدی، چالاکی اور عیاری کے ساتھ انجام دیاگیا''۔

 یہی وجہ ہے کہ جب جدوجہد آزادی کی پہلی جنگ1857 میں شرو ع ہوئی تو دہلی اردو اخبارکے ساتھ ساتھ صادق الاخبار اور سراج الاخبار دہلی میں بھی جنگ کی خبریں نہایت اہمیت کے ساتھ چھپنے لگیں۔ ان سبھی میں جذبات کو برانگیختہ کرنے والی نظمیں، مضامین، نصیحتیں اور انقلابی فتوے شائع ہونے لگے تاکہ مجاہدین آزادی کو حوصلہ دیا جاسکے، ان کے جذبات مہمیز کئے جاسکیں۔دیکھیں دہلی اردو اخبار میں گائے اور سور کی چربی لگے کارتوس استعمال نہ کرنے اور سپاہیوں کی بغاوت پر کس قدر بے باکانہ رپورٹنگ کی گئی:

 مجاہدین کی ہمت افزائی میں مولوی محمد باقر کس قدر پیش پیش تھے۔رڑکی میں مجاہدین کے ذریعے انگریزوں کی ہلاکت کی خبر دہلی اردو اخبار میں یوں درج ہے:

 ''رڑکی سے ایک پلٹن وہاں کے انگریزوں کو مار کر اس طرف آئی تھی کہ میرٹھ میں ا ن گوروں کا سامنا ہوا۔تائید الہی  و اقبال شہنشاہی  پلٹن نے ان لوگوں کو پسپا کر کے شکست دے دی وہ لوگ پھر اپنے دمدمہ میں گھس گئے اور دو سو گورے مارے گئے۔''   دہلی اردو اخبار17 مئی1857

مولوی محمد باقر کے نواسے آغا محمد باقر نے خاندانی روایت کے حوالے سے اپنے نانا کے آخری ایام کا تذکرہ اس انداز میں کیا ہے۔

”خاندانی روایت یہ ہے کہ مولانا آزاد (محمد حسین آزاد)سردار سکندر سنگھ کے پاس کشمیری دروازے چلے آئے اور سردار بہادر سے بصد منت سماجت التجا کی کہ میں اپنے شفیق باپ کی آخری بار زیارت کرنا چاہتا ہوں۔ سردار بہادر نے جواب دیا۔ حالات بہت خطرناک ہیں، آپ کا دہلی میں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں لیکن آزادانہ مانے آخر سردار صاحب راضی ہو گئے۔ قرار پایاکہ آزاد ان کے ساتھ سائیں کا لباس پہن کر چلیں۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو گئے اور آزاد سائیں کے لباس میں ان کے پیچھے بھاگے۔ دہلی دروازے کے پاس میدان میں ایک ہجوم نظر آیا۔ جو دن کی دھوپ سے نڈھال تھا فوجی پہرے میں وہ اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہے تھے۔ اس ہجوم میں ایک طر ف ایک مرد خدا نہایت خشوع و خضوع سے اپنے پروردگار کی عبادت میں محو تھا۔ وہ آزاد کے شفیق باپ مولوی محمد باقر تھے۔آزاد گھوڑے کی باگ تھامے فاصلے پر کھڑے اور منتظر تھے کب آنکھیں چار ہوں۔ مولوی صاحب نے نماز ختم کرکے نظر اٹھائی تو سامنے اپنے پیارے بیٹے کوپایا۔ چہرے پر پریشانی کے آثارپیدا ہوئے اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ادھر یہی حالت بیٹے پر گذری۔ انہوں نے دعا کیلئے فوراً ہاتھ اٹھائے اور ساتھ ہی اشارہ کیاکہ بس آخری ملاقات ہو چکی۔ اب رخصت۔ سردار صاحب نے اپنا گھوڑا موڑ لیا اور واپس چلے آئے۔“

 مولوی محمد باقر کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلا اور نہ ہی انہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیاگیا بلکہ انتہائی ظالمانہ طریقے سے انہیں 77سال کی کبر سنی میں نہایت سفاکی سے توپ سے شہیدکر دیاگیا۔ بعض لوگوں نے گولی مارنا بھی لکھا ہے۔

مولوی باقر شہیدجس طرح صحافت کے توسط سے انگریزوں سے لوہا لیا نہ صرف یہ عدیم المثال ہے بلکہ سنہرے حروف سے تاریخ میں درج ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب ان کے نام پر کوئی صحافتی ادارہ قائم نہیں کیاگیا۔ہندوستانی صحافت کی تاریخ میں وہ پہلے ایسے صحافی تھے جس نے قومی اتحادکے لئے اپنی جان کی قربانی دی تھی۔جس طرح بے جگری کے ساتھ انگریزوں کے خلاف خبریں شائع کی اور انگریزوں کے پروپیگنڈہ کے خلاف جس طرح حقائق کو اجاگر کیا یہ ان کے بس کی بات تھی۔مولوی باقر نے انگریزں کے پروپیگنڈہ مشنری کے خلاف جنگ کی اور انہوں نے اس وقت پھیلائی گئی فرضی خبریں اور فیک نیوز کے خلاف میدان سنبھالا اور ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس وقت انگریزوں نے مسلمانوں کو ہندوؤں سے اور اور ہندوؤں کومسلمانوں سے لڑانے کے لئے پروپینگڈہ شروع کیا تھا اپنے فرضی پوسٹروں کے ذریعہ ایک دوسرے کا دشمن بناکر پیش کیا اس کے خلاف مولوی باقر نے منظم انداز میں اس کا اپنے اخبار کے ذریعہ پردہ فاش کیا تھا۔اس وقت کا جائزہ لے جائے تو یہی ساری چیزیں اس وقت سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر چل رہی ہیں اورہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مولوی باقر کے لئے سچا خراج عقیدت یہی ہوگا اس وقت بھی فیک نیوز کے خلاف محاذ کھولا جائے اور حقائق کو سامنے لاکر ایسی طاقتوں کو دنداں شکن جواب دیا جائے۔


Comments

  1. شکریہ۔
    آپ کی تحریر سے،شہید مولوی محمد باقر اور ان کی خدمات کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم ہوئیں، باقر صاحب ایک سچے محب وطن تھے جنہوں نے انگریزوں سے دیش کو آزاد کرانے کے لیے قید و بند کے بعد اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔ آپ نے بہادری ثبوت دیا اور جھکے نہیں۔ آج کے جھوٹے دیش بھکتوں کے گرو، جب انگریزوں کی چاپلوسی کر رہے تھے، آزادی لڑائی میں حصہ لینے سے لوگوں روک رہے تھے۔ ایسے عالم میں ہمارے ان مجاہدین آزادی کو کس قدر دقت ں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، اس تحریر سے اجاگر ہوتا ہے۔
    اردو صحافت کی تاریخ اور اس میں شہید مولوی باقر مرحوم کا قابل قدر حصہ داری سے معرفت حاصل ہوئی۔ کاش اخبار دہلی، دہلی اردو اخبار یا اخبار الظفر ہنوز باقی رہتا۔
    اللہ صاحب تحریر جناب عابد انور صاحب کے علم و معرفت میں اضافہ کرے، صبر واستقامت عطا کرے اور کسی بھی بلا آزمایش سے محفوظ رکھے ۔آمین

    ReplyDelete
  2. Just over one hundred years ago, the primary best vacuum seal storage bags Injection Molding press was created. The machine was easy but effective, and it started an business that will endlessly change manufacturing. The injection molding course of, when compared to with} different manufacturing strategies, can usually be more cost-effective and nonetheless exhibit extensive array|a broad selection|a big selection} of superior materials properties. Injection Moldingis the method of pushing or injecting molten plastic right into a mold cavity. Plastic resin is fed right into a heated barrel, combined, and injected right into a tool, where it cools and hardens to the configuration of the mold cavity.

    ReplyDelete

Post a Comment