کیوں فراموش کرتے جارہے ہیں مسلم مجاہدین آزاد ی کو



عابد انور

ہندوستان کوجب بھی خون کی ضرورت پڑی تو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر خون دیا۔ وطن کی ناموس کی حفاظت میں دارورسن کے پھندے کو چومنے سے وہ کبھی نہیں ہچکچائے۔ حکومت کے بدلے اپنے ضمیر کو کبھی فروخت نہیں کیا۔ آزادی کو اپنا سب سے قیمتی سرمایہ حیات سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی جانا۔ مسلمانوں اور خاص طورپرمسلم علماء نے اس وقت سے انگریزوں کے خلاف آوازاٹھانی شروع کردی تھی جب یہاں کے بعض رجواڑے ان سے تحفظ کا معاہدہ کررہے تھے اگر ان رجواڑوں نے انگریزوں کاساتھ نہ دیا ہوتا تو ملک کبھی غلام نہیں بنتا۔ مسلم علماء نے کبھی بھی ملک گیری کو اپنا مسلک نہیں بنایا۔انہوں نے اپنے فتح کردہ علاقے دوسروں کے سپرد کرکے آگے بڑھتے رہے۔ یہ ہمارے اکابرین ہی تھے جنہوں نے انگریزی حکومت کو ہلاکررکھ دیاتھا اس لئے انگریزی حکومت کے غصے کاشکار بھی سب سے زیادوہ علماء ہی بنے۔جہاں بھی انہیں داڑھی ٹوپی والے نظرآتے انہیں پکڑلیتے اذیتیں دیتے اور کسی درخت پرلٹکا کر پھانسی دے دیتے۔ جیسا کہ اس وقت حکومت کے کارندے ہر داڑھی ٹوپی والے کو دہشت گردسمجھتے ہیں اورمسائل کو میزائل سمجھ کر سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کیلئے بے تاب رہتے ہیں۔اس وقت تو صورت حال نہایت بھیانک تھی۔مسلمانوں کی اعصابی قوت ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے کس کس طرح کے ہتھکنڈے اپنائے تھے ہمارے لئے یہ تصور کرنا بھی اس وقت محال ہے۔ اس ملک میں کہیں دھماکہ ہوتا ہے تو مسلمانوں کی ان کے خاندان کے ساتھ زندگی جہنم سے بدتر بنادی جاتی ہے۔ ذرا تصور کیجئے اس وقت مسلمان ہونا کتنا جوکھم بھرا کام رہا ہوگا۔ کتنی اذیت برداشت کی ہوگی اور اس کے باوجود مسلمانوں آزادی کے میدان میں صف اول میں رہے۔ 

انگریزہندوستان میں تجارت کرنے آئے تھے لیکن مسلم بادشاہوں کی فیاضی اور رعایت کا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دن انہوں نے انہیں ہی اقتدار سے بے دخل کردیا۔انگریز عہد جہانگیری میں ہندوستان آئے تھے اورانہوں نے یہاں تجارت کرنے کی اجازت مانگی تھی اوردھیرے دھیرے اپنی عیاری و مکاری سے انہوں نے پورے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ انگلستان کے سفیر مسٹرہاکنس جہانگیرکے دربارمیں آئے تھے جس کااستقبال کیا گیا تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1608 میں سورت میں تجارتی کوٹھی قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس کام کے لئے انہوں نے یہاں کے بنیوں اورہندوؤں کے ایک طبقے کو مسلمانوں کے خلاف خوب استعمال کیا۔ اس طرح پورا ہندوستان انگریزوں کے گرفت میں آگیا۔ غیر اعلانیہ اقتدار پرقابض ہوتے ہی انہوں نے اپنے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا اورانہوں نے بہت سارے ایسے کام کئے جس سے مسلمانوں کو احساس ہوا کہ اس انگریزی حکومت میں نہ صرف ان کی جان خطرے میں بلکہ مذہب پرخطرات کے بادل مندلارہے ہیں۔ 

 ہندوستان کی جنگ آزادی کا اولین مرحلہ مکمل مسلمانوں کے اردگردگھومتا ہے۔ سب سے بڑے مزاحمت کار مسلمان ہی تھے جنہوں نے انگریزوں کے مظالم سے تنگ آکر اور محبوب وطن کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑتادیکھ کر دیوانے کی طرح انگریزوں پرٹوٹ پڑے تھے۔ 1757 کے بعدبنگال کے نواب سراج الدولہ نے جس طرح انگریزوں کی ماتحتی قبول کرنے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے ان کی حکومت گئی لیکن انہوں نے اس کی پروا نہیں کی۔ انہوں نے انگریزتاجروں کے دبدبہ کو کم کرنے کے لئے مقامی تاجروں کو بھی ٹیکس دینے سے مستثنی کردیا اس کی وجہ سے انگریز پریشان ہوئے اور ان کے کاروبارپر اثرہوا کیوں کہ انگریزوں کوبے پناہ تجارتی رعایتی حقوق حاصل تھے اورنواب سراج الدولہ ان کے یہ حقوق چھین نہیں سکتے تھے اس لئے انہوں نے اس کے توڑ کا بہترین یہ طریقہ نکالاکہ انہوں نے مقامی تاجروں کے لئے بھی اسی رعایت کااعلان کردیا۔اس کی وجہ سے ایسٹ انڈیا چراغ پاہوگئی۔ انہوں نے میرجعفر کو اقتدارکا لالچ دے کر نواب سراج الدولہ کے خلاف استعمال کیا۔ بالآخر اس کا انجام نواب سراج الدولہ کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہوا۔ ان کی حکومت ختم نہیں ہوتی کیوں کہ جنگ پلاسی میں سراج الدولہ کے پاس 55 ہزار فوجیں تھیں ان میں سے 40 ہزار پیادہ فوج تھی اور پندرہ ہزار سوار دستہ تھا جب کہ انگریزوں کے پاس صرف تین ہزار لیکن جنگ تعداد سے نہیں جیتی جاتی بلکہ حکمت عملی اور نظم و ضبط سے فتح کی جاتی ہے جہاں نواب سراج الدولہ اس معاملے میں کمزور تھے وہیں نمک حراموں، دغابازوں اورسازشوں سے گھرے ہوئے تھے جو کسی بھی مضبوط حکومت کے خاتمے کے لئے کافی ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ انہوں نے پورے ہندوستان میں قدم جمانے شروع کردئے۔ فتح بنگال کے بعد انہوں نے جنوب کا رخ کیا۔میسورکا راجہ انگریزوں کا ہمنوا تھاجسے ٹیپو سلطان کے والد حیدرعلی نے اکھاڑپھینکااور یہاں ایک عوام دوست حکومت قائم کی اور وہ انگریزوں کو پے درپے انگریزوں کوشکست دیتے رہے۔ یہاں تک کے انگریزوں نے فیصلہ کرلیاتھاوہ ہندوستان کو چھوڑ دے گا لیکن  حیدر علی کے انتقال کی وجہ سے انہوں نے اپنا قدم روک لیا۔ شیرمیسور ٹیپوسلطان بھی اپنے والدکی طرح انگریزوں سے برسرپیکار رہے۔

 ٹیپوسلطان کی پیدائش۰۲ نومبر ۰۵۷۱ میں ہوئی تھی۔ انہوں نے شہزادے کی عام روش سے ہٹ کراپنی زندگی مختلف سانچوں میں ڈھال لی تھی۔ بہترین سپہ سالاراور جرنیل تھے۔ ان ذہن و دل اور دماغ بین الاقوامی تھا۔ وہ سلطنت  خداد کے بہترین وارث تھے۔1775 سے 1799 تک انہوں نے مختلف جنگوں میں حصہ لیا اورقیادت کی۔ انگریزوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اکیلے ٹیپو سلطان کا مقابلہ نہیں کرسکتے توانہوں نے مرہٹوں اور نظام کو اپنے ساتھ ملایااورٹیپوسلطان کے خلاف اتحاد کرکے 1792 کی جنگ لڑی۔اس جنگ میں ٹیپوں کو شکست ہوئی اورصلح کا معاہدہ ہوا۔ جس کے تحت آدھی ریاست اور ایک خطیررقم انگریزوں اوراتحادی فوجوں کو دینی پڑی۔اس کے باوجود ٹیپوسلطانے ہمت نہیں ہاری اور اپنے رعایاکی فلاح بہبود پرتوجہ مرکوزکرتے ہوئے اپنے جنگی سازو سامان کودوبارہ تیار کیا۔اس کے بعد بھی انگریز اور اس کے اتحادی مرہٹہ اور نظام کے ساتھ ٹیپو سلطان کی کئی جنگ ہوئی جس میں سے کئی میں انگریزوں اوراتحادیوں کے کثیرافواج ہونے کے باوجود انہیں شکست حاصل ہوئی۔ آخری جنگ1799 کی ہے جس میں انگریز افواج کی تعداد 50 ہزارتھی جب کہ ٹیپو سلطان کے فوج کی تعداد30 ہزار تھی۔ یہ جنگ سمٹ کر قلعہ کے پاس تک پہنچ گئی تھی ٹیپو سلطان کو شکست نہ ہوتی اگر اس کے وزیر اعظم اور ایک اعلی عہدیدار میرصادق نے غداری نہ کی ہوتی اور ہتھیار انگریزوں کے حوالے نہ کیا ہوتا۔بالآخر 4 مئی1799 کو ہندوستان کا عظیم جرنیل اورسپہ سالار انگریزوں سے جنگ کرتے ہوئے وطن عزیزکی حفاظت کے لئے اپنی جان دے دی۔ ان کا یہ جملہ تاریخ  میں اپنا نمایاں مقام بنا چکا ہے کہ گیڈرکی سو سال کی زندگی شیرکی ایک دن کی زندگی سے بہتر ہے۔ انہوں نے یہ جملہ اس وقت ادا کیا تھا جب ان سے یہ کہا گیاتھا کہ وہ صلح کرکے انگریزوں کی ماتحتی قبول کرلیں۔ یہ ہندوستان کے ایسے پہلے حکمراں تھے جن کے سفارتی تعلقات افغانستان، فرانس، ترک اوردیگرمماک سے تھے۔فرانس سے توان گہرے دفاعی تعلقات بھی تھے۔

 یہ جاننا دلچسپی کا باعث ہے کہ وہ انگریز قوم جس کی حکومت میں کبھی سور ج غروب نہیں ہوتا تھا وہ قوم بھی میزائل تکنک سے نابلد تھی۔یہی وجہ تھی کہ جب  10 ستمبر 1780 میں برطانوی اور میسور کی فوج میں لڑائی ہوئی تھی جس کی قیادت برطانوی فوجی کمانڈر کولونیل بائلی کر رہے تھے حیدرعلی اور ٹیپو سلطان کی فوج نے پہلی بار میزائل کا استعمال کیا تھا جس سے انگریزی فوجوں کو شکست ہوئی تھی اور کولونیل سمیت ۰۰۲۳ انگریزی فوجی قیدی بنائے گئے تھے۔ اس میزائل کا وزن دو کلو دو سو گرام سے ساڑھے پانچ کلو گرام تھا۔اس کی مار ڈیڑھ کلو میٹر سے لے کر ڈھائی کلو میٹر تک تھی۔ اپریل 1799 کی  چوتھی اینگلو میسور جنگ میں جس میں ٹیپو سلطان شہید ہوگئے تھے انگریزوں نے 900 میزائل پرقبضہ کیا تھا جسے وہ انگلینڈ لے گئے تھے۔ بعدمیں اس کا استعمال برطانوی فوجیوں نے کئی مہمات میں کامیابی کے ساتھ کی تھی مثلاً  1804 میں کوپن ہیگن کی جنگ میں،  1807 میں واشنگٹن فورٹ (نیویارک) وغیرہ میں۔ 

 ہندوستان کی آزادی میں علماء کے گراں قدر خدمات کی داغ بیل ڈالنے والے سیداحمد شہید کانام جلی حروف میں تاریخ میں درج ہے 1786 میں رائے بریلی جو اس وقت صوبہ اودھ میں تھا پیداہوئے تھے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے ممتاز تلامذہ میں تھے۔انہوں نے محض اپنے وسائل اور کسی بڑی مدد کے بغیر دین واسلام اور وطن کی حفاظت کی خاطر نکل پڑے تھے۔ جب انہوں نے یہ معلوم ہوا ہے کہ سکھ حکمراں راجہ رنجیت سنگھ مسلمانوں کو ان کا جائز حق نہیں دے رہے ہیں مسلمانوں اور ان کے مذہبی تقدس پامال کر رہے ہیں۔ انہوں نے پہلے تحقیق حال کے لئے اپنے آدمی کو بھیجے جب اس کی تصدیق ہوگئی تو بے سروسامانی کے عالم میں جہاد کے لئے نکل پڑے۔ سکھوں کے رویے کے بارے میں ایک انگریز افسر سریپل گریفن نے لکھا ہے کہ ”ہزارہ کے گورنر سردار ہری سنگھ نالوہ کے سخت برتاؤ اور مسلمانوں سے سخت نفرت کی وجہ سے وہاں مذہبی بلوے ہوتے رہتے تھے“ (حکمرانان ہند۔سریپل گریفن)۔سرولیم ہنٹرس اس کی توضیح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”سکھوں کے ہندوانہ تعصب نے شمالی ہند کے مسلمانوں کے جوش کو بھڑکا کرآگ کا ایک شعلہ اٹھادیاتھا“۔(مسلمانان ہند۔ولیم ہنٹرس) 

 اس طرح کے حالات نے مسلمانوں اور خاص طور پر علماء میں بے چینی پیداکردی تھی۔سیداحمد شہید اپنی جماعت کو لے کر1824میں سندھ کے راستے درہ بولن سے افغانستان میں داخل ہوئے اور درہ خیبرکو عبور کرتے ہوئے پنجاب پرحملہ کیا۔ آپ کا پہلا حملہ21 دسمبر 1826 کو ہوا تھا۔ دوران جنگ راجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے یہ پیغام موصول ہوا تھا کہ دریائے اباسین کے اس کنارے کا ملک جو آپ کے قبضے میں ہے راجہ رنجیت کی طرف انعام تصورکرکے اپنے قبضے میں رکھ لیں لیکن آگے کا قصد نہ کریں لیکن سیداحمد شہید نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ان کامقصدملک گیری نہیں ہے بلکہ مذہبی آزادی ہے اوراس کے حصول کے بغیروہ نہیں جائیں گے۔ اس دوران پنجاب کے کئی علاقوں پرسیدصاحب کاقبضہ ہوچکا تھا۔اسی طرح بالاکوٹ میں دست بدست جنگ کرتے ہوئے 24 ذی قعدہ 1246 مطابق مئی1831 کو جام شہادت نوش کیا۔آپ کے ساتھ آپ کا خلیفہ سید اسماعیل بھی شہیدہوئے۔ اس معرکہ میں ہندوستان بھرکے علماء شامل ہوئے تھے جن میں علماء صادق پور بھی شامل تھے۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علماء کرام کا ملک گیری یا مملکتی عہدہ کا حصول کبھی بھی مقصد نہیں رہا۔وہ ملک اورمذہب کے تئیں ہمیشہ اپنی جان نثار کرنے کے لئے تیار نظرآئے۔ کاش کے آج کے علماء ہمارے اکابر علماء کا کچھ پاس اورلحاظ رکھ پاتے۔ 

 انگریزوں کا عملاً جب پورے ہندوستان پر قبضہ ہوگیا تو انہوں نے بھی جبر و استبداد کا لا متناہی سلسلہ شروع کردیا اورمذہبی آزادی پرقدغن لگانے کیلئے بیتاب ہوگئے۔ انگریزوں کے مظالم پرروشنی ڈالتے ہوئے خواجہ حسن نظامی نے ”بہادر شاہ کا مقدمہ“ میں لکھا ہے 

”ہزاروں عورتیں فوج کے خوف سے کنوؤں میں کودپڑیں یہاں تک کہ پانی سے اوپرہوگئیں۔جب زندہ عورتوں کوکنوؤیں سے نکالناچاہا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں گولی سے ماردونکالو نہیں ہم شریفوں کی بہو بیٹیاں ہیں ہماری عزت خراب نہ کرو۔بعض لوگوں نے اپنی عورت کو قتل کرکے خودکشی کرلی“۔ 

ایک انگریز افسرنے لکھا ہے کہ ”انبالہ سے دلی تک ہزار بے قصوردیہاتیوں کو انگریزوں نے مار ڈالا۔ ان کے بدن کوسنگینیوں سے چھیدا جاتاتھا اور ہندوؤں کے منہ میں گائے کاگوشت ٹھونساجاتاتھا۔ ایک دیگرانگریزافسرطامسن نے دہلی کے مسلمانوں کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  ”دہلی کے کچھ مسلمانوں کو ننگاکرکے اورزمین سے باندھ کر سرسے پاؤں تک جلتے ہوئے تانبہ کے ٹکڑوں سے اچھی طرح داغ دیاجاتااور مسلمانوں کو سوور کے کھالوں سے سی دیاجاتا“۔

مغلیہ خاندان کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کے سامنے ہڈسن نے یہ تجویز پیش کی کہ وہ انگریزوں کی ماتحتی قبول کرلیں اور زندگی بھر نیشن پائیں یا پھر یہ تحفہ قبول کرلیں تحفہ پر سے  پردہ ہٹایا گیا تو طشت پر بادشاہ کے دو بیٹوں کے کٹے ہوئے سر تھے۔ اس پر آزادی ہندوستان کے پروانے اور خاندان تیموریہ کے آخری تاجدار نے جواب دیا ”الحمد اللہ بابر کی اولاد اسی طرح سر خرو ہوکر اپنے باپ کے پاس آیا کرتی ہے۔ تم نے میرے دو شہزادوں کے سر میرے سامنے پیش کئے ہیں۔ مجھے اور میرے خاندان کے تمام لوگوں کو قتل کردو تو بھی ہم ہندوستان کی آزادی کا جھنڈا جھکنے نہیں دیں گے“۔

 علماء نے 1857میں بھی بے دریغ قربانیاں دی ہیں۔ پورے ملک میں ہزاروں علماء کو پھانسی پرلٹکایاگیا تھا۔ صرف دہلی ہی میں اس موقع پر12 ہزار علماء کو پھانسی دی گئی تھی۔ یہ جنگ آہستہ آہستہ پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔ جہاں اودھ میں اس جنگ کی قیادت حصرت محل کر رہی تھیں وہیں فیض آباداور اس کے اطراف میں احمداللہ شاہ اس جنگ کی لو کو تیز کر رہے تھے۔مظفر نگر کے شاملی میں حضرت مولانا امداداللہ مہاجرمکی کی قیادت میں مولانا قاسم نانوتوی،مولانا رشیداحمد گنگوہی اور حضرت حافظ ضامین شہید انگریزوں سے جنگ لڑرہے جس میں حافظ ضامین سمیت کئی علماء شہیدہوئے۔اس کے علاوہ پورے ملک میں علماء اور مسلمانوں نے اپنی بساط بھر انگریزوں سے جنگ کی اور تقریباً بیشترجگہ ان لوگوں کوابتدائی کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن انگریزوں کے کمک پہنچنے کے بعدنقشہ بدل گیا۔اس جہاں بہت سارے انگریز مارے گئے تھے وہیں مسلمانوں نے انگریز عورتوں کوکوئی اذیت نہیں دی تھی بلکہ ان کو باعزت طریقے سے اپنے گھروں میں رکھا اور خاطر وتواضع کی۔ 

بیسویں صدی کے جنگ کے آزادی کے ہیرو شہیداشفاق اللہ خاں کانام قابل ذکر ہے۔ یہ معاملہ کاکوری کیس سے مشہور ہوا ہے۔ اس کیس میں جنگ آزادی کے متوالے شامل تھے جن میں رام پرسادبسمل بھی تھے۔ اشفاق اللہ خاں کوٹرین ڈکیٹی کیس میں 18  دسمبر 1927بروز پیر صبح چھ بجے گورکھپور جیل میں رام پرساد بسمل،روشن سنگھ اور راجندر  لاہری کے ساتھ پھانسی دی گئی تھی۔ اس علاوہ سینکڑوں علماء اور مسلمان ہیں جنہیں پھانسی کے پھندے پرلٹکایا گیا جن کا ذکرکرنااس چھوٹے سے مضمون میں ممکن نہیں ہے۔ 

شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی تحریک ریشمی رومال اگرکامیاب ہوجاتی تو ہندوستان کا اس وقت کچھ اور نقشہ ہوتا۔ ان کے شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی پوری زندگی جدوجہد آزادی کے لئے وقف کردی تھی۔ انہوں نے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، مولانا برکت اللہ کے ساتھ مل کر افغانستان ایک جلاوطن حکومت بھی قائم کی تھی جس کے صدر رنجیت سنگھ اوروزیراعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی تھے اور یہ وزیرخارجہ تھے۔ یہ حکومت ۵۱۹۱ میں قائم ہوئی تھی۔ شیخ الہند نے مولاناعبیداللہ سندھی نے1909 میں دیوبند بلایاتھااور جدوجہد آزادی سے متعلق کئی اموران کے ذمہ سپرد کئے تھے۔ جس میں جمیعۃ الانصار کی قیادت، نظارۃ معارف کاقیام بھی شامل تھا۔اس کے تحت انہوں نے تمام مجاہدین آزادی سے رابطہ قائم کرکے انہیں ایک لڑی میں پیرونے کا کام کیا تھا۔ اس کی ساتھ کئی مملکتوں کو خطوط بھی لکھے گئے تھے جن میں غالب نامہ بہت مشہور ہے جو والی حجاز غالب پاشا کولکھا گیا تھا۔ جنگ آزادی میں سرگرم حصہ لینے کی وجہ سے بہت سے مسلمانوں اور علماء کوکالاپانی کی سزا بھی دی گئی تھی ان میں خاص طور پر مفتی عنایت کاکوروی، مفتی مظہرکریم دریابادی، مولانا احمداللہ پاٹن اور مولوی عبدالرحیم صادق پوری وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ 

اس کے علاوہ ہندوستان کی آزادی کے جیالوں میں مولانا حسین حمد مدنی،،مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی،مولانامحمدعلی جوہر اور مولانامحمد علی شوکت،مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر مخ تار انصاری،حکیم اجمل خاں وغیرہ شامل ہیں۔ اگران لوگوں کو جنگ آزادی کے باب نکال دیاجائے تو یہ باب ادھورا رہے گا۔ اس وقت سرکاری طور پر مولانا آزادکے علاوہ کسی کا بھی نام نہیں لیا جاتا۔ مولانامحمد علی جوہر کی جو شخصیت اور قربانی ہے اسے کسی حال میں فراموش نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ گاندھی ساز لیڈرہیں اور کرم چندگاندھی کو مہاتما گاندھی بنانے میں ان کا سب سے بڑارول ہے۔انہوں نے ہی ہر معاملے میں گاندھی جی کوآگے کیا یہاں تک خلافت تحریک کی ذمہ داری بھی انہیں سونپ دی۔ گاندھی جی جنوبی افریقہ سے نئے نئے آئے تھے ہندوستان میں اس وقت ان کی کوئی خاص شناخت نہیں تھی جب کہ مذکورہ شخصیتیں جنگ آزادی میں نمایاں کارنامہ انجام دینے کی وجہ سے جانی پہنچانی تھیں۔ 30 جنوری کو  1948کو گاندھی جی کو ناتھو رام گوڈسے قتل کردیاتھاس30 جنوری کو ہر سال یوم شہید منایاجاتا ہے۔

افسوسناک صورت حال یہ ہے نئی نسل ان مجاہدین آزادی سے نابلد ہے۔مولانا آزد کو اس لئے جانتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم رہے ہیں اور ان کے نا م پر کئی ادارے قائم ہیں۔ ہزاروں کی تعدادمیں ایسے مسلم مجاہدین آزادی ہیں جن کے بارے میں جاننا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنااور ان کی زندگی سے رہنمائی حاصل کرنا مسلمانوں کو نہ صرف ایک نئی قوت عطا کرے گی بلکہ مسلمانوں کی فکر اور سوچ میں تبدیلی کی بھی موجب بنے گی۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اکابرین مجاہدین آزادی کو اپنے دلوں، اپنے پروگراموں، اپنے مضامین، اپنی کتابوں اورذرائع ابلاغ میں جگہ دیں تاکہ تھوڑا حق نمک ادا ہوسکے۔وقت اسی کو یاد رکھتا ہے جو اپنے اکابر کو یاد رکھتے ہیں۔


Comments