عابد انور
ہندوستان میں پہلے بھی فسادات ہوتے تھے، انسانوں کا قتل ہوتا تھا، فسادات میں مسلمان مارے بھی جاتے تھے، مکانوں، دکانوں اور تجارتی اداروں کا بھی نقصان ہوتا تھا، نفرت انگیز نعرے بھی لگائے جاتے تھے، لیکن اس طرح سے بے شرمی، ڈھٹائی، کھلم کھلا فسادیوں کے حق میں کوئی حکومت کھڑی نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فساد کے شکار کے بھی مسلمان بنتے ہیں، گھر، دوکان اور دیگر ادارے بھی مسلمانوں کے ہی جلائے جاتے ہیں اور حکومت گرفتاربھی مسلمانوں کو ہی کرتی ہے،فساد کے بعد مکان بھی مسلمانوں کے ہی توڑے جاتے ہیں، بلڈوزر بھی مسلمانوں کے آشیانے پر چلائے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کہ ملک کے دستور اور دنیا کے پہلے اصول کے تحت مقتول ہی قاتل ہوتے ہیں۔ جن کے گھر جلائے گئے ان ہی کے گھروں کو توڑا جاتا ہے، ان ہی کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ رام نومی کے موقع پر ملک کی دس سے پندرہ ریاستوں میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے گھروں، عبادات گاہوں اور دکانوں کو نشانہ بنایا۔ مسلمانوں کے گھروں اور عبادت گاہوں کے سامنے انہیں انتہائی اہانت آمیز گالیاں دیں، مذہب کو للکارا اور برا بھلا کہا، اشتعال انگیز نعرے لگائے اور ہر طرح اکسانے کی کوشش کی گئی۔ مسجدوں پر بھگوا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی کئی جگہ لہرا بھی دیا لیکن حکومت نے ان شرپسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور انہیں تحفظ فراہم کیا۔ بلکہ اس کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے نہ صر ف گھروں کو توڑا بلکہ انہیں گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ کھرگون میں پتھر بازی کرنے کا الزام ان پر لگایا جن کے دونوں ہاتھ ہی نہیں ہیں، ان لوگوں پر آتش زنی اور گھروں، گاڑیوں میں لگانے کے خلاف مقدمہ درج کیا جو جیل میں بند ہیں۔ بہت سے ان لوگوں پر سخت دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی جو اس وقت اس ریاست میں تھے ہی نہیں۔ پورے ملک میں رام نومی کے جلوس کے دوران ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب پولیس اور انتظامیہ کے سامنے کیا لیکن انتظامیہ ان کو پکڑنے، ان کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کے بجائے انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا۔ مسلمانوں پر پتھر برسانے والوں انتہا پسند ہندؤں کو آڑ فراہم کیا۔ یہ تمام سب کچھ سوشل میڈیا پر جاری متعدد ویڈیو میں نظرآرہا ہے۔ اسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے اور دیکھ کر اندازہ لگاسکتا ہے کہ کون مجرم ہے، طوفان کی بدتمیزی کس نے شروع کی، کس نے کس مذہب کو گالی دی، کس نے جے سری رام کے نعرے لگاتے ہوئے تلوار، طمنچہ، پسٹل، پھرسا، بھالا اور لاٹھی لہرایا۔یہ تمام چیزیں کیمرے میں قید ہیں لیکن گرفتار مسلمان کئے گئے، مکان مسلمانوں کے منہدم کئے گئے۔ یکطرفہ گرفتاری کا یہ عالم ہے کہ کھرگون میں 148افراد گرفتار کئے گئے تھے جن میں سے 142مسلمان ہیں اور صرف چھ ہندو ہیں، گرفتار شدگان کی تعداد اب تک 175ہے۔ ظاہر ہی سی بات ہے چند ہندوؤں کو چھوڑ کر سارے گرفتار شدگان مسلمان ہی ہوں گے۔ 10 اپریل کو کھرگون قصبے میں تشدد کے سلسلے میں اب تک 64 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور 175 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ بنانگ دہل کہہ چکے ہیں وہ پتھر بازوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ جب بی جے پی یا کوئی بھی ہندو حکومت پتھر باز کا لفظ استعمال کرے تو اس کا سید ھا سا مطلب مسلمان ہوتا ہے۔ کیمرہ کے سامنے جس طرح قانون کی دھجیاں اڑانے کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی گئی اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا ایقان باباصاحب امبیڈکر کے آئین میں نہیں ہے بلکہ منواسمرتی میں ہے۔ یہ رات و دن آئین ہند کوترک کرکے منواسمرتی نافذ کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔بہت سے دانشور کہتے ہیں کہ سارے ہندو خراب نہیں ہیں، سارے ہندو غلط نہیں ہیں، سارے ہندو فسادی نہیں ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر سارے ہندو فسادی نہیں ہیں تو خاموش حامی ضرور ہیں۔ ظلم پر خاموش رہنا ظلم کی حمایت کرنا ہی ہوتا ہے۔ جو لوگ عدالت پر اعتماد کی رٹ لگاتے رہتے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ سو دوسو معاملے میں سے ایک دو میں اگر انصاف ہوجائے بھی اسے انصاف نہیں کہا جاسکتا ہے۔سودو سو معاملے میں سے بھی دو ایک معاملے میں ہمیشہ اھورا انصاف ہوا ہے۔ پندرہ بیس برسوں تک قید میں زندگی گزارنے کے بعد عدالت بری کردیتی ہے تو ہم انصاف انصاف کہہ کر دھنڈورا پیٹتے ہیں جب کہ اسے ناانصافی سے تعبیر کی جانی چاہئے کیوں کہ اگر عدالت انصاف کرتی تو جیل کے سلاخوں کے پیچھے پہنچانے والوں کو سزا دیتی، اتنے سال بلاوجہ جیل میں گزارنے کے ذمہ داروں پر جرمانہ عائد کرتی۔ لیکن ایسا کچھ ہندوستان میں نہیں ہوتا ہے البتہ اگر خاطی مسلمان ہے تو وہاں جرمانہ عائد ضرور کیا جاتا ہے اورتھوک کے حساب سے سزا دی جاتی ہے۔ عدالت کا یہی رویہ گھرگون اور جہانگیرپوری معاملے میں نظر آتا ہے۔ کھرگون اور جہانگیرپوری معاملے میں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیاگیا۔ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ سپریم کورٹ دو ہفتے کی مہلت دی ہے۔ سپریم کورٹ کوحکومت سے سیدھا سوال کرنا چاہئے تھا کہ حکم امتناعی کے باوجود انہدامی کارروائی کیوں جاری رہی تھی۔عدالت نے دہلی کی جہانگیر پوری میں کی گئی انہدامی کارروائی پر اسٹے برقرار رکھتے ہوئے عدالت کے اسٹے کے باوجود دیڑھ گھنٹے تک چلنے والی انہدامی کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ وہ مئیر اور میونسپل کمیشنر سے جواب طلب کریں گے۔آج سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس ناگیشور راؤ اور جسٹس گوَئی کے روبرو معاملے کی سماعت عمل میں آئی جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن پر بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل اور دشینت دوے نے عدالت کو بتایا تھا کہ گذشتہ کل عدالت کے حکم کے باوجود مسلمانوں کی املاک پر یک طرفہ کارروائی کی گئی۔مسٹر کپل سبل نے عدالت کو بتایاکہ وہ آج سیاست کرنے نہیں بلکہ اقلیتوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ کئے جانے والے مظالم کے خلاف عدالت میں پیش ہوئے ہیں، سیاست کرنے کے لئے میرے پاس بہت مواقع ہیں لیکن عدالت کو آج مداخلت کرکے مسلمانوں کی املاک کو برباد ہونے سے بچانا چاہئے اور خوف کے ماحول میں زندگی گذار رہی اقلیتوں کے دلوں سے ڈر و خوف کو ختم کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ بلڈوزر کی کارروائی پہلے اتر پردیش میں شروع ہوئی جو مختلف ریاستوں میں پھیل چکی ہے جس پر روک لگانا ضروری ہے۔سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے بھی عدالت کو بتایاکہ ایک مخصوص طبقہ کو لگاتار نشانہ بنایا جارہا ہے، قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیر پوری کی جامع مسجد کے اطراف میں سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعدبھی دیڑھ گھنٹہ تک دکانوں اور مکانوں کا انہدام ہوتا رہا، اس درمیان متاثرین پولس اورایم سی ڈی افسران سے مسلسل یہ کہتے رہے کہ ٹی وی چینلوں پرخبرآرہی ہے کہ سپریم کورٹ نے انہدامی کارروائی پر فوری روک لگادی ہے۔ لہذا انہدامی کارروائی روکی جائے، مگر افسوس کہ اس مذموم سلسلہ کوانہوں نے نہیں روکااورانہدامی کارروائی کوبدستورجاری رکھا۔حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے دو پٹیشن داخل کی گئی ہے، عدالت کے سامنے ایک بھی متاثر نہیں آیا ہے، یہ تنظیمیں معاملے کو پیچیدہ کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس کا سیاسی اور غیر سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔تشار مہتا نے عدالت کو مزید بتایا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف مذہب کی بنیاد پر کارروائی نہیں کی گئی ہے اور انہدامی کارروائی قانون کے مطابق کی گئی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے باکڑے اور ٹیبل کرسی ہٹانے کے لیئے بلڈوزر کا استعمال کیوں گیا جس پر تشار مہتا نے گول مول جواب دیا جس سے ججوں نے اتفاق نہیں کیا اور جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لئے منظور کرلیااور فریقین کو حکم دیا کہ وہ دو ہفتوں کے اندر اپنا اپنا جواب داخل کریں۔عدالت نے ایک جانب جہاں دہلی کے جہانگیر پوری میں کی جارہی انہدامی کارروائی پر دیئے گئے اسٹے کو برقرار رکھا ہے وہیں یہ بھی کہاکہ اب دیگر ریاستیں انہدامی کارروائی کرنے سے گریز کریں گی، ایڈوکیٹ کپل سبل نے دیگر ریاستوں میں کی جانے والی کارروائی پر اسٹے کی مانگ کی تھی۔ کس کے اشارے پر یہ کارروائی کی گئی۔ آئندہ سماعت میں اس کا جواب ملے گا۔
جہانگیرپوری میں جس طرح ہندو شرپسندوں کو انتظامیہ کی حمایت حاصل رہی یہ ملک کو اندھے کنویں میں لے جانے کے مترادف ہے۔ بغیر اجازت جلوس کی کس کی سرپرستی میں جلوس نکالا گیا؟ ایک بار نہیں تین بار جلوس نکالاگیا۔ پہلے دو بار خود مسلمانوں نے جلوس کو بحفاظت وہاں سے نکال دیا لیکن سازش ناکام ہوتے دیکھ کر ہندو تنظیموں نے تیسری بار جلوس نکالااور مسجد کے پاس پہنچ کر گالی گلوج شروع کردی۔ اس پر بھی مسلمانوں نے کوئی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے بعد ہندو شرپسندوں نے مسجد پر بھگوا جھنڈالہرانے کی کوشش کی۔ اشتعال انگیز نعرے لگانے شروع کردئے، جسے سن کر کسی انسان کا بھی خون کھول سکتا ہے۔ ہندو شرپسندوں کے ہاتھوں میں تلوار، بھالے، پھرسا، لاٹھی پسٹل وغیر قانونی ہتھیار تھے جسے وہ لہرا رہے تھے اور مسلمانوں کو گالیاں دے کر للکار رہے تھے، مسلمانوں پر حملے کر رہے تھے جس کے جواب میں مسلمانوں نے پتھراؤ شروع کیا۔ مسلمانوں کے پتھراؤ شروع کرتے ہی ہندو انتہا پسند بھاگ گئے۔ سامنے پولیس آگئی جس کے بعد متعدد پولیس والوں کو چوٹیں آئیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں نے جلوس نکالنے والوں پر پتھراؤ کیا تھا تو پھر ان میں سے کوئی زخمی کیوں نہیں ہوا۔ ظاہر ہی سی بات ہے کہ اگر ان میں سے کوئی زخمی ہوا ہوتا تو میڈیا والے اور میڈیا کی انکرائیں بیلی ڈانس کرکے زخمیوں کا انٹرویو لے رہی ہوتیں۔ جہانگیرپوری میں 24گرفتاریاں ہوئی ہیں جن میں تقریباً سارے مسلمان ہیں۔ ان میں سے پانچ پر قومی سلامتی ایکٹ لگایا گیا ہے اور ان میں سے ایک انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) نے منی لانڈرنگ کے معاملے میں معاملہ بھی درج کیا ہے۔
مسلمانوں کو ہر طرف سے گھیرنے کی کوشش کے تحت پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت مہم چلائی گئی۔ گزشتہ آٹھ برسوں سے جو نفرت کی کھیتی کی جارہی تھی وہ لہلہا رہی ہے. عدالت کی خاموشی اور انصاف کرنے میں ناکامی ان شرپسندوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ ہندوستان میں شاید دنیا کی حکومت پہلی ہے جو نفرت پھیلانے پر خاموش رہتی ہے بلکہ ہمت افزائی کے لئے طرح طرح کے پروگرام کرواتی ہے اور شرپسندوں کو بچانے کے کسی حد تک چلی جاتی ہے۔ ہندوستان اب تک ہندوستان اس لئے ہے کہ یہاں کے مسلمان فسادی نہیں ہیں، ہندود انتہا پسندوں کی طرح ملک کو توڑنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی تمام مساجدمیں پانچوں وقت ملک کی خوش حالی، امن و اسلامتی اور ملک کی ترقی کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں۔ ہندوستان میں ایسی کوئی عبادت گاہ ہے جہاں اس طرح پابندی کے ساتھ روزانہ پانچوں ملک کے حق میں دعائیں کی جاتی ہوں، اس کے باوجود مسلمان ہی ملک کے غدار ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ گھی کو جلانے والی، دو دھ کو بہانے والی اور گوموتر اور گوبر کو کھانے والی قوم سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
بہت عمدہ مضمون ۔ آپ نے ہندوستان کا موجودہ سیاسی، سماجی اور قانونی بحران کا بےباک الفاظ میں تجزیہ پیش فرمایا ہے۔ ملک تباہی کے دہانے ہے۔ برادر وطن کی یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ اقلیتوں کا نقصان ہے، جبکہ دراصل یہ ن کا اور ان کی آنے والی نسلوں کا بڑا خسارہ ہے۔ اللہ انہیں ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے۔
ReplyDeleteبہت عمدہ مضمون ۔ آپ نے ہندوستان کا موجودہ سیاسی، سماجی اور قانونی بحران کا بےباک الفاظ میں تجزیہ پیش فرمایا ہے۔ ملک تباہی کے دہانے ہے۔ برادر وطن کی بہت بڑی تعداد یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ اقلیتوں کا نقصان ہے، جبکہ دراصل یہ ن کا اور ان کی آنے والی نسلوں کا بڑا خسارہ ہے۔ اللہ انہیں ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے۔
ReplyDelete