دوسری قسط
عابد انور
اردو اخبارات اور خبروں کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لئے بغیر صحافت کے بارے میں بات کرنا صحافت کے ساتھ ناانصافی اور معیاری صحافت کی حق تلفی ہوگی۔ صحافت میں خوبیوں اورخامیوں کی نشاندہی لازمی ہے اور اردوصحافت کے 200سال کی تاریخ اردو یواین آئی سروس کے حوالہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یواین آئی کی اردو سروس سے ہندوستان کے اردو اخبارات میں ایک نیا انقلاب آیا اور یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ہندوستان میں اردو صحافت کی نقیب اردو یواین آئی ہے۔اسی سروس کی وجہ سے آج ملک سے اتنی بڑی تعداد میں اردو اخبارات نکل رہے ہیں۔اردو یواین آئی کی شروعات سے پہلے کسی بھی اردو اخبار کو نکالنے کے لئے 50تا60اسٹاف ارکان درکارہوتے تھے تاہم اردو یواین آئی سروس کے آغاز کے بعد اب صورتحال بدل گئی ہے اور5تا6افراد کے ساتھ بھی اب کوئی چھوٹا اخبار نکالاجاسکتا ہے کیونکہ یواین آئی اردو سروس تمام چیزیں تیار دیتی ہے۔ اردو یواین آئی کی خبروں میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ معیار کے ساتھ ساتھ ان خبروں کا پیمانہ بھی ہو۔ اخبارات کا ہم جب جائزہ لیتے ہیں تو ہم کو دونوں پہلووں کو سامنے رکھنا چاہئے۔اخبارات کی جانب سے یہ شکایت کی جاتی ہے کہ خبریں معیاری نہیں ہے۔یہ بات کچھ حد تک درست ہوسکتی ہے لیکن دوسری طرف یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اخبارات کو ملتا کیا ہے۔جب تک اخبارات کو مالی طورپر خود مختار نہیں کیاجائے گا اُس وقت تک اچھی اورسچی خبروں کی اُمید نہیں کی جاسکتی کیونکہ اخبارات کی اپنی مجبوری ہوتی ہے۔منصفانہ خبروں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ ایک حقیقت ہے۔اس کومان کر چلنا چاہئے۔ سرکردہ میڈیا ادارے یواین آئی کی خبروں کی ترسیل اور ان کی تیاری کے مراحل کے طریقہ کار کی تفصیلات معلوم کرتے ہیں۔جو پیداوار ہوگی، اسی طرح سے وہ کام کرے گی۔ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ اردو اخبارات کے معیار میں کمی آئی ہے۔نیوز اور ویوز کا فرق بہت تیزی سے مٹ رہا ہے۔نیوزسے اخبار کی شناخت ہوتی ہے نہ کہ ویوز سے۔کوئی بھی معاملہ ہوا تو یہ دیکھنا چاہئے کہ کب ہوا؟کیاہوا؟کیوں ہوا؟کہاں ہوا؟کیسے ہوا؟کون؟جب تک یہ بات نہیں ہوگی مکمل خبر نہیں بنے گی۔حالیہ کچھ برسوں میں قومی خبروں کی جگہ اخبارات میں کم ہوتی جارہی ہے۔جس علاقہ کا اخبار ہے، اس علاقہ کی خبریں شائع ہورہی ہیں۔اخبار میں ہر دو کی نمائندگی ہونی چاہئے۔کچھ لوگوں کی یہ شکایت ہوتی ہے کہ اردو اخبارات میں باسی خبریں شائع کی جاتی ہیں۔اردو اخبارات کو خبروں کی تلاش خود کرنی چاہئے نہ کہ پریس ریلیز پر انحصار کرنا چاہئے۔ایک صحافی جب خبربناتا ہے تو وہ تمام پہلووں کومدنظررکھتے ہوئے خبر سازی کا کام کرتا ہے۔ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم اخبارکو کیسے بہتر بناسکتے ہیں؟اردو زبان کو کیسے فروغ دیاجائے۔ساتھ ہی اردو اخبارات کے مسائل ہیں اور ان کو مستقبل میں کس طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس پہلو پر بھی نظر ہونی چاہئے۔اردواخبارات کے ساتھ ہمارا رویہ تعاون والا ہونا چاہئے۔جب کوئی خرچ نہیں کرے گا تو اچھے پروڈکٹ کی امید کیسے ممکن ہوسکے گی۔اگر اردو اخبارات پر بھی اسی سوچ کے ساتھ رقم خرچ کی جائے تو امید ہے کہ اردو اخبارات کے معیارات بھی بدلیں اورمزید بہتر ہوں گے۔ایک صحافی وہ ہوتا ہے جو خبر لکھتے ہوئے تمام علاقہ، مسلک سے بالاتر ہوکرایمانداری کے ساتھ خبر لکھتا ہے۔ آج اس میں بھی علاقہ، طبقہ اور دیگر چیزوں کو دیکھا جانے لگا ہے جو مناسب نہیں ہے۔ اردو اخبارات میں ترقیاتی خبروں کا احاطہ نہیں کیا جارہا ہے جو بہتر رجحان نہیں ہے۔ایسی خبریں اہم ہوتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق عوامی مفاد،عوامی مسائل اور ان کے حل سے ہوتا ہے۔
بزم صدف انٹرنیشنل کی جانب سے منعقدہ ایوارڈ تقریب و جشن اردو صحافت کے دوسرے دن ’اردو صحافت کی دو صدی:عظیم وراثت اور عصر حاضر کے تقاضے‘کے موضوع پر ڈاکٹر مصطفی سروری ایسوسی ایٹ پروفیسر مولاناآزادنیشنل اردو یونیورسٹی نے حیدرآباد میں اردو صحافت کی موجودہ تفصیلی صورتحال پر روشنی ڈالی اور شہر کے اخبارات کی خامیوں کی سمت بھی نشاندہی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ حیدرآباد کی اردو صحافت ان پیشہ وارانہ خطوط پر نہیں ہے جیسی کہ ہونی چاہئے۔اردو صحافت اپنے اہداف سے ہٹ گئی ہے۔اس طرح اس نے دیگرزبانوں کی صحافت سے خود کوالگ کرلیا ہے۔ افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ اردو اخبارات مسلم مسائل کو کور نہیں کرتے۔اخبارات کی جانب سے غیر پیشہ وارانہ طریقے اختیار کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کا قاری ان سے ٹوٹ گیا ہے۔ اردو اخبارات کے اداریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ اکثر وبیشتر انگریزی اخبارات کے اداریوں کے چربے ہوتے ہیں۔اردو کے اخبارات کے صحافتی ضابطہ اخلاق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اداریوں میں ان انگریزی اخبارات کا حوالہ دیں جہاں سے یہ اٹھائے گئے ہیں۔ان کا حوالہ نا دینا دراصل صحافتی بددیانتی ہے۔اردو اخبارات کے ذمہ داروں کے پاس اس بات کا ڈاٹا نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ اردو اخبارات کا قاری کیا چاہتا ہے؟سمینار میں ریسرچ اسکالرس کو اس حوالہ سے موضوعات دیئے جائیں تاکہ وہ اس حوالے سے کام کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ مسلم طبقہ کی خواندگی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ اس ریڈرشپ کو اردو اخبارات اپنی طرف مائل نہیں کرپارہے ہیں اور جہاں تک مواد کا تعلق ہے صورتحال مایوس کن ہے۔اردو اخبارات کی سونچ پیشہ وارانہ نہیں ہے۔اردو اخبارات میں کارٹونس بھی نہیں ہوتے۔
جہاں تک عوامی اخبار کا تعلق ہے‘ ”جام جہاں نما“ کو اردو کے اولین اخبار کی سند دی جاسکتی ہے جس کے ناشر ہری دت اور ایڈیٹر سدا سکھ لعل تھے۔ ’جام جہاں نما‘ کی مقبولیت اور اس کے مضامین سے پیدا ہونے والے جوش اور ولولہ کے پیش نظر برطانوی حکومت کے اس وقت کے چیف سکریٹری ولیم ورلڈ وتھ بیلے نے ایک خفیہ فائل تیار کی تھی جس میں ”جام جہاں نما“ پر کنٹرول اور سینسرشپ کی ہدایت تھی۔ ”جام جہاں نما“ ہی کی وجہ سے 1823ء میں پہلا پریس ایکٹ رائج ہوا۔ جہاں تک مولوی محمد باقر کے دہلی اردو اخبار کا تعلق ہے یہ بھی ایک ہفت روزہ تھا جس نے انگریزی سامراج کے خلاف قلمی جہاد کیا وہیں ہندو مسلم اتحاد کا محرک بھی بنا۔ مولوی محمد باقر نے جب اخبار نکالا تو ان کی عمر 57 برس تھی۔ یہ اردو کا لیتھو اساس اولین مطبوعہ اخبار ہونے کی وجہ سے اپنے وقت کا ایک عجوبہ عظیم تھا۔
اردو کے معتبر اخبار
1879ء میں روزنامہ ”مظہرالعجائب“ ایڈیٹر مصطفےٰ حسین شائع ہوا۔ کلکتہ سے شیخ احسن اللہ سندگری دہلوی نے 1881ء میں ”دار السلطنت“کی اشاعت کا آغاز کیا جس کے ایڈیٹر متھورا پرساد سومر تھے۔ پہلے ہفت روزہ پھر سہ روزہ اخبار کی حیثیت سے یہ عام ہوا۔ اسی دور میں ایک نمائندہ روزنامہ ”اخبارعام“ تھا جو ہفتہ روزہ سے روزنامہ میں تبدیل ہوا۔اسی سال حکیم محمد حسین نے مدراس سے ہفتہ وار ”احسن الجرائد“ نکالا۔ 1882ء میں شاہ عبدالعزیز گھٹالہ نے ”عزیز الاخبار“، 1884ء میں محمد عظیم الدین نے ”اتحاد“، سید علی قادر بہار نے ماہنامہ ”جلو? سخن“ 1887ء میں جاری کیا۔ 1893-94ء میں ”اخبارِ عام“ شائع ہوا۔ اس اخبار کی روزانہ اشاعت دو ہزار سے بھی زائد ہو گئی تھی۔ اس کا ہمعصر انگریزی اخبار ”سول اینڈ ملٹری گزٹ“ صرف 1400 چھپتا تھا۔ ”اخبار عام“ کا جانشین ”پیسہ“ اخبار تھا جس کے ناشر محبوب عالم تھے۔ آج بھی لاہور میں ”پیسہ اخبار اسٹریٹ“ اسی زمانہ کی یادگار ہے۔ یہ اردو روزناموں میں سرفہرست تھا۔ 1895ء سے 1900ء تک مدراس سے ”مخبر دکن“ ہفتہ وار ایڈیٹر سید عبدالقادر فقیر، ”نیر آصفی“ ہفتہ وارایڈیٹر اسدالدین احمد، ”آفتاب دکن“ ہفتہ وار ایڈیٹر سید جلال الدین گھائل، ہفتہ وار ”اتفاق“ ایڈیٹر عبدالملک شائع ہوئے۔ 20ویں صدی کے آغاز میں مولانا ظفر علی خان کی زیر ادارت ”زمیندار“ کی اجرائی سے ”پیسہ“ اخبار کے وجود کو خطرہ ہونے لگا آخر یہ بند ہو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ”پیسہ“ کے علاوہ ”اودھ اخبار“ اور ”صلح کل“ تین روزنامے شائع ہوتے تھے جو اعتدال پسند صحافت کا نمونہ تھے۔ تاہم انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی نے زمیندار، ”ہندوستانی“، ”الہلال“ اور ”ہمدرد“ جیسے اخبارات کو مقبول عام بنادیا۔ اسی دوران ”ہندوستان لاہور“، ”دیپک امرتسر“، ”دیش لاہور“، ”اردوئے معلی(کانپور)“، ”مسلم گزٹ(لکھنؤ)“، ”مدینہ (بجنور)“، ”ہمدم (لکھنؤ)“، ”سوراج (الہ آباد)“ نے عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا اور عوام کو آزادی کی قومی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دی۔ کانگریس، مسلم لیگ، ہندومہاسبھا، آریہ سماج، خلافت کمیٹی اور علی گڑھ تحریک نے اردو اخبارات اور جرائد و رسائل کے فروغ میں حصہ بھی لیا اور ان پر اثر انداز بھی ہوئے۔ اُس دور میں ”زمیندار“ سب سے مقبول عام اخبار تھا جس کی تعداد اشاعت 30,000 تک پہنچ گئی تھی۔ یہ 1903ء میں لاہور سے جاری کیا گیا تھا۔ اس سے ایک سال پہلے ہی مولوی ثناء اللہ خان نے ہفتہ وار وطن جاری کیا جو 33سال تک شائع ہوتا رہا۔ 1901ء میں شیخ عبدالقادر نے ”مخزن“ نکالا۔ 1908ء میں خواتین کا سب سے پہلا رسالہ جو دہلی سے نکلا اس کا نام ”عصمت“ تھا۔ اس کے مدیر شیخ محمد اکرم تھے بعد میں علامہ راشد الخیری اس کے مدیر بنے۔ 1909ء میں خواجہ حسن نظامی نے ولی اللہ کے حالات خانقاہوں اور عرسوں کے اصلاحات کے بارے میں ترویج و اشاعت کے لیے جولائی 1909ء میں ”نظام المشائخ“ نکالا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے ”غریبوں کا اخبار“ اور ”منادی“ بھی نکالا۔ ”منادی“ روزنامہ تھا جو 1974تک شائع ہوتا رہا۔ ان کے صاحبزادے خواجہ حسن ثانی نظامی اس کے مدیر ہیں۔ 1910ء میں مدراس سے ماہنامہ ”خورشید“ ایڈیٹر سید جلال الدین گھائل، 1911ء میں ماہنامہ ”المضمون“ ایڈیٹر منشی انصارالدین بے خود، 1912ء میں ماہنامہ ”مورخ“ ایڈیٹر مولوی محمد بدیع الدین، 1914ء میں روزنامہ ”قومی رپورٹ“ ایڈیٹر مولانا شرر آلندوری شائع ہوئے۔ رضوان احمد مرحوم کے تحقیقی مقالے ”بیسویں صدی کی اردو صحافت“ کے مطابق بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں غیر ممالک میں بھی اردو صحافت کا آغاز ہوچکا تھا۔ 1910ء میں ٹوکیو سے اردو رسالہ ”اسلامک فریٹرنیٹی“ شائع ہوا جس کے مدیر مولانا برکت اللہ بھوپالی تھے۔ یہ جاپان کے علاوہ چین، برما، ہندوستان، سنگاپور اور کولمبو میں بھی جاتا تھا۔ یہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرتا تھا۔ 1912ء میں مولانا محمد علی جوہر نے ”نقیب ہمدرد“ اور حمید الانصاری نے ”مدینہ“ کی اشاعت شروع کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا ہفت روزہ ”الہلال“ اردو صحافت کا ماہ کامل تھا جس نے مسلمانوں میں سیاسی اور مذہبی شعور بیدار کیا۔ یہ پہلا اردو اخبار تھا جس نے اپنے ڈیزائن،اپنے ڈیزائن، لے آؤٹ اور خبروں کے ساتھ تصاویر کی پیش کشی کو اہمیت دیتے ہوئے جاذبنظراخبار پیش کیا۔ اس اخبار کا مواد اور انداز بیان اس کی اصل روح تھا۔ 1913ء میں میرٹھ سے ”توحید“ جاری ہوا۔ اسی سال حاجی ساجد احمد کی ادارت میں پٹنہ سے ”پٹنہ“ اخبار شائع ہوا۔1916ء میں مولانا عبدالمجید شرر آلندوری نے مدراس سے ماہنامہ رسالہ ”نور“ خواتین کے لیے شائع کیا۔ اکتوبر 1916ء میں لکھنؤ سے ہمدم جاری ہوا جو مسلم لیگ کا ترجمان تھا جس کے ایڈیٹر جالب دہلوی تھے۔ 1919 میں لاہور سے مہاشے کرشن نے گاندھی جی کی پالیسیوں اور نیشنل کانگریس کی تائید میں ”پرتاب (اخبار)“ جاری کیا۔ اردو داں ہندوؤں میں اس کا اچھا اثر تھا مگر حکومت وقت کے جبر کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے اشاعت مسدود کرنی پڑی۔ 1920ء میں لاجپت راؤ نے لاہور سے ”بندے ماترم“ نکالا۔ یہ پہلا اخبار تھا جو کارپوریٹ سیکٹر کے تحت شائع ہوا تھا۔ پہلا ہی شمارہ 10ہزار شائع ہوا۔ یہ صحت مند صحافت کا نمونہ تھا۔ 1921ء میں شاہ امان اللہ نے بجنور سے ”نگینہ“ اور ”الامان“ اخبار نکالا۔ حکیم اجمل خان کی ایماء پر یہ اخبار دہلی منتقل ہو گیا۔اسی سال لالہ شام لال کپور نے ”دسہری“ نکالا۔ اس سے پہلے وہ ”گروگھنٹال“ کے نام سے بھی اخبار نکال چکے تھے۔1922ء میں محمد عبداللطیف فاروقی نے مدراس سے روزانہ ”آزادِ ہند“ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ 1923ء میں لالہ خوشحال چند خورسند نے ”ملاپ“ جاری کیا۔ اس سے پہلے وہ ”آریہ گزٹ“ نکالتے تھے۔ ”ملاپ“ دہلی، جالندھر، حیدرآباد دکن اور لندن سے شائع ہوتا تھا۔ اب دہلی سے شائع ہورہا ہے۔ 1923ء میں سوامی شردھانند نے لالہ دیش بندھو گپتا کے ساتھ مل کر ”تیج“ نکالا جس کی راجستھان، یوپی اور دہلی میں اچھی اشاعت تھی۔ جاگیردار ریاستوں کی جانب سے بار بار اسے بند کیا گیا۔1924ء میں ریاست کشمیر کا پہلا اخبار ”رنبیر“ جاری ہوا جو مہاراجا گلاب سنگھ کے بیٹے رنبیر سنگھ کے نام سے موسوم تھا۔ ایک سال بعد یہ بند ہو گیا۔ 1925ء میں مولانا عبدالماجد دریابادی نے ’سچ“ نکالا جو 1933ء تک جاری رہا بعد میں اس کا نام ”صدق“ اور پھر ”صدق جدید“ کے نام سے جاری رہا۔ 1925ء میں ہفتہ وار ”الجمعیت“ جاری کیا۔ اس کی ادارت سے مولانا عرفان پھر ابوالاعلیٰ مودودی، بلال احمد زبیری، مولانا عبدالوحید صدیقی اور مولانا محمد عثمان فارقلیط وابستہ رہے۔1927ء میں لاہور سے انقلاب“ عبدالمجید سالک اور مولانا غلام رسول مہر نے جاری کیا۔ یہ دستاویزی اخبار تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔1927ء میں مولانا ابوالجلال ندوی،سید سلطان بہمنی اور نذیر احمد شاکر نے مدراس سے روزنامہ ”مسلمان“ جاری کیا جو اب بھی جاری ہے اور تا ملناڈو کا واحد اردو اخبار ہے جس نے کتابت کے فن کو زندہ رکھا ہے اور مکمل اخبار کی کتابت کی جاتی ہے۔ 1928ء میں دہلی سے مسلم لیگ کا ترجمان روزنامہ ”وحدت“ شائع ہوا۔ یہی وہ دور تھا جب علامہ اقبال کی شہرت بام عروج پر تھی۔ انہوں نے لاہور کے کچھ اخبارات کی سرپرستی بھی کی۔ 1929ء میں محمد عبداللطیف فاروقی اور عبدالکریم آزاد نے مدراس سے ”آزاد نوجوان“ کی اشاعت شروع کی۔مولانا ابو الجلال ندوی نے 1933ء میں ماہنامہ ”بشریٰ“، محمد اسماعیل سیٹھ نے 1934ء میں ہفتہ روزہ ”دلچسپ“، قاضی محمد عبدالرحمن نے ماہنامہ ”رفیق“ شائع کیا۔ مرتضیٰ احمد خاں میکش اور چراغ حسن حسرت کی ادارت میں ”احسان“ 1934ء میں جاری ہوا جو اردو کا پہلا روزنامہ تھا جس کے دفتر میں ٹیلی پرنٹر نصب کیا گیا۔ اس دور کے اخبارات میں ”احرار، نیشنل کانگریس، زم زم، پاسبان، مساوات اور تریاق“ تھے۔ جبکہ لکھنؤ سے انیس احمد عباسی نے ”حقیقت“ جاری کیا جو روزنامہ سے ہفتہ وار میں تبدیل ہوا۔ قاضی عبدالغفار نے حیدرآباد سے پیام کی اجرائی کا آغاز کیا۔ 1931ء میں مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے مولانا آزاد کی سرپرستی میں ہفتہ وار ”پیغام“ نکالا۔ کچھ عرصہ بعد ”ہند“ جاری کیا۔ شبلی بی کام نے ہفتہ وار ”خیام“ جاری کیا۔ 1935ء میں علامہ شاکر نائطی نے عمرآباد تاملناڈو سے ماہنامہ ”مصحف“، محمد کریم الدین نے روزنامہ ”مسلم گزٹ“ مدراس، غلام محی الدین نے روزنامہ ”مسلم رپورٹ“ مدراس، ایمان گوپاموی، سید سلطان بہمنی نے 1936ء میں ماہنامہ ”رسالہ حیات“، مولانا ابوالجلال ندوی ”سہیل“ روزنامہ، سید سلطان بہمنی نے 1937ء میں ماہنامہ ”ہمدرد“ شائع کیا۔ 1938ء میں پٹنہ سے نذیر حیدر نے ”صدائے عام“ جاری کیا۔ سہیل عظیم آبادی نے روزنامہ ”ساتھی“ کی شروعات کی جسے غلام سرور نے لے لیا تھا۔ 1939ء میں ممبئی سے غلام احمد خان آرزو نے روزنامہ ”ہندوستان“ جاری کیا جو سرفراز آرزو کی ادارت میں اب بھی شائع ہورہا ہے۔ متحدہ ہندوستان کے مشہور اخبارات میں لاہور سے 1940ء میں ”شہباز“ کی اجرائی عمل میں آئی۔ اسی سال لاہور سے حمیدنظامی نے ”نوائے وقت“ نکالا۔ چار سال بعد یہ روزنامہ ہوا۔ یہ پاکستان کا ملٹی ایڈیشن اخبار ہے۔ 1942ء میں دہلی سے میر خلیل الرحمن نے ”جنگ“ جاری کیا۔ 1947ء میں کراچی منتقل کیا۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا اخبار ہے۔ کئی شہروں سے شائع ہوتا ہے۔ 1944ء میں جواہرلال نہرو نے ’قومی آواز“ کی بنیاد ڈالی جس کے ایڈیٹر ڈاکٹر حیات اللہ انصاری تھے۔ یہ کانگریس کا ترجمان اور نیشنلسٹ اخبار تھا۔ مختلف شہروں سے اس کے ایڈیشن شائع ہونے لگے۔ افسوس کہ اس اخبار نے دم توڑ دیا۔(آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا)
باقی آئندہ۔
اردو صحافت پر آپ کی دوسری قسط پڑھنے کو ملا۔ مضمون معلومات سے بھر پور ہے۔ پتہ یہ بھی چلا کہ ایک زمان تھا
ReplyDeleteجو اردو صحافت کا زریں دور تھا۔ حالات تیزی سے بدلے اور آج اردو صحافت خستہ حالی کے دور سے گزر رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری ایڈیٹوریل ٹیم سے لیکر ہم اردو قراء پر عائد ہوتی۔ ں