حجاب تو بہانہ ہے دراصل مسلمان نشانہ ہے



 عابد انور 

 کرناٹک کے ساتھ حجاب پر آج کل پورے ملک میں بحث چل رہی ہے اور اس پر وہ لوگ بھی لب کشائی کر رہے ہیں جن کو حجاب کے بارے میں کوئی خاص معلو مات نہیں ہے۔کئی پارٹیوں اور خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے وابستہ مسلم لیڈرحجاب کے خلاف میدان میں آگئے ہیں اور وہ قرآن کی آیتوں کی غلط تشریح و توضیح پیش کررہے ہیں۔ ان کا مقصدبھگوا دہشت گردوں کے ہر قدم کو جائز ٹھہرانا ہوتا ہے اور وہ جس شدت سے اسلام کے خلاف بولیں گے ان کے اسی کے حساب سے ان کے ریٹ طے ہوں گے۔ ٹی وی مباحثے میں دو سگے بھائیوں کو حجاب کے بارے میں لڑتے دیکھا۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بی جے پی میں شریک ہونے کے لئے کس طرح کا مسلمان ہونا شرط ہوتا ہے۔ کرناٹک میں اوڈپی سے شروع ہونے والا یہ معاملہ آج پورے ملک میں پھیل گیا ہے اور فسطائی طاقتیں اور پارٹیاں اسے ہندو مسلم کرواکر جاری انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ حجاب کے خلاف وہ لوگ اس لئے میدان میں آگئے ہیں اس کے بہانے اسلام کی مخالفت کرنا ہے اور مسلمانوں کے خلاف قتل عام کے منصوبے کو مزید آگے بڑھانا ہے۔ حجاب تو ایک بہانہ ہے دراصل اسلام اور مسلم خواتین کو نشانہ بنانا ہے۔ہندوستان کی فسطائی طاقتیں حکومت کے اشارے یا خاموش تائید کے سہارے ہر ایک چھوٹے سے وقفہ کے بعد مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی تحریک چھیڑ دیتے ہیں۔ اس کا مقصد جہاں مسلمانوں کو تعلیم، سیاست، سماج اور معیشت میں اعلی مقام حاصل کرنے سے روکنا ہوتا ہے وہیں ہندوؤں میں مسلمانوں کے لئے دورازہ بھی بند کرنا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے ہندوؤں کو پردہ سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔پردہ ہر مذہب میں رائج رہا ہے اور ہر سوسائٹی کے لوگ پردہ کسی نہ کسی صورت میں کرتے رہے ہیں لیکن مسلم خواتین اور مسلم طالبات کو پردہ کرنے سے اور پردے کے ساتھ اسکول او رکالج میں داخل ہونے سے روکنا مسلمانوں کے خلاف بہت بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ مسلم لڑکیاں کیا پہنیں، کیا کھائیں، اس سے ہندوؤں کو کیا پریشانی ہوسکتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان کو کوئی پریشانی نہیں ہوسکتی لیکن چوں کہ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کرکے ان کو ذہنی طور پر غلام بنانامقصد ہے اس لئے وہ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ جب کہ اسکول، کالج،یونیورسٹی، دفاتر یہاں تک کے سرکاری دفاتر میں ہندوؤں کو اپنے حساب سے ہر طرح کے مذہبی عمل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں جہاں ہر تھانے میں مندر ہیں لیکن مسجدنہیں، ہر کام ہندو مذہبی رسم ناریل پھوڑ کر یا بھومی پوجن کرکے کیا جاتا ہے جو کہ سیکولر ملک کے خلاف ہے، ہر دفتر میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے فوٹو لگے ہوتے ہیں، ہندو مرد ٹیکے لگاکر آتے ہیں، ہندو عورتیں سندور لگاتی ہیں، منگل سوتر پہنتی ہیں، ساڑی پہنتی ہیں، اور دیگر ہندو علامات لگاکر آتی ہیں لیکن مسلمانوں نے کبھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ نہ اس وقت اعتراض کیا جب وہ حکمراں تھے اور نہ اس وقت جب کہ وہ محکوم ہیں۔ 



یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں اور یہاں کا مہذب طبقہ اور سول سوسائٹی خاموش بنا ہوا ہے۔ ہندوستان میں تمام طبقوں کو اپنے مذہب کے حساب سے ہر طرح کی آزادی حاصل ہے لیکن گذشتہ دہائیوں سے حکمراں پارٹی، ان کو ماننے والے یا ان کے علم بردار مسلمانوں کو اپنے مذہب  پر عمل کرنے نہیں دے رہے ہیں اور وہ بہت سے لوگوں کی وہ جان بھی لے چکے ہیں اور حکومت نے اب تک ان لوگوں کے خلاف کوئی بھی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں حکومت بھی درپردہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہے۔حجاب ایک مہذب لباس ہے اور اس سے نہ صرف خواتین درندوں کی نظروں سے محفوظ رہتی ہیں بلکہ اس کا شکار ہونے سے بچ جاتی ہیں۔ 

کرناٹک میں جاری حجاب تنازعہ عدالتوں تک پہنچ گیا ہے اور عدالت نے حجاب پہننے کی اجازت دی ہے اور ابھی سماعت جاری ہے۔ اس نے قومی سطح پر زبردست بحث چھیڑ دی ہے۔ دو مذاہب کے طالب علموں کی حیثیت ایک نظر آتی ہے۔ کرناٹک میں حجاب کا یہ پہلا تنازعہ نہیں ہے۔ حجاب کا مسئلہ 2009 میں سامنے آیا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کرناٹک کا پہلا حجاب تنازعہ شروع ہوا تھا اوریہ ساحلی ضلع ہے اور یہ فرقہ پرست تنظیموں کا ایک مسلسل درسگاہ اور تربیت گاہ رہی ہے۔ اسی طرح ساحلی اضلاع اڈوپی اور جنوبی کنڑ میں فرقہ وارانہ جھگڑے ہو رہے ہیں۔ اس وقت حجاب کا یہ تنازع کرناٹک کے کئی کالجوں میں پھیل چکا ہے اور کہیں کہیں تشدد کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ باگل کوٹ کے پی یو سی کالج پر پتھراؤ، اس دوران عدالت میں سماعت جاری ہے۔حجاب تنازعہ، جو اس بار کرناٹک میں قومی بحث کا موضوع ہے، سب سے پہلے چھ طالب علموں سے شروع ہوا تھا۔ اُڈپی مہیلا پی یو کالج کی چھ طالبات کے درمیان یہ تنازعہ ہفتوں پہلے سے شروع ہوا تھا۔ سب سے پہلے کرناٹک میں حجاب کیس کیسے شروع ہوا؟ اس معاملے میں کیا ہوا؟,حجاب کا پہلا تنازعہ کیا تھا؟ یہ واقعہ اگست 2009 میں پیش آیا جب بنٹوال کے ایک طالب علم سری وینکٹ رمن سو امی کو جماعت کے کالج کے برقعہ پہننے طالبہ کے پاس جانے سے روک دیا گیا۔کالج کی کچھ طالبات کی جانب سے حجاب پہننے والی لڑکی عائشہ یاسمین کی شکایت کے پس منظر میں گورننگ باڈی نے عائشہ کو اسکارف نہ پہننے کا مشورہ دیا ہے۔ اول تو  بیکم کے بعض طالبہ نے کہا ہے کہ وہ برقعہ نہ پہنیں، لیکن اعتراضات کئے گئے۔اس وقت منگلور فرقہ وارانہ فسادات کے لیے مشہور شہر تھا۔ اس دوران ایک طالبہ کو دوپٹہ پہن کر کالج آنے کی اجازت نہ دینے پر کافی تنازعہ ہوا ہے۔

کرناٹک میں حجاب کا یہ پہلا تنازع تھا اور اپوزیشن کے حق میں بات کی گئی۔ دائیں بازو کی تنظیموں نے اس سیاست کو مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے کہ حقوق نسواں حجاب کی مخالفت کرتی ہیں۔ وینکٹ رمن سوامی کالج کی بی کام کلاس میں صرف دو مسلمان لڑکیاں تھیں۔ ان میں سے ایک طالبہ، برقعہ اور حجاب کے بغیر کلاس میں جا رہی تھی، لیکن عائشہ نے حجاب پہن کر کلاس میں آنے کا مطالبہ کیا۔کچھ مسلم تنظیموں کی طرف سے ان کی شمولیت کے بعد، تنازعہ سیاست میں ایک حقیقت بن گیا۔عائشہ نے کہا تھا کہ ”میں برقعہ یا دوپٹہ پہن کر کالج جا نا چاہتی ہوں۔ میں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوں، ابتدا میں کالج میں الیکشن شروع ہوئے۔ اس کے بعد برقعہ، اسکارف پر پابندی لگا دی گئی۔ میں حجاب پہن کر اس کالج میں پڑھنا جاری رکھنا چاہتی ہوں۔جنوبی کنڑ ضلع کلکٹر پونراج نے حجاب تنازعہ کے بعد مداخلت کی۔ اسی وقت ایس وی ایس کالج سبسڈی یافتہ پرائیویٹ کالج تھا اور یہ واضح تھا کہ براہ راست کارروائی ممکن نہیں تھی۔ اسکول کا بھی معائنہ کیا جائے گا۔پننوراج نے ایسا ہی کہا تھا۔وینکٹارامانسوامی کالج کے گورننگ باڈی کے گورنر پی گنیش پربھو نے واضح کیا تھا کہ عائشہ کو اسکارف پہننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے کیونکہ طالبات نے ایک بیان لکھا تھا کہ اگر انہیں کالج میں برقع یا اسکارف دیا جاتا ہے تو وہ زعفرانی پہنیں گی۔کالج انتظامیہ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ''اگر عائشہ کو برقع پہننے کی اجازت ہے تو کیا وہ کالج میں داخلہ لے سکتی ہیں اگر دیگر طالب علموں کو یہ بلیک آؤٹ کیا جائے کہ ایاپا سوامی نقاب پہنایا گیاہے؟''کالج کے بعد عائشہ کو دوسرے کالج جانا پڑا۔ اس معاملے میں ریاست میں بی جے پی کی حکومت تھی۔ یہ اعلان بی ایس یدیورپا کی قیادت والی حکومت کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر اروند لمباولی نے کیا۔ ریاست میں حجاب کے معاملے کے وقت میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے وزیر اروند لمباولی نے کہا، ”میں کچھ نہیں جانتا۔ میں اس معاملے پر دوبارہ رپورٹ کروں گا اور بعد میں جواب دوں گا۔اس سے قبل حجاب کا تنازع موڈبیرے کالج میں بھی ہوا تھا۔ کالج انتظامیہ کا سخت حکم نامہ موضوع بحث بن گیا۔ میڈیا میں رپورٹنگ۔ سینٹ الوسیئس کالج میں بھی یہی تنازع کھڑا ہوا۔ بعد میں پٹور کے رام کنجیشور کالج میں برقع پر پابندی لگا دی گئی۔ بہت سے کالجوں میں ڈریس آف کوڈ کے طور پر برقع اور سکارف پر پابندی ہے۔ لیکن موجودہ سیاسی رنگین پس منظر قومی سرخیاں بنا رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے سینئر محقق، جے شری باجوریا نے حجاب سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ ماہ کے دوران، ہندوستانی ریاست کرناٹک کے کئی سرکاری تعلیمی اداروں نے مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیرقیادت ریاستی حکومت نے امتیازی پابندی کی حمایت کی ہے اور گزشتہ ہفتے ایک ہدایت منظور کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ''ایسے کپڑے نہیں پہنے جائیں جو مساوات، سالمیت اور عوامی امن و امان میں رکاوٹ بنیں۔''کرناٹک حکومت نے اسکولوں میں حجاب کے معاملے پر ہندو اور مسلم طلباء کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ اور مظاہروں کے درمیان اسکولوں اور کالجوں کو تین دن کے لیے بند کردیا ہے۔ 8 فروری کو کرناٹک ہائی کورٹ نے مسلم طلباء کے حجاب پہننے کے حق کی حمایت کرنے والی درخواستوں کی سماعت کی۔ اسی دن وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ہندو نوجوانوں کے ایک ہجوم کو حجاب پہنے ایک مسلم لڑکی کو جارحانہ طور پر ہراساں کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایک دن بعد، ایک رپورٹ کے مطابق، مزاحمت کی اگلی صف میں رہنے والی چھ مسلم طالبات کے داخلہ فارم، بشمول ان کے فون نمبر اور گھر کے پتے، آن لائن لیک ہو گئے۔حجاب پر پابندی بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت ہندوستان کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہ قانون کسی بھی شخص کو بغیر کسی جبر کے اپنے مذہبی عقائد کے اظہار کے حق، اظہار رائے کی آزادی اور بغیر کسی امتیاز کے تعلیم کی ضمانت دیتا ہے۔ اسی طرح خواتین اور لڑکیوں کو مذہبی لباس پہننے پر مجبور کرنا بھی بین الاقوامی قانون کے تحت مذہبی آزادی اور رازداری کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

حجاب پر پابندی اس کی تازہ ترین مثال ہے کہ کس طرح ہندوستان کی حکومتی مشینری مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ پسماندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے انہیں بڑھتے ہوئے تشدد کے سائے میں رہنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ قومی اور ریاستی سطح پر، بی جے پی حکومتوں نے بہت سے قوانین اور پالیسیاں نافذ کی ہیں جو مذہبی اقلیتوں اور کمزور کمیونٹیوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف منظم طریقے سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔دسمبر 2021 میں، ہندو انتہائی قوم پرستوں نے، جن میں سے اکثر بی جے پی سے وابستہ تھے، نے اتراکھنڈ میں مذاہب کی تین روزہ پارلیمنٹ کا اہتمام کیا، جس میں مقررین کھلے عام مسلمانوں کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ریاست ہریانہ میں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ نے ہندو نگران گروپوں کے عوامی مقامات پر نماز پڑھنے سے روکنے کے مطالبے کی حمایت کی۔ محنت کش طبقے کے مسلمانوں کو اکثر بے خوفی سے مارا پیٹا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ہراساں کیا جاتا ہے۔ سینکڑوں معروف تعلیم یافتہ مسلم خواتین کی تصاویر خریداری کے لیے ایپس لگائیں۔ چلا گیا۔ یہ ان کی تذلیل، تذلیل اور دھمکانے کے لیے کیا گیا۔یہ سب حکومت لڑکیوں کی ''تعلیم اور شرکت'' کی وکالت کر رہی ہے۔ اسے ان تقاضوں پر پورا اترنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسکول شامل ہوں۔ نیز، حکومت کو چاہیے کہ وہ لڑکیوں کے حجاب پہننے کے حق کا بغیر کسی خوف کے تحفظ کرے۔

اگر مسلم طالبات کا حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا قانون کے خلاف ہے تو ہندو طلبہ طالبات اور اساتذہ کا مذہبی نشانات کے ساتھ تعلیم حاصل یا پڑھانا کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ اگر حکومت حجاب پر پابندی لگانا چاہتی ہے تو پہلے اسے تمام تھانوں سے مندر کو ہٹانا چاہئے، دفاتر سے تمام مورتیوں کے تصاویر نکال دینا چاہئے۔ کسی بھی پروجیکٹ کے شروع یا افتتاح کے موقع پر بھومی پوجن اور ناریل پھوڑنا اور منتر کا جاپ بند کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ تمام مذہبی نشانات جو غیر قانونی طور پر اپنائے جاتے ہیں ان پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ جو لوگ مسلم طالبات کے لئے حجاب کو ترقی میں رکاوٹ مانتے ہیں انہیں ان مسلم طالبات کے حقوق کی حفاظت کے لئے آگے آنا چاہئے کہ وہ کیا پہنیں، کیا کھائیں، کیسے رہیں، کس طرح تعلیم حاصل کریں۔انہیں مسلم طالبات کے حقوق کے غم میں دبلے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مسلم طالبات اپنا حق سمجھتی ہیں، اپنے اختیارات سے واقف ہیں۔ وہ لوگ ہندو خواتین کو پہلے تمام رسومات سے نجات دلائیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ طبقہ بھی مسلم طالبات کے حجاب پہننے کی مخالفت کر رہا ہے جس پر ہندو راجاؤں نے بریسٹ ٹیکس لگا رکھا ہے اور اسے پستان ڈھکنے کی اجازت نہیں تھی۔ نادر ذات کے نانگیلی کو ہی یاد رکھتے تو دلت طلبہ کبھی اعلی ذات کے بہکاوے میں نہیں آتے۔

Comments