عابد انور
نوے کی دہائی اور خاص طور پر گزشتہ سات آٹھ برسوں سے سنگھ پریوار اور اس کی سیاسی بازو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بہت ہی خوبصورتی سے دو چیزیں یہاں کے اکثریتی طبقہ کے ذہن میں انڈیل دی ہیں۔ ایک ہے نفرت اور دوسری جہالت۔ اگرآپ اکثریتی طبقہ سے بات کریں تو یہ دونوں چیزیں ابھر کر سامنے آ جاتی ہیں۔ ان کے سامنے نہ تو کوئی دلیل کام کرتی ہے اور نہ کوئی منطقی اورنہ عقلی بات۔ واٹس اپ یونیورسٹی یا دیگر ذرائع ابلاغ سے ان تک جو کچھ بھی پہنچ گیا ہے وہ ان پر گیتا سے بھی زیادہ ایقان رکھتا ہے۔ جو چیزیں ان میں انڈیلی گئی ہیں خواہ وہ کہیں سے ممکن نظرنہ آتی ہوں لیکن ان کو ان کے مکمل ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے کیوں کہ یہ باتیں ان تک بی جے پی اور آر ایس ایس کے ذریعہ پہنچتی ہیں اور ان پر پردھان سیوک کا مہر ہوتا ہے۔ پردھان سیوک کی کوئی بھی صورت میں ہوسکتی ہے، ان کی خاموشی، ہمت افزائی اور مجرموں کے تئیں ان کا لب سلا ہونا۔ اس صورت حال سے پورا ملک متاثر ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کرنے والا دھرم سنسد یا بلی بائی، سلی ڈیل یا کلب ہاؤس اس پر آج تک پردھان سیوک یا اعلی آئینی عہدہ پر بیٹھا کسی شخص نے لب نہیں کھولا ہے۔ کیرالہ کی ایک بیمار ہتھنی کی موت پر واویلا مچانے والا حکمراں ٹولہ، سول سوسائٹی یا مہذب سماج کی طرف قابل توجہ ردعمل کا نہ آنا یہ بتاتا ہے کہ پورا ملک نفرت اور جہالت میں گرفتار ہوچکا ہے۔نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کلب ہاؤس آڈیو ٹاک میں ایک برہمن ہندو لڑکا اپنی مسلم ماں کی آبروریزی کی خواہش اور حسرت کا اظہار کاکرتا ہے اور کس طرح نفرت اور جہالت نے ملک کے نوجوان طبقہ کو بیمار بنادیا ہے۔ ایک طرح سے یہ ملک مسلمانوں کے قتل عام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس کا اشارہ جینوسائڈ واچ نے بھی دیا ہے۔ قتل عام کے جتنے علامات تھے کم بیش ایک دو کو چھوڑ کر پورے ہوچکے ہیں۔اگر بی جے پی اترپردیش اسمبلی انتخاب جیت جاتی ہے اور 2024عام انتخابات میں بھی مودی فتحیاب ہوجاتے ہیں۔ اس کا خدشہ بڑھ جائے گا۔ اس طرح کی اپیل پر جمہوریت کے چاروں ستونوں کی خاموشی یہ بتاتی ہے کہ غیر معلنہ طور پروہ لوگ اپیل کرنے والوں کے ساتھ ہیں کیوں کہ خاموشی رضا پر دلالت کرتی ہے۔ سول سوسائٹی کے سرکردہ افراد، سینئر وکلاء اور دیگر افراد کی اپیل پر بھی کوئی ٹھوس کارروائی نہ کرنا خاموش شمولیت کی طرف اشارہ کرتاہے۔ یتی نرسمہا نند کو مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل پر گرفتار نہیں کیا گیا ہے بلکہ خواتین کے بارے میں فحش کلمات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سے بھی قتل عام کی اپیل کی حمایت کو سمجھا جاسکتا ہے۔
اترپردیش اسمبلی انتخابات کو پوری طرح سے ہندو مسلم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔یوگی، مودی امت شاہ کھلے عام ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا رہے ہیں لیکن الیکشن کمشنر مکمل خاموش ہے۔ 22جنوری کو کیرانہ میں وزیر داخلہ امت شاہ نے جس طرح قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اور مسلمانوں کو نشانہ پر لیا ہے وہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ اترپردیش اسمبلی انتخابات پوری طرح نفرت کے میدان میں لڑے جائیں گے۔ انہوں نے پوری طرح نفرت بھڑکانے کی کوشش کی، کورونا پروٹوکول کی خلاف ورزی کی لیکن وہ قانون سے بالاتر ہیں کس کی ہمت ہے کہ انہیں اس حرکت کے لئے تنبیہ کرے۔ شمشان قبرستان سے لیکر ابا جان اور پھر 80فیصد بمقابلہ 20 فیصد اور گرمی اور چربی نکالنے کے اشتعال انگیز بیان کے ساتھ اترپردیش میں نفرت کی سیاست جاری ہے۔ اس نفرت کا مقابلہ کرتا کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔بی جے پی کے اشارے پر مسلمانوں کو کنفیوژ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلما نوں کو سوچنا ہوگا کہ لیڈران کا تو کچھ نہیں ہوگا لیکن ان کی شامت ضرور آئے گی اس لئے اس وقت مسلم قیادت کا شور مچانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لئے اس وقت یہی بہتر ہوگا کہ وہ بدترین دشمن میں سے بدتردشمن کو منتخب کریں۔ بی جے پی کا نشانہ سیکولر پارٹیوں کا خاتمہ ہے خواہ وہ پارٹی ’شو کالڈ‘ پارٹی کیوں نہ ہو۔ اس کے لئے اس نے کچھ پارٹیوں کو منتخب کیا ہے جو اترپردیش سمیت مختلف ریاستوں میں کام کررہی ہیں اور خاص طور پر جہاں انتخاب ہورہے ہیں یا آئندہ انتخابات ہونے والے ہیں۔ لہذا مسلمانوں کو خود فیصلہ کرنا ہے وہ بدتر ین دشمن کو مضبوط کریں گے یا بدتر دشمن کو منتخب کریں گے۔
نفرت انگیز سیاست، جرائم اور اشتعال انگیزی بی جے پی کی خوراک ہے۔ اسی سے بی جے پی کے لیڈر پروان چڑھے ہیں۔ جن سنگھ اور پھر بی جے پی کے جتنے بھی لیڈر ہوئے ہیں یا ہیں ان کی پیدائش نفرت سے ہوئی ہے۔بی جے پی کے صف اول کے لیڈروں کی ماضی کو دیکھا جاسکتا ہے آڈوانی ہوں یا اٹل بہاری واجپئی، مرلی منوہر جوشی ہوں یا کوئی اورسبھوں نے نفرت کے پچ پرہی پاری کھیلی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا ان کا شیوہ رہا ہے۔ اسی نفرت کے سہارے اکثریت کے دلوں میں مسلمانوں کے دلوں میں نفرت پیداکرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہندوؤں خاص طور پر دلت، مہادلت اور او بی کے ایک بڑے طبقہ کو سنگھ پریوار یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ ایک دن مسلمانوں کی ساری دولت، دکان،مکان، کھیت کھلیان اوریہاں تک ان کی بہو بیٹیاں سب تمہاری ہوجائیں گی بس تم لوگ مودی کا ساتھ دیتے رہو۔ اس یقین دہانی پر اعتماد کرتے ہوئے دلت، مہادلت اور او بی سی کی اکثریت نے مسلمانوں کی جائداد پر نشان بھی لگالیا ہے کہ یہ ہمارا ہوگا،وہ تمہارا ہوگا، فلاں ان کا ہوگا۔ اس نفرت کے کھیل کو سمجھئے جب کہ آپ کا قتل عام ہورہا ہوگا تو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ بلکہ انہیں آ پ کے قتل ہونے کا انتظار ہوگا۔
بی جے پی کے رہنماؤں کو مسلم مخالف مسلم دل آزاری والا بیان دینے میں مہارت حاصل ہے۔ کچھ سالوں قبل سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے سینئر رہنما اٹل بہاری واجپئی وارانسی کے ایک جلسہ عام میں یہ کہہ چکے ہیں بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔اسی طرح بی جے پی کے دیگر رہنماؤں کے بیانات جگ ظاہر ہیں۔گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی نے کانگریس کی صدر محترمہ سونیا اور ان کے بیٹے اورکانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی کے بارے میں نازیبان الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں یہاں کوئی مکان کرایہ پر بھی نہیں دے گااور راہل گاندھی کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا تھاکہ انہیں یہاں کوئی ڈرائیور بھی رکھنا پسند نہیں کرے گا۔ سنت کبیر نگر کے خلیل آباد کے چوراہے پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی کے اس وقت کے ممبر پارلیمنٹ، موجودہ وزیر اعلی اور فائر برانڈ لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ واضح لفظوں میں کہا تھا کہ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لینا چاہئے۔ورون گاندھی اور بی جے پی کی زہریلی سی ڈی لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہوا ہوگا۔ جس کی پاداش میں ورون گاندھی کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی تھی۔ لیکن بدزبانی، بدتمیزی، بدخلقی، دل آزادی اور نسلی امتیاز کے حق میں بیان دینے کی سزا ن لیڈران کونہیں ملتی اور کبھی یہ اپنی سزا کے منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔یہی وجہ ہے کہ یہ رہنما خود کو قانون سے بالاتر گردانتے ہیں۔جو دل میں آتا ہے بولتے ہیں جو من کرتا ہو کرتے ہیں کیوں کہ انہیں یہ معلوم ہے کہ ان کا کچھ نہیں بگڑے بلکہ سیاست میں ان کا قد اونچا ہی ہوگا۔جس دن ایسے لیڈروں کو سزاملنی شروع ہوجائے گی اسی دن سیاست میں غیر شائشتہ بیان بازی کا دروازہ اپنے آپ بند ہوجائے گا۔
گزشتہ مارچ 2017 میں اختتام پذیر اترپردیش کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں 36 فیصدرکن اسمبلی پر مجرمانہ معاملے درج تھے۔ ایسوسی ایشن برائے جمہوری حق (اے ڈی آر) کے مطابق، 2017 میں اترپردیش کے اسمبلی کے انتخاب میں منتخب کردہ 403 میں سے فیصد 143 یعنی یعنی 36 فی صدرکن اسمبلی کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ جن کی بر وقت سماعت ہوئی تو یہ لوگ جیل جا سکتے تھے۔143میں سے 83 ممبران بی جے پی ہیں۔ 11 ممبران ایس پی کے 4 ممبران بی ایس پی کے اور 1 ممبرکانگریس کے اور تین آزاد ایم ایل اے ہیں۔یہی نہیں اترپردیش سرکار میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ دونوں پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ جس میں انہوں نے 2014 میں لوک سبھا انتخابات میں داخل کئے گئے حلف نامے بتاگئے ہیں۔ جس میں قتل جیسے سنگین جرم شامل ہیں۔ ان میں 302 (قتل)، 153 (دنگا بھڑکانا) اور 420 (دھوکہ) شامل تھے۔بی جے پی میں سنگین جرائم کرنے والے سیاستدان سب سے زیادہ ہیں۔ بی جے پی کی سب سے زیادہ 83 یعنی 27 فی صد، ایس پی کی (24 فیصد)بی ایس پی 4 (21 فی صد)، کانگریس کا ایک (14 فی صد) اور تین دیگرپر سخت آپرازی کیس درج ہیں. بی جے پی کے کیشوی پرساد موریا کے خلاف قتل سمیت کئی سنگین کیس درج ہیں. انہوں نے مئی 2014 میں جو حلف نامہ انتخابی کمیشن کو دیا تھا، اس کے مطابق ان کے خلاف 11 غیر قانونی معاملات ہیں۔ ان میں 302 (قتل)، 153 (دنگا بھڑکانا) اور 420 (دھوکہ) شامل تھے۔اسی طرح گجرات جسے ماڈل کے طور پر پورے ملک میں پیش کیا گیاتھا نئی کا بینہ میں 40 فیصد وزرائے مجرمانہ پس منظر رکھنے والے ہیں جن میں سنگین جرائم کے تحت مقدمات درج ہیں۔ اسی طرح بی جے پی کی حمایت سے حکومت بنانے والے نتیش کابینہ میں 29میں سے22 یعنی 76 فیصد وزراء مجرمانہ شبیہ رکھنے والے ہیں۔
مسلمانوں کے لئے غور و فکر کا مقام ہے کہ وہ کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔ ان کا لائحہ عمل انہیں قتل عام سے بچا سکتا ہے۔ انہیں باعزت زندگی بسر کرنے کا حق مل سکتا ہے۔ جذبات اوراشتعال انگیزی سے دور رہ کر انہیں سوچناہوگا۔ اپنے لیڈروں کو شناخت کرکے ان پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ اشتعال انگیز تقریر کرنے والے لیڈروں سے کناہ کشی کرکے نہایت حکمت عملی، بصیرت اور فہم و فراست سے کام لینا ہوگا۔ جذبات کے رو میں بہنے سے گریز کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ اپنی باری کا انتظار کرنے والے رویے کو چھوڑ کر مظلوموں کا ساتھ دینا ہوگا۔ اس قدم سے انشاء اللہ ظلم کا دروزہ اپنے آپ بند ہوجائے گا۔
بہت شاندار جائزہ۔جزاک اللہ
ReplyDeleteBahut bahut shukriya
ReplyDeleteہمیشہ کی طرح بہت ہی شاندار مضمون آپ نے لکھا ہے یہ وقت کی آواز ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری سوئی ہوئی قوم اس مضمون میں لکھی گئی ایک ایک بات پر غور کرے اور یہ سوچے کہ ان کا حقیقی ساتھی کون ہے آپ نے ان تمام باتوں کو اس میں شامل کیا ہے ہے جو میری سوچ میں تھے اس سے آپ کی اور ہماری ہم خیالی ظاہر ہوتی ہے اس مضمون کو جو ہم سب کے دل کی آواز ہے اترپردیش کے سرکردہ اخبارات میں شائع کروانے کی ضرورت ہے ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کو اترپردیش میں پھیلایا جائے تو بہت ممکن ہے کہ ہماری سچ کی آواز عوام تک پہنچے
ReplyDeleteبے حد شکریہ، ذررہ نوازی،
ReplyDelete،ماحول کیپراگندگی سے کسی کو مفر نہیں ضروری یہ ہے کہ اس دیش کے اکثریتی اقوام تک اقلیتی طبقات اپنے وسائل اور وساطت سے صاحب مضمون کے اس پختہ خیالی کو عام کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔ گرچہ ظاہری طور پر یہ عمل دشوار ہے تاہم ملت کے لیے اس سے بہتر اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج بھی اکثریتی طبقات کے افراد گاؤں کی زندگی میں شہروں کے برعکس ہے ۔۔اور یہی روح ہندوستان کی جان بھی ہے
ReplyDeleteسب ملکر کوشش کریں انشاء اللہ کامیابی ملے گی۔ حقیقی معنوں میں عمل کی ضرورت ہے۔
Deleteاللہ تعالیٰ آپ کی دور اندیشی بات سب کو سمجھا دے
ReplyDeleteبہت عمدہ مضمون۔
ReplyDeleteحقائق پر مبنی شاندار تجزیہ۔
مضمون کے آخری سطور میں مذکور مشورے نہ صرف قابل عمل ہیں بلکہ وقت ضرورت بھی۔
اللہ زور بیاں اور تاثیر قلم کی نعمت سے مزید نوازے۔ آمین
bahut bahut shukriya jazakallah
ReplyDelete