پابہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون



عابد انور 


جس قدر قدیم ہندوستان میں جائیں گے اور خاص طور پر آریوں کے ملک میں آنے اور ملک کے اصلی باشندوں کو غلام بنالینے کے بعد پائیں گے کہ انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں تھی، ظلم، استحصال، انسانی حقوق کی پامالی، انسانیت کا جنازہ، انسان کوجانوروں سے بھی بدتر سمجھنا جیسا کہ اس وقت یہ نظریہ ملک میں بہت تیزی سے رائج ہورہا ہے،انسانوں کا قتل، بھیڑ کے ہاتھوں معصوم افراد کاوحشیانہ قتل، پولیس کا غنڈوں، درندوں، وحشیوں، لٹیروں اور دہشت گردوں کی جماعت میں تبدیل، عدلیہ کا متعصب اور امتیازمیں ملوث، مقننہ کا انتقامی قانون بناناوغیرہ کا دور دورہ تھا۔ انسانیت سے جس قدر گرا جاسکتا تھا اس وقت گرا ہوا تھا۔ خواتین مردوں کی ملکیت ہوتی تھیں، انہیں ناپاک اور غلیظ تصور کیا جاتاہے، ان کو کوئی حق حاصل نہیں تھا اور محض جنسی تشنگی دور کرنے کا ایک ذریعہ تھیں۔ شوہر کے مرنے کے بعد ستی ہوجانا ان کے مذہب کا حصہ تھا۔ بیواوؤں کی زندگی اجیرن تھی اور اب بھی ہے۔ لڑکیوں کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا تھا اوراس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں کو زندہ جلادیا تھایا انہیں دربدر بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا تھا۔لڑکیوں کو برہمچاری،داسی، بنایا جاتا تھا جہاں ان کا جنسی استحصال بڑے پیمانے پر ہوتا تھا جیسا کہ اس وقت آشرموں، مٹھوں، مندروں اور لڑکیوں کی پناہ گاہوں میں ہورہا ہے۔ معاشی حالت ابتر تھی اور مال و دولت تھی بھی تووہ سب مندروں کے پاس تھی۔ مندراور مٹھ تو مالدار تھے لیکن انسان انتہائی خستہ حال، لوگوں کے بدن کپڑے نہیں تھے، ایک دھوتی ہوتی تھی جسے مرد اور عورت دونوں ہی باندھتے تھے۔ بہت سی جگہ تو عورتوں کو سینے ڈھاپنے کی اجازت نہیں تھی، عام ہندوستانیوں کو پیٹ بھر کھانے کو نہیں ملتا تھا، نچلے طبقے سانپ بچھوں، میڈک، چوہے، کیکڑے،کچھوا اور اس طرح کے حیوانات،نباتات اور چرند پرند سے گزارہ کرتے تھے۔ وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن ان تمام وسائل پر مخصوص طبقہ کا قبضہ تھا۔ عام لوگوں کی زندگی کیڑے مکوڑے کی طرح تھی۔ ایسے میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد ہوئی تھی۔ مسلمانوں نے نہ صرف کھانے پینے کا طریقہ سکھایا گیا بلکہ کپڑا پہننا بھی سکھایا۔ سلے ہوئے کپڑے مسلمانوں کی آمد کے بعد یہاں کے لوگوں نے پہننا شروع کیا جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے یہاں کے مرد اور عورتیں صرف ایک دھوتی ہی اوپر سے نیچے باندھتی تھیں۔ جیسا کہ مہابھارت اور رامائن کے سیریلوں میں دکھایا گیا ہے حالانکہ یہ کہانیوں پر مبنی ہے اور اس کی کوئی ٹھوس تاریخی حقیقت نہیں ہے جیسا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی کہا ہے۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد انسان کو انسان سمجھاگیا، صنعت و حرفت کو ترقی دی گئی، کاشت کاری کانظام نافذ کیا گیا، کھیتوں کی پیمائش ہوئی، ذخیرہ اندوزی کا پیمانہ مقرر ہوا وغیرہ وغیرہ۔ ابتداء میں سیکڑوں کی تعداد میں مسلمان آئے تھے لیکن مسلمانوں نے انصاف، اخوت، مساوات، برابری کا َحق، انسان کو انسان سمجھنا اور اس کے ساتھ انسانیت کا سلوک کرنا، کوئی بھوکا نہ سوئے اس کی جتن کرنے کی وجہ سے مسلمانوں نے یہاں حکومت کی۔عدل جہانگیری اس لئے پورے عالم میں مشہور ہوا۔ اورنگیزیب عالمگیر کے دور حکومت میں ہندوستان کا رقبہ بہت بڑا تھا۔ افغانستان سے لیکر میانمار تک حکومت تھی اور مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے کے بعد کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ ہندوستان کو سونے کی چڑیامسلمانوں کے دور حکومت میں کہا گیا تھا۔ ہندوستان کی جی ڈی پی  28فیصد تھی جو پوری دنیا کی ایک چوتھائی معیشت تھی۔ ہندوستان کی بدقسمتی اور ہندوستانی قوم کی تنگ دلی، تنگ ظرفی اور احسان فراموشی دیکھئے کہ سب سے زیادہ ہندوستان میں اورنگزیب سے ہی نفرت کی جاتی ہے۔ ان کو یاد کرنے کی بجائے، ان کی تعریف توصیف اور خراج عقیدت پیش کرنے کے بجائے ان کو ویلن بناکر پیش کردیا گیا ہے اور اس کے سہارے مسلمانوں سے نفرت کی جاتی ہے۔ ان کے پاس اپنا کچھ نہیں ہے اور جو کچھ انگریزوں نے انہیں تھما دیا ہے ان لوگوں ان لوگوں نے انہیں گیتا کا اشلوک سمجھ لیا۔ہندوستان پر مسلمانوں کے اتنے احسانات ہیں کہ دس جنم میں بھی ہندوستان مسلمانوں کا احسان نہیں چکا سکتا۔لیکن مسلمانوں کے زوال اور حکومت کے جانے کے بعد سب سے زیادہ نشانہ مسلمانوں کوہی بنایا گیا۔ احسان فراموش قوم انگریزوں نے پہلے نشانہ بنایا کیوں کہ انہوں نے حکومت مسلمانوں نے چھینی تھی۔ آزادی کے بعد ہندوؤں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور ایک حکمراں زمیندار قوم مسلمانوں کو گزشتہ 70برسوں میں دلتوں سے بھی بدتر حالت میں پہنچادیا گیا اور گزشتہ دہائیوں سے  اس میں بہت ہی شدت آئی ہے اور تمام حقوق غیر معلنہ طور پر سلب کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اس میں صرف شدت پسند جماعت ہی شامل نہیں ہیں بلکہ ہندوستانی جمہوریت کے چاروں ستون اس میں ہمہ تن مصروف ہیں اور جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ مسلمانوں پر شدت سے ضرب لگاتا ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کے چاروں ستون، عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا نے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کرنے، تحت الثری میں پہنچانے، تمام آئینی حقوق سے محروم کرنے، مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور اہل وطن کے دل میں نفرت پیدا کرنے اور مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس کا جب تک منصفانہ جائزہ نہیں لیا جاتا ہے اس وقت تک مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔




مسلمانوں کو جہاں کچھ معاملوں میں عدلیہ سے انصاف ملا ہے وہیں سب سے زیادہ ناانصافی  بھی یہیں ہوئی ہے۔ ایک خاص عینک سے دیکھنے کے عدلیہ کے نظریے نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور راتوں رات انہیں دہشت گرد قرار دیاجاتا رہا اور عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس کے لئے میں چند مثال پیش کر رہا ہوں جس سے اندازہ ہوگا کہ عدلیہ کا مسلمانوں کے ساتھ رویہ کیسا ہوتا ہے اور عدلیہ کا مائنڈ سیٹ کیا ہے۔  غالباً 2013 میں ایک سیمینار کے کوریج کے لئے اندور گیا تھا۔ سیمینارسے ایک دن قبل اندور پہنچا تھا ہم لوگوں نے اندور میں مسلمانوں کے حالات، وقف املاک اور خاص طور پر سیمی پر پابندی کے تناظر میں حقائق جاننے کی کوشش کی اور اس کے تحت وہاں کے بااثر مسلمانوں سے خواہ ان کا تعلق کانگریس سے ہو یا بی جے پی یا کسی اور نظریہ سے ملاقات کی اور حقیقت حال جا ننے کی کوشش کی اور اس کے نتاظر میں سوالات کئے۔ بہت ہی سنگین، تکلیف دہ اور چونکانے والے حقائق سامنے آئے سیمی پر پابندی کا معاملہ بھی سمجھ میں آیااور بھرپور معلومات حاصل کیں لیکن ہمارے میزبان نے منع کردیا اس طرح کی آپ کوئی رپورٹنگ نہ کریں ورنہ اس کے لئے ساری ذمہ داری سیمینار پر ڈال دی جائے اور پھر مسلمانوں کو مستقبل میں اس طرح کا کوئی سیمینار کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ہم چار تھے سب دہلی کے تھے۔ ہم نے ان کا خیال رکھا اور اس پر کوئی رپورٹ تحریر نہیں کی۔ البتہ کئی مضامین میں اس طرف اشارہ کیا۔میں صرف عدلیہ کی مثال پیش کر رہا ہوں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ مدھیہ ہائی کورٹ کے اندور بینچ میں ایک مسلم لڑکے کا مقدمہ زیر غور تھا جس کو سیمی سے وابستہ ہونے کے شبہ میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث، شاید وہ سیمی سے بھی وابستہ نہیں تھا لیکن شبہ میں اس کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ضلع کورٹ نے اس کی ضمانت کی درخواست خارج کردی تھی۔ اس کے خلاف اندور ہائی کورٹ کے بینچ میں اپیل کی گئی تھی۔ جب عدالت کے سامنے مقدمہ پیش کیا گیا  اور پیش کار نے کہا کہ یہ غریب اور بے قصور بچہ ہے اسے شبہے میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ یہ اس کے مقدمے کی فائنل ہے۔ جج نے جیسے ہی دیکھا کہ یہ کسی مسلم لڑکے کے مقدمہ کی فائل ہے بغیر فائل دیکھے، بغیرکسی دلیل سنے اور بغیر کسی جرح کے یہ کہتے ہوئے فائل پھینک دی کہ”یہ آتنک وادی ہے اس کو جیل میں سڑنے دو“۔یہ ہوتا ہے عدلیہ کا مائنڈ سیٹ جس کی وجہ سے دہشت گردی کے الزام یا کسی اور الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کی ضمانت نہیں ہوپاتی اور سپریم کورٹ سے انصاف بھی ملتا ہے اس وقت تک وہ مسلم نوجوان عمر قید کی سزا کاٹ چکے ہوتے ہیں۔ جتنے بھی مسلم نوجوان رہا ہوئے ہیں وہ سب کے سب سپریم کورٹ سے ہوئے ہیں اور ان میں سے بیشتر کو نچلی عدالت یہاں تک ہائی کورٹ نے سزائے موت کی سزاسنائی تھی۔ اس طرح ہندوستان کے چاروں ستون کا ایک حد تک مقصد پورا ہوجاتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کی زندگی تباہ کرنا۔ یہی وقت ہوتا ہے جب کچھ کرتا ہے پڑھائی میں اچھا کرتا ہے، کوئی تجارت قائم کرسکتا ہے۔کسی شعبے میں نام کما سکتا ہے لیکن اسی عمر کو یہ لوگ تباہ و برباد کردیتے ہیں۔

سیمی سے ہی وابستہ مدھیہ پردیش میں فرضی انکاؤنٹر کا معاملہ میں یہی صورت حال ہے۔ اس کاؤنٹر میں آٹھ مسلمانوں کو مار دیا گیا تھا۔اس انکاؤنٹر کو تمام حق پسندوں نے فرضی اور ماورائے عدالت قتل قرار دیا تھا۔ انکاؤنٹر کے اس کہانی پر کوئی بھی جس کے پاس ادنی ترین دماغ ہے یقین نہیں کرے گا۔ جیسا کہ پولیس نے بتایا تھا کہ یہ لوگ لکڑی کی چابی سے تالا کھول کر بھاگے تھے۔ چادروں کے سہارے اونچی دیوار سے اترے تھے اور سب لوگ بھاگ کر ایک ہی جگہ پہنچے تھے۔ جیل میں کس طرح کے تالے ہوتے ہیں وہ سب جانتے ہیں کیا لکڑی کی چابی سے تالا کو کھولا جاسکتا ہے اور چادر کے سہارے اتنی اونچی دیوار پار کی جاسکتی ہے۔اس دیومالائی کہانی پر صرف ہندوستان میں وہی لوگ جس کا مائنڈ سیٹ پہلے سے ہے وہی یقین کرے گا۔ پولیس کی اس تھیوری کو نچلی اور عدالت عالیہ نے بھی تسلیم کرلیا۔ جو جج لکڑی کی چابی سے تالاکھولنے کے فارمولے کو تسلیم کرلے اس جج کے بارے میں کیا کہیں گے؟  اس کے علاوہ  پہلو خاں کے معاملے میں ویڈیو میں خاطیوں کے فوٹو ہونے کے باوجود عدالت اس بناپر خاطیوں کوبری کردیتی ہے کہ حملے کے وقت اس کا موبائل کا لوکیشن وہ نہیں تھا جہاں پر حملہ بتایا گیا ہے۔ کوئی حملہ آور موبائل کو کہیں رکھ کر بھی حملہ کرسکتا ہے۔ ویڈیو فوٹیج جب سامنے ہے تو پھر اس کے بعد کسی اور چیز کیا ضرورت ہوتی ہے۔

اولاً تو مسلمانوں کے ساتھ کوئی مشکل سے کھڑا ہوتا ہے لیکن کوئی کھڑا بھی ہوتا ہے کہ ان پر حملے کئے جاتے ہیں، انہیں جھوٹا الزام میں پھنساکر تباہ کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ یہ نظارہ ہم مستقل ملک کے ہر کونے میں دیکھ رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں کٹھوعہ آبروریزی معاملے میں سرگرم کردار اداکرنے والے اور معاملے کو دنیا کے سامنے لانے والے ایڈووکیٹ طالب حسین بکروال پولیس نے ایک جھوٹے کیس میں پھنساکر جیل بھیج دیا اور عدالت نے بھی پولیس کی تھیوری پر ایمان لاتے ہوئے ضمانت خارج کردی۔ اسی طرح حکیم طارق قاسمی اور مجاہد کا مقدمہ لڑنے والے شعیب خاں اور دیگر وکلاء کو مقدمہ لڑنے سے روکا گیا اور کئی بار عدالت میں  پولیس کی موجودگی میں ان پر جان لیوا حملہ ہوا لیکن عدالت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسی طرح کی یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف مقدمہ لڑنے والے ایک مسلم وکیل کی جان پر بن آئی ہے۔ ان کو اور ان کے خاندان کو جان کا خطرہ ہے۔ سیکڑوں بچوں کی  جان بچانے والے ڈاکٹر کفیل کو یوگی پولیس نے جیل میں ڈال دیا تھا اور چھ ماہ کے بعد ہائی کورٹ سے کسی طرح ضمانت ہوئی تھی۔ اس طرح کی ہزاروں مثالیں ہیں۔ جہاں وکیل، پولیس، انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور میڈیا نے انصاف کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان جرم کرتا ہے ملک کا پورا نظام اس کوسزا دلانے میں لگ جاتا ہے لیکن اگر کوئی ہندو مسلمانوں کے ساتھ جرم کرتا ہے تو ملک کا نظام اس کو بچانے میں لگ جاتا ہے۔ جب کہ ہندوستان کی شناخت مسلم دور حکومت میں متنوع، کثیر ثقافتی، بھائی چارہ اور خیرسگالانہ کی رہی ہے۔جہاں نہ صرف ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے بلکہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ 

اس کے علاوہ گزشتہ دہائیوں سے  منظم طور پر بجرنگ، ہندو یوواواہنی، درگا واہنی، وشو ہندو پریشد، ہندو سینا، گورکشک اور اس طرح کی دیگر سیناؤں نے مسلمانوں کے خلاف فساد برپا کئے اور مسلمانوں کا قتل کے ساتھ ان کی دوکان، مکان جلائے گئے اور ان کو زخمی کرکے اپاہج اور معذور کردیا گیا اب کرونا وائرس کے بہانے پورے ملک کے مسلمان نشانے پر ہیں لیکن پولیس ان شد ت پسند اور انتہا پسندوں ہندو تنظیموں کے افراد کو گرفتار کرنے کے بجائے مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل میں ٹھوس دیتی ہے اور بیشتر وہ افراد وہ ہوتے ہیں جن کے یہاں دو وقت کی روٹی کا انتظام نہیں ہوتا اور ان پر قومی سلامتی ایکٹ لگادیا جاتا ہے جہاں نہ کوئی دلیل کام کرتی ہے اور نہ کوئی وکیل کام کرتا ہے اور نہ ہی کوئی اپیل کا م کرتی ہے۔ جائزہ کمیٹی دیکھتی ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف مائنڈ سیٹ کی وجہ سے ان پر سے قومی سلامتی ایکٹ ہٹایا نہیں جاتا۔ ابھی حال ہی میں علی گڑھ لائیو فرضی انکاؤنٹر میں قتل کئے گئے نوشاد اور مستقیم کے گھر والوں کو ہاؤس اریسٹ کیا گیا ہے۔ ان کی خبر گیری کرنے اگر کوئی جاتا تھا ان پر بجرنگ دل والے پولیس کی موجودگی میں حملہ کردیتے تھے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ پولیس ہی بجرنگ والوں کو کسی وفد کے آنے کی اطلاع  دیا کرتی تھی اور آکر بجرنگ دل والے ان پر حملہ کردیتے تھے۔ان کی کوشش ہوتی ہے دنیا کو حقیقی صورت حال کا پتہ نہ چل سکے۔یہ سب حکومت کی پشت پناہی اور جمہوریت کے چاروں ستونوں کی پشت پناہی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔مسلمانوں کے ساتھ جتنے بھی گھناؤنا واقعات پیش آتے ہیں ان میں سے شائد ایک پر بھی عدالت نے ازخودنوٹس نہیں لیا ہے اور یہاں انسانی حقوق کمیشن بھی کبھی ازخود نوٹس نہیں لیتا بلکہ پولیس کی تھیوری پر ایمان لے آتا ہے۔ ایسی صورت میں مسلمان کہاں جائیں گے اور کس سے انصاف کی فریاد کریں گے جب منصف قاتل میں کوئی فرق نہ رہ جائے۔

9810372335

Comments

  1. بے انتہا اہم تحریر!
    یہ ایک عام تحریر نہیں بلکہ ایک تاریخ اور حقائق پر مبنی دستاویز ہے۔
    یہ بات روز روشن کی مثل عیاں ہے کہ وطن عزیز میں ہندوبھائیوں پر اسلام اور مسلمان کے بے پایاں احسانات ہیں اور ان کی بڑی تعداد اس کا معترف بھی ہے۔ لیکن جھوٹ اور مکاری کے بول بالا ہونے سے، حقائق چھپ سے گئی ہیں۔
    عابد انور سر نے بہت جمیل پیراۓ میں ان حقائق کو بیان کیا ہے۔
    وقت نکال کر سبھی حضرات اسے ایک بار ضرور پڑھیں۔

    عابد انور سر ! آپ کا بہت شکریہ۔
    آپ بڑی محنت اور لگن سے لکھتے ہیں۔
    اگر اس کا ہندی ورژن بھی ہوجاۓ تو زیادہ لوگوں تک آپ کا میسیج پہنچ پاۓ گا۔
    تاخیر سے کامنٹ کے لیے معذرت خواہ ہوں۔



    مہربان علی
    برانٹپور/ زید پور نئی دہلی
    ٢٠٢٢/٠٢/١٦

    ReplyDelete
  2. ، جزاک اللہ خیراً کثیرا
    ذرہ نوازی کا بے حد شکریہ

    ReplyDelete

Post a Comment