شاہین باغ خواتین تحریک کی دوسری سالگرہ:آوازاتنی مدہم کیوں ہوگئی



 عا بد انور 

ہندوستانی مسلمانوں خاص طور پر مسلم خواتین کی شبیہ بدلنے والی شاہین باغ تحریک کو گزشتہ 16 دسمبر کو پورے دو سال ہوگئے لیکن کم از کم دہلی میں دوسری سالگرہ کا شور جس طرح سنا جانا چاہئے تھا وہ شور نہیں سنا گیا، حالانکہ پٹنہ کے متعدد کے مقامات پر وہاں کی تنظیمیں، خواتین اور سماجی کارکنوں نے شاہین باغ تحریک کے دو سال مکمل ہونے پر اپنی موجودگی درج کرائی۔ اس کے علاوہ اترپردیش میں ایک دو جگہ اور کئی دوسری جگہ بھی لوگوں نے مظاہرہ کرکے قومی شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے) واپس لینے اوراین آر سی واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ تینوں زرعی قوانین کے حکومت کے واپس لینے کے بعد سڑک سے پارلیمنٹ تک سی اے اے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ قومی جمہوری اتحاد کے بعض اتحادی نے بھی سی اے اے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ شاہین باغ تحریک کی دوسری سالگرہ کے موقع پر پورے ملک میں اس کالے قانون کے خلاف شدید شور سنائی دینا چاہئے تھا۔ اس ٰقدر تو شور مچنا ہی چاہئے تھا کہ شاہین باغ تحریک کے دو سال پورے ہونے کو دنیا بھی جان جاتی اور دنیا کے تمام ممالک کے ذہن میں شاہین باغ تحریک کی یاد تازہ ہوجاتی لیکن افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جنتر منتر پر ایک چھوٹا سا پروگرام بھی ہوا لیکن اس میں شاہین باغ تحریک سے وابستہ خواتین کا کوئی خاص رول نہیں تھا البتہ اس تحریک سے وابستہ چند خواتین اس پروگرام میں ضرور شریک ہوئیں اور انہوں نے کسی طرح خلا کو پرکرنے کی سعی کی۔ اس موقع پر ایک بہت بڑے پروگرام کرنے کی ضرورت تھی اور ان تما م لوگوں کو یاد کرنے کی ضرورت تھی جنہوں نے اس تحریک کے دوران جان کی قربانی، یا اب بھی جیل کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ شرجیل امام، عمر خالد، عشرت جہاں، گلفام اور نہ جانے کتنے مسلم قانونی تحریک چلانے کے پاداش میں پابند سلاسل ہیں۔ حالانکہ بادی النظر میں ان پر کوئی معاملہ نہیں بنتا لیکن حکومت کی خوشنودی اور ایک طبقہ کی منشا کی تکمیل کے لئے انہیں جیل میں بند رکھا گیا ہے۔ عدالت کئی بار ان کے خلاف درج کئے گئے معاملے پر تلخ اور سخت تبصرے کرچکی ہے لیکن وہ بھی ضمانت دینے میں بے بس نظر آئی۔ شاہین باغ تحریک کی دوسری سالگرہ ایسا موقع ثابت ہوسکتا تھا جسے ایسے مسلم نوجوانوں کی بلاوجہ قید کی جانب دنیا کی توجہ مرکوز کی جاسکتی تھی لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔ یہ مسلمانوں کے انتشار، بدنظمی، عدم تنظیم،کسی کے ساتھ نہ چلنے کی عادت، گھرنہ نکلنے کا چلن،دوسروں کی تکلیف پر توجہ نہ دینے اور اپنی باری کا انتظار کرنے کا عندیہ ہے۔ 

شاہین باغ تحریک نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔اس تحریک کی حمایت میں پوری دنیا میں آواز سنی گئی تھی اور ہر جگہ اس تحریک کے حق میں مظاہرہ ہوئے تھے۔ کئی حکومت کے اراکین اور ممبران پارلیمنٹ اس تحریک کے حق میں یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ اس کی اواز میں آواز پوری دنیا میں ملائی جارہی ہے،صرف امریکہ میں ایک دن 30سے زائد مقامات پر شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ یوروپی یونین کے 700اراکین پارلیمنٹ میں سے چھ سو سے زائد نے چھ تجویزیں سی اے اے کے خلاف پیش کی تھی۔ عرب ممالک میں جو دفعہ 370کے معاملے میں کھل کر نہیں بول رہے تھے آج دونوں پر اجلاس بلایاتھا۔ امریکہ اور یوروپ میں مسلم خواتین کے تئیں جو نظریہ تھا وہ بدل گیا تھا۔ مسلمانوں کے تعلق سے جو نظریہ پیدا کیا گیا تھا وہ اس میں تبدیلی آرہی تھی۔ یہ سب شاہین باغ خاتون مظاہرین کی بدولت ہوا تھا۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے ہندوستان کے منظر نامے کوبھی بدل دیاتھا۔ سب سے اہم کام یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے ذہن سے خوف و دہشت کو نکال دیا تھا جس کی وجہ سے مسلمان اپنے حق کی آواز نہیں اٹھاپارہے تھے۔پورے ملک میں اس سیاہ قانون کے خلاف نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی آواز اٹھارہی تھیں اور اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنے طویل رات دن کا مظاہرہ اور دھرنا دے نئی تاریخ رقم کررہی تھیں۔ یہ خواتین کہتی تھیں کہ اس سے پہلے ہمارے بچے سڑکوں پر مرے ہم سڑکوں پر مرنے کو تیار ہیں۔ 



پٹنہ میں شاہین باغ تحریک دو سال مکمل ہونے کے موقع پر ملک بھر میں ایک بار پھر شہریت کا سوال اٹھایا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ تحریک کے دوران گرفتار کیے گئے تمام افراد کو رہا کیا جائے۔ اس معاملے پر پٹنہ میں کئی مقامات پر مظاہرے ہوئے۔ بدھ اسمرتی پارک کے سامنے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے اور اس کالے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس جدوجہد میں شامل ہونے والوں کی آنکھوں میں برابری، محبت اور فرقہ وارانہ امن و آشتی کی بنیادی اقدار کی بنیاد پر ہندوستان کی تعمیر کا خواب ہے۔اس جدوجہد میں حصہ لینے والے بہت سے ساتھی ابھی تک جھوٹے اور غیر منصفانہ مقدمات میں سلاخوں کے پیچھے ہیں، یو اے پی اے جیسے سخت قوانین کا استعمال کرکے ان کی بلند آواز کو دبا دیا گیا ہے۔ اس لیے جب تک یو اے پی اے کو مکمل طور پر منسوخ نہیں کیا جاتا، ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ہم اپنے آئینی اور جمہوری حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اور آج اپنی جدوجہد کو شاہین باغ کے چراغ سے چراغ  روشن کرتے ہوئے مساوی شہریت کا مطالبہ کرتے ہیں۔اس تنازع کی دوسری برسی پر 16 سے 21 دسمبر تک ملک بھر میں پرامن، چھوٹے بڑے احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔اس پروگرام کے ذریعے کسانوں کی دیرینہ تحریک، ان کی جیت اور اس سفر میں 700 کسانوں کی شہادت کو بھی یاد کیا گیا۔ عوام کے حقوق اور ان کی طاقت سب سے مقدم ہے۔جن لوگوں نے اس پروگرام میں حصہ لیا، ڈیموکریٹک کلچرل فرنٹ، بہار؛ بھارتیہ جناتیہ سنگھ، بہار؛ بہار مہیلا سماج؛ پیپلز رائٹرز ایسوسی ایشن، ابھیان سنسکرت کامنچ؛ روپیش، تنویر اختر، شکیل احمد خان، غالب خان، نویدیتا، افضل حسین، آسماخان، چندرکانتا، ابراررضا، خرم، افشاں، ظفرامام وغیرہ نے شرکت اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔اس کے علاوہ پٹنہ سیٹی میں  سی اے اے۔این آر سی کے خلاف احتجاج، شاہین باغ تحریک کے 2 سال مکمل ہونے کے موقع پرسیاسی قیدیوں کی رہائی، تعلیم اور روزگار کی ضرورت، سی اے اے، این آر سی واپس لینے کے مطالبات کئے گئے۔جس میں پٹنہ شہر کے سماجی کارکنوں نے اہم رول ادا کیا۔اسی کے ساتھ لال باغ کے ستیہ گرہیوں نے پٹنہ یونیورسٹی کے سامنے انسانی زنجیر بنائی اور سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں شاہین باغ تحریک کے 2 سال مکمل ہونے پر پورے ملک اور بہار میں بھی ہر دھرنے کے مقام پر ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا اور سی اے اے-این آر سی کو واپس لینے کا مطالبہ زور سے اٹھایا گیا۔



قومی راجدھانی کے جنتر منتر پر منعقد ہ ایک پروگرام میں بزرگ انسانی حقوق کارکن پدم شری ڈاکٹرسیدہ سیدین حمیدنے شاہین باغ احتجاج کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایسا پہلا مظاہرہ تھاجسے خواتین نے سمت دی اور معمر مستورات نے اس کی باگ ڈور کو سنبھالا۔ شہریت ترمیمی قانون و قومی رجسٹر برائے شہریت ہندوستان کے آئین اور دستورکے پوری طرح سے خلاف ہے نیز مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ہندوستان کی آزادی اور یہ موجودہ ہندوستان مسلمانوں کی ہی دین ہے، تاہم مسلمانوں نے یہاں ایک ہزا ر سال تک حکومت کی ہے اگر وہ تعصب سے کام لیتے، ہندو ازم اوردیگرمذاہب پر پابندی لگانا چاہتے ہیں تو یہاں اس مذہب کا نام ونشان بھی نہیں ہوتا لیکن انہوں نے رواداری سے کام لیا۔

 معروف شاعرو سائنسدں گوہر رضا اور پروفیسراپوروانندنے مشترکہ طور پر کہاکہ شاہین باغ مظاہرہ کو ہندوستان کی تاریخ سے کبھی مٹایا نہیں جا سکتا،جب جب ہندوستان میں ہو نے والے احتجاج کا ذکر آئے گا تو شاہین باغ سر فہرست رہے گا، بالخصوص جس طرح عورتوں نے احتجاج کی رہنمائی کی اور اس کو بہتر اندازمیں 100دن سے زائد چلایا، وہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔سی پی آئی لیڈر اینی راجہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ طلبا لیڈرصفورا زرگرودیگر نے بھی اظہارخیال کیا۔ اس دوران دہلی فسادات کے بعد شہریت ترمیمی قانون میں پیش پیش رہنے والے سماجی کارکنان کو گرفتاری کے خلاف بھی آوازبلند کی گئی اور انہیں جلد از جلد رہائی دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ یہاں موجود لوگوں نے’سی اے اے اور این آر سی ایکٹ واپس لو‘،’احتجاج کرنے والوں پر جبر نہیں چلے گا‘،’کسانوں کی جیت ہماری ہے، اب سی اے اے اور این آر سی بھی واپس لیناہوگا‘،جیسے نعرے بھی لگائے۔اس موقع پراے آئی ڈی ڈبلیو اے،آئیسا، این ایف آئی ڈبلیو،پرگتی شیل مہیلاسنگٹھن،انہدسمیت دیگر تنظیموں کے سیکڑوں کارکنان موجودتھے۔



دی وائرکی ایک رپورٹ کے مطابق غزالہ، بہت سی دوسری خواتین کی طرح، دسمبر 2019 سے لے کر مارچ 2020 کے آخر تک تحریک کی صف اول میں تھیں، جب کووڈ-19 کے وبا شروع ہونے کے بعد احتجاج ختم ہوا۔ غزالہ نے کہا، ''کسانوں کی جیت اور تینوں زرعی قوانین کی منسوخی نے ہمیں حوصلہ دیا ہے اور ہمیں امید دلائی ہے کہ احتجاج اور مزاحمت کا نتیجہ نکلے گا، ہم ان مظاہروں سے ایک اشارہ لے رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ سی اے اے کے خلاف تحریک کو دوبارہ زندہ کریں گے۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کی میمونہ ملا نے کہا، ''تحریک ناکام نہیں ہوئی، درحقیقت، اس نے دوبارہ جلوہ گر ہو گیا ہے۔ ہم تاریخ کے دائیں جانب اور آئین کے دائیں جانب رہنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ عوام نے تحریک کے مستقبل کیلئے ایک راہ ہموار کر دی ہے، ہمیں یقین ہے کہ حکومت کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔اس موقع پر ان کارکنوں اور طلباء کے اہل خانہ موجود تھے جو احتجاج کا حصہ تھے اور گرفتار کیے گئے تھے۔ ان لوگوں کو رہا کرنے کے مطالبات جنہیں سخت غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (UAPA) کے تحت قید کیا گیا ہے احتجاجی مقام پر گونج اٹھا۔مظاہرے میں موجود 25 سالہ اطہر خان کے والد جو اس وقت سازشی کیس میں قید ہیں، نے کہا کہ میرا بیٹا بے قصور ہے۔ مجھے پختہ یقین ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس نے کچھ غلط نہیں کیا ہے۔ ہم آئین، اخلاقی حق اور قطعی سچائی پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ آزادانہ طور پر باہر نکلیں گے۔ان کی والدہ نے مزید کہا، ''مجھے اپنے آپ کو اطہر کی ماں کہنے پر فخر ہے۔ وہ تحریک کے دوران انتہائی سرگرم رہے اور چاند باغ میں ہونے والے احتجاج کی قیادت کی۔''خان کو دہلی پولیس نے 2 جولائی 2020 کو حراست میں لیا تھا۔39 سالہ خالد سیفی کی اہلیہ نرگس خالد سیفی اپنی جوان بیٹی کے ساتھ احتجاج میں موجود تھیں۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے، اس نے کہا، ''میں اپنے شوہر کے بارے میں بات کرنے کے لیے ہر موقع کا فائدہ اٹھاتی ہوں۔ ہم اس کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے اپنی آوازیں جتنی بلند کر سکتے ہیں بلند کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے ان کے اہل خانہ انصاف کے منتظر ہیں اور جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوتے ہم اس وقت تک نہیں رکیں گے۔اس نے مزید کہا، ''میں آج اپنی بیٹی کے ساتھ ہوں۔ یہ ہمارے لیے ایک اہم دن ہے کیونکہ ہم سب ایک بار پھر صحیح کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں۔“اطلاعات کے مطابق آسام میں چند تنظیموں نے سی اے اے مخالف مظاہروں کو دوبارہ زندہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان تنظیموں میں آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو)، کرشک مکتی سنگرام سمیتی (کے ایم ایس ایس)  جس کی قیادت کارکن سے ایم ایل اے بنے اکھل گوگوئی اور ایک سیاسی جماعت آسام جاتیہ پریشد شامل ہیں۔

شاہین باغ خواتین کے دھرنے کا کتنا اثر ہواتھا اس کا اندازہ بی جے پی میں کھلبلی سے لگایا جاسکتا تھا۔ پردھان سیوک سمیت مرکزی حکومت کے وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور پارٹی کے عہدیدار سڑکوں پر ہیں اور اس قانون کے حق میں جہاں 300سے زائد ریلیاں کررہے تھے وہیں 200پریس کانفرنس اور معاملہ یہیں تک نہیں رکا ہے وہ گھر گھر جاکر لوگوں کو سمجھارہے تھے اور اس قانون کی خوبیاں بتارہے تھے۔ اگر اس مظاہرے کا اثر نہیں ہوتا تو بی جے پی اور اس کی حکومت یہ کام کیسے کرتی۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے پورے ملک کی مسلم خواتین کو ہی نہیں مردوں کو بھی جگا دیاتھا۔ برسوں سے سوئے مسلم قوم کو جگاکر فسطائی حکومت نے اپنی قبر خود کھود لی تھی۔ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین کبھی ناکام نہیں ہوئیں اور اسی تحریک کی بنیاد پر کسان تحریک شروع ہوئی۔ کسان تحریک کے دوران بار بار شاہین باغ تحریک کا نام لیا گیا اور کسان تحریک کی کامیابی کا سہرا شاہین باغ تحریک کو بھی دیا گیا کسان تحریک چلانے والوں نے بار ہا کہا کہ وہ شاہین باغ تحریک سے متاثر ہوکر تحریک چلارہے ہیں۔ شاہین باغ تحریک سے وابستہ خواتین نے کسان تحریک میں شامل ہوکر متعدد بار یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ حکومت نے تین طلاق قانون، دفعہ 370کا خاتمہ کرکے اور بابری مسجد پر غیر منصفانہ اور غیر منطقانہ فیصلہ کرکے سمجھ لیا تھا مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی کرلو وہ اس وقت سوئے ہوئے ہیں۔ جس طرح مذکورہ تینوں معاملوں میں گھروں سے باہر نہیں نکلے اب بھی باہر نہیں نکلیں گے لیکن شاہین باغ کی خواتین نے یہ بتادیاتھا کہ وہ مسلم قوم سوئی ہوئی ضرور تھی لیکن مردہ نہیں تھی۔ مسلمانوں نے بڑے بڑے مصائب کا سامنا کیا ہے، ہلاکوں خاں، چنگیز خاں کے مظالم بھی دیکھے ہیں لیکن کوئی ان کی ہستی کو مٹا نہیں سکا اور ہندوستان  میں بھی اس کی ہستی کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔ اس کی آواز میں پوری دنیا آواز ملا رہی تھی۔ ہندوستان بھر میں خواتین سڑکوں پر نکل رہی تھیں۔ رات دن کا مظاہرہ کرکے تاریخ رقم کر رہی تھیں۔ شاہین نے مسلمانوں کی تحریک کو نئی سمت اور نیا راستہ دکھایا ہے اور اس راستے پر چل کر وہ کامیاب ضرور ہوں گے۔

Comments

  1. بہترین تحریر۔
    یہ کافی افسوس کا باعث ہے کہ شاہیں باغ تحریک کی دوسری سالگرہ بڑی خامشی سے نکل گئی۔

    ReplyDelete
  2. ji bilkul afsosnak he, hamari be hisi ko zahir karati he

    ReplyDelete

Post a Comment