عابد انور
ہندوستانی عوام نے آئین اور جمہوریت کی حفاظت کے لئے ایسے طبقے،پارٹی اور لیڈروں کو منتخب کیا ہے جن کوآئین و جمہوریت پر کوئی اعتماد نہیں ہے اور وہ عوامی طور پر روزانہ آئین و جمہوریت کی دھجیاں اور مذاق اڑاتے ہیں، منوسمرتی کے تئیں ایقان کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔ آئین کے نام پر حلف لیکر اسی آئین کو پاؤں سے روندتے ہیں۔ آئین سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی کاپیاں جلاتے ہیں۔ حکومت اور اس کے وزراء دن رات آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے تئیں نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ناتھو رام گوڈسے کا دم بھرتے ہیں۔ ان کے مجسمے پر گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کے مندر بنانے کی بات کرتے ہیں۔ان کی شان قصیدہ خوانی کرتے ہیں۔جنگ آزادی کے دوران ملک کے خلاف لڑنے والوں کو ہیرو تسلیم کرتے ہوئے ان کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ مجاہدین آزادی کا مذاق اڑانا اور انہیں کمتر قرار دیناان کی فطرت میں شامل ہے۔ اقلیتوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتے ہوئے ان کو کپڑے سے پہچاننے کی بات کرتے ہیں۔ اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں کو خالصتانی، پاکستانی، تکڑے ٹکڑے گینگ، آندولن جیوی اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔اپنی اکثریت کے دم پر آئین کے خلاف قانون بنواتے ہیں۔ کسی بھی اقلیت کی زندگی اجیرن کرنے کیلئے ا ن کے خلاف مہم چلاتے ہیں لیکن وہی لوگ یوم آئین کے موقع پر آئین کا دم بھرتے ہیں۔ 26نومبر کو آئین کی دھجیاں اڑانے والوں نے یوم آئین جم کر منایا اور اس کے بہانے سیکولر اور جمہوریت کے علمبرداروں پر چھینٹاکشی کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کا آئین دنیا کے بہترین آئینوں میں سے ایک ہے۔ اس میں سب کا خیال رکھا گیا ہے اور یہاں بسنے والے تمام طبقوں کو لکھنے،پڑھنے، بولنے، رہنے سہنے اور تمام طرح کی آزادی گئی ہے۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور اپنے طریقے سے عبادت و تبلیغ پوری آزادی دی گئی ہے اور تمام طبقوں کو یکساں حقوق حاصل ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہے۔ تمام طبقوں کو مذہبی، تعلیمی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی آزادی حاصل ہے۔ اس کا آسان سا جواب نفی میں ہے۔ ہندوستانی آئین کو تیار کرنے میں تین سال لگے تھے۔ نہایت عرق ریزی سے اس آئین کو تیار کیا گیا تھا۔
آئین ہند کے مطابق بھارت میں دستور کو پارلیمان پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ اسے مجلس دستور ساز نے بنایا تھا نہ کہ بھارتی پارلیمان نے۔ آئین ہند کی تمہید کے مطابق بھارتی عوام نے اسے وضع اور تسلیم کیا ہے پارلیمان آئین کو معطل نہیں کر سکتی ہے۔آئین ہند کو مجلس دستور ساز 26 نومبر 1949ء کو تسلیم کیا تھا اور 26 جنوری 1950ء کو نافذ کیا تھا۔آئین ہند گورنمٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935ء کو بدل کر ملک کا بنیادی سرکاری دستاویز بنا اور بھارت ڈومینین جمہوریہ ہند بن گیا۔ آئینی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے آئین ہند کے معماروں نے برطانوی پارلیمان کی دفعات کو آئین ہند کی دفعہ 395 میں کالعدم قرار دے دیا۔آئین ہند کے نفاذ کو بھارت بطور یوم جمہوریہ بھارت کو مناتا ہے۔آئین ہند بھارت کو آزاد، سماجی، سیکیولراور جمہوری ملک بناتا ہے جہاں عوام کے تئیں انصاف، مساوات اور حریت کو یقینی بناتا ہے اور برادری کو فروغ دینے پر ابھارتا ہے۔برصغیر 1857ء سے 1947ء تک برطانوی راج کے زیر نگیں تھا۔ آئین ہند نے 26 جنوری1950ء کو نافذ ہونے کے بعد قانون آزادی ہند ایکٹ، 1947ء کو کالعدم قرار دے دیا۔ آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی بھارت اب تاج برطانیہ کا ڈومینین نہیں رہا اور ایک آزاد جمہوری ملک کہلایا۔ دفعات 5، 6، 7، 8، 9، 60، 324، 366، 367، 379، 380، 388، 391، 392، 393 اور 394 26 نومبر 1949ء کو ہی نافذ ہو گئی تھیں جبکہ مکمل دستور 26 جنوری 1950ء کو نافذ ہوا۔آئین ہند کے کئی ماخذ ہیں۔بھارت کی حالات اور ضروریات کو مد نظر آئین کے معماروں نے سابق دستوروں اور ایکٹوں سے بہت کچھ مدد لی ہے جیسے حکومت ہندوستان ایکٹ 1858، قانون مجالس ہند، 1861ء، قانون مجالس ہند، 1892ء، منٹو مارلے اصلاحات 1909ء، حکومت ہند ایکٹ 1919ء، حکومت ہند ایکٹ،1935ء اور قانون آزادی ہند 1947ء۔ قانون آزادی ہند نے سابق مجلس دستور ساز کو دو حصوں میں منقسم کر دیا۔ ان میں سے ہر ایک کے الگ الگ ملکوں کے لیے دستور سازی کے آزاد اختیارات تھے۔آئین ہند کا مسودہ مجلس دستور ساز نے تیار کیا۔مجلس دستور ساز کے ارکان کو صوبائی اسبملیوں کے منتخب ارکان نے منتخب کیا۔ اولا مجلس کے ارکان کی تعداد 389 تھی لیکن تقسیم ہند کے بعد ان کی تعداد 299 کردی گئی۔آئین کو بننے میں کل تین سال لگے اور اس دوران میں 165 ایام پر محیط 11 اجلاس منعقد کیے گئے۔مجلس دستور ساز کے اہم ارکان میں بھیم راو امبیڈکر، سنجے فاکے، جواہر لعل نہرو، چکرورتی راجگوپال آچاریہ، راجندر پرساد، ولبھ بھائی پٹیل، کنہیا لال مانیک لال منشی، گنیش واسودیو ماوالانکار، سندیپ کمار پٹیل، ابو الکلام آزاد، شیاما پرساد مکھرجی، نینی رنجن گھوش اور بلونت رائے مہتا تھے۔ مجلس دستور ساز کے ارکان میں کل 30 نمائندے درج فہرست طبقات و درج فہرست قبائل کے تھے۔ اینگلو انڈین کی نمائندگی فرینک انتھونی کر رہے تھے۔پارسی کی نمائندگی پی ایچ مودی کر رہے تھے،کرچین اسمبلی کے نائب صدر ہریندر کمار مکرجی غیر اینگلو انڈین عیسائیوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ گورکھا قبیلے کی نمائندگی اری بہادر گورنگ کررہے تھے۔ ججوں میں اللادی کرشن سوامی ایر، بینیگال نرسنگ راو، کے ایم منشی اور گنیش ماولنکر بھی اسمبلی کے رکن تھے۔ خواتین میں سروجنی نائیڈو، ہرشا مہتا، درگا بائی دیش مکھ، امرت کور اور وجیا لکشمی پنڈت اسبمبلی کی رکن تھیں۔ مجلس کے پہلے صدر سچندا نند صرف دو دن کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ بعد میں راجندر پرساد صدر مقرر ہوئے۔ مجلس کا پہلا اجلاس 9 دسمبر 1946ء کو منعقد ہوا۔مجلس کا حتمی اجلاس 24 جنوری 1950ء کو منعقد ہوا۔ تمام ارکان سے آئین کے دونوں نسخوں (ایک ہندی، ایک انگریزی) پر دستخط کیے۔ اصلی نسخہ ہاتھ سے لکھا ہوا ہے جس کا ہر صفحہ شانتی نکیتن کے کلاکاروں کے نقش و نگار سے مزین ہے۔ ان میں بیو ہر رام منوہر سنہا اور نند لال بوس شامل ہیں۔اس میں پریم بہاری نارائن رائیزادہ نے اپنے فن خطاطی کا مظاہرہ کیا۔اس کی طباعت دہرہ دون میں ہوئی اور سروے آف انڈیا نے فوٹو لتھروگرافی کی۔ اصلی نسخہ کے پروڈکشن میں پانچ برس لگ گئے۔ دو دن کے بعد 26 جنوری 1950ء کو یہ نسخہ بھارت کا قانون بن گیا۔ مجلس دستور ساز کا خرچ تقریباً 6.3 کروڑ (63 ملین) بتایا گیا ہے۔نفاذ کے بعد دستور مین کئی دفعہ ترمیم کی جا چکی ہے۔آئین کا اصلی نسخہ سنسد بھون نئی دہلی میں ہیلیم سے بھرے ڈبے میں محفوظ رکھا گیا ہے۔(وکی پیڈیا)
یوم آئین کے موقع صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند آئین پر روشنی ڈالی اور بہت سی نصیحتیں کیں جنہیں خود بھی ہر مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ دیہی مجلس، اسمبلی اور پارلیمنٹ کے منتخب نمائندوں کی صرف ایک ترجیح ہونی چاہئے۔ وہ ترجیح ہے اپنے علاقے کے تمام لوگوں کی فلاح و بہبود اور ملک کے مفاد میں کام کرنا۔ ”نظریات میں اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن کوئی اختلاف اتنا بڑا نہیں ہونا چاہیے کہ عوامی خدمت کے اصل مقصد میں رکاوٹ پیدا کرے۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن کے اراکین میں مسابقت ہونا فطری بات ہے لیکن یہ مسابقت بہتر نمائندے بننے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر کام کرنے کی ہونے چاہئے۔ تب ہی اسے صحت مند مسابقت سمجھا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں مسابقت کو دشمنی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ صدر نے پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہر رکن پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت کے اس مندر میں اسی عقیدت کے اسی جذبے کے ساتھ عمل کرے، جیسے وہ اپنی عبادت گاہوں میں کرتا ہے۔ انہوں نے کہا ”درحقیقت اپوزیشن جمہوریت کا سب سے اہم عنصر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مؤثر اپوزیشن کے بغیر جمہوریت بے اثر ہو جاتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے اختلافات کے باوجود شہریوں کے بہترین مفاد کے لئے مل کر کام کرتے رہیں گے، یہ امید کی جاتی ہے۔ 72 برس پہلے ہمارے آئین سازوں نے آزاد ہندستان کے تابناک مستقبل کے دستاویز یعنی آئین کو اپنایا تھا اور ہندستان کے عوام کے لیے وقف کیا تھا اور تقریباً سات دہائی کی قلیل مدت میں ہی ہندستان کے لوگوں نے جمہوریت کے فروغ کا ایک ایسا بے نظیر باب قائم کردیا ہے جس نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ہندستان کی اس ترقی کا سفر ہمارے آئین کی بنیادوں پر ہی آگے بڑھ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آزادی کے وقت قوم کے سامنے درپیش حالات و چیلنجوں کو اگر دھیان میں رکھا جائے تو ہندستانی جمہوریت کو بلا شک وشبہ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی حصولیابیوں میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔
یوم آئین کے موقع پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وینکٹ رمنا نے کہاکہ ''ہمیں عدلیہ کو کسی بھی طرح کے ارادے کے ساتھ حملوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ججوں اور عدالتی اداروں کی حفاظت کرنی چاہیے۔“جسٹس رمنا نے وکلاء پر زور دیا کہ وہ بزرگوں کا احترام کریں۔ ”براہ کرم اپنے اعلیٰ افسران کا احترام کریں،“۔ بزرگوں کے پاس تجرباتی علم اور حکمت کا ایسا خزانہ ہوتا ہے جسے وہ جتنی بھی کتابیں پڑھ لیں حاصل نہیں کیا جا سکتا۔“ ان کی مثال سے سیکھیں اور قانونی پیشے کا پرچم بلند رکھیں۔ آئین نے جو لکشمن ریکھا کھینچی ہے وہ مقدس ہے لیکن بعض اوقات عدالت انصاف کے حل طلب مسائل پر توجہ دینے پر مجبور ہونا پڑتاہے۔جج پر جسمانی حملے بڑھ گئے، سوشل میڈیا پر عدلیہ پر حملے ہو رہے ہیں۔ ایسے حملے اسپانسر ہوتے نظر آتے ہیں اور ان میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کے ساتھ موثر انداز میں نمٹنا چاہیے اور حکومت کو بھی ایسا ماحول یقینی بنانا چاہیے جس میں عدالتی افسران اپنا کام مؤثر طریقے سے کر سکیں۔
بہندوستان میں کسی نظام میں بدلنے کیلئے صرف جمہوریہ طریقہ کارآمد ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ کچھ ایسے طریقے اپنائے جاتے ہیں جو جمہوریت سے میل نہیں کھاتے لیکن وہ سسٹم کی اصلاح میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔ ووٹ بینک، ذات پات، علاقائیت اور ذاتی اغراض پر مبنی نظام کی وجہ سے ہندوستان میں کبھی بھی حقیقی جمہوریت پنپ نہیں سکی البتہ یہاں جمہوریت بعض کو سزا اور بعض کو جزا دینے میں بہت ہی سود مند ثابت ہوئی ہے۔ اس سے بڑھ کر جمہوریت کا مذاق کیا ہوگا18 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی حکمراں بن جاتی ہے اور اسے یہاں کے عوام کی قسمت اور بنانے اور بگاڑنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں نے آئین ہند کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ آئین کے نام پر حلف لیتے ہیں اور دن رات آئین کی دھجیاں اڑاتے ہیں لیکن انہیں نہ پارلیمنٹ، نہ عدالت اور نہ ہی عوام کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔بلکہ جمہوریت کے تینوں ستون کی نگہبانی کرنے والا میڈیا آئین کی دھیجاں اڑانے کا ساتھ دیکر عوامی مفادات کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے آج تک یہاں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوسکی۔
یہ کیسی جمہوریت اور آئین کا نفاذ ہے جہاں لوگوں کو اپنی بات کہنے کا حق تک چھین لیا گیا ہے۔ویر داس اور منور فاروقی کو اس جرم کی سزا دی جارہی ہے جو انہوں نے کیا ہی نہیں ہے۔ آئین کی دھجیاں اڑانے والی کنگنا رناوت کو جیل بھیجنے کے بجائے وائی زیڈ سیکورٹی دی گئی ہے اور ان کی طوفان کی بدتمیزی پر سزا دینے کے بجائے اعلی شہری اعزاز سے نوازاگیا ہے۔ کیایہی جمہوریت اور آئین کی بالادستی ہے۔ عملاً بڑی اقلیت کے حقوق چھین لئے گئے ہیں، انہیں نہ بولنے کی آزادی ہے اور نہ نماز پڑھنے۔ ساری شدت پسند ہندو تنظیمیں میدان میں آجاتی ہیں اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔آئین اور جمہوریت کا سہارا لیکر ہندوستان میں مسلمانوں کو تباہ و برباد زیاد ہ کیا گیا ہے۔بقول فیض احمد فیض
ہے اہل دل کیلئے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
عمدہ مضمون ماشاءاللہ
ReplyDeleteBahut bahut shukriya
Delete