عابد انور
گزشتہ چند دہائیوں کی مسلمانوں کے خلاف مہم اور خاص طور پر گزشتہ سات برسوں سے ذرائع ابلاغ کے تمام پلیٹ فارم پر چلائی جانے والی نفرت کی مہم کا اثر متعدد بار پر دیکھنے کو ملا ہے اور اس وقت پورا ملک اس نفرت کی مہم سے متاثر ہے۔ اس کو روکنے میں حکومت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے بلکہ اس کو بڑھاوا دینے میں مجرموں کو بچاکر بلاواسطہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ پورے ملک میں مسلمانوں پرحملے اور مسلم علمائے کرام کی گرفتاری حکومت کی منشا کو ببانگ دہل ظاہر کرتی ہے۔ پوری دنیا میں اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنا، مذہب کی تبلیغ اور نشرواشاعت کوبنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے اور یہ بنیادی حقوق ہندوستان میں بھی ہر مذہب کے ماننے والوں کو حاصل ہیں اور بحیثیت ہندوستانی شہری مسلمانوں کو بھی دفعہ 25کے تحت آئینی حقوق و اختیارات حاصل ہیں۔ تو پھر مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کیوں کیا گیا۔ اقوام متحدہ میں دنیا کے سامنے ہندوستانی حکومت دعوی کرتی ہے کہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ انصاف کیا جاتا ہے اور تمام اہم عہدوں پر مسلمان فائز ہیں، تو اسی کے ساتھ حکومت کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ14فیصد آبادی کے لحاظ سے ملک کی ہائی کورٹ میں کتنے جج مسلمان ہیں، کتنے چیف جسٹس ہیں، سپریم کورٹ میں کتنے جج ہیں، کتنے پولیس کمشنر ہیں، کتنے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ہیں، کتنے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہیں، کتنے ایس پی ہیں، کتنے وزیر ہیں، کتنے بورڈ کے چیرمین مسلمان ہیں۔ وزیر اعظم جس ہندوستان کی متنوع اور جمہوریت کی بات کر رہے تھے اس سے دو دن پہلے آسام میں مسلمانوں کو اجاڑا جارہا تھا اور ان پر گولیاں برسائی جارہی تھیں، ان کی مساجد کو منہدم کی جارہی تھی۔ آسام میں جو کچھ ہوا ہے وہ دل دہلانے والا ہے۔ نہ صرف انسانیت کو شرمسار کرنے والا واقعہ ہے بلکہ ملک کی پیشانی پر ایک کلنک کی مانند ہے۔ انسانی حقوق کے معاملے میں دوسرے ملکوں پر انگلی اٹھانے والوں کو اپنے ملک کی درندگی، وحشیانہ حرکت،انسانیت سوز مظالم نظر نہیں آتے۔ کیا معین الحق کی لاش پر کودنے والے کے مذہب کو دہشت گردی کا مذہب کہا جائے گا؟ کیا اس کا وحشیانہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جا ئے گا۔ وہ حکومت کا آدمی تھا اور حکومت نے اسے ہائر کیا تھا۔ اس لئے اس کا معین کی لاش پر کودنا حکومت کا کودنا ہے۔ مسلمان پر کودنے والے بجے بانیا کوآخر ہمت کہاں سے ملی، ان کو یہ یہاں کی عدالت سے ملی، پولیس سے ملی، سسٹم سے ملی، مقننہ سے ملی اور میڈیا سے ملی ہے کیوں کہ ان تمام جگہوں پر مسلم دشمن عناصر اور مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کرنے والے بیٹھے ہیں۔ اس لئے بجے بانیا کوکوئی خوف نہیں ہوا۔ان کو معلوم ہے کہ ہندو قوم انہیں بچالے گی اور انہیں ہیرو بناکر پیش کرے گی۔ مسلمان کی لاش پر کودنے پر انہیں انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ ان کے سامنے ایسے مجرموں کی بہت لمبی فہرست ہے جنہیں ملک کے اعلی آئینی عہدوں پربٹھایا، ان کا استقبال کیا، ان کی قصیدہ خوانی کی۔ اس لئے بجے بانیا کو کوئی خوف نہیں ہے۔ آج نہ کل وہ بری ہوجائے گا۔ ان کے سامنے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف پیش آنے والے ہزاروں واقعات ہیں جن میں کسی بھی ہندو کو سزا نہیں ہوئی اور سزا ہونے کے تھوڑے سے ا ندیشے دکھے تو ان کا مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ ان کو معلوم ہے کہ سرے عام مسلمانوں کو گالیاں دینے، گولی مارنے، مسلم خواتین کی عصمت دری کرنے کی دھمکی دینے والوں کو وزیر بنایا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر گولی چلانے والے کو بھی عدالت فوراً ضمانت دے دیتی ہے۔ تو پھر بجے بانیا یا پولیس کو خوف کیوں ہوگا۔ اسی عدم خوف کا اظہار آسام میں مسلمانوں پر پولیس فائرنگ ہے۔
آسام کے ضلع درنگ کے دھولپورگوروکھٹی علاقے میں 20 ستمبر کو آٹھ سو گھروں کو توڑا گیا اور اس مہم کو جاری رکھتے ہوئے انتظامیہ نے دوبارہ تقریبادو سو خاندانوں کے خلاف جمعرات کی صبح بے دخلی کا آپریشن کیا اور تب ہی فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا۔یہ سب مسلمان ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق سرکاری زمین خالی کرنے کے بعد سینکڑوں لوگوں نے دریا کے کنارے پناہ لی ہے۔دو سو گھروں کو توڑنے کے لئے 23 ستمبر کو 'غیر قانونی تجاوزات' ہٹانے گئے انتظامیہ اورقابضین کے درمیان تصادم میں دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ واقعہ ضلع درنگ کے دھول پور گاؤں نمبر تین کا ہے۔اس دوران 23 ستمبر کو جب متأثرین جمہوری طریقہ سے احتجاج کررہے تھے تو پولس نے لاٹھی ڈنڈوں سے ان کی پیٹائی کردی اور اس کے بعدمبینہ طور پر گولی چلادی جس نے دو بے گناہوں کی جان لے لی جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔ریاستی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ حکومت آسام کے محکمہ داخلہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کی جائے گی۔ تفتیش میں واقعات کے حالات کا پتہ چلے گا۔پولیس نے ضلعی انتظامیہ کے عہدیداروں کے ساتھ جمعرات کو سرکاری اراضی سے تجاوزات ختم کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی۔میڈیا کواطلاع دیتے ہوئے دارنگ ڈسٹرکٹ پولیس سپرنٹنڈنٹ سوشانت بسوا سرما نے بتایا کہ لوگوں نے انخلاء مہم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پتھراؤ شروع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ نو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں اور دو زخمی شہریوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اس وقت صورتحال قابو میں ہے۔خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، ضلع دارنگ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سوشانت بسوا سرما ریاست کے وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما کے چھوٹے بھائی ہیں۔ہیمنت بسوا سرما کو آسام کا وزیراعلیٰ بننے میں صرف دو ماہ ہوئے ہیں، لیکن اس عرصے کے دوران ریاست میں 34 سے زائد 'انکاؤنٹر' ہوئے جن میں 15 مجرم مارے گئے۔اس کے ساتھ ہی پولیس سے مبینہ طور پر سروس ہتھیار چھیننے اور حراست سے ’فرار ہونے کی کوشش‘ میں بھی تقریبا 24 مجرم زخمی ہوئے ہیں۔ شدت پسند تنظیم کے ارکان بھی ہلاک ہونے والے مجرموں میں شامل ہیں۔بی جے پی 2016 سے آسام پر حکومت کر رہی ہے۔ اس سے پہلے، سربانند سونووال ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے، لیکن ان کے پانچ سالہ دور حکومت میں، پولیس انکاؤنٹر کا کوئی واقعہ سرخیوں میں نہیں آیا۔آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما نے کہا کہ ایک انچ زمین بھی نہیں لینے دیں گے۔
اس سانحہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اس معاملے پر ٹویٹ کرکے پولیس کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا، ”آسام میں ریاستی انسپانسرڈ آگ لگی ہوئی ہے۔ میں ریاست میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ہندوستان کے کسی بچے کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے“۔''اس کے ساتھ ہی آسام پردیش کانگریس کے صدر بھوپین بورا نے تجاوزات کرنے والوں پر پولیس کی فائرنگ کو وحشیانہ فعل قرار دیا ہے۔کانگریس لیڈر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کووڈ وبا کے اس بحران کے دوران، گوہاٹی ہائی کورٹ نے بے دخلی کی مہم کو معطل کرنے کی ہدایت دی تھی، لیکن وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی من مانی کی وجہ سے وہاں آباد لوگوں سے زمین خالی کر دی گئی۔ دھول پور 1970 سے آباد لوگوں سے زمین خالی کروائی جارہی ہے جبکہ بے دخلی سے پہلے حکومت کو ان لوگوں کو دوسری جگہ آباد کرنے کا انتظام کرنا چاہیے تھا۔درحقیقت، 20 ستمبر کو، آسام حکومت کے حکم کے بعد، ضلع درنگ کے سپا جھارمیں، انتظامیہ نے کم و بیش 800 خاندانوں کو نکالنے کی مہم شروع کی جو تقریبا 4500 بیگھا زمین پر قابض ہیں۔
سرکاری زمین پر قبضہ کسی ایک ریاست کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام ریاستیں اس سے متاثر ہیں لیکن جہاں مسلمان سامنے ہوتا ہے تو پولیس کارروائی کے ذریعہ زمین خالی کرائی جاتی ہے جس میں جان بھی جاتی ہے۔ وقف کی دسیوں ہزار ایکڑ زمین پرناجائز قابض حکومت (مرکزی اور ریاستی دونوں حکومت شامل) کا مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ معاندانہ رویہ رہا ہے۔ آسام کے یہ مسلمان اس علاقے میں تقریباً پچاس سال سے رہ رہے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مسلسل سیلاب آنے اور اپنی زمین کے ندی کا حصہ بن جانے کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ صاحب زمین تھے لیکن ان کی زمین ندی کے کٹاؤ میں چلی گئی جس کی وجہ سے انہیں اونچے علاقے میں منتقل ہوناپڑا۔ حکومت کو بستیاں اجاڑنے سے پہلے انہیں دوسری جگہ منتقل کرنا چاہئے تھاجو کہ حکومت کے فرائض میں شامل تھا اس کے علاوہ ابھی معاملہ ہائی کورٹ میں ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظا ر کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ نے کورونا وبا کی وجہ سے انہدام کی کارروائی کو معطل رکھنے کو کہا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت نے معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے برسات کے موسم میں ان لوگوں کو بے گھر کردیا۔
آسام کی پولیس فائرنگ اور لاش پر کودنے کے واقعہ نے فاربس گنج پولیس فائرنگ کے واقعہ کی یاد تازہ کردی۔ بہار کے سرحدی اورصنعتی شہر فاربس گنج سے متصل گاوَں بھجن پور میں گزشتہ 3جون2011 کو پولیس نے فائرنگ کرکے پانچ معصوم کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایسی بربریت کی کہانی بہت کم سننے کو ملتی ہے۔اس واقعہ میں پولیس سپرنٹنڈنٹ اور فیکٹری مالک اوربی جے پی کے اس وقت کے ایم ایل سی اشوک اگروال کے شہہ پر پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کرکے موقع پر ہی چار نوجوانوں کو موت کے گھاٹ سلا دیا۔ بعد ایک چھ ماہ کی بچی جسے دوا ئی دلانے اس کی ماں ڈاکٹر کے پاس لے جارہی تھی اسے بھی گولی مار دی گئی۔ تصاویر اور ویڈیو فوٹیج سے اندازہ ہوتا تھا کہ پولیس نے ان لوگوں کو قتل کرنے کے ارادہ سے ہی گولی چلائی تھی کیوں کہ تقریباً سبھی ہلاک شدگان کو سینے، سر، آنکھ اور پیٹ میں گولیاں ماری گئی ہیں۔مسلمانوں کے خلاف یہ قتل عام منصوبہ بند تھا کیوں کہ پولیس نے اپنی حفاظت کے تمام انتظامات کئے تھے، پولیس کی ٹکڑی وافر مقدار میں موجود تھی جو ایس ایس بی اور بی ایس ایف کے جوانوں پر مشتمل تھی، فائربریگیڈ کی گاڑی موجود تھی۔ جس سڑک کے سلسلے میں گاؤں والے مظاہرہ کر رہے تھے وہ تقریباً پچاس ساٹھ پرانی تھی۔گاؤں کی تین چار پیڑھی اسی راستے سے فاربس گنج جاتی آتی رہی ہے۔یہ راستہ کربلا، عیدگا ہ اور ضروریات زندگی کے لئے بازار سے جوڑتا ہے۔ اس روڈ پر فاربس گنج کے سابق ایم ایل اے ذاکرنے اپنے سرکاری فنڈ سے اس پر کام بھی کروایا تھا اور بعد میں پنچایت فنڈ سے بھی کام ہوا۔ اس زرخیز زمین کو جو110 /ایکڑ پر مشتمل تھی اور گاؤں والوں کی روزی روٹی کا ذریعہ تھی۔ گاؤں والوں نے اس پر احتجاج کیا اور سڑک کھولنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ گفت و شنید ہوئی لیکن وہ سڑک کھولنے کے لئے وہ تیار نہیں ہوئی۔
فاربس گنج پولیس فائرنگ کے واقعہ میں ایک پولیس والا ایک لڑکے کی لاش پر کود رہا تھا اور اسے بوٹ سے کچل رہا تھاجس طرح آسام میں بجے بانیا کود رہا ہے۔ اس کا ویڈیو بھی پوری دنیا میں وائر ل ہوا تھا۔ اس معاملے میں پولیس کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی۔ ایس پی وینا ملک کو بھی ملزم بنایا گیا تھا لیکن حکومت کی منشا سزا دینے کی نہیں ہوتی اور اس لئے قتل کے الزام میں گرفتار کودنے والی پولیس کو ضمانت مل گئی تھی کیوں کہ پیروی بہت ہی کمزور طریقے سے کی گئی تھی۔ اس معاملے میں کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس گاؤں والے ہی مجرم قرار دئے گئے۔ کمیشن بھی بیٹھی لیکن کمیشن بھی کسی کوسزا دلانے میں ناکام رہاتھا۔اس کے علاوہ اس کے بعد بھی سیکڑوں مسلم مخالف سانحات پیش آئے ہیں لیکن ان میں کسی کوئی خاص سزا نہیں ملی ہے۔ البتہ اس طرح کے گھناؤنا جرم انجام دینے والوں کو حکومت میں بڑے بڑے عہدے ضرور مل گئے ہیں۔دراصل مسلمانوں نے خود کوچوراہے کا پتھرتصور کرلیاہے جس کی مرضی میں آئے وہ ٹھوکر مارے اور برادران وطن بھی اسے پتھر سمجھ کرٹھوکرمارنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ اگر مسلمانوں کوظلم سے بچنا ہے تو کم از کم سکھ بھائیوں سے کچھ سبق تو سیکھنا ہی ہوگا۔
Comments
Post a Comment