عابد انور
تعلیم کی اہمیت سے آج کون انکار کرسکتا ہے۔ دنیا کی ہر حکومت اس مد میں اپنے بجٹ کا ایک حصہ مختص کرتی ہے کیوں کہ اگر یہ شعبہ ادھورا رہ گیا تو ترقی کوسوں دور ہوجائے گی اور دوسروں پر انحصار بڑھ جائے گا۔ تعلیم تعلم، سائنس تکنالوجی کے میدان ممالک کافی پیچھے رہ جائیں گے۔چاند تاروں کی تسخیر تو دور کی بات ہے زمین کے حقائق کا بھی وہ پتہ نہیں لگاپائیں گے۔اس لئے تعلیم کے شعبے میں پوری دنیا میں خاطر خواہ توجہ دی جاتی رہی ہے۔ اس کا فائدہ بھی انہیں حاصل ہوا وروہ قوم دنیا کے لئے ایک مثال ہے جہاں بعض ممالک میں شرح خواندگی کی شرح صد فیصد ہے تو کہیں اس سے بالکل قریب۔ ہندوستان نے اس معاملے میں پہلے زیادہ توجہ نہیں دی تھی لیکن یہاں بھی اب بیداری آگئی ہے اور حکومت مختلف سطحی خواندگی کی شرح میں اضافہ کرنے اور ترک تعلیم کی شرح روکنے کے لئے کمربستہ ہوگئی ہے ریاست کیرالہ ہمارے ترغیبی مثال ہے جہاں شرح خوانداگی صد فیصد ہے جب کیرالہ شرح خواندگی صد فیصد ہوسکتی ہے تو ہندوستان کے دیگر صوبوں یا ضلعوں میں کیوں نہیں ہوسکتی۔2002 میں بنیادی قانون میں ترمیم کرکے سب کے لئے تعلیم کو لازم بنایا گیا تھا اورتمام بچوں کو تعلیم کا حق دیا گیا تھا جسے سب کے لئے تعلیم قانون 2009میں بنا اور جس کا نفاذ گزشتہ سال یکم اپریل سے ہوا۔ سب کے لئے تعلیم ایک انقلابی قدم ہے اس کے تحت6 سال سے لیکر 14 سال کے تمام بچوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا لازمی ہوگیا ہے اور والدین کے لئے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اس قانون پر عمل کریں۔ اس قانون کے تحت حکومت پر بھی ذمہ داری عائد ہوگئی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسکول میں داخلے اور حاضری ضروری ہو۔ تعلیم کی ترغیب کے لئے حکومت نے اسکولوں میں دوپہر کا کھانا نظم بھی کیا تاکہ غریب تعلیم حاصل کرسکیں اور والدین پر کھانا کھلانے کا بوجھ نہ ہو۔ کوٹھاری کمیشن (64۔1960) نے حکومت ہند سے سفارش کی تھی کہ جی ڈی پی کا 6 فیصد حصہ تعلیم کے لئے شعبہ کے لئے خرچ کیا جائے۔کچھ سال قبل تک جی ڈی پی کا صرف ایک دیڑھ یا دو فیصد ہی خرچ کیا جاتا تھا لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے اس شرح میں کچھ اضافہ کیا گیا تھا۔ سابقہ یو پی اے حکومت مجموعی گھریلو پیداوار کا چار فیصد سے کم حصہ تعلیم کے شعبہ میں خرچ کرتی تھی۔ کئی دیگر ممالک اپنے جی ڈی پی کا آٹھ فیصد سے لے کر 12 فیصد تک حصہ تعلیم کے شعبے میں خرچ کرتے ہیں۔ لیکن جب بی جے پی حکومت برسراقتدار آئی ہے اس میں کافی کمی گئی ہے۔ اس کے علاوہ فلاح وبہبود کے بجٹ میں بھی کافی کمی گئی ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال اس قدر خراب ہے اس پر بہت ساری باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ جہاں ایک طرف اس کے لئے حکومت ذمہ دار ہے وہیں ہم بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ آزادی سے پہلے مسلمانوں کی دو یونیورسٹییاں قائم ہوئی تھیں ایک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دوسری جامعہ ملیہ اسلا میہ لیکن آزادی کے بعد مسلمانوں نے تعلیم کی طرف سے بالکل توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے مسلمان انتہائی نچلی سطح پر آگئے ہیں۔ آخر سوال یہ ہے کہ آزادی کے بعد کوئی دوسرا سرسید یا مولانا محمد علی جوہر اورشیخ الہند مولانا محمود الحسن کیوں نہیں پیدا ہوئے۔ ان سب کے بارے میں ہم سب کو غور کرنا چاہئے اور اپنے آپ کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ جب تک ہم اپنا محاسبہ نہیں کریں گے اس وقت تک اس سمت میں آگے بڑھنا مشکل کام ہوگا۔ مسلمانوں میں 2011کی اعداد و شمار کے مطابق گریجویٹ کی شرح 4.1 ہے۔ یہ 2000میں 2.7اور 2007میں 3.6فیصد تھی۔ اس کی واحد وجہ ہے کہ ابتدائی تعلیم کا معیار بلند نہیں ہے اور اسی کے ساتھ ڈراپ آؤٹ (ترک تعلیم) کی شرح مسلمانوں میں دوسرے طبقوں کی بہ نسبت زیادہ ہے جس کی وجہ سے مسلم بچے اعلی تعلیم تک نہیں پہنچ پاتے۔
آئیے اب ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں۔ 2001کی مردم شماری مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی خود بیان کرتی ہے اور مسلمانوں کے تعلق سے برتے جانے والے سوتیلے سلوک کا انکشاف کرتی ہے کہ تعلیمی لحاظ مسلمان سب سے پچھڑی ہوئی اور پسماندہ قوم ہے۔ ملک کی 45 کروڑ غیر مسلم خواتین میں سے 46د خواندہ ہیں جب کہ چھ سات کروڑ مسلم خواتین میں صرف 41 فیصدخواندہ ہیں اور جس طرح تعلیمی سطح اعلی مدراج کی طرف بڑھتی ہے شرح خواندگی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ابتدائی سطح پرمسلم خواتین کا تناسب غیر مسلم خواتین سے ۱۱ فیصد کم ہے اور مڈل کی سطح پر یہ فاصلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ 19اور 35 کے درمیان پہنچ جاتا ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی اس اعداد و شمار سے بھی نمایاں ہوتی ہے کہ ہندوستان مسلم علی تعلیم یافتہ کی تعداد صرف 6ء3 فیصد ہے۔ ایک تجزیہ کار اور ماہرین تعلیم کے مطابق جنہوں نے مسلم خواتین کے تعلق سے ملک کے بہت اضلاع کاتعلیمی سروے کیا تھا مسلم خواتین کی ناخواندگی کا تناسب 75 فیصد تک پہنچ گئی ہے جب کہ شمالی ہندوستان میں اس کی صورت حال اور بھی بھیانک ہوسکتی ہے۔ ہندوستان میں مسلم لڑکیوں کا اسکول میں رجسٹریشن کی فیصد6ء40 فیصد تھی جب کہ مسلم غریب لڑکیوں کی فیصد صرف 16 فیصد تھی۔ ان میں 98 فیصد مسلم لڑکیاں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ دو فیصد لڑکیاں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں کیوں کہ وہ اسکول کا خرچ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔
سیمانچل کی تعلیمی صورت حال دیگر ریاستوں کے مقابلے میں انتہائی خراب ہے۔ یہ علاقہ قدرتی اور فطری وسائل سے جتنا مالامال ہے اتنا ہی وہ نظر انداز بھی ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی اس علاقے کوحاشیائی اور سرحدی علاقے کی وجہ سے تمام سہولتوں سے محروم رکھا گیا۔ حالانکہ سرحد ہونے کی وجہ سے یہاں ترقیاتی کام زیادہ ہونے چاہئے تھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان علاقوں کو نظر انداز کیا گیا۔ جہاں اس علاقے کو سیلاب نے تباہ کیا ہے وہیں علاقہ حکومتوں کی لاپروائی کی وجہ سے تعلیم وترقی کی روشنی محروم رہی۔ ہندوستان کی حالت بتانے والی کوئی بھی سروے رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ سیمانچل سماجی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے ایک پس ماندہ ترین علاقہ ہے۔آزاد ہند کے صرف پچاس پچپن سال میں ہندوستان کی اس حکمراں قوم کا مقام ملک کے درج فہرست قبائل اور درج فہرست ذاتوں کے مماثل ہوگیا ہے رنگناتھ کمیشن کی رپورٹ اس کے گواہ ہیں۔ سچر کمیٹی نے بھی مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ابتری کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کمیٹی نے جب 1965سے2001 کے درمیان گاؤں اور شہروں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکولوں میں داخلے کا جائزہ لیا تو یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ مسلمان درج فہرست ذاتوں اور قبائل سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ مثال کے طور پر شہروں میں 1965۱ میں درج فہرست ذات و قبائل لڑکیوں کا تناسب صرف40 فیصد جو2001میں بڑھ کر 83 فیصد ہوگیا۔ اسی طرح میں 1965میں لڑکیوں کا تناسب 53 فیصد تھا جو2001میں بڑھ کر80 فیصد ہوگیا یعنی پسماندہ طبقات سے3فیصدی کم۔
اس میں کوئی شک نہیں تعلیم کے لئے بہت سے ادارے کھل گئے ہیں اور کچھ جگہوں پر معیاری تعلیم بھی دی جارہی ہے لیکن مسلمانوں کے مناسب اور صحیح تعلیم کا مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے۔ مدارس میں جو تعلیم دی جارہی ہے وہ دنیا وی تعلیم سے کوسوں دور ہے اور دنیا میں رہنے کے لئے اور اپنی بات صحیح طریقے سے رکھنے کیلئے مکمل طور پر رہنمائی نہیں کرتی۔بعض مرتبہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے مدارس کے فضلا کو پریشان ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انگریزی اور ہندی کی معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بہت چھوٹے کام کے لئے وہ دوسروں کے محتاج رہتے ہیں۔ دوسری طرف عصری درس گاہوں میں جو تعلیم دی جارہی ہے وہ مذہبی تقاضوں کو پورا نہیں کرتی۔ جس کی وجہ سے اخلاقات و عادات اور بشریت کے تقاضے کو پورا نہیں کرتی اور اس کی وجہ سے دونوں علوم میں توازن پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ کبھی کبھی ایک دوسرے سے متصادم نظر آتی ہے۔ جب کہ تعلیم کا مقصد جہاں اپنے رب کو پہنچاننا اور بشری تقاضے کو پورا کرنا ہے وہیں انسان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا بھی ہے لیکن وہ اپنے میں مگن ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے علم کے حصول کا مقصد فوت ہوجاتاہے۔ لہذا ضرورت ایسے تعلیی ادارے قائم کرنے کی ہے جہاں دونوں علوم کما حقہ دیا جاسکے۔ اس لئے ہم نے ایسے ادارے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہا ں دونوں علوم پر یکساں توجہ دی جائے گی اور ایسے افراد کو تیار کرنا ہے جہاں وہ دینی علوم سے لیس ہوں وہیں عصری تعلیم سے بھی بہرہ ور ہوں تاکہ وہ وہ دین کی بات کو دنیاوی طریقے سے سمجھا سکیں اور اسلام پر بیجا اٹھنے والے اعتراض کا ساکت جواب دے سکیں۔ اس طرح ہم ایک کمی کو پورا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
Comments
Post a Comment