عابد انور
کاغذات نامزدگی کی تاریخ جوں جوں قریب آتی جائے گی سیاسی رہنماؤں کی وفاداریاں تبدیل ہوتی رہیں گی۔اس وقت کا جوسیاسی منظر نامہ ہے اسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی سیاست میں کوئی نظریہ یا آئیڈیالوجی نہیں ہے اور نہ کسی پارٹی کا کوئی نظریہ ہے اور نہ ہی کسی سیاسی رہنماؤں کا۔اگر کوئی نظریہ یا مطمح نظر ہے تو صرف اور صرف ذاتی مفاد،اورذاتی مفاد کے حصول۔ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے کے لئے کوئی بھی لیڈر کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ اس کے لئے برسوں پرانی دوستی کا نہ تو کوئی خیال ہے اور نہ ہی قدیم دشمنی کوئی معنی۔ سیاسی رہنماؤں کی بس صرف ایک ہی خواہش ہے کہ وہ کسی اقتدار کی سیڑھی پر پہنچ جائے اس کے لئے وہ تمام اخلاق و روایات کو توڑنے پر کمر بستہ ہیں۔ اسی طرح ایک پارٹی جو منفرد ہونے کا دعوی کرتی تھی (حقیقتاً وہ تھی ہی نہیں) اس کی پول سب سے زیادہ کھل رہی تھی۔ نظم و ضبط اور ڈسپلن کے لئے دوسری پارٹیوں کو ہدف تنقید بنانے والی پارٹی کاآج کوئی معیار ہی نہیں رہ گیا۔ جس آدمی یا پارٹی کوپانی پی پی کر کوستی تھی اس کو نہ صرف گلے لگارہی ہے بلکہ اسے ٹکٹ بھی دے رہی ہے۔ اب اس پارٹی میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کی کثیر تعداد ہوگئی ہے۔ اس پارٹی کا کمال یہی ہے کہ وہ مجرم بھی ان کے پاس بے داغ ہوتا ہے اور دوسری پارٹی کے بے داغ بھی رہنماؤں میں بھی دھبہ دکھائی دیتا ہے۔آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ بی جے پی کا کوئی لیڈر اس وقت تک بڑا نہیں ہوسکتا جب تک ان پر مسلمانوں کے خلاف فساد کروانے، مسلمانوں کے خلاف تشد دبرپا کرنے، مسلمانوں کی فلاحی اسکیموں کے خلاف احتجاج کرنے اور مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے جیسے سیاہ کارنامے انجام نہ دیا ہو۔ آج یہ پارٹی بدعنوانی، فرقہ پرستی، ذات پات، جرائم اور مسل اور منی پاور کا نمونہ بن کر رہ گئی ہے۔ اندرونی جمہوریت کا راگ الاپنے والی پارٹی ”ون مین شو“ بن کر رہ گئی ہے۔ ان کے سامنے سارے سینئر لیڈر ہیچ ہیں۔ کئی کو ادھر سے ادھر کیا گیا۔ بعض کو سیٹ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔کچھ لوگوں کا ٹکٹ کاٹا گیا۔ کچھ کو بے آبرو کرکے باہر نکال دیا گیا۔ پارٹی وتھ ڈیفرینس سلوگن واقعی پوری طرح فٹ بیٹھتا ہے۔کیوں کہ ہندوستان کی دوسری سیاسی پارٹی اس طرح کی حرکت کرہی نہیں سکتی اور نہ ہی اس طرح کے نعرے لگا تی ہے۔ جب نریندر مودی کو پارٹی کا وزیر اعظم عہدے کے امیدوار کا اعلان کیاگیا تھا اس وقت تک سے اب تک دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں کوعہدے کالالچ دیکر بی جے پی میں شامل کرانے کاسلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک دراز ہوسکتا ہے جب کہ بی جے پی اقتدارکی سیڑھیوں پر نہیں چڑھ جاتی۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اسی وقت سے کچھ نہ کچھ اصول ہوتے ہیں اور وہ بچپن میں ہی یہ طے کرلیتا ہے کہ وہ اسے کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا۔ کس کے ساتھ چلناہے کس کے ساتھ نہیں چلنا ہے لیکن ہندوستانی سیاسی پارٹی اور ان کے رہنماؤں کے بارے میں کوئی بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی ہے وہ کس کروٹ بیٹھیں گے۔کس در پر دستک دیں گے یا کس گروپ میں شامل ہوں گے۔ کانگریس والے خود کو سیکولر اور بی جے پی کے برعکس کہتے ہیں لیکن کانگریس کا لیڈر آسانی کے ساتھ بی جے پی کا دامن تھام لیتا ہے۔ وہ لیڈر جو رات دان ٹی وی مباحثے میں بی جے پی پر وار کرنے سے نہیں چوکتے تھے وہ بہت آسانی سے بی جے پی کی گود میں بیٹھنے سے عار محسوس نہیں کرتے۔ یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کا سیاسی نظام کس طرح کا ہے اور وہ کس اصول اور کس بنیاد پر چل رہا ہے۔
بی جے پی میں شامل ہونے والوں میں سابق مرکزی وزیر اور تیلگودیشم پارٹی کے بانی ٹی این ڑاماراؤ کی بیٹی ڈی پورن دیشوری، جگدمبیکاپال، رام کرپال یادو، روحانی گرو ست پال مہاراج، راجیو سریواستو اور دیگر ایسے لیڈر ہیں جو انتخاب کے وقت کانگریس یا دیگر پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو ئے ہیں۔ بیشتر شامل ہونے والوں کو پارٹی نے ٹکٹ دے دیا ہے۔ اس سے دونوں کامنشاظاہر ہورہا ہے۔ رام کرپال یادو لالو یادو کے لئے آنسو بہا رہے تھے لیکن ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے پارٹی چھوڑنے میں ذرا سی دیر نہیں لگائی۔ دوسری طرف پارٹی کے سینئر لیڈر جسونت سنگھ باڑمیر سے لوک سبھا انتخابات لڑنے کے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔پارٹی نے جسونت سنگھ کی جگہ باغی کانگریسی سونارام چودھری کو باڑ میر سے ٹکٹ دیا ہے۔ جسونت سنگھ کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں آئین کے خلاف فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ جسونت سنگھ نے دارجلنگ سے ممبر پارلیمنٹ ہیں اور پارٹی میں انہیں اڈوانی کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔جسونت سنگھ کو پارٹی کے بانی اراکین کادرجہ حاصل ہے۔ 1967میں فوج کی نوکری ترک کرکے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ وہ وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ جیسے اہم عہدوں پر این ڈی اے حکومت میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ بی جے پی ان کاٹکٹ کاٹ کر ایک بار پھر انہیں ذلیل کیا ہے۔ اگر انہیں باڑ میر سے ٹکٹ نہیں ملتا تو وہ آزادامیدوار کے طور پر انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پارٹی میں انہیں ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک ہوچکا ہے۔ جب انہوں نے 2009میں ایک کتاب لکھی تھی۔ اس وقت بھی ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا تھا اور پارٹی سے نکال دیا گیا تھا اس وقت جسونت سنگھ نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا تھاکہ افسوس ہے کہ صرف ایک کتاب لکھنے سے انہیں ہنومان سے راون بنا دیا گیا ہے۔ انہیں شملہ پہنچنے کے بعد ٹیلی فون سے پارٹی صدر راج ناتھ سنگھ نے پارٹی سے نکالے جانے کی اطلاع دی۔ انہوں نے کہا تھاکہ اچھا ہوتا اگر اڈوانی اور راج ناتھ سنگھ انہیں ذاتی طور پر اس کی اطلاع دیتے۔ جسونت سنگھ پارٹی کے ’چنتن’اجلاس میں شامل ہونے کے لئے شملہ پہنچے تھے لیکن انہیں اجلاس میں آنے سے منع کر دیا گیاتھا۔انہوں نے کہا تھاکہ جب ہم غور و فکر، پڑھائی، لکھنے اوراظہار آزادی پر پابندی لگاتے ہیں تو وہ اس ملک کے مستقبل کے لئے برا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی سیاسی پارٹی اس کا مخالف ہو جائے تو یہ اس کے لئے ایک سیاہ دن ہوتا ہے۔”جسونت سنگھ نے اپنی کتاب ”جناح: انڈیا، پارٹیشن انڈیپنڈنس“ میں ہندوستان کی تقسیم کے لئے جناح کے ساتھ نہرو، پٹیل اور کانگریس کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس معاملہ کا آخری باب ابھی نہیں لکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا: ”مجھے پارٹی سے نکالا گیا ہے لیکن میرا سیاسی زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کی سیاست کی جو اخلاقیات ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرکے لکھنے کی ضرورت ہے۔
پارٹی میں ڈکٹیٹر شپ جس طرح جاری ہے اور کئی رہنماؤ ں کو اپنی جگہ چھوڑ کر مجبوراً دوسری جگہ جاناپڑ رہا ہے۔ یہ بیان کرنے کے لئے کافی ہے کہ بی جے پی کس قدر آپسی انتشار ہے۔حتی کہ سشما سوراج بھی جسونت سنگھ کے ٹکٹ کاٹے جانے سے خوش نہیں ہیں۔ بی جے پی اس وقت دو خیموں میں تقسیم ہے۔ ایک خیمہ جو اڈوانی خیمہ کہلاتا ہے اس میں تمام سینئر لیڈران شامل ہیں۔دوسرا خیمہ مودی کا ہے جس میں نئے لیڈران شامل ہیں اور پارٹی ان ہی دو خیموں میں پس رہی ہے۔ معاملہ یہی تک نہیں رک رہا ہے بلکہ کئی قدم آگے بڑھ کر بات کی جارہی ہے اور بی جے پی حالت اس محاورے کے مصداق ہے کہ ”گاؤں ابھی بسا نہیں کہ چور پہنچ گئے“۔بی جے پی ابھی انتخاب جیت نہیں پائی لیکن عہدے کا بٹوارہ شروع ہوچکا ہے۔ تمام لیڈروں کو عہدے تقسیم کئے جارہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی اور نریندرمودی میں کس قدر خود اعتمادی ہے کہ اگلی حکومت ان کی ہی بننے جارہی ہے۔ جب ہی تو نریندرمودی نے ایوان صنعت و تجارت کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ بس کچھ ہی دن کی بات ہے ان کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔معاملہ تویہاں یہ ہے کہ وارانسی سے نریندر مودی جیت پائیں گے یا نہیں یہ بھی طے نہیں ہے۔ کیوں کہ ہندوستانی سیاسی نظام کا ایک اہم حصہ ذات پا ہے جو وارانسی میں نریندر کے مودی کے حق میں نظر نہیں آرہاہے۔ مودی کا پسماندہ ذات سے ہونا ان کے لئے چیلنج بن سکتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مشرقی اتر پردیش میں 22 سیٹوں پر پسماندہ ذاتوں کا دبدبہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہار کی بھی 11 سیٹ ایسی ہیں، جہاں دیگر پسماندہ ذاتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن خود بنارس میں ان کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ مودی ان کے بھروسے انتخاب جیت سکیں۔ 2009 کے انتخابات میں بی جے پی کے برہمن امیدوار مرلی منوہر جوشی کو دو لاکھ تین ہزار 122 ووٹ ملے تھے۔مختار انصاری کو ایک لاکھ 85 ہزار 911، تو اجے رائے کو، جو کہ ذات سے بھومی ہار ہیں، ایک لاکھ 23 ہزار 874 ووٹ، راجیش مشرا کو 66 ہزار 386 اور وجے پرکاش جیسوال کو 65 ہزار 912 ووٹ ملے تھے. وجے پرکاش جیسوال دیگر پسماندہ ذات والے ’اپنا دل‘ کے امیدوار تھے۔ ووٹوں کے اس ریاضی سے صاف ہے کہ اگر مودی کو پسماندہ اور دیگر پسماندہ ذاتوں کے ووٹ کے ساتھ مکمل برہمن ووٹ نہیں ملا تو بھومی ہار، مسلم، تھوڑے برہمن اور دیگر ذاتیں ایک ساتھ آ کر مودی کے لیے کافی مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فرقہ وارانہ صف بندی کے بعد بھی مرلی منوہر جوشی صرف 17 ہزار ووٹوں سے ہی جیت سکے تھے۔
جوں جوں انتخابی سرگرمی بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے تمام سیاسی جماعتوں میں باہمی مسابقت اور ووٹ حاصل کرنے کی دوڑ بڑھتی جا رہی ہے۔اس دوڑمیں حقیقت سے دور جھوٹے وعدے کرنے کی،سیاسی جماعتوں کے وعدے اور ان کے کام کے درمیان فاصلہ مسلسل بڑھ رہا ہے، اس سے عام لوگوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ساکھ اپنے نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے اور تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ کانگریس، بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کی اس وجہ سے تنقید ہو رہی ہے۔تاہم علاقائی پارٹی کہیں زیادہ جھوٹے دعوے کرتے ہیں اور اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتے۔ لیکن میڈیا کی توجہ ان جماعتوں پر کم ہی جا پاتی ہے۔ بہرحال اس معاملے میں حالیہ تنازعہ ایک پوسٹر کو لے کر اٹھا ہے، جس میں بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی کے بارے میں وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ امریکہ مودی سے ڈرتا ہے کیونکہ مودی بدعنوان نہیں ہیں۔یہ پوسٹر مودی اور بی جے پی کے حامیوں نے ہی جاری کیا ہے۔ لیکن وکی لیکس نے اسانج کے ایسے کسی بھی بیان سے انکار کیا ہے۔ اس کے بعد بی جے پی کی طرف سے کہا گیا کہ مودی کو نہ تو اسانج اور نہ ہی وکی لیکس سے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے۔اگر اس کی سرٹیفکٹ کی ضرورت نہیں تھی تو اسانج کے نام کا استعمال کیوں کیا گیا۔اس سے حقیقت اور دعووں کی حقیقت میں تضاد صاف دکھائی دیتا ہے۔ پہلے مودی اور بعد میں ان کی پارٹی مسلسل یہ کہتی رہی ہے کہ دیگر ریاستوں کے مقابلے گجرات کی کارکردگی اچھی ہے۔ ایسا نشر کیا جا رہا ہے ترقی کا گجرات ماڈل ہندوستان کی تمام بیماریوں کا علاج علاج ہے۔ لیکن حالیہ میڈیا رپورٹوں میں گجرات کی ترقی کے دعووں کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ان رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ گجرات میں سماجی معیار بہت سے دوسرے ریاستوں سے بدتر ہے جو اقتصادی پیمانے پر بھی گجرات سے کمتر نہیں ہیں۔
ہندوستان کی سیاست اس وقت بدترین دور سے گزر رہی ہے اور معاملہ اس وقت اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے جب پارٹی اور سیاسی رہنماؤں کا مقصد ملک کے مقصد سے بڑا ہوجائے۔ ملک اس وقت اسی دور سے گزر رہاہے۔ ایک پارٹی ہر حال میں اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنا چاہتی ہے خواہ ملک کے اندر انتشار وافتراق کیوں نہ پیدا ہوجائے۔ جوپارٹی بیرونی اشارے کے رقص کرتی ہو اور جن کے رہنما دوسرے ملکوں کا دورہ محض اس لئے کرتے ہوں کہ وہ یہ جان سکیں انہوں نے مسلمانوں کو کس طرح تباہ و برباد کیاتوان کا نظریہ ملک کے بارے میں کیا ہوسکتا ہے یہ ان کے ’باڈی لنگویز‘سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس پارٹی نے اقتدار پانے کے لئے اپنے کنبہ کو بڑا کیا ہے اور اس کنبہ میں ہر اس شخص کا شامل کیاگیا ہے جو اس کنبہ کے نظریہ کا کٹر مخالف رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی شمولیت دونوں کی موقع پرستی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ دونوں کا مقصدہر قیمت کا حصول اقتدار اورملک کے دولت کو لوٹنا ہے۔ حکومت ہند کے سابق سکریٹری اور جنتا دل متحدہ کے رکن راجیہ سبھا نتیش کمار کا دامن چھوڑ کر مودی کا دامن تھام لیا۔ ایم جے اکبر اگر بی جے پی میں شامل نہ ہونے توبھی اسے بی جے پی کا آدمی ہی کہا جاتا۔ کیوں کہ بی جے پی پرستی کی وجہ سے انہیں ’ایشین ایج‘سے ہاتھ دھونا پڑا۔ حالانکہ وہ بعد پربھو چاولہ کی جگہ آج تک کے گروپ ایڈیٹر بنائے گئے لیکن آج تک کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ ایم جے اکبر کی سربراہی میں مسلمانوں کے تئیں اس کارویہ مزید سخت ہوگیااور آج تک سے بھی ان کی چھٹی ہوگئی۔ جب کہ کانگریس نے انہیں کشن گنج سے فتح یاب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجا تھالیکن وہ کشن گنج کے مسلمانوں کی کوئی خدمت بحیثیت رکن پارلیمنٹ نہیں کرسکے۔ اب یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ وہ اپنی کون سی پالیسی کے ساتھ بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ کیا وہ بی جے پی پرستی کے نظریہ کو مزید سخت کرنا چاہتے ہیں۔ جو بھی لیڈر بھی بی جے پی کا دامن تھامتا ہے ان کی ایک ہی رٹ ہوتی ہے کہ وہ ترقی کا ساتھ دینے آئے ہیں،ملک کی حفاظت کرنے آئے ہیں۔ ان سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ وہ ملک کو کس سے خطرہ ہے۔ کیا آج فرقہ پرستی کے علاوہ ملک کے لئے کوئی بڑا خطرہ ہے؟ ترقی کس کی کریں گے جب ملک ہی انتشار میں مبتلا ہوجائے گا تو کس کی ترقی کریں گے۔ دراصل ترقی کو فرقہ پرستی کو فروغ دینے کے لئے بطور ڈھال استعمال کیا جارہاہے۔ ملک کے عوام کے جان بوجھ کر بھی مودی کی نام نہاد لہر میں بہہ رہے ہیں۔یہ ہندوستان کے لئے بہت خطرناک ہوگا۔نہ صرف ملک کے حالات دگرگوں ہوں گے بلکہ بیرون ملک ہندوستان کی شبیہ داغدار ہوگی۔
2014 میں لکھا گیا مضمون۔
ڈی۔۴۶، فلیٹ نمبر۔ ۰۱،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment