ڈاکٹر شہاب الدین کی موت نے ہندوستانی نظام کو برہنہ کردیا

 

عابد انور

Thumb


لوک سبھا کے سابق رکن اور راشٹریہ جنتا دل کی ریڑھ کی ہڈی ڈاکٹر شہاب الدین کی کورونا سے متاثر ہونے کی خبر آئی اور اسی کے ساتھ یہ بھی خبر آئی کہ انہیں دین دیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے، تو فوراً ہی بسکٹ کنگ کے نام مشہور بسکٹ کاروباری راجن پلئی کی موت یا د آگئی، دل میں ایک خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں راجن پلئی کی کہانی نہ دہرائی جائے اور یہ خدشہ سچ ثابت ہوگیا۔ راجن پلئی کو 4جولائی 1995کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ کسڈی میں تھے اور طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں دین دھیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایاگیا تھا اور 7جولائی 1995کو اسپتال میں ان کا انتقال ہوگیا تھا۔اس کے بعد اسپتال بھی سرخیوں میں آیا تھا۔ شہاب الدین کو جب دین دیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا تو ان کے رشتہ داروں کا الزام تھا کہ ان کا علاج صحیح طریقے سے نہیں ہورہا ہے۔ میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق جب شہاب الدین جیل جارہے تھے ان کے ساتھ َقیدی نے ہاتھ جوڑ کر منع کیا تھا آپ اسپتال نہ جائیں، اسپتال کے حالات بہت خراب ہیں، وہاں اور زیادہ انفکیشن ہوجائے گا اور یہی ہوا بھی، ان کے رشتہ دار بہتر علاج کے لئے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسپتال میں بہتر علاج کے لئے ہدایت بھی دی لیکن انتظامیہ نے انہیں بہتر علاج کے لئے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف نڈیا میڈیکل سائنس (ایمس) میں یا رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل نہیں کرایا۔ خبر کے مطابق بالآخر وہ کورونا سے دم توڑ گئے۔ ایک بڑے طبقہ کی دل کی مراد پوری ہوگئی۔ ہندوستان کا بعض طبقہ نہایت احسان فراموش واقع ہوا ہے۔ شہاب الدین نے جو کام بھی کیا جو تعلیمی ادارے قائم کئے، طبی تعلیمی ادارے قائم کئے، علاج و معالجہ کا نظام چست درست کیا، اس سے صرف مسلمان فائدہ نہیں اٹھاتے ہوں گے اکثریتی طبقہ بھی اس سے فائدہ اٹھاتا ہوگا۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ ہندی نیوز چینل ’آج تک‘ نے غالباً دس پندرہ سال قبل ڈاکٹر شہاب الدین نے ڈاکیومنٹری فلم بنائی تھی جس میں ا ن کی تعلیمی و طبی کارنامے اور خدمت سے متعلق کاموں کو دیکھایا گیا تھا۔  مجھے حیرانی بھی ہوئی تھی’آج تک‘ (حالانکہ اس وقت یہ اتنا زہریلا نہیں تھا) نے یہ ڈاکیومنٹری بنائی ہے۔ اسی ڈاکیو منٹری کے ذریعہ میں نے شہاب الدین کے دوسرے رخ کو جان پایا تھا۔ ورنہ میڈیا میں تو ان کی شبیہ ایک ڈان کی تھی، دبنگ کی تھی۔ میڈیا کی بات مان بھی لی جائے تو ان کا یہ روپ انصاف کے لئے تھا۔ جو فریادی ان کے پاس آتا تھا وہ انصاف کرتے تھے۔طریقہ صحیح تھا یا غلط یہ الگ موضوع بحث ہے۔ شہاب الدین کے بارے میں جب سیوان جیل میں تھے اور یہ پٹنہ ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے سے پہلے کاواقعہ ہے، ان کے پاس ایک برہمن فیملی جیل میں ملنے کے دن فریاد لے کر گئی تھی۔ معاملہ شادی سے متعلق تھا۔ بات طے ہوگئی تھی اور تلک و جہیز کا معاملہ بھی طے ہوگیا تھا لیکن لڑکا لالچ میں آگیا تھا وہ زیادہ جہیز کے لالچ میں شادی سے انکار کررہا تھا۔ یہی معاملہ لیکر برہمن فیملی ان سے ملنے جیل میں گئی تھی۔ جب ان کے سامنے سارا معاملہ رکھا گیا تو انہوں نے کہاکہ لڑکے گھر والوں کو فون لگائیے، فون لگایا گیا،فون پر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ آپ شادی سے کیوں انکار رکر رہے ہیں بلکہ یہ کہا کہ لڑکی کی شادی کا معاملہ آپ لوگ تاریخ طے نہیں کر رہے ہیں، کیا بات ہے، کب شادی کی تاریخ طے کر رہے ہیں، یہ ان کا کہنا تھا کہ لڑکے والوں نے فوراً شادی کی تاریخ طے کردی اور لڑکی کی شادی بھی ہوگئی اور لڑکا زیادہ جہیز مانگنے باز رہا۔ یہ تھاان کا دبدبہ۔ وہ صحیح معنوں میں یاروں کے یار تھے، دوستوں کے دوست تھے، فلاحی کاموں میں ہمیشہ آگے رہتے تھے۔ وہ بہترین تعلیم دوست تھے اس لئے انہوں نے سیوان میں تعلیمی اداروں کی لائن لگادی۔ ورنہ دوسرے دبنگوں کی دولت کا ابنار لگاتے، پوری دنیا میں بنگلے خریدتے، سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سیوان کے اکثریتی طبقہ میں سی بیشتر نے ان کے ساتھ اور ان کے خاندان کے ساتھ غداری کی۔ فائدہ اٹھانے میں سب سے آگے رہے لیکن کبھی ان لوگوں نے مصیبت کے وقت ساتھ نہیں دیا۔ ان کی اہلیہ حنا شہاب دو مرتبہ لوک سبھا الیکشن ہار گئیں۔ راشٹریہ جنتا دل کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے شہاب الدین کو آر جے ڈی نے بھی ساتھ نہیں دیا۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اگر سیوان کے یادووں نے محترمہ حنا شہاب کو ووٹ دیا ہوتا تو وہ رکن پارلیمنٹ ہوتیں۔ اگر شہاب الدین لالو یادو کے ساتھ نہ ہوتے تو بہار میں لالو کی حکومت کب کی ختم ہوچکی تھی۔فتح کے قریب آکر بھی آر جے ڈی اگر شکست سے دوچار ہورہی ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شہاب الدین جیل میں تھے۔ 
شہاب الدین کے ساتھ انتظامیہ کارویہ ہمیشہ معاہدانہ اور متعصبانہ رہا۔ 2016میں جب پٹنہ ہائی کورٹ سے شہاب الدین کو ضمانت ملی تو اور جیل سے رہا ہوکر سیوان کے لئے روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ ہزاروں گاڑیوں کا قافلہ تھا جو حکومت ہند اور بہار حکومت ہضم نہیں کرسکی اور ان کے خلاف سازش کا پیمانہ بڑا کردیا گیا۔شہاب الدین کی ضمانت پر پورا ہندوستان میں جیسے سکتے میں آگیا تھا۔ ضمانت ہر ملزم کا حق ہوتا ہے۔ شہاب الدین بغیر جیل گئے ضمانت پر باہر نہیں آئے تھے۔ پورے گیارہ سال جیل میں رہ کر باہر آئے تھے۔ بہار حکومت کی مسلم دشمنی اور نتیش کمار کی شہاب الدین سے ذاتی پرخاش کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ شہاب الدین پر جیل میں قید رہتے ہوئے 30سے زائد مقدمات قائم کئے گئے تھے۔ شہاب الدین کو ذلیل کرنے کے لئے نتیش حکومت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ بہانہ بناکر حکومت اور بی جے پی کے اشارے پر شہاب الدین کو اذیت دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھاکر رکھی گئی۔ان کو اور ان کے خاندان کو ذلیل و خوار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ محض اس لئے وہ مسلمان تھا۔ کیا ہندوستان میں غنڈوں کی کوئی کمی ہے۔کیا صرف مسلمان ہی غنڈے ہیں۔ کیا داؤد ابراہیم ہی سب سے بڑا غنڈہ ہے؟، لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والا کیا وہ غنڈہ نہیں ہے۔ گجرات فسادات میں ہزاروں مسلمان کا قتل کرنے والا کیا شریف ہے کیوں کہ وہ ایک ہندو ہے۔ شہاب الدین کو میڈیا نے اس لئے اتنا اچھالا کیوں کہ وہ مسلمان ہے۔ شہاب الدین کو صرف ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے سزا دی گئی ہے نہ کہ ایک مجرم کی حیثیت سے۔اگر دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو شہاب الدین نے سیوان کی ترقی، تعلیمی، میڈیکل کی تعلیم اور صحت اور سماج کے لئے جو کام کیا ہے وہ آج کوئی لیڈر نہیں کرسکا۔ اب آئیے بہار میں جب بی جے پی اور نتیش کمار شیرو شکر کی طرح رہتے تھے اور وہ قانون پر کتنا عمل کرتے تھے۔بی جے پی اور نتیش کمار کی نظر میں برہمیشور مکھیاکتنا بڑا دیش بھکت تھا کیوں کہ انہوں نے سیکڑوں دلتوں اور مسلمان کا قتل کیا تھا۔برہمیشور کے قتل کے بعد بہار میں کیا حال ہوا تھا اسے دیکھتے ہیں۔ 
برہمیشور مکھیا کے قتل کے بعد پٹنہ اور آراء اضلاع میں جس طرح کی دہشت گردی کا مظاہرہ کیاگیا اور بہار کی پولیس بے بس اور یہاں تک کے آئی جی کو بھی اپنی جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ نتیش کمار حکومت میں کس درجہ کا سوشاسن ہے۔ پولیس کا زور صرف کمزور اور بے سہاراپرہی چلتاہے۔ ممنوعہ رنویر سینا کے غنڈے اوردہشت گرد جس قدر عام لوگوں کے ساتھ مار پیٹ کی اور گاڑیوں کو جلایا اور اس حکومت نے اسے یہ سب کرنے کی اجازت دی کیا سبھی کو اس طرح کی اجازت دے گی؟۔ رنویرسینا کی طرح اسلامک موومنٹ آف انڈیا سیمی بھی ممنوعہ تنظیم ہے اورابھی تک اس پرکوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے لیکن رنویر سینا اور اس کے سربراہ کا جرم ثابت ہے اور ایک دو نہیں 277 افراد کے قتل عام کے مقدمے کا سامنا تھا،تو کیا سیمی کو بھی اسی طرح غنڈہ گردی کرنے اور پولیس اہلکاروں کی پٹائی کی اجازت حاصل ہوگی۔ بہار حکومت نے آخر کس بنیاد پر شو یاترا نکالنے کی اجازت دی تھی۔ مقتول برہمیشورمکھیاکوئی گاندھی جی کے چیلے تھے؟، یا جے پرکاش کے جانشین تھے؟، یابہت بڑے مجاہد آزادی تھے یا انہوں نے بہار کو ترقی کی اونچائیوں پرپہنچایا تھا؟، کیا تھاوہ کہ نتیش کمار کو لاش کاجلوس نکالنے کی اجازت دینی پڑی اور اس کے نتیجے میں جس قدر رنویرسینا کے غنڈوں نے پٹنہ کو یرغمال بنایا وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ میڈیااور یاتراؤں کے سہارے اپنی حکومت چلانے والے نتیش کمار حکومت میں کس قدر جنگل راج ہے۔ پٹنہ کی پوری تاریخ میں اس طرح کی غنڈہ گردیاوردہشت گردی دیکھنے کو نہیں ملی تھی جو سوشاسن حکومت میں ملی ہے۔ برہمیشور مکھیا جس کی درندگی کی کوئی مثال نہیں ملتی اس کی شان میں جلوس نکلنا وہ بھی ممنوعہ تنظیم کا نہ صرف غیر قانونی تھا بلکہ قانون کے منہ پرطمانچہ بھی تھا۔ رنویر سینا کے 70 سالہ بانی کوجمعہ کی صبح نامعلوم حملہ آور نے گولی مار کر قتل کردیاتھا جب وہ  4.15 بجے نوادا تھانہ علاقہ کترا محلہ میں واقع اپنے گھرکے آس پاس ٹہل رہا تھا۔ اس پر موٹرپرسوارتین لوگوں نے تابڑتوڑ فائرنگ کرکے ہلاک کردیاتھا۔ انتظامیہ نے کشیدہ حالات کے پیش کرفیو نافذ کردیا تھا اور دیکھتے ہی گولی ماردینے کا حکم جاری کیا گیاتھالیکن اس کے باوجود جس طرح سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اس اوررنویرسینا کا بال بھی باکا نہیں ہوا اس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اس میں انتظا میہ کی منشا شامل تھی۔ بدنام زمانہ برہمیشورکے قتل کے بعد بہار میں مکھیا کے حامیوں کا قبضہ ہو گیاتھااور انہوں نے پورے بہار میں وسیع پیمانے پر فساد مچا یا تھا۔ سرکاری مشینری ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔ پولیس مکھیا حامیوں کو ہر طرح کی کھلی چھٹ دے رکھی تھی۔چھوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مکھیا حامیوں نے شہر کے اہم بازار میں جم کر فساد مچایا۔ درجنوں دکانوں میں لوٹ مار کی گئی، گاڑیوں کے شیشے توڑدئے گئے اورکئی مقامات پر مظاہرین نے عام لوگوں کے ساتھ بھی مار پیٹ کی۔ یہ بالکل گجرات کے فارمولہ پرعمل ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ہندؤں کو اپنا غصہ نکالنے دیں۔ اسی طرح نتیش کمار نے رنویر سینا کے دہشت گردوں کو اپنا غصہ نکالنے بھرپور موقع دیا۔رنویر سینا کے کارکنوں نے  بی جے پی کے ریاستی صدر ڈاکٹر سی پی ٹھاکر، للن سنگھ اور سنیل پانڈے کی بھی پٹائی کی۔ یہاں تک عام آدمی اس قہر سے بچ نہیں پایا۔ کیا ان طرح کے قتل عام، غنڈہ گردی، فساد، بلوہ اور نظام و درہم برہم کرنے والوں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی کی گئی؟
ڈاکٹر شہاب الدین کی موت نے ہندوستانی نظام عدل کو ننگا کردیا اور اس کے اندر چھپے اور ظاہر زہر، تعصب اور مسلم دشمنی کی عفریت کو باہر نکال دیا۔ عدالت کے پاس فساد برپا کرنے والے، میڈیا کے ذریعہ پورے ملک میں آگ لگانے والے، مسلمانوں کو بدنام کرنے والوں کو پناہ دینے کا وقت ہے لیکن صدیق کپن، شہاب الدین، اعظم خاں اور درجنوں مسلمانوں سے متعلق معاملے کی سماعت کے لئے وقت نہیں ہے۔ شہاب الدین کی سزا پوری ہونے والی تھی اور تقریباَ سب میں ضمانت ہوچکی تھی اور وہ کچھ دنوں میں رہا ہونے والے تھے لیکن سسٹم نے اپنا کھیل کردیا۔ظلم و انصافی، غریبوں کی آواز اٹھانے، دالتوں بے سہاروں کی مدد کرنے والے اور کمزور اور بے کسوں کے لئے نظام قائم کرنے والے کو راستہ سے ہٹانا ضروری سمجھا۔ تاکہ استحصال، بنیا گری، غریبوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے اور تمام اسکیموں کو ہڑپنے والوں کا دروازہ کبھی بند نہ ہو۔ آج ڈاکٹر شہاب الدین کے بیٹے اسامہ شہاب اپنے والد کی لاش کو اپنے آبائی گاؤں پرتاپ پور لے جانے کے لئے دربدر بھٹک رہے ہیں لیکن مدد نہیں مل رہی ہے، آر جے ڈی کے لیڈران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، بڑے بڑے مسلم لیڈر کی طرف سے بھی کوئی خاص پہل نظر نہیں آرہی ہے۔ انتظامیہ لاش کو خاندان کے حوالے کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، ہائی کورٹ نے بھی لاش لیجانے کی عرضی کو ٹھکرادی ہے، شاید سپریم کورٹ سے کچھ سہارا ملے، لیکن اسی سپریم کورٹ کے فیصلے سے وہ دہلی کے تہاڑ جیل میں بند تھے اور نوبت ان کی موت تک پہنچی۔

Comments