فرقہ پرست طاقتیں، حکومت اور مسلمان

 

عابد انور

Thumb


فسطائی طاقتوں کا اآخری حربہ دہشت اور خوف کی نفسیات مبتلا کرکے اپنی کامیابی کی منزل طے کرناہوتا ہے۔یہودیوں کو روس سمیت یوروپی ممالک کے سے نکالا گیا تھا تو پہلے ان کے خلاف ماحول بنایاگیاتھا۔ کسی قوم کے ساتھ اچانک سب کچھ برا نہیں ہوتا بلکہ اس کاآغاز کئی طرح ہوتا ہے مثلاً اس کی تہذیب و ثقافت پر حملہ، اس کے مذہب پر حملہ اور اس کی زبان کو نیست و نابود کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ جب کسی قوم کی تہذیب و ثقافت، زبان اور مذہب  باقی ہ۔نہیں رہتا ہے تو اس قوم میں اتحاد و اتفاق کا عنصر بھی رفتہ رفتہ ختم ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ یہ تمام چیزیں کسی نہ کسی مرحلے میں قوم کو آپس میں جوڑ کر رکھتی ہیں  ایک دوسرے سے مربوط رکھتی ہیں۔ ایک دھاگے میں پیروکر رکھتی ہیں اور یہ چیزیں جب ختم ہوجاتی ہیں تو کسی قوم کو نشانہ بنانا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کس مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ یہاں منفی زیادہ مثبت پہلو کم ہے۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ ان کا کوئی قومی سطح کا لیڈر نہیں ہے۔ علاقائی کوئی لیڈر ہے تو مسلمانوں کا نہ لیڈر نہ بن کر وہ علاقے، مسلک اور ذات کا لیڈر ہے جس کا اثر ان طبقوں میں بھی نہیں ہوتا جس کی نمائندگی وہ کرتے ہیں۔ اسی تفریق کا فائدہ اٹھاکر یہاں کے سیاست دانوں، قومی، علاقائی پارٹیوں نے مسلمانوں میں کسی لیڈر پنپنے نہیں دیا۔ کسی نے پر نکالنے کی کوشش کی تو اس کا پر کاٹ دیا گیا۔ جب کوئی مسلمان سیاست میں قدم رکھتا ہے اور کسی عہدے پر پہنچتا ہے توپارٹی ہائی کمان ان کو سمجھا دیتے ہیں کہ وہ خود اور اپنے خاندان کو دیکھیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی فکر حکومت چھوڑ دیں۔قومی سیاسی پارٹی جس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام بھی لگتا رہاہے کے لیڈر نے جو سابق وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں وہ مسلم لیڈروں سے کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں کچھ نہ بولیں، بولنے کے لئے ہم ہیں۔ جب کہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ریاست میں ایک سازش کے تحت مسلم نوجوانوں کا قافیہ تنگ کیا ایسی سازشی کا شکار بنایا کہ اب تک اس کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہورہی ہے۔ اس ریاست میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے مسلم نوجوانوں کو اس تنظیم کے حامی ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا جاتاہے۔ اس اشارے کا ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم جس کو اپناہمدرد سمجھ لیتے ہیں حقیقتاً وہ کیا ہوتے ہیں اور وہ مسلمانوں کی جڑ کس طرح کاٹتے ہیں۔ اگر کوئی مسلم لیڈر ان سب چیزوں کی پروا کئے بغیر مسلمانوں کا کوئی کام کرتا ہے تو انہیں اس کی سزا دی جاتی ہے۔ سابق مرکزی وزیر مرحوم ضیاء الرحمان انصاری کا واقعہ قارئین کے ذہن میں ہوگا کہ انہوں نے مسلم پرسنل لابورڈ کے حق میں آواز اٹھائی تھی توانہیں کس طرح ذلت آمیز الزام کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا پڑا۔ یہاں مسلمانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایسے لیڈروں کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوجائیں تاکہ وہ اپنے آپ کو بے سہارا اور مجبور بے بس نہ پائیں۔ یہاں مسلمانوں غیروں سے زیادہ  ان پر تنقید کرتے ہیں اور ان کا جینا دوبھرکردیتے ہیں۔ ہم مسلم لیڈر شپ کی توقع توکرتے ہیں لیکن ان کے لئے کوئی قربانی دینے کیلئے آگے نہیں آتے۔ اس وقت بھی یہی صورت حال ہے۔ فسطائی طاقتیں ہمارے سر قلم کرنے پر آمادہ ہیں اور ہم ہیں کہ ذات پات، علاقائیت، مسلک اور زبان میں منقسم ہیں۔قوم کے عروج و زوال کی تاریخ میں ایسے کئی موڑ آتے ہیں جب اپنی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس  پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا پڑتا ہے جسے ہم نہیں چاہتے۔ معاملہ جب زندگی موت کا ہو تو کڑی چیز پینی پڑتی ہے اور اس وقت بدترین دشمن میں سے بدتر دشمن کا انتخاب ناگزیز ہوجاتا ہے۔ مسلمان اس وقت اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ عام آدمی پارٹی ہر جگہ وہ حیثیت نہیں کہ وہ فسطائی طاقتوں کا مقابلہ کرسکے۔ مجبوراً ہمیں اس امیدوار کو جتانا ہے جو ہمارے لئے کم نقصان دہ ہیں۔ یہ بات اس وقت مزید اہمیت اختیار کرلیتی ہے جب کھلم کھلا فسطائی لیڈران بدلہ لینے اور الیکشن کے بعد ’کون کٹے گا‘ جیسے جملے استعمال کررہے ہوں۔ یہ اشارہ کافی ہے کہ ان کا ارادہ کیا ہے۔
ہندوستان میں جب سے ہندوتو کا عروج ہوا ہے ہر سطح میں گراوٹ آئی ہے۔ اخلاقی، سیاسی، سماجی، تعلیمی،معاشی اور تمام شعبہ حیات میں ہر سطح پر زبردست زوال آیا ہے۔ جہاں لوگوں کی زندگی کی عادات و اطوار میں تبدیلی اور سطحیت آئی ہے وہیں آپس میں نفرت،عداوت اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے جذبے میں اضافہ ہوا ہے۔ جو لوگ بھائی بھائی کی طرح رہتے تھے اب دشمن کی طرح رہنے لگے ہیں۔ ہندوتو کے فلسفے اور ہندوتوکے علمبردار رہنماؤں نے اپنی سیاسی، سماجی کامیابی کے لئے نفرت کی بیچ بونے،عوام میں اشتعال پھیلانے، عورتوں کے خلاف مہم چلانے، عورتوں کی بے عزتی کرنے اور ان کا جنسی استحصال کرنا اپنا مطمح نظر بنالیا۔ اس کی وجہ سے ہندوستان میں خواتین کے خلاف جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ مسلم، دلت اور کمزور خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو شامل کرلیا جائے توجرائم کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ 1992کے بعد جب سے ہندوستان میں ہندوتو کے فلسفہ کو عروج حاصل ہوا ہے اس نظریہ کے لوگ ایم ایل اے اور ایم پی بنے اور یہاں تک کے ان کو حکومت حاصل ہوئی تو ملک کا نقشہ بھی بدلنے لگاہندوستان کے ہندو اور مسلمان جو ساتھ کھانا پینا، رہنا سہنا، اٹھنا بیٹھنا، شادی بیاہ میں شرکت کرنا، ایک دوسرے کے تہوارمیں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیناوغیرہ میں پیش پیش ہوتے تھے اس میں کمی آنے لگی اور جب مرکز میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت آئی تو ہندوتو کے علمبردار لوگوں کو فروغ حاصل ہوا کیوں کہ حکمراں طبقہ خود بھی اسی نظریہ کے سہارے آگے بڑھاتھا اور اس نظریہ کو پھیلانا ہی اس کا مقصد ٹھہرا تھا۔ سیاسی، سماجی، تعلیمی اورخلاقی سطح پر گراوٹ کا دور شروع ہوا۔ ہندوتوا فلسفہ کے علمبردار میں بیشتر کا پس منظر جرائم سے تھا گرچہ یہاں کا ہندو سماج اسے کرائم ماننا چھوڑ دیا تھا۔ مجرمانہ پس منظر کی وجہ سے ان کے لہجے میں جرائم کی جھلک دیکھی گئی۔ بڑے بڑے جرائم کے واقعات ہوئے لیکن ہندو سماج نے ایسے لوگوں کو ہیرو بنایا۔ بھگوان بنایا اور مجرموں کو پوجنا شروع کردیا۔ یہاں تک ایسے لوگوں کو اقتدار سونپ دیا۔اب صورت حال یہ ہے کہ جو جتنا بڑا مجرم ہوگا وہ ہندوستان میں اتنا ہی بڑے عہدے پر فائز ہوگا۔ اس کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہوا اور جرائم کرنے والے سیاست داں اور افراد بی جے پی میں شامل ہوتے گئے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بی جے پی مجرموں کی آماجگاہ اور پناہ گاہ گئی ہے۔ ملک بھر سیاست داں جو جرائم میں ملوث ہیں، یا بدعنوان ہیں، یا قاتل ہیں،فسادی ہیں،یا زانی ہیں، ان کے بی جے پی میں شامل ہوتے ہی وہ پاک صاف ہوجاتے ہیں اور پولیس، خفیہ ایجنسی، جانچ ایجنسی، پولیس سمیت عدالت تک ان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کرتی۔ اس لئے بی جے پی کے سیاست داں اور لیڈر کی زبان بگڑی ہوئی ہے اور وہ خواتین کی بھی عزت نہیں کرتے۔ خواتین کی آبروریزی کے معاملے میں متعدد بی جے پی رکن اسمبلی سے لیکر رکن پارلیمنٹ اور وزرائے تک ملوث پائے گئے ہیں۔ لیکن کس کی ہمت ہے کہ ان لوگوں کے َخلاف کوئی کارروائی کرے۔ بدتمیزی کا مظاہرہ ان کی عادت ہے اور یہی مظاہرہ ان لوگوں نے محترمہ پرینکا گاندھی کے کانگریس میں عہدہ سنبھالنے کے بعد کرنا شروع کردیا ہے۔پرینکا گاندھی جب سے کانگریس کی جنرل سکریٹری بنی ہیں ہندوتو طاقت اور بی جے پی میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے انہیں یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ مودی یوگی اور امت شاہ تو اپنی ہوش ہی کھو بیٹھے ہیں۔ بی جے پی کی لیڈروں نے اس پر سخت ردعمل کا اظہا رکیااور بی جے پی کے کچھ لیڈروں نے تو بدتمیزی کی حدیں پار کردیں۔ کچھ لیڈروں کویہ بھی خیال نہیں رہا کہ وہ بھی عورت کے کوکھ سے ہی جنم لیا ہے۔ 
ہندوستان میں حکومت کسی بھی پارٹی کی رہے لیکن کوئی بھی حکومت مسلمانوں کو ان کاواجب حق دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ البتہ مختلف بہانے مسلمانوں کو جیل میں ڈالنے کے لئے تمام حکومت مستعدرہتی ہیں۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ تمام ریاستوں میں جیل میں بندقیدیوں کے اعدادو شمارکہہ رہے ہیں۔ مغربی بنگال جہاں کمیونسٹ حکومت تقریباً 35برس تک رہی لیکن وہاں مسلمانوں کی حالت سب سے زیادہ ابترہے۔ بہاراور گجرات میں مسلمانوں کی حالت بہت ہی دگرگوں ہے لیکن دونوں ریاستوں میں ”وکاس پرش“  (نریندر مودی) اور سوشاشن بابو“ (نتیش کمار)کی حکومت ہے۔دونوں حکومتوں کو میڈیا نے مثالی حکومت قرار دیا ہے۔ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن نے نہ صرف مرض کی تشخیص کی ہے بلکہ اس کا علاج بھی بتایا ہے لیکن کوئی بھی حکومت اس مرض کا علاج کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت سمیت تمام ریاستی حکومتیں صرف کاغذوں پر ہی مسلمانوں کو ترقی دینا چاہی ہے۔یہ بات سوچنا چاہئے کہ مسلمان ہندوستان کانہ صرف ایک اٹوٹ انگ ہیں بلکہ اس کی تعمیر و ترقی میں برابر کے شریک بھی ہیں۔ اگرمسلمان تعلیم و ترقی کی راہ میں اپنے ہم وطن سے پسماندہ اور پچھڑاہوا رہا تو نہ صرف یہ کہ مسلمان ترقی یافتہ کہلانے سے محروم رہ جائیں گے بلکہ ہندوستان بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کبھی کھڑا نہیں ہوسکے گا کیوں کہ اتنی بڑی تعداد کو نظر انداز کرکے کوئی ملک ترقی کرنا تودور کی بات ترقی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔اگر حکومت چاہتی ہے کہ یہاں سب کو یکساں مواقع ملے تو پروگرام اوراسکیم کو نافذ کرنے کیلئے ایسے افسران کو مقرر کرنا ہوگا جو ہندوستان کا بہی خواہ ہو نہ کہ سنگھ پریوارکا۔
ملک کے موجودہ حالات پیدا کرنے کا مقصد اور مطلب یہی ہے کہ مسلمانوں کو عملی طور پر دوسرے درجے کا شہری بنادیا جائے، زندہ تو رہے لیکن کسی سسٹم کا حصہ نہ بن سکے، منہ میں زبان تو ہو لیکن اس میں بولی نہ ہو، سننے کی صلاحیت تو ہے لیکن اس پر ردعمل ظاہر کرنے کی ہمت نہ ہو۔ وہ ووٹ دے بھی تو ان میں کسی کا انتخاب کرنے کی صلاحیت باقی نہ رہے۔ تعلیم تو حاصل کرے لیکن وہ حاصل کرے جو حکومت وقت چاہتی ہو، وہ بھیڑ بکری کی طرح ہر وقت کٹنے مرنے کے لئے تیار رہے، ان کی بہن بیٹیوں کو مباح سمجھ لیا جائے اور ان میں مخالفت کرنے کی سکت نہ ہو اور وہ جب حکومت اور اس کی ایجنسی چاہے ان کے مکان، دوکان، زمین، وقف املاک، قبرستان، مزارات، درگاہیں، تاریخی آثار و قرائن پر دھاوا بول دے اور مسلمان اف تک نہ کرسکے۔ یہی حکومت وقت چاہتی ہے اور اسی طرح کا مسلمان بنانا چاہتی ہے اور مسلمان رفتہ رفتہ اسی طرح گامزن ہیں اور ہر مسلمان اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے کہ کب کو گرفتار کرکے جیل میں سڑا دیا جائے۔کاش مسلمانوں نے سکھ بھائیوں سے کچھ سبق سیکھا ہوتا۔

Comments