عابد انور
تعلیم ایسی کنجی ہے جس سے کامیابوں کے تمام تالوں کو کھولا جاسکتا ہے۔ اس لئے ہر دور میں اس کی سب سے زیادہ اہمیت رہی اور وہی قوم اس دنیا میں اپنا نام، مقام اور اہمیت درج کراسکی جس کے یہ زیور تھا۔ تعلیم کے بغیر نہ تو کوئی قوم آگے بڑھی ہے اور نہ ہی کوئی کارنامہ انجام دے سکی ہے۔مردوں کی تعلیم پر ابتدا آفرینش سے ہی زور دیا جاتا رہاہے اور اس طبقہ کا ایک حصہ کسی نہ کسی درجے میں ہر دور میں تعلیم حاصل کرتا رہا ہے۔ اگر کسی صنف کو اس دولت سے محروم کیا گیا تو عورت کی ذات تھی۔ پہلے خواتین کے بارے میں معاشرہ کا نظریہ انتہائی پیچیدہ تھا معاشرہ خواتین کو صرف ایک شئی تصور رکرتا تھا اس کے علاوہ اس کے ذہن میں کبھی یہ نہیں آتا تھا اگر معاشرے میں خواتین تعلیم یافتہ ہوں گی تو اس سے سب سے زیادہ بھلا معاشرے کا ہوگا۔ کیوں کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون پورے خاندان کو تعلیم یافتہ بناسکتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ناخواندہ خاتون ہے اس سے خاندان جہالت کے دلدل میں پہنچ جاتا ہے۔ اسی لئے اسلام میں تعلیم کو مرداور عورت دونوں پر فرض قرار دیا گیا اور جگہ جگہ اس کی اہمیت بیان کی گئی لیکن جس قوم اس زیور سے آراستہ کرنے پرجس قدر زیادہ زور دیاگیا وہ قوم آج اس میدان میں اتنا ہی پیچھے ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ حالات بدل رہے ہیں۔ معاشرہ، خاندان اور لوگوں کے نظریے میں تبدیلی آرہی ہے اور لوگ لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم پر یکساں توجہ دے رہے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے معاشرے میں عورت کی حیثیت یا مقام کی جانب تو بنیا دی اشارہ اس بات سے ملتا ہے کہ معاشرہ لڑکی کی پیدائش کو کس طرح قبول کرتا ہے۔ اگر ایک عورت حاملہ ہو تو سب یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا کرے بیٹا ہو، اگر بیٹی پیدا ہو تو عورت بد نصیب تصور کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں پیدائش ہی سے عورت کو مردسے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ اگر عورت کے حقوق کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کا سب سے پہلا اور بنیادی حق تعلیم ہے۔یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر قوم کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے۔ تعلیم ہی قوم کے احساس وشعور کو نکھارتی ہے اور نئی نسل کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کسی صفت و کمال سے وہ دل کی صفائی‘ فراخی اور وسعت حاصل نہیں کرسکتا جو علم کی بدولت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو تخلیق انسانی کے ظہور سے شروع ہوا۔
معاشرے کو سنوارنے یا بگاڑنے میں عورت کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ اسلام نے دنیا کو بتایا کہ جس طرح مرد اپنا مقصد وجود رکھتا ہے اسی طرح عورت کی تخلیق کی بھی ایک غائیت ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی تشکیل صرف مرد تک ہی محدود نہیں بلکہ عورت بھی اس میں برابر کی حقدار ہے۔عورت پر گھریلو ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت کے لئے امور خانہ داری کے علاوہ دنیا کے باقی کام ممنوع ہیں۔ بلکہ خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد وہ اپنے ذوق اور رجحان کے لحاظ سے علمی‘ ادبی اور اصلاحی کاموں میں حصہ لے سکتی ہے۔ بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا قوم و ملت کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ علم ہی ایک ایسی چیز ہے جو اچھائی برائی، نیز جاہل و عالم کے درمیان فرق کرتا ہے۔ علم ایک ایسا چراغ ہے جس کی مدھم مدھم لو کو بھی دنیا بھر کے اندھیرے بجھا نہیں سکتے۔لڑکوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیں لڑکیوں کی بھی تعلیم کا خیال کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہی لڑکیاں مستقبل میں ماں بننے والی ہیں اور ایک پڑھی لکھی تعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی سچی فکر کر سکتی ہے۔ کیونکہ ایک مرد کو تعلیم دینا ایک فرد کو تعلیم دینا ہے، مگر ایک عورت کو تعلیم دینا گویا ایک پورے خاندان اور معاشرے کو تعلیم دینے کے برابر ہے۔ اس لئے کہ ماں کی گود بچے کی اول اور عظیم و مستحکم تربیت اور تعلیم گاہ ہے، اس لئے کہ بچہ چوبیس (24) گھنٹے ماں کی نگرانی میں رہتا ہے اور بچہ کی یہ عمر موم کے طرح ہوتی ہے اس پر جو نقوش مرتب کئے جائیں وہ با آسانی نقش ہو جاتے ہیں اور پھر وہ کبھی نہیں مٹتے۔ اس لئے ہمیں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں پر توجہ دینی چاہئیے۔ اس لئے تمام والدین کے لئے لازم ہے کہ کھانے پینے، رہن سہن کے ساتھ ساتھ اپنی بچیوں کی تعلیم و تربیت کا بھی خاص طور پر خیال رکھیں، کیونکہ انہیں بچیوں پر بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہیں۔ اگر بچی ہے تو ماں باپ کی فرمانبرداری، شادی ہوگئی تو شوہر کی اطاعت، بچے، ساس، خسر وغیرہ کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں تو ان کے ساتھ حسن سلوک اور امور خانہ داری کی انجام دہی بھی اس کے ہی ذمہ ہوتی ہے۔ اگر وہ تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ نہیں ہے تو وہ صحیح طریقہ سے ان ذمہ داریاں کو نہیں نبھا سکے گی۔ اس لئے ہر والدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی طرح اپنی بچیوں کی تعلیم و تربیت کا بھی خاص طور پر دھیان رکھیں۔
ہندوستا ن میں آزادی کے بعد تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی اور اس کے بعد خواتین کی تعلیم کے لئے کئی پالیسی وضع کئے گئے۔ پہلے پنج سالہ منصوبہ میں تعلیم کے لئے خاطر خواہ رقم مختص کی گئی کیوں کہ آزاد ہندوستان کو سب سے بڑا جہالت سے ہی تھا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم نے بچوں کی تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیا اس لئے ان کی یوم پیدائش کو یوم اطفال کے طور منایا جاتاہے۔ ہندوستان کا آئین تمام ہندوستانی خواتین کویکساں حقوق (آرٹیکل 14)، ریاست کی طرف سے کوئی امتیاز نہ کرنے (آرٹیکل 15 (1))، مساویانہ مواقع (آرٹیکل 16)،ایک طرح کام کے لئے ایک ہی تنخواہ (آرٹیکل 39 (د)) کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ خواتین اور بچوں کے حق میں ریاست کی طرف سے خصوصی قانون بنائے جانے کی اجازت دیتا ہے (آرٹیکل 15 (3)۔اس کے علاوہ ۱۰۰۲ میں خواتین تعلیم یافتہ بنانے کے لئے قومی پالیسی وضع کی گئی۔حالانکہ اس میں تیزی آزادی کے بعد ہی آئی۔ حکومت نے عورتوں کی تعلیم کے لیے کئی پالیسیاں تیار کی، جس کی وجہ سے خاتون خواندگی میں زبردست تیزی آئی۔آزادی کے صرف تین دہائی بعد اس میں مردوں کی خواندگی کی شرح کی توقع تیز رفتار سے اضافہ ہوا۔ 1971 میں جہاں صرف 22 فیصد خواتین تعلیم یافتہ تھیں، وہیں 2001 تک یہ 54.16 فیصد خواتین تعلیم یافتہ ہو گئیں۔ اس دوران خواتین کی خواندگی کی شرح میں 14.87 فیصد کا اضافہ ہوا اور وہیں مرد خواندگی کی شرح میں اضافہ 11.72 فیصد ہی رہی۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ خواتین میں ترقی کے باوجود دختر کشی کے رجحان میں بہت زیادہ کمی نہیں آئی ہے سب سے زیادہ ان ریاستوں میں ہے جہاں ترقی کی روشنی سب سے زیادہ پہنچ رہی ہے اناج کے معاملے میں تمام ریاستوں میں صف اول ہے۔نئی مردم شماری میں ایک حوصلہ افزاء رجحان یہ بھی سامنے آیا کہ آبادی میں اضافے کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے اور خواندگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔پندرہویں آبادی کے ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں خواندگی کی شرح سال ۱۰۰۲ کے مقابلے میں تقریبا ۰۱ فیصد کااضافہ ہوا ہے۔شرح خواندگی ۱۰۰۲ میں جہاں بڑھ کر۴ء۰۶فی صد ہوگئی تھی وہیں ۱۱۰۲میں اس شرح میں مزید اضافہ ہوا ہے جو اب۶۰ء۷۶فی صد ہے۔ خواتین میں بھی خواندگی کی شرح تقریباََ ۹ فی صد بڑھی ہے۔ موجودہ شرح ۶۶ء۲۵فی صد ہے۔ ہندوستان میں اب۱ء۲۸ فیصد مرد اور ۵ء۶۵ فیصد خواتین خواندہ ہیں۔کیرالہ اور لکشدیپ میں سب سے زیادہ ۳۹ اور ۲۹ فی صد خواندگی ہے۔
ہندوستان میں خواتین اب تمام طرح کی سرگرمیوں جیسے کہ تعلیم، سیاست، میڈیا، فنون لطیفہ اور ثقافت، سروسز، سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ میں حصہ لے رہی ہیں۔ اندرا گاندھی جنہوں نے مجموعی طور پر پندرہ برس تک ہندوستان کے وزیر اعظم کے طور پر خدمت انجام دیں، دنیا کی سب سے طویل عرصے تک خاتون وزیر اعظم ہیں۔ہندوستان کی ترقی میں خواتین کی خواندگی کا بہت بڑا تعاون ہے۔ اس بات کو ن انکار کرسکتا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے خواتین کی خواندگی میں اضافہ ہو ہے۔ اس نے نہ صرف انسانی وسائل کے مواقع میں اضافہ کیا ہے، بلکہ گھر کے آنگن سے آفس کے کام کاج اور ماحول میں بھی تبدیلی آئی ہے۔خواتین کے تعلیم یافتہ ہونے سے نہ صرف لڑکیوں - تعلیم کو فروغ ملا، بلکہ بچوں کی نشو و نما میں بھی بہتری آئی ہے۔ خواتین کی خواندگی سے ایک بات اور سامنے آئی ہے کہ اس سے بچے کی شرح اموات میں کمی آ رہی ہے اور آبادی پر کنٹرول ہو رہا ہے۔آج خواتین تمام شعبائے زندگی میں نمایاں مقامات پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ جہاں وہ مرکزمیں اہم وزارت میں خدمات انجام دے رہی ہیں وہیں کئی ریاستوں میں وزیر اعلی بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اب کوئی شعبہ ان سے اچھوتا نہیں رہ گیا۔صنعت و تجارت کے میدان میں بھی اپنا جھنڈا گاڑ رہی ہیں۔ تعلیم و صحافت کے میدان میں بھی وہ صف اول میں ہیں۔
ہندستان میں تعلیم کے تئیں عوام میں بیداری کس حد تک آئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نجی تعلیمی مارکیٹ 2008 ء میں مالیت 40 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور 2012 تک 68 ارب ڈالر سے سے تجاوز کرگیا ہے۔تعلیمی اداروں کے قیام زبردست تیزی دیکھی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2009 میں ہندوستان میں 20 مرکزی یونیورسٹیاں، 215 سرکاری یونیورسٹیوں، 100 ڈیمڈ یونیورسٹی تھیں اس کے علاوہ دیگر اہمیت کے حامل ادارے ہیں۔ 16000 کالج ہیں جن میں 1800 خواتین کالج ہیں۔جب سے تعلیم کا حق نافذ ہوا ہے تمام بچوں کے لئے تعلیم کا حصول لازمی قرار دیاگیا ہے اور بچہ مزدوری پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور بچوں کو اسکول تک لانے کے لئے طرح طرح کی سہولتیں مہیا کرائی جارہی ہیں۔ جن میں بستہ، کتابیں، پوشاک اور وظائف شامل ہیں۔
ان تمام تعلیمی بیداری، سماجی زندگی میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شراکت کے باوجود مجموعی طور پر خواتین کی صورت حال میں بہت بہتری نہیں آئی ہے اس کا اندازہ حالیہ ایک سروے سے ہوا ہے۔ حال ہی میں دنیا میں خواتین کی صورت حال کے حوالے سے ایک سروے ہوا ہے، اس کے نتائج کوئی حیرت انگیز نہیں ہیں کیونکہ ہم لوگوں کو پتہ ہے کہ ہندوستان میں خواتین کی صورت حال کیا ہے؟ جیسے کہ توقع تھی اس میں ہندوستان کا آخری نمبر پر آیا ہے۔اس سروے میں تعلیم، صحت، روزگار اور تشدد جیسے کئی موضوعات پر خواتین کی حالت کا موازانہ کیا گیا ہے۔ صورت حال جاننے کے لئے ان ممالک میں خواتین کے حالات کا مطالعہ کرنے والے 370 ماہرین کی رائے لی گئی۔سروے 19 ترقی یافتہ اور ابھرتے ہوئے ممالک میں کیا گیا جن میں ہندوستان، میکسیکو، انڈونیشیا، برازیل سعودی عرب جیسے ملک شامل ہیں۔سروے میں کینیڈا کو عورتوں کے لئے سب سے بہترین ملک قرار دیا گیا۔ سروے کے مطابق وہاں خواتین کو مساوات حاصل ہے، انہیں تشدد اور استحصال سے بچانے کے انتظامات ہیں، اور ان کی صحت کی بہتر دیکھ بھال ہوتی ہے۔سروے میں ہندوستان کی پوزیشن کو سعودی عرب جیسے ملک سے بھی بری قرار دیا گیا ہے جہاں عورتوں کو گاڑی چلانے اور ووٹ ڈالنے جیسے بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ سروے کہتا ہے کہ ہندوستان میں خواتین کا درجہ دولت اور ان کی سماجی صورت حال پر انحصار کرتا ہے۔ ہندوستان کے 19 ممالک کی فہرست میں سب سے آخری نمبر پر رہنے کے لئے کم عمر میں شادی، جہیز، گھریلو تشدد اور شکم مادر میں بیٹیوں کا قتل جیسے وجوہات کو شمار کرایا گیا ہے۔
……..لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں!
روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہا ں سوچتے ہیں۔
Comments
Post a Comment