عابد انور
ملک میں کسانوں کی حالت کتنی خراب ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ1990کے بعد ہر سال تقریباً دس ہزار کسان خودکشی کرتے ہیں۔ کھیتی میں نقصان کی وجہ سے کاشتکاری کو چھوڑ کر دوسرے پیشے اختیار کر رہے ہیں۔ ان کو اتنے مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور اتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ آئے دن تحریک چلانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے 2022تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا دعوی کر رہی ہے جب کہ صورت حال یہ ہے کہ کھیتی کئی گنا مہنگی ہوگئی ہے، کھاد، بیج، آبپاشی اور کیڑے مار دوا (جراثیم کش دوا) کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں 25فیصد کسان ایسے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا ان کے لئے مشکل ہوتا ہے اور ان کے پاس اناج نہیں ہوتے کہ وہ اپنے خاندان کو کھلا سکیں، پہننے کو ڈھنگ کے کپڑے نہیں ہوتے، بچوں کو بہتر تعلیم دلانے کے لئے پیسے نہیں ہوتے،اچھی زندگی گزارنا تو بہت دور کی بات ہے۔ویسے ملک میں ساٹھ فیصد جائداد کا حصہ کاشتکاری سے متعلق ہے اور ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا 22 فیصد حصہ کاشتکاری سے آتی ہے۔کوروناوبا کے دوران جب تمام کاروباری سرگرمیاں ٹھپ تھیں، تمام صنعتوں پر تالا لگا ہوا تھا، آمدنی کے ذرائع مسدود ہوگئے تھے، کسان ہی تھے جو اقتصادیات کا پہیہ چلائے رکھا اور کاشتکاری کے ذریعہ جی ڈی پی کو سہارا دیا۔ اگر کسان بھی اپنی سرگرمیاں ٹھپ کردیتے تو ملک کو اناج کا قلت کاسامنا کرنا پڑتا ہی ملک کی جی ڈی پی بھی منفی پچاس کے آس پاس ہوتی۔ کسانوں اس وبا کے دوران اپنی جان کی پرواہ کئے بغیرملک اور یہاں کے عوام کا پیٹ بھرنے کے لئے کام کرتے رہے لیکن آج افسوس کی بات یہ ہے کہ وہی کسان آج سڑکوں پر ہیں۔ اپنے جائز مطالبات کے لئے تقریباَ ایک ماہ سے دہلی بارڈر پر مقیم ہیں اور سخت سردی کے موسم اپنی جان کی پرواکئے بغیر دھر نا دے رہے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ مگر حکومت ان کی بات سننے کے بجائے کسانوں کے خلاف مہم چلانے میں اپنی ساری طاقت صرف کر رہی ہے۔ اس کے تمام وزراء کسانوں کے خلاف میدان میں اتر چکے ہیں،ملک کے چھ سو سے زائد اضلاع میں کسان سملین، کسان پروگرام، پریس کانفرنس اور کسان سبھا کر رہے ہیں اور اس کے ذریعہ تین زرعی قوانین کے فائدے کسانوں کو سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ان پروگراموں میں انہی کسانوں کو آنے دیا جارہا ہے جو یقین دہانی کراتے ہیں وہ احتجاج نہیں کر یں گے اور زرعی قوانین کی حمایت کریں گے لیکن کسان باہر آکر ان تین زرعی قوانین کی نہ صرف مخالف کر رہے ہیں بلکہ دہلی کی سرحد پر دھرنا دینے والے کسانوں کی مکمل حمایت کر رہے ہیں۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ اس کسان تحریک کو قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ اور اس کے طرز پر چلنے والی ملک گیر کو صرف مسلمانوں کو قرار دیکر اسے نظر انداز کردیا جائے لیکن حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تحریک کسی ذات، یا مذہب یا علاقہ کی نہیں ہے بلکہ کسان تحریک ہے جس میں تمام طبقات، تمام مذاہب اورتمام علاقے کے کسان شامل ہیں۔ اسے مسلمانوں کی تحریک کی طرح سمجھنا حکومت کی سب سے بڑی بھول ہوگی اور اس کی قیمت پورے ملک کو چکانی ہوگی۔
ہندوستان دیہاتوں کا ملک ہے اور تمام دیہی لوگبڑی تعداد میں زرعی کام کرتے ہیں اسی وجہ سے ہندوستان کو بھی زراعت کا ملک کا نام دیا گیا ہے۔ تقریبا 70 فیصد ہندوستانی کسان ہیں۔ وہ ہندوستان کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں۔ کھانے کی فصلیں اور تلہن دلہن تیار کرتے ہیں۔ وہ تجارتی فصلوں کو پیدا کرتے ہیں۔ وہ ہماری صنعتوں کے لئے کچھ خام مال تیار کرتے ہیں، لہذا یہ ہماری قوم کی حیات کا دارومدار ان پر ہے۔ ہندوستان کے 60 فیصد لوگ براہ راست یا بالواسطہ زراعت پر انحصار کرتے ہیں، ہندوستانی کسان دن رات کام کرتے ہیں۔ وہ بیج بوتے ہیں اور رات کو فصلوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ وہ آوارہ مویشیوں سے فصلوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ اپنے بیلوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں تب جاکر اناج ہم تک پہنچ پاتا ہے۔ آج کل، بہت ساری ریاستوں میں، بیلوں کی مدد سے کھیتی باڑی کی تعداد تقریبا ختم ہوچکی ہے اور ٹریکٹروں کی مدد سے کھیتی باڑی کی جاتی ہے۔ ان کی بیویاں اور بچے ان کے کام میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ہندوستانی کسان غریب ہے۔ اس کی غربت پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کسان دو بار کھانا نہیں سکتا ہے۔ وہ ڈھنگ کا کپڑا حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ وہ اپنے بچوں کو بھی تعلیم نہیں دلا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے لئے صحیح کپڑے نہیں خریدتا ہے۔ وہ اپنی اہلیہ کو زیورات پہننے کی خوشی دینے سے قاصر ہے۔ کسان کی بیوی وہاں کپڑے کے چند ٹکڑوں سے انتظام کرتی ہے۔ وہ گھر اور کھیت میں بھی کام کرتی ہے۔ وہ گائے کو صاف کرتی، گائے کا گوبر اوپلے بنا کر دیواروں پر لگاتی اور دھوپ میں خشک کرتی۔بارش کے مہینوں میں یہ بطور ایندھن استعمال ہوتا۔
پچھلے بیس سالوں میں، ملک کے مختلف حصوں میں تقریبا 1.25 لاکھ کسانوں نے خودکشی کی ہے، خاص طور پر اترپردیش، ہریانہ، ایم پی، پنجاب، مہاراشٹرا کی ریاستوں میں۔ اکثر غیر موسمی بارشوں، بارش، قحط، خشک سالی کی وجہ سے کسانوں کی فصل مسلسل خراب ہوتی رہتی ہے اور کسانوں کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں تک کہ اگر بہت ساری پسماندہ ریاستیں رہ گئیں تو یہاں تک کہ پنجاب جیسی دولت مند اور انتہائی زرخیز زمین میں، کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں، جہاں سن 2000 سے لے کر 2010 تک مجموعی طور پر پانچ ہزار کسان خود کشی کر چکے ہیں۔ بھٹندا، سنگرور، مانسہ جیسے اضلاع خودکشی کرنے والے کسانوں سے خاص طور پر متاثر ہیں۔ دوسرے غریب پسماندہ، یا نسبتاکم ترقی یافتہ علاقوں کی صورتحال کتنی خوفناک ہوگی اس کا آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف کھانا دینے والا خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہا ہے، یعنی اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنے کنبے کو کھلا سکے اور دوسری طرف سالانہ ہزاروں کروڑوں غلہ سرکاری گوداموں میں سڑ کر تباہ ہوجاتے ہیں۔ غذائی اجزا کی دیکھ بھال اور تقسیم کے نظام میں غفلت کی وجہ سے، آج بھی، ملک میں دو سو ملین سے زیادہ افراد کے پاس صرف دو وقت روٹیصرف خوابوں میں ہی دستیاب ہیں، یعنی انہیں بھوکا رہنا پڑتا ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں تقریبا 135 کروڑ آبادی آباد ہے اور ملک کی 70 فیصد آبادی زراعت پر منحصر ہے، اس ملک میں زرعی تعلیم کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی تعداد کم ہے، ان میں معیاری تعلیم کی بھی کمی ہے۔ عالمگیریت کے دور میں، زراعت سے متعلق جدید تکنیک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعہ جو اس ملک میں آتی ہیں، ان کاشتکاروں تک زراعت کے پھیلاؤ کے طریقہ کار کو پھیلانا بہت ضروری ہے، یہ ایک سنجیدہ اور قابل غور موضوع ہے۔ تعلیم کا دوسرا پہلو جسے انتظامی تعلیم کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے وہ بھی محض نام نہیں ہے۔ قومی یا ریاستی سطح پر زرعی تعلیم کی یونیورسٹیاں اکثر تحقیقی اداروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے تحقیقی اداروں کی عدم موجودگی میں رہتی ہیں۔ چاہے وہاں اداروں کی کمی ہو، مالی و تکنیکی سہولیات کا فقدان ہو یا معیاری اساتذہ کا فقدان ہو، جس کی وجہ سے گرین انقلاب کے بعد کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوسکتا ہے۔ کسان ابھی بھی قدرت کے فضل پر منحصر ہیں۔ دیہی علاقوں میں زرعی تعلیم کو وسیع پیمانے پر پھیلانا چاہئے اور ہر تعلیمی ادارے کو کم سے کم سیکنڈری سطح تک تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ ان کا استعمال زراعت کی نچلی سطح کے وسیع پیمانے پر پھیلانے اور پیداوار کو بڑھانے میں استعمال کیا جانا چاہئے۔ملک کی 70 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور زراعت پر منحصر ہے۔ ایسی صورتحال میں، ہر ایک کسانوں کی خوشحالی کی بات کرتا ہے اور ان کے لئے منصوبے بناتا ہے، لیکن ان کا بنیادی مسئلہ جوں کا توں ہے۔ مصنف نے کسانوں کی مشکلات کو دور کرکے جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔آزاد ہندوستان سے پہلے اور آزاد ہندوستان کے بعد طویل عرصے کے بعد بھی، ہندوستانی کسانوں کی حالت میں صرف 19-20 کا فرق نظر آتا ہے۔ اچھے کسانوں کے بارے میں جن کی بات کی جاتی ہے ان کی انگلیوں پر ان کا شمار کیا جاسکتا ہے۔ بڑھتی آبادی، صنعتی اور شہریاری کی وجہ سے قابل کاشت رقبے میں مستقل کمی آتی جارہی ہے۔گاؤں کے دلالوں کے ذریعہ ہندوستانی کسان کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ وہ سود خوروں اور ٹیکس جمع کرنے والوں سے پریشان ہے، لہذا وہ اپنی پیداوار سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا ہے۔ ہندوستانی کسان کے پاس رہنے کے لئے مکان نہیں ہے۔ وہ تنکے کی ایک جھونپڑی میں رہتا ہے۔ اس کا کمرہ بہت چھوٹا اور اندھیرا والا ہوتا ہے۔ اگرچہ بڑے کاشت کاروں نے بہت بہتری آچکی ہے، لیکن چھوٹے زمینداروں اور معمولی کسانوں کی حالت اب بھی اطمینان بخش سے کم نہیں ہے۔
اس بدترین حال پر حکومت تین زرعی قوانین لیکر آگئی ہے جس سے کسانوں کے روزی روٹی چھن جانے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ ملک بہت مشکل سے ساہوکاروں، بنیوں، مہاجنوں سے کسی حد تک چھٹکارا پاسکا ہے۔ اب خطرہ بڑے ساہوکاروں کے پنجرے میں قید ہونے کا ہے، بندھوا مزدور بننے کا ہے۔ کھیتی چھن جانے کا ہے، کم از کم سہارا قیمت نہ ملنے کا ہے، اسی خوف نے کسانوں کو سڑکوں پر رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ حکومت نے کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، اسے خالصتانی، پنجابی، سکھوں کی تحریک، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی تحریک اور نہ جانے کیا کیا نام دیا ہے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کوئی مسلمانوں کی تحریک نہیں ہے کہ اسے بدنام کرکے ہندوؤں کو خوش کرلیں گے۔ یہاں کے اکثریتی طبقہ کی سمجھدار اور دماغی معیار کا امتحان ہے وہ ملک کو منتخب کرتے ہیں یا ملک پر حکومت کرنے والے لوگوں کو جو ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکے ہیں۔ ملک برباد ہوگا تو اس کی پوری ذمہ داری اکثریتی طبقہ کی ہوگی جو مسلم دشمن میں اندھی ہوچکا ہے اور عقل و شعور کھوچکا ہے۔ کسان تحریک اس کی آنکھ کو کھولنے کے لئے کافی ہے اگر اس نے آنکھ بند کرکے سب کچھ ہونے دیا توملک کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔
Comments
Post a Comment