پورے ملک میں کسان سڑکوں پر ہیں اور تین زرعی قوانین کو حکومت سے واپس لینے کے مطالبے کے لئے گزشتہ تقریباَ ڈھائی ماہ سے تحریک چلارہے ہیں۔تحریک کے دوران اب تک متعدد کسانوں کی جان جاچکی ہے، لیکن حکومت کے کان جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ یہ ملک کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ اناج پیدا کرنے والا آج اپنے حق کے لئے کس قدر پریشان ہے اور گوبرکھانے اور پیشاب پینے والی قوم بھی کسان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے۔تمام حقوق چھینے جانے کے باوجود انہیں قیمتی ووٹ سے نواز رہے ہیں۔ 2019کے لوک سبھا الیکشن کے دوران سب سے زیادہ کسانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ اس میں پنجاب کے کسانوں نے کم ووٹ دیا تھا جب کہ بہار کے کسان کے50 سے زائد لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔حالیہ بہار اسمبلی الیکشن میں کسانوں نے بڑی تعداد میں بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔اس کی پالیسی کو سمجھتے ہوئے بھی محض ہندو مسلم کرنے کے لئے لوگوں نے ووٹ دیا تھا اس لئے مودی حکومت آج کسانوں کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔
مودی راج میں صرف اقلیت، دلت، خواتین، قبائلی اور چھوٹے کاروباری طبقہ ہی پریشان نہیں ہے بلکہ ملک کا پیٹ بھرنے والے کسان بھی اسی طرح پریشان ہیں جس طرح دیگر طبقے کے لوگ۔ کسان جب اپنی حق بات کرتے ہیں تو ان کی گولی سے خاطر تواضع کی جاتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ کسانوں کے مسائل میڈیا میں سرخیاں نہیں بن رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی حکومت سے نکالے گئے سابق وزیر کپل مشرا کے آؤ بھگت سے میڈیا کو فرصت ہی کہا ں ہے۔ اس لئے ان کی توجہ کسانوں کی طرف نہیں ہے وہ کسانوں کو کوئی اہمیت دینا بھی چاہتا۔ وہ جہاں جہاں بھی جارہا ہے وہاں میڈیا کی ٹیم خبر نگاری کے پیشے دغا کرتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے چل رہی ہے۔گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے کپل مشرا ہی میڈیا کا ہیرو ہے۔ لیکن پورے ملک میں کسان پریشان ہیں، خودکشی کر رہے ہیں اور قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں لیکن ان کی تکلیف کو بیان کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ساگ سبزی کے دام قابو سے باہر ہیں،انسان کے لئے لازمی اشیاء کی خرید ان کے بساط سے باہر ہے، واجب دام نہ ملنے پر کسان اپنی فصلوں کو جلانے پرمجبور ہیں۔ کم از کم امدادی قیمت نہ ملنے کی وجہ سے کسان فصل کے لئے لئے گئے قرض ادا کرنے سے جہاں قاصر ہیں اور نجات کے لئے خودکشی کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ نیشنل کرائم بیورو کے ریکارڈ کے مطابق ملک میں کسانوں نے 2014میں 5650 خودکشی کی تھی۔ سب سے زیادہ کسانوں نے 2004میں اٹھارہ ہزار 241 کسانوں نے خودکشی کی تھی جو اس وقت این ڈی اے حکومت کا آخری دن چل رہا تھا۔ ہندوستان میں جتنی بھی خودکشی ہوتی ہے ان میں سے کسانوں کی شرح 11.2فیصد ہے۔ 2015اور2016میں 12ہزار کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ 2017میں یہ تعداد 14ہزار کے پار پہنچ جانے کا اندیشہ ہے۔مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، چھتیس گڑھ اور اترپردیش سرفہرست ہیں۔ تملناڈو کے علاوہ ہر جگہ بی جے پی کی حکومت ہے اس کے اتحاد ی کی ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ کل کسانوں کی خودکشی کرنے والوں میں بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں شرح 67فیصد ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کسانوں کے تئیں کتنی ہمدردی رکھتی ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں مدھیہ پردیش میں احتجاج کرنے والے چھ کسانوں کو گولی مار دی گئی ہے۔ ابتداء حکومت یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہی تھی کہ کسان پولیس کی گولی سے مرے ہیں۔ اس کے بعد اتنا کہا کہ گولی سے کسان مرے ہیں لیکن جانچ باقی ہے کہ پولیس کی گولی ہی سے مرے ہیں۔ بی جے پی حکومت کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ وہ کسانوں کی کتنی ہمدرد ہے۔ جب کسان احتجاج کر رہے تھے تو وہاں کے وزیر اعلی شیو راج سنگھ چوہان کسانوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے ’اپواس‘ پر بیٹھے تھے۔ مودی حکومت کی طرف سے مسلسل نظر انداز، کسان بہبود کی ضروری منصوبوں میں کٹوتی اور بدنیتی سے کئی ریاستوں کو 'ڈیزاسٹر ریلیف' فراہم نہ کیے جانے سے کسانوں میں زبردست مایوسی ہے جس کی وجہ سے زرعی برآمدات میں زبردست کمی آئی ہے۔
ہندوستان ایک زرعی ملک ہے(کرشی پردھان) 70 فیصد ہندوستانی کسان ہیں۔وہ ملک کی ریڑھ کوی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غذائی فصلوں اور تلہن کی پیداوار کرتے ہیں۔ وہ تجارتی فصلوں کو بھی پیدا کرتے ہیں۔ وہ ہمارے صنعتوں کے لئے کچھ خام مال کی پیدارتے ہیں۔ اس کی حیثیت رگوں میں دوڑنے والے خون کی ہے۔ہندوستان 60 فیصد زراعت پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر انحصار کرتا ہے۔ مانسون کی ناکامی،خشک سالی، بہتر قیمتوں کی کمی اور ہندوستان بھر میں کسانوں کی خودکشی کی ایک سلسلہ ہے۔ جو بچولیوں کے ذریعہ کسانوں کے استحصال کی ایک سیریز کو جنم دے سکتا ہے۔ ہندوستانی کسان سارا دن اور رات کام کرتے ہیں.۔وہ دھوپ اور برسات میں کام کرتے ہے. وہ بیج بوتے ہیں اور رات میں فصلوں پر نظر رکھتے بھی ہیں۔ وہ آوارہ مویشیوں سے فصلوں کی حفاظت کرتے ہیں اس کے باوجود ہندوستانی کسان غریب ہیں۔ ان کی غربت پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کسان کو دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہو پاتا. ان کو موٹے کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی میسر نہیں ہو پاتا ہے۔وہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے پاتے۔ وہ اپنے بیٹے اور بیٹیوں کا ٹھیک کپڑے نہیں دلا پاتے. وہ اپنی بیوی کو زیورات پہننے کا سکھ نہیں دے پاتے۔ کسان کی بیوی کپڑے کے چند ٹکڑے کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ وہ بھی گھر میں اور علاقے میں کام کرتی ہے۔ ملک کے کسانوں کو گاؤں کے بروکرز کی طرف سے پریشان کیا جاتا ہے۔وہ ساہوکار اور مہاجن سے پریشان رہتے ہیں اور اپنے ہی پیداوار سے لطف اندوز نہیں ہو پاتے ہیں۔
مودی حکومت کے تین سال پورے ہونے پر کانگریس نے مودی حکومت کے تین سال کی مدت میں کسانوں کی حالت کے بارے میں ’انن داتا-مرتیو کی ابھیشاپ‘ نام سے آٹھ صفحے کی ایک کتابچہ شائع کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس دوران روزانہ 35 کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ صرف 2015 میں 12 ہزار 602 کسانوں اور کسان مزدوروں نے خود کشی کی جبکہ 2014 میں 12 ہزار 360 کسانوں اور کھیت مزدورں و نے خود کشی کی تھی۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2016 میں یہ تعداد کے 14 ہزار تک پہنچ گئی ہوگی۔کسان کا قرض معاف کرنے کی بی جے پی کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے پارٹی نے کہا ہے کہ مودی حکومت نے چند سرمایہ کار دوستوں کا 154000 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا ہے لیکن قرض میں ڈوبے ملک کے کسان کا قرض معاف کرنے سے انکار کیا گیا ہے۔ ملک کی 62 فیصد آبادی کسان ہے اور اگر ان کا قرض معاف کیا جاتا تو ملک میں اناج کی پیداوار کی شرح بڑھتی اور زراعت برآمد میں اضافہ ہوتا۔ کانگریس نے لوک سبھا سوالنامہ سے حاصل اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں ملک کے زرعی برآمدات میں زبردست کمی آئی ہے۔ اسے بی جے پی کا نکماپن بتایا اور کہا کہ کانگریس کے دور میں زرعی برآمدات 32955 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی تھی لیکن مودی حکومت کے دور میں یہ گھٹ کر 13380 لاکھ ڈالر کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ ان تین برسوں کے دوران ملک کے زرعی برآمدات میں ہر سال کمی رہی جسے روکنے کے حکومت نے کوئی کوشش نہیں کی۔ غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے کسانوں کے ساتھ اس دوران زیادہ امتیازی سلوک ہوا ہے۔ گزشتہ تین سال میں مسلسل خشک اور قحط کے باوجود مودی حکومت نے بدنیتی سے کام کیا اور غیر بی جے پی حکومت ریاستوں کو ڈیزاسٹر ریلیف فراہم کرنے میں کمی کی۔ تمل ناڈو میں 17۔ 2016 کے لئے 39565 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اسے کچھ بھی راحت نہیں ملا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے دارالحکومت کے جنتر منتر میں دھرنا دینے والے تمل ناڈو کے کسانوں کی کوئی خبر نہیں لی۔ کرناٹک نے17۔ 2016 کے دوران 8013.37 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا اور انہیں 1782.44 کروڑ روپے دیے گئے۔ اسی طرح سے آندھراپردیش نے 2281.79 کروڑ روپے مانگے اور اسے کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ کتاب میں کسانوں کی فلاح و بہبود کے ضروری منصوبوں میں کٹوتی کا بھی الزام لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کٹوتی بی جے پی حکومت کی کسان مخالف ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ نیشنل فوڈ سیکورٹی مشن کے تحت 2014 میں 1799 کروڑ روپئے دیے گئے جو16۔ 2015 میں گھٹ کر 1067 کروڑ اور پھر 2016 میں یہ محض 998 کروڑ روپے رہ گئے۔ اسی طرح سے قومی زرعی ترقی کی منصوبہ بندی کے لئے۔15 2014 میں 8363 کروڑ روپے دیے گئے جو سال17۔ 2016 میں گھٹ کر 3559 کروڑ روپے رہ گئے۔
قومی ہرٹی کلچر مشن کے تحت15۔ 2014 میں 1068 کروڑ روپے مختص کیا گیا جو سال 16۔2015میں گھٹ کر 770 روپے رہ گیا۔ اسی طرح سے رینفیڈ ایریا ڈیولپمنٹ کے لئے گزشتہ تین سال میں الاٹمنٹ کو 304 کروڑ روپے سے کم کرکے 184 کروڑ روپے کر دیا گیا جبکہ قومی بببمو مشن کے تحت 15۔2014 میں جاری 125 کروڑ روپے کی رقم گھٹ کر17۔ 2016 میں محض 66 کروڑ روپے رہ گئی۔ روایتی زرعی ترقی کے لئے16۔ 2015 میں 225 کروڑ جاری کئے گئے جسے 17۔2016 میں کم کرکے 121 کروڑ روپے کیا گیا ہے۔بک میں دالوں کو لے کر بھی حکومت پر حملہ کیا گیا اور کہا کہ16۔ 2015 میں بی جے پی حکومت نے 44 روپے فی کلو کی شرح پر دالوں کی درآمد کی اجازت دی تھی جبکہ دالیں 230 روپے فی کلو کی شرح تک مارکیٹ میں فروخت ہوئیں۔ اس میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ ملک میں 17۔2016 کے دوران دالوں کی اچھی پیداوار ہے اس مدت میں 221 لاکھ ٹن دال کی پیداوار ہوا ہے اس کے باوجود حکومت نے 44 روپے کی شرح سے 54 لاکھ ٹن دال خریدی۔
ہندوستان میں موجود حکومت کی کوشش ہے کہ کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کردی جائے۔جب کہ مغرب اور یوروپ سمیت پوری دنیا میں زرعی مد میں سبسڈی جارہی ہے۔ فرانس کو ہر سال گیارہ بلین یورو یوروپی یونین زرعی تعاون کے ملتے ہیں۔ پانچھ لاکھ سے زائد لوگوں کو زرعی سبسڈی دی جاتی ہے۔ ان میں 80 فیصد تعاون خوراک ڈبہ بندی صنعت، خیراتی ادارے کو جاتا ہے۔ فرانس یوروپ میں چینی اور غذائی اجناس کا بڑا پیدواکرنے والا ملک ہے۔ اس کو سب سے زیادہ زرعی تعان ملتا ہے۔ امریکہ میں 20بلین ڈالر ہر سال کسانوں کو راست طور پر سبسڈی دی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ زیادہ سبسڈی مکے کی فصل کودی جاتی ہے۔2010میں یوروپی یونین 57بلین یوروزرعی ترقی میں خرچ کیا تھا۔ ان میں سے 39 بلین یورو راست طور پر کسانوں بطور سبسڈی دی گئی۔ یوروپی یونین کا 40فیصد سے زیادہ بجٹ زرعی اور ماہی پروری میں جاتا ہے۔ہندوستان میں زرعی سبسڈی کے مد میں دو لاکھ 60ہزار 128کروڑ دیا جاتا ہے۔اس میں کھاد، کاشت سبسڈی، زرعی آلات خریداری سبسڈی، کریڈٹ کارڈ سبسڈی، بیج سبسڈی، ایکسپورٹ سبسڈی، پیٹرولیم اور سودی کی سبسڈی شامل ہے۔اس کے برعکس گوشالا اور تحفظ گاؤں کے نام پر 2014سے 2016تک 87 ملین امریکی ڈالر یعنی 5.8 بلین ہندوستانی روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ بے کار گایوں کو بچانے کے لئے 2014راشٹریہ گوکل مشن شروع کیا تھا۔ مئی 2016میں حکومت ہند نے گوشالہ ایک قومی کانفرنس کی تھی۔ راجستھان میں گائے امور پر وزارت بنائی گئی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ 20لاکھ بے گھر لوگوں کو اس وزارت کے خرچ سے پناگاہ مل جائے گی۔ سماجی و اقتصادی شعبے سے متعلق مسائل کا مطالعہ کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ' انڈیا اسپینڈ' کی تازہ رپورٹ مطابق اتر پردیش اور مہاراشٹر حکومتوں کی طرف سے بالترتیب 36359 کروڑ اور 30 ہزار کروڑ روپے کے قرض کی معافی کے اعلان کے ساتھ ہی پنجاب، ہریانہ، تمل ناڈو، گجرات، مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں بھی کسانوں نے قرض کی معافی کا مطالبہ تیز کر دیاہے۔رپورٹ کے مطابق ملک میں کسانوں کی کل آبادی کا 67.5 فیصد چھوٹے معمولی کسان ہیں، جنہیں قرض معافی سے کوئی فائدہ ملنے کی توقع نہیں ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کی اقتصادی حالت اتنی بدترہے کہ وہ کھیتی کے لیے نئے آلات نہیں خرید پاتے۔ انہیں کھیتوں میں مزدوروں سے ہی کام چلانا پڑتا ہے۔ اس سے ایک تو پیداوار کم ہوجاتی ہے، اور دوسرا لاگت زیادہ آتی ہے اور منافعہ بھی کم ہوتا ہے۔ ان چھوٹے کسانوں کے لئے ادارہ جاتی قرض حاصل کرنے کے مواقع محدود ہوتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر تین میں سے ایک چھوٹاکسان ہی ادارہ جاتی قرض حاصل کر پاتا ہے۔ اس باقی چھوٹے کسانوں کو قرض کے لئے ساہوکاروں پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ ایسے میں جن آٹھ ریاستوں میں زراعتی قرض معافی کا مطالبہ اٹھا یا جارہا ہے وہاں صرف ایک کروڑ چھ لاکھ چھوٹے کسان ہی فائدہ اٹھاسکیں گے باقی اس سے محروم رہ جائیں گے۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ جانوروں کے لئے حکومت اتنی فکر مند ہے جب کہ انسان کے تئیں ان کا رویہ مایوس کن ہے۔ (مندرجہ بالا اعداد و شمار 2017 تک کے ہیں)
Comments
Post a Comment