مولانا محمد علی جوہر ایک محب وطن

    

Thumb


ہندوستان نے ایسے جیالوں کو پیدا کیا ہے جس نے نہ صرف ملک کی خاطر اپنی جان قربان کردی بلکہ اپنے ہم عصروں کیلئے عدیم المثال بنے اور اپنے اور اپنے خاندان کی فلاح بہبودکی بجائے ہمیشہ ملک کی فلاح و بہبود اور اس کی آزادی کے بارے میں سوچتے رہے اور ان کی نیند اس بات سے عبارت تھی کہ ملک کیسے آزاد ہو، انسانی قدریں کیسے بحال ہوں، غلامی کی زنجیروں کو کیسے کاٹا جائے۔ہندوستان کی عظمت رفتہ کو کیسے واپس لایا جائے، ملک کے عوام آزادی کی فضا میں کیسے سانس لیں، اس کے لئے ایسے لوگوں نے اپنی جان تک قربان کردی اور نہ اپنی اور نہ اپنی صحت کا کبھی خیال رکھا۔ ایسے ہی جیالوں، بطل جلیل، بہادر اور جانباز شخصیتوں میں مولانا محمد علی جوہر کا نام نامی آتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی ملک کی آزادی کے وقف کردی تھی اور غلام ملک میں مرنا بھی گوارا نہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں غلام ملک میں پیدا ضرور ہوا ہوں لیکن مروں گا آزاد ملک میں اور مولانا محمد علی جوہر اس پر قائم رہے اور ان کا انتقال لندن میں ہوا۔ ان کا یہ قول تاریخی اور کئی دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ جب وہ لندن میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکلے کہ اگر میں وطن جاؤں گا تو پروانہ آزادی یا نہیں تو موت۔مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھا ”میں امید کرتا ہوں کہ اپنی علالت اور امراض اور دنیا بھر کے جھگڑوں کے متعلق میری طویل تمہید کو آپ معاف کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج جس مقصد واحد کے لئے میں یہاں آیا ہوں وہ یہ ہے کہ ارمغان آزادی میرے ہاتھ میں ہو ورنہ میں ایک غلام ملک کو واپس نہیں جاؤں گا بشرطیکہ وہ آزاد ملک ہو، پس اگر ہندوستان میں تم ہمیں آزادی نہ دوگے تو یہاں میرے لئے ایک قبر تو تمہیں دینی ہی پڑے گی“۔
یہ تھا مولانا محمد علی جوہر کا جذبہ حب الوطنی،تاریخ اس طرح کی نظیر پیش نہیں کرسکتی کہ وطن کے جیالے نے ملک کے لئے اتنی بڑی قربانی دی ہو۔ مولانا محمد علی جوہر کی پیدائش  10 دسمبر1878کو اترپردیش کے رامپور میں ایک ممتاز گھرانے میں ہوئی تھی۔کمسنی میں والدکا انتقال ہوگیا تھا۔ والدہ محترمہ پر مولانا محمد علی اور تمام اولاد کی ذمہ داری آگئی۔جسے انہوں نے بخوبی نبھایا۔ والدہ محترمہ آبادی بانو بیگم جن کی عمر اس وقت محض 27سال تھی اور جو بعد میں بی اماں کے نام سے مشہور ہوئیں، خاندان کے افراد نے ان پر شادی کے لئے دباؤ ڈالامگرقوم کی تعمیر میں مگن محترمہ آبادی بانوبچوں کی پروش اور پرداخت پر توجہ دی اور ان کی قربانی رائیگاں بھی نہیں گئی اور قو م نے ہونہار سپوت کی شکل میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت کو پایا۔ مولانا محمد علی نے والدہ کی نگرانی میں ہی قران کریم، فارسی کی ابتدائی کتاب اور درسی کتابوں کو پڑھا جن میں گلستاں، بوستاں، رقعات عالمگیری اور سکندر نامہ جیسی شاہکار کتابیں شامل تھیں۔ گرچہ آبادی بیگم زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں لیکن انہیں قوم کی تعمیر و تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرنا تھا اس لئے گھریلو تعلیم کے بعد مولانا محمد جوہر کو مقامی اسکول میں داخل کرایا گیا اور بعد بریلی کے ایک اسکول میں داخلہ دلایا۔ قبل ازیں آبادی بیگم خاندانی روایات کے خلاف اپنے دو بیٹوں کو بریلی کے اسکول میں داخلہ دلاچکی تھیں اور اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانے کے دوران انہیں اپنے زیورات تک رہن رکھنے پڑے تھے۔ بریلی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مولانا محمد جوہر علی گڑھ کے ایم اے او کے اسکول میں داخل ہوئے جہاں ان کے دونوں بھائی ذوالفقار علی، شوکت علی بھی زیر تعلیم تھے۔ اس کے بعد مولانا محمد علی جوہر نے ایم اے او کالج میں تعلیم حاصل کی اور گریجویشن کی سند الہ آباد یونیورسٹی سے حاصل کی کیوں کہ اس و’قت ایم اے او کالج کا الحاق الہ آباد یونیورسٹی سے تھا۔ ان کی ذہانت اور امتیازی نمبر سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد مولنا محمد علی کے بڑے بھائی شوکت علی نے پیسوں کا انتظام کرکے ان کا داخلہ برطانیہ کے آکسفورڈ یونیورسٹی میں دلوایا۔جہاں سے انہوں نے تاریخ جدید میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی جہاں ان کی ملاقات کئی معزز ہستیوں سے ہوئی اور انقلابی خیالات کی بیج پڑچکی تھی۔ خاندان والوں کی خواہش تھی کہ وہ آئی سی ایس یعنی اس وقت کی انڈین سول سروس کے افسر بنیں لیکن ایسا نہ ہوسکا کیوں کہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ قدرت کو ایک محب وطن اور ملک کے ایک بے باک صحافی، شعلہ بیاں مقرر، عظیم مجاہد آزادی اور سچے سپاہی کو پیدا کرنا تھا تو وہ سول سروس والے کیوں بناتے۔ تعلیم کے بعد وہ رام پور میں مہتمم تعلیمات مقرر ہوئے،اس سے مطمئن نہ ہوئے اور اس سے مستعفی ہوکر مہاراجہ بڑودہ کے یہاں ملازمت اختیا رکرلی جو ان کے آکسفورڈ کے ساتھی تھے۔ بعد ازاں ایم اے او کالج کے ٹرسٹی مقرر ہوئے جہاں انہوں نے انگریزی اخبارات پر اپنی انشاء پرداری کا سکہ جمادیا بڑے بڑے انگریز مفکر اور صحافی مولانا محمد علی جوہر کی صحافت کا لوہا مانتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے کلکتہ سے کامریڈ ہفتہ روزہ انگریزی اخبار جاری کیا۔ کامریڈ کے اجرا کے ساتھ ہی ان کی عملی صحافتی زندگی آغاز ہوگیا۔ اسی کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر نے ہفتہ وار  نقیب ہمدرد جاری کیا جو بعد میں دہلی میں روزنامہ کی شکل اختیار کرلیا۔ کامریڈ اور ہمدرد میں انقلابی مضامین ہوتے تھے جو انگریزوں کی پالیسی کے خلاف تھے۔ جس کی وجہ انہیں سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی بار ضمانت ضبط ہوئی اوراخبار کو بھی بند کرنا پڑا۔  1913ء میں وہ دہلی آئے اور ایک اردو روزنامہ ’ہمدرد‘ کا آغاز کیا۔ ان کی اہلیہ بھی ان کا بھرپور ساتھ دیتی رہیں۔ مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ یونیورسٹی کی توسیع کیلئے بہت محنت کی جو اس وقت محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 1920 میں انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ابتدائی اجلاس میں شرکت کی جو دہلی میں منعقد ہوا۔ 1918ء میں وہ لیگ کے صدر بنے۔ محمد علی جوہر نے انڈین نیشنل کانگرس‘آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک خلافت کے معاملات کی نگرانی کی اور اس لحاظ سے انہیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے۔ 1919ء  میں انہوں نے مسلمانوں کے اس وفد کی نمائندگی کی جس کا مقصد برطانوی حکومت کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ وہ ترک قوم پرست مصطفی کمال پر زور ڈالے کہ وہ ترکی کے سلطان جو اسلام کے خلیفہ تھے کو خلافت سے محروم نہ کرے۔ برطانوی حکومت نے جب ان کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے خلافت کمیٹی بنائی جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج کریں اور اس کا بائیکاٹ کریں۔ 1921ء میں مولانا محمد علی جوہر نے ایک وسیع اتحاد بنایا جس میں مسلم قوم پرست مولانا شوکت علی‘ مولانا آزاد‘ حکیم اجمل خان، ڈاکٹر  مختار احمد انصاری اور مہاتما گاندھی شامل تھے جنہوں نے کانگرس کی حمایت حاصل کی اور اس کے علاوہ ہزاروں ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو گئے۔
 تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔ ترک موالات کی تحریک میں گاندھی جی کے برابر شریک تھے۔ جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا تھا۔انگریزوں کے خلاف مسلسل لکھنے اور بولنے کی وجہ سے مولانا محمد علی جوہر کو جیل کی صعوبتیں کی جھیلنی پڑیں۔ پہلے ان کو مہرولی میں نظر بند کیا گیا اس کے بعد  لینسڈاؤں منتقل کیا گیا اور پھر چھندواڑہ میں نظر بند کردیا گیا۔ نظربندی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ البتہ 16نومبر1916کی رپورٹ میں صرف اتنا کہا گیا کہ ”اس ماہ مئی میں محمد علی جوہراور شوکت علی کو اس لئے نظر بند کرنا ضروری معلوم ہوا کہ برٹش گورنمنٹ کے خلاف ان کی سخت اور تلخ کارروائیاں مسلمانوں کی ایک جماعت پر اثر ڈال رہی تھیں“ مجلس قانون ساز کے اراکین نے بھی ان کی اسیری کا معاملہ اٹھایا لیکن حکومت انہیں مطمئن نہ کرسکی۔ دوسران اسیری انہیں مشروط طور پر رہا کرنے کی پیش کش کی گئی۔ سی آئی ڈی کے سپرنٹنڈنٹ عبدالمجید نے آزادی کا فارم ان کے سامنے پیش کیا لیکن وطن کے جیالوں نے فارم پر کئے بغیر واپس کردیا۔ قید تنہائی کو قبول کیا لیکن مشروطرہائی کو پسند نہیں کیا۔ آخر کار 25دسمبر 1919کو سیاسی قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری ہوا اس ضمن میں علی برادران کو بھی رہا کردیا گیا سارے سیاسی قیدیوں نے اپنے گھر کی راہ لی لیکن مولانا محمد علی جوہر کی حب الوطنی دیکھئے وہ گھر نہ جاکر سیدھے امرتسر کے لئے نکل پڑے جہاں قومی جماعتوں کے اجلاس ہورہے تھے۔ جہاں انہوں نے جلیانوالا باغ سانحہ کے سلسلے میں کہا تھا ”میں ابھی جیل سے آیا ہوں اور گورنمنٹ کے فعل پر نفرین بھیجتا ہوں اور اگر ضرورت پڑی تو دوبارہ جیل جانے کے لئے تیار ہوں۔ جلیانوالا باغ حادثے نے صرف جسمانی تکلیف نہیں پہنچائی بلکہ روح کو بھی صدمہ پہنچایا ہے۔ جس کا اثر یہ ہوا ہے کہ ہندوستانی قوم دنیا میں سب سے متحدقوم بن گئی۔ پھر مولانا نے تقریر کے اخیر میں کہا تھا ...تم سے چند لوگوں کی آزادی کے لئے نہیں کہتاکہ باقیوں کو غلام چھوڑ دیا جائے، میں اس ملک کے لئے تم سے کہتا ہوں اور اس آزادی کے لئے جو بہت سے آزدی سے پیاری ہے۔،مسٹر تلک کو تیسری بار جیل چلاجانا چاہئے، مجھے دوبارہ عمر بھر کے لئے نظربند ہوجانا چاہئے اگرضرورت ہو۔ مسز بیسنٹ کو  ان کے سر بل پھانسی پر چڑھ جانا چاہئے مگر اس قسم کے مظالم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجانا چاہئے جیسے کہ پنجاب میں ہوا“۔
یہ تھا مولانا محمد علی جوہر کا حب الوطنی اور وطن پر مر مٹنے کا جذبہ، جب سے پہلی ترجیحی وطن کو دیتے ہیں اور اپنے آرام و آشائش کی پرواہ کئے بغیر ملک کو غلامی سے آزاد کرانے کے لئے جٹ جاتے ہیں۔ 1924کا سال مولانا محمدعلی کے لئے نہایت غم و اندوہ کا سال رہا۔ اسی سال ان کی چہیتی بیٹی آمنہ بیگم کا انتقال ہوگیا۔ ترکی میں خلافت کا خاتمہ ہوگیا اور اسی سال مولانا کی والدہ محترمہ بی اماں ہمیشہ ہمیش ان کے جدا ہوگئیں۔ ان تمام مصائب و آلام  کے باوجود انہوں نے فرمایا ”قومی مصیبتوں نے ذاتی مصبتوں کو  اس طرح نگل لیا ہے جس طرح حضرت موسی کے عصا نے ساحروں کے سانپوں کو نگل لیا تھا“۔
گول میز کانفرنس میں مولانا محمد جوہر نے 19نومبر 1930کو اپنی زندگی کی آخری تقریر کی جو اتنی زبردست مسحورکن تھی کہ حامی تو حامی مخالفین بھی قائل ہوگئے۔ مولانا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”میں آپ سے مستتعمراتی درجہ کی حکومت مانگنے نہیں آیا ہوں اور نہ میں اس کے حصول پر یقین رکھتا ہوں، صرف ایک چیز جس کا میں عہد کرچکا ہوں اور آزادی کامل ہے“۔ مسلمانوں کی سیاست کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھا ”مذہب میرے خیال کے مطابق حیات انسانی کی تشریح کا نام ہے۔ میرے پاس ایک تمدن ہے اور ایک ضابطہ اخلاق ہے۔ زندگی کا ایک نظریہ ہے اور حیات اجتماعی کے لئے ایک مکمل نظام ہے جس کو اسلام کتے ہیں۔ خدائے برتر کے حکم سامنے میں اول مسلمان ہوں دوئم مسلمان ہوں اور آخری بھی مسلمان ہوں اور سوائے مسلمان کے کچھ بھی نہیں ہوں لیکن جن امور کا ہندوستان سے تعلق ہے، ہندوستان کی آزادی سے تعلق ہے، ہندوستان کی فلاح بہبود سے تعلق ہے، میں اول ہندوستانی ہوں، دوم ہندوستانی ہوں اور آخر میں ہندوستانی ہوں، ہندوستانی کے سوا کچھ بھی نہیں“۔
مولانا محمد علی جوہر کی کوششوں سے ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا اور وہ پہلے شیخ الجامعہ مقرر ہوئے۔ مولانا محمد علی خلافت تحریک کے بانی بھی تھے۔ خلافت کے سلسلے میں ان کے اندر کتنی تڑپ بھی ان کی کی گئی متعدد تقریروں سے پتہ چلتا ہے۔ مولانا محمد علی جوہر نے اسی سلسلے کی کڑی میں ایک جگہ کہا تھا  ”1921میں ہم نے گورنمنٹ کو بھی ایک سال کی مہلت دی تھی اور اپنے کو بھی، لیکن معاہدہ کی شرائط اپنی طرف سے پورا کرنے میں ہم نے کوتاہی برتی اس لئے اپنے ناتمام کام کی قیمت میں سوراج کا مطالبہ نہ کرسکے۔آؤ ایک بار پھر ناگپور کی طرف قدم بڑھائیں اور اپنے خالق پر اعتماد کریں اور اس کے حضور میں گڑگڑائیں کہ ہمیں ہمت و دانش ثبات و استطاعت کی توفیق عطا کرے اور اس کام کو ازسرنو شروع کردیں جس کا نقشہ ہمارے سردار اعظم ہمارے لئے کھینچ گیا ہے۔اگر ہم اس کے اتباع کی کچھ بھی اہلیت رکھتے ہیں تو اہم اپنی گمشدہ آزادی حاصل کرکے رہیں گے“۔
خلاف تحریک میں پیش پیش رہنے والے مولانا محمد علی نے مہاتما گاندھی کے جنوبی افریقہ سے واپسی کے بعد اس کمیٹی کی سربراہی ان کو سونپ دی تھی اور موہن داس کرم چند گاندھی کو مہاتما گاندھی بننے کے سفر میں نمایاں رول ادا کیا۔ انہوں نے خلاف کمیٹی کے ذریعہ مسلم احیاء کی کوشش کی اور ان کی کوشش تھی کہ خلافت کا ترکی میں احیا کیا جائے۔ 
  یہاں آپ نے آزادیء وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ کا 4جنوری 1941 میں لندن میں انتقال  ہوگیا۔ تدفین کی غرض سے نعش بیت المقدس لے جائی گئی اور فلسطین کی مقدس سر زمین میں سپرد لحد کیا گیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ اور سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین نے مولانامحمد علی جوہر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا
”محمد علی کی زندگی کا بیان دراصل ایک قوم اور ایک ملت کے حالت اور مستقبل کی تفسیر کرتا ہے کہ محمد علی اسلامی ملت اور ہندی قوم کا قائد تھا اور نمائندہ بھی۔ ایک بیدار ہونے والے ملک، ایک خواب گراں سے جاگنے والی ملت کی ساری بے تابی، سارا وفور شوق،ساری سرگرمی، ساری فراموشی،ایک پیکر خاکی میں جلوہ گرتھی۔ یہی نہیں اس کی ذات آغاز کار کی تمام تکلیفوں اور پریشانیوں، بے ترتیبیوں اور ہنگاموں کا مظہر تھی۔ نامساعد حالات سے جنگ پیم، بے سروسامانی، بے یاری و مدد گاری. ہمرہوں کی خفتہ پائی، ہم نواؤں کی کج فہمی، غرض کونسی چوٹ تھی جس نے اس کی روح کے گوشہ گوشہ کو گھائل نہ کردیاہو۔وہ ہماری قومی و ملی زندگی کی اجمالی تصویرتھا، مگر ایک خاکہ دھندلاسااور نامکمل، اس کی تکمیل کا پورا حق بیسویں صدی اسلام اور ہندوستان کی سرگزشت لکھنے والا مورخ ادا کرسکے تو کرسکے مگر اس نمائندہ اور قائد کے سینہ میں ایک آگ تھی جس کی چندگاری سے خفتہ ملتیں اور بیدار اور مردہ قومیں زندہ ہوجاتی ہیں۔ وہ آگ جو باطل دوستوں کے لئے بہت ناگوار شعلہ نوائی کی شکل میں ظاہر ہوتی، کبھی آنسو بن کر اس کی سرشار محبت آنکھوں سے ڈھلتی تھی، اپنے سوز کے اس دفینہ آتشیں سے وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کے سینہ میں کچھ چنگاریاں منتقل کرگیا ہے جو اس کے ان خوابوں کی تعمیر کی ضمانت ہیں جنہیں نادان سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ختم ہوگئے“۔
مولانا محمد علی جوہر کوانگریزی زبان پر عبور کے علاوہ ان کی اردو دانی بھی مسلم تھی۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ مولانا کو اردو شعر و ادب سے بھی دلی شغف تھا۔ بے شمار غزلیں اور نظمیں لکھیں جو مجاہدانہ رنگ سے بھرپور ہیں۔ مثلاً
قتل ِ حسین اصل میں مَرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دواور 1920ء میں علی برادران دوبارہ دو سال کے لیے جیل بھیج دیے گئے۔ جیل میں نہ صرف انھوں نے شعر و شاعری کی بلکہ قرآن و حدیث، تاریخ اسلام کا گہرا مطالعہ کیا اور وہ جیل ہی میں مسٹر سے مولانا بن گئے۔ جب ان کو خبر ملی کہ ان کی صاحبزادی آمنہ علیل ہیں تو اللہ کے اس بندے نے اپنی قوتِ ایمانی کا اظہار کیوں کیا:تیری صحت ہمیں منظور ہے لیکن اس کو نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں۔

 

Comments