عابد انور
ملک میں میڈیاآج بے لگام نہیں ہوا ہے بلکہ ہندوستان میں جب سے ٹیلی ویژن نیوز کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس وقت سے بے لگام ہے یہ الگ بات تھی تھوڑا بہت لحاظ تھااگر وہ مسلمانوں کی خبریں نہیں دکھاتے تھے تو من گھڑت خبریں کھڑی کرکے بدنام بھی نہیں کرتے تھے۔ مسلم دہشت گردی کے تعلق سے ملک کا میڈیا خصوصاً ہندی میڈیا بے لگام ہونا شروع ہوا اور اس کے بعد اس کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ صورت حال یہ ہوگئی مسلمانوں کو بدنام کرنے میں ٹیلی ویژن چینلوں میں مسابقت شروع ہوگئی۔ مسلمانوں کی غلطی یہ رہی انہوں نے کبھی ان میڈیا چینلوں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی کے لئے مضبوط اور منظم اندازمیں عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔ اس کی وجہ سے بھی میڈیا کی ہمت بڑھتی چلی گئی۔ ایسا نہیں ہے کہ میڈیا کی نگرانی کرنے والے سرکاری ادارے نہیں ہیں۔ ادارے ہیں لیکن وہ نگرانی کاکام نہیں کرتے بلکہ ایسے میڈیا کو شہ دینے کے لئے ہیں۔ جب وزیر ہی جھوٹ بولنے پر آمادہ ہوجائے تو پھر کسی ادارے سے کیا توقع رکھی جائے لیکن پھر بھی بطور ثبوت متعلقہ ادارے میں میڈیا کے خلاف شکایت درج کرانی چاہئے۔ گزشتہ چھ برسوں سے جس طرح میڈیا بے لگام ہوگیا اور اظہاری آزادی کا مطلب مسلمانوں کو گالی دینا اور بدنام کرنا، من گھڑت باتیں پھیلانا، مدرسوں کو دہشت گردی کا اڈہ بتاکر بدنام کرنا، مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد بتاکر اس کی زندگی برباد کرنا، ہرمعاملے کو ہندو مسلم رنگ دینا، لوجہاد اور گھر واپسی کی مہم چلانا ہی سمجھ لیا ہے۔ اسی وجہ سے ہندوستانی میڈیا کی رینکنگ تحت الثری میں پہنچ گئی لیکن ہندوتو کے بے لگام گھوڑے پر سوار حکومت اور میڈیا کو کیا فرق پڑتا ہے وہ سیٹ ایجنڈے کے تحت اپنا کام کرتا ہے خواہ ملک کی بدنامی کتنی کیوں نہ ہوجائے، پوری دنیا تھو تھو کیوں نہ کرے، انہیں مسلمانوں کو ذلیل و خوار کرنے سے مطلب ہے اور اس کے پس پشت مسلمانوں کو قتل گاہ کی طرف دھکیلنا ہے اور مسلمانوں کے قتل عام کے لئے زمین ہموار کرنا ہے۔ یہی سازش ان لوگوں نے مارچ اپریل میں تبلیغی جماعت کے بہانے مسلمانوں بدنام کرنے اور کورونا کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے کے لئے کی تھی۔ جمعیۃ علمائے ہند نے میڈیا اور حکومت کی سازش کو پھانپتے ہوئے 6اپریل 2020کو ان میڈیا کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی جو اب بھی زیر سماعت ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے بروقت فیصلہ کیا ہوتا اور یا میڈیا کے بارے میں تبصرہ کیا ہوتا یہ نوبت نہیں آتی۔ سدرشن چینل کی سول سروس جہاد جیسے پروگرام تیار کرنے اور دکھانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ سپریم کورٹ نے اس پرکارروائی کی لیکن دیر سے کی اس وقت تک وہ چار قسط دکھا چکا تھا۔ اسی طرح اسی وقت سپریم کورٹ نے جمعےۃ کی عرضی پر کوئی حکم جاری کردیتا تو میڈیا کو تبلیغی جماعت کے بہانے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا حوصلہ نہیں ملتا۔ دیر سے ہی سپریم کورٹ نے میڈیا پر زبردست تبصرہ کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو لتاڑ لگائی۔سپریم کورٹ نے کہا ”حالیہ دنوں میں اظہاررائے کی آزادی کا بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے اور یہ کہ مرکزکی طرف سے جو حلف نامہ عدالت میں داخل کیا گیا ہے وہ نامکمل ہے اور حیلہ سازی وڈھٹائی پر مبنی ہے“۔
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے اس بات کیلئے بھی مرکزکو زبردست لتاڑ لگائی کہ اس نے اپنے حلف نامہ میں کہا ہے کہ اسے خراب یا منفی رپورٹنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا، چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل تشارمہتاسے سوال کیا کہ آپ یہ کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ غلط اور منفی رپورٹنگ کا کوئی واقعہ رونماہی نہیں ہوا، عدالت نے سالیسٹر جنرل تشار مہتاکے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ حکومت کی جانب سے جونیئر افسران کے ذریعہ داخل کردہ حلف نامہ میں یہ کیسے لکھ دیاگیا کہ عرضی گذار(جمعیۃ علماء ہند) نے بغیر کسی واقعہ اور حوالہ کے یعنی فیک نیوز کی تفصیلات دیئے بغیر پٹیشن داخل کردی۔ عدالت نے تشار مہتا سے کہاکہ عرضی گذار نے پٹیشن میں تبلیغی جماعت کے تعلق سے چلائے جانے والی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز خبروں سے متعلق تمام شواہد و ثبوت درج کئے ہیں۔چیف جسٹس نے تشار مہتا سے کہاکہ آپ عدالت سے اس طرح سے نہ پیش آئیں جس طرح آپ اپنے ماتحت افسران سے پیش آتے ہیں اور حلف نامہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ حقائق پر مبنی داخل کریں جس پر تشار مہتا نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کی اگلی سماعت پر سینئر افسر کے ذریعہ تیار کردہ تازہ حلف نامہ داخل کریں گے جو ان کی زیر نگرانی تیار کیا جائے گا۔عدالت نے سالیسٹر جنرل تشارمہتا سے یہ بھی کہا کہ حلف نامہ میں یہ خصوصی طور پر تحریر کریں کہ ماضی میں ایسی شکایتوں پر مرکزی حکومت نے کن قوانین کے تحت کیا کارروائی کی ہے نیز کیا حکومت کو ٹیلی ویژن پر پابندی لگانے کا اختیار ہے؟ چیف جسٹس نے تشارکو مہتا کو حکم دیا کہ دو ہفتوں کے اندروزارت نشریات واطلاعات کے سیکریٹری کی جانب سے حلف نامہ داخل کرکے یہ بتائیں کہ ایسے نیوز چینلوں کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ آزادی ئ اظہار رائے کا حالیہ دنوں میں بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے چیف جسٹس اے ایس بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم کوبتایا کہ یونین آف انڈیا کی جانب سے داخل کیا گیا حلف نامہ عدالت کو گمراہ کرنے والا ہے نیز ہماری جانب سے داخل کردہ پٹیشن میں سیکڑوں خبروں کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو بدنام کیا گیا تھا۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی حکومت کے حلف نامہ سے ایسا لگتا ہے کہ عرضی گذار نے پٹیشن داخل کرکے آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
ملک کے بے لگام ٹی وی چینلوں پر لگام لگانے کی قانونی پہل سب سے پہلے جمعیۃعلماء ہند نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے کی تھی جمعیۃعلماء ہند کی امدادی قانونی کمیٹی کی طرف سے دائر عرضی میں کہا گیا تھا کہ میڈیا مسلمانوں اور تبلیغی مرکز کو لیکر انتہائی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کررہا ہے اس کی متعصبانہ رپورٹنگ کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے اوراس کے کوریج پر روک لگانے کا مطالبہ بھی کیا تھا اس کے علاوہ شوشل میڈیا پر فرضی خبریں پھیلانے پر کارروائی کے لئے حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔عرضی میں میڈیا اداروں کے ذریعہ مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کو لے کر ہونے والی رپورٹنگ سے فرقہ واریت پھیل رہی ہے اور میڈیا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔عرضی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ نظام الدین مرکز کو میڈیا فرقہ وارانہ رخ دے رہا ہے اور تبلیغی جماعت سے متعلق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹ نے“پوری مسلم قوم کو نشانہ بنایا اور مسلمانوں کی توہین کی گئی ہے اور ان کی دل آزاری کی گئی۔ میڈیا کے ذریعے جو رویہ اختیار کیا گیا اس سے مسلمانوں کی آزادی اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے '' جو دستور آئین میں دیئے گئے رائٹ ٹو لائف کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔درخواست میں کہا گیاتھا کہ بیشتر اطلاعات میں ''کورونا جہاد''، ''کورونا دہشت گردی'' یا ''اسلامی بنیاد پرستی'' جیسے جملے کا استعمال کرتے ہوئے غلط بیانی کی گئی ہے۔ اس پٹیشن میں ''متعدد سوشل میڈیا پوسٹس'' کو بھی درج کیا گیا ہے جس میں ''غلط طور پر کووڈ 19 کو پھیلانے کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے''۔ اس کے ساتھ ہی جھوٹی اور جعلی ویڈیوز کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ نظام الدین واقعے کی کوریج کرتے ہوئے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔جس نے مسلمانوں کے معاملے میں دستور ہند کی دفعہ آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے ذریعے 31 مارچ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس میں ''میڈیا کو ہدایت دی گئی تھی میڈیا ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کریں اور غیر تصدیق شدہ خبریں شائع اور نشر نہ کریں۔
13/اپریل کو جمعیۃعلماء ہند کی عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا ودیگر دوججوں کے سامنے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل آن ریکارڈ اعجاز مقبول ایڈوکیٹ نے مضبوطی سے اپنے دلائل رکھے تھے اور کہا تھاکہ تبلیغی مرکزکو بنیادبناکر پچھلے دنوں میڈیا نے جس طرح اشتعال انگیز مہم شروع کی یہاں تک کہ اس کوشش میں صحافت کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بھی پامال کردیا گیا اس سے مسلمانوں کی نہ صرف یہ کہ سخت دلآزاری ہوئی ہے بلکہ ان کے خلاف پورے ملک میں منافرت میں اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح 27مئی 2020 کی سماعت میں عدالت عظمی نے مرکزی حکومت کے وکیل سے کہا کہ وہ عرضی گذار کو بتائے کہ اس تعلق سے حکومت نے کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک قانون کی دفعات 19 اور 20 کے تحت ابتک ان چینلز پر کیا کارروائی کی ہے اس کے ساتھ ہی عدالت نے جمعیۃعلماء ہند کوبراڈ کاسٹ ایسوسی ایشن کو بھی فریق بنانے کا حکم دیا۔ عدالت نے تشارمہتاکو کہاکہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے جس سے لاء اینڈآڈرکا مسئلہ ہوسکتاہے لہذاحکومت کو بھی اس جانب توجہ دینا ضروری ہے،اسی درمیان سینئروکیل دوشینت دوے نے کہاکہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور عدالت کو اس پر خصوصی توجہ دینا چاہئے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کو اس تعلق سے علم ہے۔ اسی طرح 19 جون کو سپریم کورٹ میں تیسری مرتبہ سماعت ہونے والی تھی لیکن چیف جسٹس آف انڈیا کی عدم دستیابی کی وجہ سے سماعت ٹل گی تھی۔ 7 اگست کی سماعت پرمرکزی حکومت نے حلف نامہ داخل کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کی عرضداشت کو خارج کیئے جانے کی درخواست کی اور کہا کہ میڈیا کو خبریں نشر کرنے کی آزادی ہے جبکہ نیوز براڈ کاسٹ ایسو سی ایشن نے بھی حلف نامہ داخل کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ عرضی گذار کو سپریم کورٹ سے شکایت کرنے سے پہلے اس کے سامنے مبینہ فیک نیوز چینلز کی شکایت کرنا چاہئے تھی اور اگر وہ اس پر کارروائی نہیں کرتے تب انہیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا نا چاہئے تھا۔اسی درمیان پریس کونسل آف انڈیا کی جانب سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ پرتیش کپور نے کہا کہ ہم نے پچاس ایسے معاملات کو نوٹس لیا اور اس کی جانچ ہورہی ہے اور جلد اس پر فیصلہ جاری کریں گے، ایڈوکیٹ بھیمانی نے بھی کہا کہ انہیں بھی فیک نیوز کی سو سے زائد شکایتیں موصول ہوئی ہیں اوروہ اس پر کارروائی کررہے ہیں جس پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپننا اور جسٹس رشی کیش رائے پر مشتمل تین رکنی بینچ کو بتایا کہ یہ لوگ کچھ نہیں کررہے ہیں، دو ماہ سے زائد کا عرصہ گذر گیا ہے ابھی تک انہوں نے ایک شکایت پر مثبت کارروائی نہیں کی، بس عدالت میں بیان دے رہے ہیں کہ جانچ جاری ہے اور عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں۔
ایڈوکیٹ دوے نے کہا کہ یہ تنظیمیں صرف ایڈوائزری تنظیمیں ہیں، یہ کوئی ایکشن نہیں لے سکتی ہیں، صرف حکومت ایکشن لے سکتی ہے لہذا عدالت کو چاہئے کہ حکومت کو حکم جاری کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ایکسپرٹ باڈی کی رائے طلب کررہے ہیں اورایکسپرٹ باڈی کی رائے آنے کے بعد کارروائی کی جائے گی۔دوران بحث ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ اپریل ماہ میں وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے خودکہا تھا کہ کرونا بیماری کو مذہبی رنگ نہ دیا جائے اس کے بعد بھی نیوز چینلز نے اسے مذہبی رنگ دیا۔ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ پریس کونسل آف انڈیا اور نیوز براڈ کاسٹرس ایسو سی ایشن صرف اپنے ممبران پر کارروائی کرسکتی ہے لیکن اس معاملے میں کئی ایک ایسے ادارے بھی ہیں جو ان کے ممبر نہیں لہذا ان پر کاررائی کون کریگا؟ اس لیئے حکومت اس معاملے میں فیک نیوز چینلز پر کارروائی کرے۔ اس معاملے میں حکومت بھی کچھ نہیں کررہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہمارا تجربہ ہے کہ جب تک ہم حکومت کو حکم نہیں دیتے حکومت کچھ نہیں کرتی، چیف جسٹس نے یونین آف انڈیا کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ تشار مہتا سے کہا وہ ان کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ عدالت جب تک حکومت کو حکم نہیں دیتی کچھ نہیں کرتی۔
سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدا رشدمدنی کہا تھا نے حالیہ دنوں میں میڈیا بالخصوص الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی مسلسل منفی رپورٹنگ ہماری تمام تردرخواستوں اور مطالبوں کے باوجود ٹی وی چینلوں نے مسلمانوں کے خلاف جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈے کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ ہم حکومت سے بھی یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ نفرت بونے والے اور مسلمانوں کی شبیہ کو داغدارکرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، مگر افسوس ہمارے مطالبہ کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہم اس سے پہلے بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ میڈیا کا ایک بڑاحلقہ اپنی رپورٹنگ کے ذریعہ معاشرے میں جو زہر بورہا ہے وہ کوروناوائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ حال ہی میں تبلیغی مرکز کو لیکر میڈیا نے تو اخلاق وقانون کی تمام حدیں توڑدی ہیں اب اس کی وجہ سے اکثریت کے ذہنوں میں یہ گرہ مضبوط ہوگئی ہے کہ کورونا وائرس مسلمانوں کے ذریعہ پھیلائی ہوئی کوئی بیماری ہے، انہوں نے سوال کیا کہ اگر لمحہ بھرکے لئے بھی یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ وائرس ملک میں جماعت کے لوگوں سے پھیلا تو کیا چین، امریکہ، اٹلی اور برطانیہ سمیت دوسرے ممالک میں بھی اس وباکو مسلمانوں نے ہی پھیلایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ کس قدرمضحکہ خیز الزام ہے کہ مگر اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ لوگ اس طرح کی چیزوں کو سچ سمجھ لیتے ہیں درحقیقت اس کرونولوجی یعنی کہ ترتیب کو سمجھنے کی ضرورت ہے، یہ ٹی وی چینل ازخودایسا نہیں کررہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے بعض مخصوص ذہن کے لوگوں کا دماغ کام کررہا ہے اور جن کی ہدایت پرہی یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ پچھلے 6سال سے میڈیا میں مسلم اقلیت کے بارے میں منفی رپورٹنگ کا مذموم سلسلہ جاری ہے مگر حکومت نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔
بے لگام میڈیا کو حکومت نے جس طرح دفاع کرنے کی کوشش کی ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے یہ سب حکومت کے اشارے پر کیا گیا تھااور پس پردہ اس کھیل میں حکومت شامل تھی۔ اس سے بڑھ کر ملک لئے بدقسمتی کی بات کیا ہوسکتی ہے حکومت ہی مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے پر آمادہ ہے اور مختلف بہانوں سے مسلمانوں میں خوف و دہشت اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو حکومت کا تحفظ حاصل ہے اس لئے آج تک گزشتہ چھ برسوں کے دوران مسلم کمیونٹی کے خلاف جرم کا ارتکاب کرنے والے کسی مجرم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت چاہئے۔ دنیا کی پہلی حکومت ہوگی جو ایک طبقہ کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔
Comments
Post a Comment