شاہین باغ تحریک کی گونج ٹائم میگزین میں

 

Thumb


شاہین باغ خاتون مظاہرین کی تحریک جس نے ہندوستانی حکومت کی نیند اڑا دی تھی، جس کی صدا کی باز گشت پوری دنیا میں شدت کے ساتھ سنی گئی اور پوری دنیا میں سنی جانے والی صدا ہی ہندوستانی حکومت کی نیند اڑانے کے لئے کافی تھی، اس کے بعد پوری دنیا کے میڈیا میں شاہین باغ تحریک کا کوریج،یورپی اراکین پارلیمنٹ کا ان خاتون مظاہرین کے حق میں کھڑا ہونا،یوروپی پارلیمنٹ میں قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے بارے میں بحث کرنا، پوری دنیا میں مسلم خواتین کے تئیں نظریہ بدلنا، خاص طور پر جب مفروضہ عام کردیا گیا تھا کہ مسلم خواتین باڑے میں رہتی ہیں، پردے کی چہار دیواری میں قید ہیں، انہیں بولنے کی آزادی نہیں ہے، اپنی مرضی سے کام کرنے کی آزادی نہیں ہے، وہ گھٹن بھری زندگی میں رہنے کو مجبور ہیں، کے بارے میں خود شاہین باغ خاتون مظاہرین نے مفروضے اور طلسم کو توڑ دیا۔یہ ایسی تحریک جس نے تحریک چلانے کا طریقہ ہی بدل دیا اور اس سے اس قدر متاثر ہوئے کہ دنیا اور پورے ملک کے بیشتر حصے سے کیا خواتین، کیا مرد، کیا بچے، کیا نوجوان لڑکیاں، کیا طلبہ و طالبات اسے دیکھنے اور سمجھنے کے لئے آنے لگی تھیں اور اکثریتی طبقہ میں حالیہ کچھ دہائیوں میں جو نظریہ پیوست کردیاگیا تھا وہ بہت حد تک کم ہونے لگا تھا۔جسے اس حکومت نے کورونا کے بہانے تبلیغی جماعت کو بدنام کرکے مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اسی تحریک کا ہی اثر تھا کہ پورے ملک میں مسلم نوجوانوں نے تارکین وطن مزدور، محلوں میں پھنسے ہوئے لوگوں، طلبہ و طالبات اور دیگر لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام کیاجس سے کچھ حد تک کدورت دور ہوئی اور زہرے میڈیا کے اثرات کچھ حد تک زائل کرنے میں ان مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا اور ان لوگوں کا تعلق بالواسطہ اور بلاواسطہ شاہین باغ تحریک سے ضرور تھا خواہ وہ شاہین باغ ملک کے کسی خطے میں کیوں نہ رہا ہو۔ اس تحریک نے مسلمانوں کے خدمت خلق کے پرانے کے جذبے اور اسلامی تحریک کے مقصد کو زندہ کیا کہ اسلام کا مقصد خدمت خلق ہے اور خدمت خلق سے بڑی عبادت کوئی نہیں۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اور آئین کے تئیں لوگوں میں وہ بیداری پیدا کی ہے جس پر سابقہ حکومت اربوں روپے خرچ کیا کرتی تھی۔اس لئے شاہین باغ تحریک سے منسلک دبنگ دادی کو ٹائم میگزین میں جگہ میں ٹائم میگزین کی شان میں اضافہ ہوا ہے۔ ان خواتین کے لئے دنیا کے بڑے سے بڑے انعامات ہیچ ہیں اور یہ خواتین تمام ا نعام و اکرام سے اوپر اٹھ چکی ہیں۔ 


ٹائم میگزین نے ہندوستان کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ”کسی بھی جمہوریت کی کنجی حقیقت میں آزادانہ انتخاب نہیں ہے۔ انتخابات تو صرف یہی بتاتے ہیں کہ کسے سب سے زیادہ ووٹ ملے۔ زیاد ہ اہم بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے حقوق جنہوں نے انتخاب جیتنے والوں کے لئے ووٹ نہیں دیا تھا۔ ہندوستان سات عشروں سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اس کے 1.3ارب کی آبادی  میں عیسائی، مسلم، سکھ، بودھ، جین و دیگر مذہبی ووٹ شامل ہیں۔ سب ہندوستان میں رہتے آئے ہیں جسے (اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت یہاں پناہ گزیں کے طور پر گزارنے والے) دلائی لامہ کو بھائی چارہ اور استحکام کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ نریندر مودی نے ان سب کو شک میں لا کھڑا کردیا ہے۔  حالانکہ تقریباَ سبھی ہندوستانی وزیر اعظم آبادی کا 80فیصدی حصہ بنانے والے ہندو مذہب سے ہی آتے ہیں لیکن صرف مودی نے ہی ملک میں اس طرح سے حکمرانی کی ہے۔ مانو ان کے لئے باقی کسی کے کوئی معنی نہیں ہے۔ خودکفالت کے خؤشنما وعدے  پر پہلی بار انتخاب جیتنے والی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی  کی حکومت نے نہ صرف عظمت رفتہ بلکہ تنوع کو بھی خارج کردیا اور خاص طور پرہندوستان کے مسلمانوں کو نشانہ بنایااور وباں ان کے لئے صرف مخالفت کو کچلنے کا بہانہ بن گیا اور اس طرح سے دنیا کی سب سے بڑی متنوع جمہوریت اور گہرا سایہ میں ڈوب گیا“۔
شاہین باغ تحریک کو ملتوی ہوئے چھ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس کی گونج اہمیت کے ساتھ اب بھی پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ ٹائم میگزین نے شاہین باغ تحریک میں شامل تین دادیوں میں سے ایک 82سالہ بلقیس بانو کو دنیا کی سو اہم شخصیات میں جگہ دی ہے۔یہ مسلم خواتین اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی مسلم خواتین کے باعث صد افتخار ہے۔اس کے علاوہ ٹائم میگزین نے اپنی سو بااثر شخصیات میں وزیر اعظم نریندر مودی اور فلمی اداکار آیوشمان کھرانہ و دیگر کا بھی نام شامل کیا ہے۔واضح رہے کہ شاہین باغ تحریک کی تین دادیاں اسماء، سروری اور بلقیس شاہین باغ کی دبنگ دادیوں کے نام سے مشہور ہیں۔ٹائم میگزین نے بلقیس (دادی) کو دوہزار بیس کی سوبا اثر شخصیات میں شامل کیا ہے۔انہوں نے سخت سردی اور بارش کے موسم میں بھی اپنی ہمت نہیں ہاری تھی اور نوجوان خواتین اور مظاہرے میں شامل تمام لوگوں کی قیادت کر رہی تھیں اور انہوں نے شاہین باغ تحریک پر ہر حملے کو نہایت ہی ثابت قدمی، عقل مندی اور حکمت عملی کے ساتھ جواب دیا تھا۔اس کی وجہ سے وہ دبنگ دادیوں کے نام بھی مشہور وہوئیں۔ یہی بھی قابل ذکر ہے کہ ہر موقع اور ہر محاذ پر تینوں دادیاں ہوا کرتی تھیں۔


شاہین باغ 15 دسمبر 2019 کو قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ اورشہریوں کے احتجاج کے دوران پولیس کے تشدد اور طالبات کے ساتھ نازیبا سلوک، لائبری میں توڑ پھوڑ اور گھس کر طلبہ اور طالبات کی بے رحمی کے ساتھ پٹائی اور پھر مجرموں کی طرح ہاتھ اوپر کرکے نکلنے پر مجبور کیا تھا۔ان طالبات کو بھی نہیں بخشا گیا تھا جو باتھ روم میں گھس گئی تھیں۔راقم الحروف نے بذات خود طالبہ و طالبات سے بات کی تھی اور ان سے انٹرویو کیا تھا جس میں ا ن لوگوں نے پولیس کا غیر انسانی اور وحشی چہرہ اس کی سوچ کو پیش کیا تھا۔جامعہ کے طلبہ و طالبات پولیس کی اس درندگی کو کبھی نہیں بھول سکتیں۔ طلبہ و طالبات پر ہونے والے ان مظالم کے خلاف شاہین باغ کی خواتین نے دھرنا شروع کیا تھاجو تقریباً تین ماہ سے زائد عرصہ تک چلا تھا اور جنتا کرفیو کے اعلان اور لاک ڈاؤن کے اعلان کے پیش نظر پولیس نے دھرنا کو ختم کروادیا تھا۔شاہین باغ خواتین کاخیال تھا کہ جب ہمارے بچے ہی تعلیمی اداروں میں محفوظ نہیں ہیں، سڑکوں پر محفوظ نہیں ہیں، اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے پر ان کو تشدد کیا جاتا ہے تو ان کے گھر میں رہنے کا کیا مطلب ہے۔اسی سوچ نے انہیں نکلنے پر مجبور کیا۔پہلے چند خواتین سامنے آئی اور پھر رفتہ رفتہ خاتون مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی۔ کبھی کبھی یہ لاکھ میں پہنچ جاتی ہے اور مردوں کو شامل کرلیں تو بعض دنوں میں یہ پانچ چھ لاکھ تک لوگوں کی تعداد ہوجاتی تھی۔ مثال کے طور پر 26جنوری کے دن جب دبنگ دادیوں نے ترننگا لہرایا تھا تو اس وقت اس سے زیادہ بھیڑ ملک کے کسی حصہ میں نہیں ہوئی ہوگی۔
تحریک کے دوران دبنگ دادیوں نے تمام بڑے چینلوں کے تیز طرار صحافیوں کا سامنا کیا تھا اور اپنی بات مدلل طور پر رکھنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ قومی شہریت ترمیمی قانون، این سی آر اور این پی آر کے خلاف جاری شاہین باغ تحریک نے پورے ملک نے ہی پوری دنیا کو متاثر کیا تھا اور اس کی گونج امریکہ، یوروپ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں سنی گئی تھی۔اس تحریک کا اثر یہ ہوا تھا کہ ملک میں شاہین باغ کے طرز پرخواتین کی سیکڑوں تحر یکیں شروع ہوگئی تھیں اور یہ چوبیس گھنٹے تک جاری رہتی تھیں اور ان کی وسعت پنچایت سطح تک ہوگئی تھیں۔ اس نے پورے ملک اور ہر طبقے کو متاثر کیا تھا اور اور مسلم خواتین کے تئیں لوگوں کے نظریے میں بھی تبدیلی آئی تھی۔ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کے لوگ دیکھنے آتے تھے آخر خواتین کی قیادت میں چلنے والی تحریک اتنی دیرپا کیوں ہے۔ پوری دنیا کے میڈیا نے اس کو کور کیا تھا۔اس تحریک کی مقبولیت کی وجہ سے گودی میڈیا، مودی میڈیا اور ہندوتو میڈیا  (ہندی میڈیا) کو بھی آنے پر مجبور کیا تھا۔ 


وزیر اعظم نریندر مودی کے جنتا کرفیو کے اعلان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بلقیس نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کو ہم لوگوں کی اتنی ہی فکر ہے تو وہ قومی شہریت ترمیمی قانون واپس لے لیں اور ہم لوگ دھرنا فوراً ختم کردیں۔ان تینوں دادیوں کا احساس تھا کہ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو سڑکوں پر بیٹھی ماؤں اور دادیوں کی آواز سننی چاہئے۔انہیں اس کا بھی درد تھا اتنے لمبے عرصے تک چلنے والی خواتین کی تحریک کے بارے میں بات کرنے کے لئے حکومت کا کوئی نمائندہ نہیں آیا تھا۔ حکومت فرقہ پرستوں کی طرف سے غنڈے تحریک کو بدنام کرنے کے لئے ضرور بھیجے گئے لیکن حکومت کا کوئی نمائندہ ان خواتین کا درد جاننے کے لئے نہیں آیا۔یہ مسلم خواتین کے تئیں حکومت کی بے حسی کا زندہ ثبوت تھا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے مذاکرات کار جس انداز سے خواتین، دادیاں اور خاص طور پر نوجوان مسلم خواتین نے سامنا کیا، مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور محترمہ سادھنا یہ کہنے پر مجبور ہوئے جب تک آپ جیسی خواتین ملک میں زندہ نہیں ہیں ہندستانی جمہوریت کا بال بھی باکا نہیں ہوگا۔
 شاہین باغ تحریک کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہندوستان کی پہلی تحریک تھی جو خواتین چلارہی تھیں اور اتنے عرصے تک چلنے کے باوجود کسی قسم کا پر تشدد واقعہ پیش نہیں آیا اور گولی چلنے اور سبوتاژ کرنے کی کوشش کے باوجود خواتین نے نہایت تحمل سے کام لیا اور اس تحریک کو تمام مذاہب کی خواتین کی حمایت حاصل تھی اور تمام مذاہب کی خواتین نے نہ صرف اس میں سرگرم حصہ لیا تھا بلکہ مسلم خواتین کی شانہ بشانہ کھڑی تھیں۔
ٹائم میگزین کے بلقیس دادی کو بااثرشخصیات میں شامل ہونے پر شاہین باغ تحریک سے وابستہ خواتین خوشی کا اظہار کرتے ہوئے خواتین کی تحریک کے لئے خوش آئندبتایا۔ تحریک سے وابستہ صائمہ خاں، ملکہ خاں، نصرت آراء، تہمینہ خاں،ترنم، سائشتہ ناز، کنیز فاطمہ،شہلا اور دیگر خواتین نے بلقیس دادی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری تحریک کی کامیابی اور اس کے اعتراف کی دلیل ہے۔


شاہین باغ خاتون مظاہرین کی سب سے بڑی حصولیابیاں یہ ہیں یہاں آئین کے بارے میں بات کی جاتی تھی اور آئین کے بارے میں لوگوں میں بیداری پیدا کرنے میں زبردست کامیابی ملی اور مظاہرین میں شامل ہر شخص آئین کے بارے میں بات کرنے لگا تھا۔ لوگوں نے سمجھا کہ آئین نے ہمیں کیا اختیارات دئے ہیں، ہمارے اختیارات کیا ہیں، ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔اسی چیز سے حکمراں ٹولہ اور اس کی پارٹی کو چڑھ تھی وہ تاک میں تھے کب خلاف قانون کوئی کام کریں اور دھاوا بول دیا جائے۔ آج تک کسی تحریک میں آئین کی پاسداری اس طرح شدت نہیں کی گئی جس طرح شاہین باغ تحریک میں آئین کو برتا گیا اور آئین کا درس دیا گیا۔ملک میں چلنے والی بلکہ بیشتر تحریک میں آئین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں، امن و قانون کو ہاتھ میں لیا گیا۔ گوجر تحریک، کرنی سینا اور ہندو انتہا پسند تنظیموں کی تحریک کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے یہ تحریک زندہ ہے اور اس کی گونج سات سمندر پار بھی سنائی دی ہے اور دبنگ دادی کو ٹائم میگزین میں جگہ ملنااسی ثبوت ہے۔ یہ اصل ان مسلمانوں کے لئے ایک سبق، ترغیب، تحریک اور حوصلہ دینے والا ہے جو یہ سوچتے ہیں کہ اس سے کیا ہوگا۔ حرکت میں ہی برکت ہے جب حرکت مثبت انداز کی جائے۔ ٹائم میگزین نے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے بارے میں تبصرہ کیا ہے وہ بھی ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں ہے اور دنیا کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہے لیکن ہمیں اپنی جدوجہد ترک نہیں کرنی چاہئے۔ تاریخ انہیں کو اپنے دامن میں جگہ دیتی ہے جو جدوجہد کرتے ہوئے موت کو گلے لگاتے ہیں، کتوں کی موت کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ انسان عزت کی موت مرے۔ پورے ملک میں جس طرح مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، مسلم لڑکیوں کو جیل میں ڈال کر اذیت دی جارہی ہے، ہندو شدت پسندوں کو مسلمانوں کا شکار کرنے کی آزادی دی گئی ہے، قاتل ہی قتل کی تفتیش کر رہا ہے۔ ایسے میں شاہین تحریک کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور یہ ساری ناانصافیاں شاہین باغ تحریک کے اثر کو زائل کرنے کی جارہی ہیں، اس لئے ہمیں اس کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے اورپھر لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

Comments