ہندی میڈیا

     

Thumb

یہ مضمون ۲۰۰۶ کا لکھا ہوا ہے
ہندی  میڈیا آج ”ہندوتو“میڈیا بن گیا ہے جو صرف بے سر پیر کی باتیں پھیلاتا ہے۔ جھوٹی باتیں کیسے پھیلائی جائیں یہ باتیں ہندوستانی میڈیا سے بخوبی سیکھی جاسکتی ہیں۔ ہندی نیوز چینل دیکھ کر ایسا محسوس ہوتاہے جیسے کہ دیوکی نندن کھتری (۱۹۱۳۔۱۸۶۱)کے ناول ”چندر کانتا“کا سیریل دیکھ رہے ہوں جس میں مکرو فریب، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینے کے لئے نئے نئے طریقے وضع کرنا، روپ بدل بدل کرمکر کرنے میں ایک دوسرے سے بازی مارنا قابلیت کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔ یہی حال ہندی میڈیا اور ہندی نیوز چینل کا ہے۔وہ مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمی پھیلانے اورانہیں بدنام کرنے میں ایک چینل دوسرے چینل سے بازی کرنے میں سبقت کر رہا ہے۔ یہ نیوز چینل کانہیں بلکہ ویوز چینل کا کردار ادا کر رہاہے جس میں خبریں نہ کے برابر اور ان کی خباثتیں زیادہ ہوتی ہیں وہ مسلم دشمنی کا زہر جم کر انڈیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔  
گزشتہ چند برسوں میں ہندوستان کے مختلف علاقے میں بم دھماکے ہوئے ہیں جس میں سیکڑوں معصوم انسانوں کی جانیں تلف ہوئی ہیں جو کہ قابل مذمت ہے اور کسی بھی طرح سے اسے جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔بم دھماکہ کوئی بھی کرے اس میں انسان ہی مرتے ہیں خواہ ان کاتعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ صرف یہاں کے سیاست داں یہ جانتے ہیں کہ کون ہندو اور کون مسلم ہے لیکن بم کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس سے کون مرے گا۔ لیکن یہاں کی میڈیا کو قصوروار صرف مسلمان نظر آتا ہے۔ مندر میں دھماکہ ہو تو مسلم، مسجد میں ہو تو مسلم، بازار میں ہو تو مسلم غرض کہیں بھی دھماکے ہو ایک پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت مسلمانوں کا نام لے لیا جاتا ہے کیوں کہ میڈیا، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں سے یہ کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ تم نے کس ثبوت کی بنیاد پر مسلمانوں کا نام لیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دھماکہ سے عین قبل تک پولیس کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ دھماکہ ہونے والا ہے لیکن دھماکہ کے بعد فوراً وہ نہ صرف تنظیم کی شناخت کرلیتے ہیں بلکہ انہیں دھماکہ کرنے والوں کا نام بھی معلوم ہوجاتا ہے۔ یہ سب بتانے کے لئے کافی ہے کہ دھماکہ کون کرتا ہے،کون کراتا ہے اور اس کا فائدہ کس کو پہنچتا ہے۔ 
 آج ہندوستان کے ہندی اور بعض انگیزی اخبارات کایہ حال ہے کہ یہ اخبار کم سنگھ پریوارکا ترجمان زیادہ لگتے ہیں۔ مسلم مخالف خبر یں شائع کرنے میں یہ اخبارات کافی آگے رہتے ہیں اور مسلمانوں کے مثبت سوچ کے بارے میں یہ اخبارات بالکل خاموش رہتے ہیں۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے پروگرام ہوتے ہیں لیکن ان میں خبریں نادارد۔
مثال کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن اس وقت مجھے زبردست صدمہ پہنچا جب میں نے تہلکہ کے ایڈیٹر کے پریس کانفرنس کے بارے میں جو انہوں نے ناناوتی کمیشن کے جھوٹ کا پلندہ کا پول کھولنے کے لئے کیا تھالیکن دہلی کے اخبارات نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ہندی یا انگریزی کے کسی بھی اخبار میں اس سے متعلق خبریں نہیں تھیں۔ سارے اخبارات کو بالکل سانپ سونگھ گیا۔ تاکہ ہندوستانیوں کو حقیقت سے کوسوں دور رکھا جاسکے اور گودھرا کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ برقرار رہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستانی آئین کے مطابق جب تک کسی بھی ملزم پر جرم ثابت نہیں ہوجاتا وہ اس وقت تک مجرم نہیں کہلاتا۔ یہ بات ہر صحافی کو معلوم ہے لیکن یہاں کے اخبارات کے رپورٹر بے سر پیر اور من گھڑت باتوں کے سہارے پوری مسلم کمیونٹی کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ خبر نویسی کا یہ اصول ہے کہ دونوں جانب کی بات دی جاتی ہے لیکن ہندی کے اخبارات اور نیوز چینل میں صرف پولیس کا بیان شائع ہوتا ہے۔ پولیس کے جھوٹے بیان کو عدالت کا فیصلہ تسلیم کرلیا جاتا ہے اور اس طرح ایک بے گناہ جیتے جی موت کی زندگی گزارتا ہے۔ پولیس اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے ہمیشہ بے قصور لوگوں کو پکڑتی رہی ہے۔یہ بات پولیس کے بارے میں درجنوں رپورٹوں میں کہی گئی ہے۔ یہاں کے اخبارات نے بھی لکھا ہے لیکن یہا ں کے اخبارات یہ باتیں اس وقت لکھتے ہیں جب معاملہ ہندو کا ہو۔ بم دھماکے کے سارے ثبوت، قرائن اورآثار چیخ چیخ کر یہ کہتے ہیں کہ بم دھماکہ کس نے کیا ہے اور اس کا فائدہ کس کو پہنچے گا۔ لیکن کوئی بھی ہندی میڈیا اس جانب توجہ نہیں دیتا۔ بلکہ ہندی میڈیا کاکام ہندو دہشت گردوں کے کارناموں کو مسلمانوں کے سر تھوپ کرانہیں سلاخوں کے پیچھے پہنچانا ہوتا ہے۔ ہندی نیوز چینل این ڈی ٹی وی اور سی این این۔آئی بی این نے بہت حد تک اپنے آپ کو معتدل رکھنے کی کوشش کی اور وہ کسی حدتک کامیاب بھی ہوئے۔
کانپور، نانڈیڑ، پربھنی اور دیگر مقامات میں ہونے والے بم دھماکے اور بم بناتے ہوئے ہندو پکڑے گئے لیکن ہندی میڈیا خاموش رہا۔ یہاں اخبارات اورنیوز چینل کے رویے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب مسلمان دھماکہ خیز مادے کے ساتھ پکڑے جاتے ہیں یا پولیس ان کے سریہ الزام تھوپ دیتی ہے تو ان سے پورے ملک کو خطرہ ہوتا ہے، اس دھماکہ خیز مادہ سے وہ پارلیمنٹ، لال قلعہ، اکشر دھام مندر اور تمام وی وی آئی پی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنارہا تھا۔لیکن جب کبھی ہندو دھماکہ خیز مادہ کے ساتھ گرفتار کیا جاتا ہے ہندی میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے اگر چھپتی بھی ہے تو چھوٹی سی خبراور دوسرے دن وہ سرے سے غائب ہوجاتی ہے۔ شاید اخبارات اورنیوز چینل کے نزدیک ہندو کے پاس جو دھماکہ خیز مادہ تھا اس سے کوئی ہلاکت نہیں ہوتی بلکہ اس سے دھماکہ کرنے سے گیندے کے پھول بکھرتے ہیں۔

Comments