بہار کا الیکشن اس بار تمام انتخابات سے الگ ہونے والا ہے۔ کورونا وبا کے دوران لوگوں کی پریشانیاں، تارکین وطن کی واپسی میں ہونے والی تکلیف اور ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک، سیلاب کی تباہی، کورونا وبا کے جاری رہنے اور اس کی وجہ سے مختلف پابندیوں کے دوران ہونے والی پریشانیوں کے درمیان ہونے والا انتخاب کئی معنوں میں اہم ہوگا۔ گزشتہ 15برسوں سے نتیش کمار بی جے پی کی ہم جولی میں بہار کے اقتدارپر متمکن ہیں (سوائے ایک ڈیڑھ سال کے عرصے)اس کے باوجود ان کے پاس شمار کرانے کے لئے کوئی قابل ذکر کام نہیں ہے۔ کسی بھی حکومت کے نکمے پن کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔ گزشتہ سال پٹنہ میں ہونے والی بارش کو لوگ فراموش نہیں کرسکے ہوں گے جب کہ نائب وزیر علی سشیل کمار مودی اپنا گھر بار چھوڑ کر بیوی بچوں کے ساتھ پل پرآگئے تھے جب کہ کئی دہائیوں سے پٹنہ کارپوریشن پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ سشیل کما رمودی کی مثال اس لئے پیش کی گئی جو تقریباَ پندرہ سال سے نائب وزیر اعلی ہو اور اپنے گھر کے آس پاس کے پانی کے اخراج کا نظام درست نہ کرسکا ہو وہ پورا بہار کی ترقی کس طرح کریں گے، یہ سوچنے والی بات ہے۔ دراصل پورے بہار کا یہی منظرنامہ ہے، بہار میں سیلاب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران آبی گزرگاہوں کو پاٹ کر گھر، ہوٹل اور دکان اور مکان بنائے گئے ہیں جس کی وجہ سے بارش ہونے پر بہار کا بیشتر شہر اور قصبہ سیلاب کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ جہاں جہاں بھی بی جے پی کی حکومت ہے وہاں کرپشن کو مباح سمجھ لیا گیا ہے اس لئے اس کا تذکرہ نہ تو اخباروں میں ہوتا ہے اور نہ ہی نیوز چینل میں۔ بہار میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا اور پہلے بھی رشوت لئے جاتے تھے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ اب رشوت کا معیار بہت بلند ہوگیا ہے۔ پہلے جو کا دس روپے میں ہوتے تھے اب پانچ سو روپے اور جو کام دو سو روپے میں ہوتے تھے اب دس ہزار میں ہوتے ہیں۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں تعلیم کا نظام بری طرح برباد ہوگیا ہے، صحت کا نظام تو کبھی بہار میں قائم ہی نہیں ہوسکا۔ لوگوں کے علاج و معالجہ کا آخری سہارا پرائیویٹ ڈاکٹر ہوتے ہیں یا پرائیویٹ نرسنگ ہوم ہوتے ہیں جہاں بنیادی سہولت تک نہیں ہوتی۔ بہار نے سب سے زیادہ سول سروس کے افسران دئے ہیں لیکن ان افسران نے بہار کو کیا دیا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ منصوبہ سازی میں ان افسران کا بھی اہم رول رہتا ہوگا، لیکن بہار کو کیا ملا، گزشَتہ پندرہ برسوں کے دوران فیکٹریوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ جب کہ دوسری ریاستوں میں فیکٹریوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ بہار سے منڈی کا نظام ختم کردیا گیا جس کی وجہ سے کسان استحصال کا شکا رہوتے گئے۔ فاربس گنج جو بہار میں چاول کی پیدوار کا سب سے بڑا ہب تھا وہاں چاول کی بڑی بڑی ملیں بند ہوگئیں۔ جوٹ مل کھولنے کی سنگ بنیاد رکھی گئی تھی لیکن کبھی پروان نہیں چڑھی۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں تعلیم، صنعت، صحت، روزگار، فیکٹری اور دیگر تمام انسانی وسائل میں گراوٹ درج کی گئی ہے۔ بہار کے منتخب ہونے والے ممبران پارلیمنٹ مرکز سے کوئی بھی بڑا پروجیکٹ بہار لے جانے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ ان لوگوں نے کوشش ہی نہیں کی۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ جب ہندو مسلم کرنے سے ووٹ مل جاتا ہے تو پھر کام کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ یہاں منتخب ہونے والے نمائندوں کوحکومت کی اسکیموں اور کیا کیا کیا جاسکتا ہے، اس کے بارے معلوم نہیں ہے۔ ان لوگوں نے صرف اپنے اور اپنے خاندان کی ترقی کو بہار کی ترقی تصور کرلیا ہے۔ ووٹ دینے سے پہلے بی جے پی سے سوا لاکھ کروڑ روپے پیکیج کے بارے میں سوال کیا جانا چاہیئے وہ رقم کہاں گئی اور کہاں خرچ ہوئی۔
بہار کا2009میں منموہن کے روڈ، قومی شاہراہ اور مرکز کی طرف سے زیادہ بجٹ دئے جانے کی وجہ سے اور ان کا سہرا اپنے سر لیکر نتیش کمار کامیاب ہوئے تھے جب کہ 2015کا الیکشن لالو کا کرشمہ،عظیم اتحاد کی حکمت عملی تھی اور یو پی اے کی حکمرانی کا بھی کچھ فیض تھا لیکن 2020کا الیکشن میں صرف جھوٹ اور جھوٹے وعدے کی بنیاد پر لڑنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی الیکشن زور نہیں پکڑا ہے لیکن مسلم اینگل کو شامل کرلیا گیا ہے۔ بی جے پی لیڈروں نے ابھی سے کہنا شروع کردیا ہے کہ اگر آر جے ڈی کامیاب ہوگئی تو کشمیر کے دہشت گرد بہار میں گھس آئیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ بی جے پی کو حکومت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔ کشمیر میں کس کی حکومت ہے، بی جے پی وہاں عملی طور پر حکمراں ہے، ریاست کا درجہ ختم کرکے وہاں بی جے پی نے اپنی حکومت قائم کرلی ہے۔ اگر کشمیر سے دہشت گرد آجائیں گے تو پھر وہاں چھ لاکھ سے زائد فوج اور نیم فوجی دستے کیا کر رہے ہیں۔2015 کے الیکشن میں اس وقت کے بی جے پی کے صدر اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا اگر بہار میں بی جے پی ہار گئی تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے۔ اس سے صاف ظا ہر ہوتا ہے کہ بی جے پی اور نتیش کمار کے پاس پندرہ سالہ دور حکمرانی کا کوئی کام گنانے کیلئے نہیں ہے۔ اس لئے بی جے پی نے ابھی اشتعال انگیزی، جھوٹ، نفرت اور نقسیم کرو اور حکومت کرو کا کھیل شروع کردیا ہے۔
بہار کا الیکشن کئی معنوں میں اہم ہے جنتا اہم نتیش تیجسوی کے لئے اس سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل نریندر مودی کے لئے ہے۔ مودی کے عروج و زوال کی داستان یہیں سے رقم ہوگی۔ اس لئے جتنی توجہ بی جے پی بہار پر دے رہی ہے آج تک کسی پارٹی نے اتنی توجہ نہیں دی۔ وہ کالنگا کی جنگ سے کم اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ اس و قت وہ اشوک اعظم سے کسی طرح کمتر نہیں سمجھ رہے ہیں۔ وہ تمام حربے اپنا رہے ہیں جو جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے اس میں اپنی تمام طاقتوں کو جھونک دیا ہے۔ سام، دام، ڈنڈ بھید سب استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے لالچ کے طور پر بہار میں بڑے پیکیج کا استعمال کیا جب کہ گزشتہ سوالاکھ کروڑ پیکیج کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔ نریندر مودی کا بہار کے عوام اور بہار کی ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اس لئے انہوں نے پیکیج پیش کرنے میں جھوٹ کا سہارا لینے سے بھی باز نہیں آئے اور تمام بجٹوں کو شامل کرکے بہار کے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ اگر ان کی نیت درحقیقت بہار کی ترقی ہوتی تو وہ حکومت میں آتے ہی بہار کے لئے اپنے کئے گئے وعدے پورا کرتے اور خصوصی درجہ دے دیتے۔ اصل میں انہوں نے بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے مقابلے میں بہار کو بہت کم بجٹ دیا اور بہار کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ کبھی بہار کی ڈی این اے کی بات کرتے رہے ہیں تو کبھی بہاریوں کو نیلام کرتے رہے۔ اپنی رعونت و خشونت سے مجبور انہوں نے بہار میں ہی ریاست کے وزیر اعلی اور دیگر لیڈروں کو ذلیل کرتے رہے۔ بی جے پی کی ترقی کی حقیقت دیکھنا ہو تو بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں، قتل، جرائم زنا کاری، رشوت خوری اور خواتین کے زیادتی عام بات ہے۔ بی جے پی کے لیڈر عام طور پر منوسمرتی پر یقین رکھتے ہیں جس میں عورتوں کی عزت و احترام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مدھیہ پردیس میں ویاپم، ڈی میٹ، چھتیس گڑھ میں چاول گھپلہ، راجستھان میں للت گیٹ اور کئی دیگر گھپلے سامنے آچکے ہیں۔ گجرات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ وہ ریاست میں ڈراپ آؤٹ کے معاملے میں بیمار ریاستوں سے بھی بدتر ہے۔ خودکشی کرنے والے سب سے زیادہ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں ہوتے ہیں۔ ابھی ہارک پٹیل کی تحریک سامنے آچکی ہے۔ اس تحریک نے گجرات کی ترقی کی پول کھول دی ہے۔ پٹیل سماج کو گجرات میں سب سے خوش حال سماج میں سمجھا جاتا ہے۔ جب اس سماج کا یہ حال ہے تو دوسرے سماج کا کیا حال ہوگا۔ بی جے پی درحقیقت چند بنیوں کی ترقی کو ملک کی ترقی سمجھتی ہے۔ کسی بھی ریاست اور ملک کی ترقی اس وقت ہوسکتی ہے جب وہاں کے مکینوں کو تمام سہولت بغیر کسی امتیاز کے حاصل ہو۔ خواتین کو آزادی حاصل ہو، تعلیم کے یکساں مواقع حاصل ہوں، روزگار حاصل کرنے میں کسی طرح کا تعصب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ امن و امان سب کو میسر ہو، عبادت کرنے کا ہر مذہب کے لوگوں کو حق حاصل ہو اور کسی طرح کی روکاوٹ کھڑی نہ کی جاتی ہو۔اگر بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کا جائزہ لیں یہ تمام چیزیں عدم کے درجے میں ہیں۔
بہار میں تین مرحلوں میں ہونے والے انتخابات میں اس بار سیکولر بنام فرقہ پرست طاقتوں کے درمیان مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔ حالانکہ لوک جن شکتی پارٹی اور اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم نے میدان میں کود کر مقابلے کو دلچسپ بنادیا ہے لیکن ان کا وجود عدم کے درجے میں ہے۔ بہار کے ووٹر سیاسی طور پر بہت بیدار ہیں اور یہاں ذات پات کا فیکٹر بہت کام کرتا ہے۔ ایسے تیسرے مورچے کو بالکل عدم قرار دے دینا نا انصافی ہوگی۔ تیسرے مورچے میں جو پارٹًیاں شامل ہیں ان کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ یہ لوگ بی جے پی کو کامیاب کرانے کے لئے میدان میں اتری ہیں۔ ملک کی صورت حال اور خاص طور پر ملک کی جمہوریت اور سیکولر ازم پر منڈلاتے خطرات کے پیش نظر بہار کے عوام خصوصاً مسلمان اپنے تمام شکوے اور گلے کے باوجود ملک کی جمہوریت اور سیکولرازم کو بچانے کے لئے ہی ووٹ دیں گے اور یہ ہر شہری کو کرنا بھی چاہئے کیوں کہ ملک سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ ملک ہے تو ریاست ہے اور اور شہری ہیں اگر ملک نہیں رہا تو ہم سب کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جہاں تک لوک جن سکتی پارٹی کا تعلق ہے وہ بی جے پی کے جال میں پھنس چکی ہے۔ بی جے پی متعدد اہم لیڈروں کا ایل جی پی میں شمولیت ایل جے پی کو ہتھیانے کی طرف پہلا قدم ہے۔ بی جے پی نے اس پتے کو نتیش کمار کو ٹھکانے لگانے کے لئے کھیلا ہے لیکن بی جے پی کو یہ کھیل الٹا بھی پڑسکتا ہے بلکہ الٹا پڑنے والا ہے۔ نتیش کمار کوٹھکانے لگانے کے چکر میں کہیں وہ خود ٹھکانے نہ لگ جائے۔ جہاں جہاں ایل جے پی نتیش کمار کے ووٹ میں سیندھ لگائے گی وہاں عظیم اتحاد کے امیدوار کوفائدہ ملنے کا امکان ہے۔ تیسرے مورچے (جس میں اویسی، دیوندر پرساد سنگھ،بی ایس پی اور دیگر پارٹی شامل ہیں) سے جو نقصان ہونے والا تھا اس کی این ڈی اے کے انتشار سے تلافی ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ ایم آئی ایم کے مقامی رہنما ہی جنہیں ایم آئی ایم کا ٹکٹ نہیں ملا ہے وہ بھی ایم آئی ایم کے امیدواروں کو ہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ ابھی الیکشن شروعات ہے آگے الیکشن کون کون سا کروٹ لیتا ہے
Comments
Post a Comment