ہاتھرس آبررویزی معاملہ: کاش منیشا گائے ہوتی!

 

عابد انور

Thumb


ہندوستان میں ایک دلت لڑکی کی عزت، جان کی قیمت،حیثیت اور مرتبہ گائے سے بھی کمتر ہے،یہ بات یہاں کی سوسائٹی اور حکمراں ٹولہ نے ثابت کردیا ہے۔ جس طرح اس واقعہ پہلے چھپانے کی کوشش کی گئی اور پہلے آبروریزی کے واقعہ ہونے سے انکار کیا گیا، وقت پر علاج نہیں کرایا گیا، دھمکی دی گئی اور حالت نزاع میں صفدر جنگ اسپتال میں لایا گیا اور پھر موت ہوگئی، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامیہ کا ارادہ اس لڑکی کو مارنے کا ہی تھا اور پھر مرنے کے بعد جس طرح آناً فاناً اسے جلادیا گیا(اسے آخری رسم نہیں کہا جاسکتا ہے) اس کا مقصد ملزموں کو بچانے کے لئے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہندورسم کے مطابق رات میں آخری رسوم ادا نہیں کی جاتی،جس وقت جلایاگیا اس وقت کوئی رسم ادا نہیں کی گئی اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ پیٹرول ڈال کر لڑکی کی لاش کو جلایا گیا۔ یہ سب اترپردیش پولیس کرنے کی کیا ضرورت تھی، پولیس خود سے یہ کام نہیں کرسکتی جب تک کے اوپر سے حکم نہ ہو۔ ثبوت مٹانے کے لئے کس طرح تیزی سے کام کیا گیا۔ بہت بدنامی ہونے لگی تو اسے ہندو مسلم اینگل دینے کی ناپاک حرکت کی گئی فیکٹ فائنڈنگ کے لئے جانے والے چار مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے اسے جیل میں ڈال دیا اور عدالت نے آنکھ بند کرکے مسلم دشمن انتظامیہ اور پولیس پر بھروسہ کرلیا۔ اس وقت لڑکی کے ساتھ ایک بار نہیں کئی بار غیر انسانی سلوک کیا گیااور یہاں کی حکومت کو ذرا سا بھی شرم نہیں آئی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خواہ مرکزی حکومت کا سربراہ ہو یا ریاستی حکومت کا دونوں کو بیٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک باپ ہی بیٹی کا درد جان سکتا ہے وہ کبھی نہیں جان سکتا جن کے پاس بیٹی نہ ہو، یا جن حکمراں کا نظریہ یہ ہو کہ قبر سے لاش نکال کراجتماعی آبروریزی کی جانی چاہئے، اس سے کسی اچھی چیز کی امید کیسے جاسکتی ہے۔ اس معاملے میں بھی یہی ہوا اور شروع سے لیکر آخر تک حکمراں ٹولہ قانون کی دھجیاں اڑاتا رہااور عدالت سے لیکر تمام اٹھارٹیز دیکھتی رہیں۔یہ لوگ رام بھکت ہیں اور اپنی حکومت کو رام راجیہ کہتے ہیں اور رام راجیہ قائم کرنے کے وعدے کے ساتھ ہی یہ لوگ اقتدار میں آئے ہیں تو اسے رام راجیہ ہی کہا جائے گا۔ راون کے درمیان ایک سیتا محفوظ رہی تھی لیکن رام بھکتوں کے درمیان کوئی سیتا(لڑکی) محفوظ نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ دلیپ سنگھ سینگر، سوامی چنمیانند اور دوسرے درجنوں بی جے پی کے اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمنٹ کے دامن آبرویزی کے الزام سے تربہ تر ہیں، اس میں عورتوں کی حفاظت کاسوال کہاں پیدا ہوتا ہے، بی جے پی حکومت کا یہ نعرہ بیٹی پڑھاؤ اور بیٹی بچاؤ کے نعرہ کا مطلب اب سمجھ میں آرہا ہے کہ بیٹی پڑھنے کے لئے جائے گی تو اس کے ساتھ کیا حشر ہوگا۔ ویسے بھی بی جے پی نے تو پہلے بیٹی بچانے کے بارے میں آگاہ کردیا تھا اگر یہاں کے لوگ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ تو اس میں بی جے پی کی کیا غلطی ہے، اس نے  بیٹی بچاؤ کا نعر ہ تو دے دیا تھا کہ بیٹی کو بی جے پی سے بچانا ہے۔ اس کے باوجود لوگ یا خاص طور پر خواتین بی جے پی کی طرف راغب ہورہی ہیں تو اس میں بی جے پی والوں کا کیا قصور ہے؟ 


منیشا کی آبروریزی کے واقعہ نے 2012  نربھیا سانحہ کی یاد تازہ کردی ہے۔ دونوں میں صرف فرق یہ ہے کہ نربھیا کے معاملے کو شدت سے اچھالا گیا تھا کیوں کہ وہ برہمن تھی، میڈیا اور سماجی کارکنوں نے ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت کام کیا تھا اور منشیا کے معاملے کو شدت سے دبانے اور چھپانے کی کوشش کی گئی کیوں کہ وہ دلت تھی۔ اس میں یہ فرق بھی ہے کہ اس وقت کانگریس کی حکومت تھی جس نے احتجاج و مظاہرہ کی چھوٹ دے دی تھی جب کہ بی جے پی حکومت نے غیر اعلانیہ طور پر پابندی عائد کررکھی ہے اور جو مظاہرہ کرنے نکلتے ہیں یا نکلتی ہیں انہیں ڈنڈوں سے استقبا ل کیا جاتا ہے، چھیڑ خانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یواے پی اے لگادیا جاتا ہے، خاتون مظاہرین کے ساتھ، دہلی پولیس، اترپردیش پولیس نے جو نیچھ حرکت کی ہے وہ اپنی طرف سے پولیس کبھی نہیں کرسکتی۔راہل گاندھی کودھکا دیکر گرایاگیا،پرینکا گاندھی کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، دہلی کانگریس خاتون کی صدر امرتا دھون کے کپڑے تک پھاڑ دئے گئے۔ یہ امرتا دھون کے کپڑے نہیں پھاڑے گئے بلکہ مادر ہند کے کپڑے پھاڑے گئے۔ حکمراں ٹولہ میں کہیں بھی شرم بچی ہے تو اسے گندے نالے ڈوب کر مر جانا چاہئے۔گزشتہ تین چار دنوں تک متاثرہ لڑکی کے گھر کسی کو جانے نہیں دیا گیا تھا اور دباؤ ڈال کر ان سے اپنے مطابق کہلوائے جارہے تھے، یہاں تک ہاتھرس ڈی ایم دھمکی دیتا رہا۔راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے جس ہمت اور جرات کا مظاہرہ کیا ہے وہ لائق تعریف ہے اور انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ نہرو او ر خاندان کی حقیقی وارث ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثریتی طبقہ ان کے خاندان کے قائم کردہ کالج،یونیورسٹیوں میں پڑھ کر اور ان کے بنائے ہوئے اسپتال میں علاج کرکے ان کو جی بھر کر گالیاں دیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر احسان فراموشی کیا ہوگی، جن لوگوں کے لئے ان کے خاندان نے اپنی جان کی قربانی دی آج وہی لوگ ان پر لعن طعن کر رہے ہیں۔یہ لوگ نہرو اور گاندھی خاندان کو گالی دے سکتے ہیں تو مسلم حکمراں کے بارے میں کچھ اول جلول بک سکتے ہیں۔ 


دہلی میں گزشتہ16دسمبر کی رات کو چلتی ہوئی بس میں ایک 23 سالہ پیرا میڈیکل کی طالبہ کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ جیسے ہی یہ لڑکی اپنے دوست کے ساتھ بس میں چڑھی تو حملہ آوروں نے اس پر پھبتی کسنا  شروع کر دی کہ اتنی رات کو ایک آدمی کے ساتھ گھر سے باہر وہ کیا کر رہی ہے۔ لڑکے نے مداخلت کی تو انہوں نے اس کی پٹائی شروع کر دی۔ جب لڑکی نے اس کی مخالفت کی تو ان لوگوں نے لڑکی کو ’سبق‘سکھانے کا فیصلہ کیا۔ آبروریزی کے دوران اسے اور اس کے بوائے فرینڈ کو ملزموں نے لوہے کے سریہ سے حملہ کرکے سخت چوٹیں پہنچائیں جو طالبہ کی موت کا سبب بنیں۔ اس کا علاج پہلے صفدر جنگ میں کیاگیا پھر سنگاپور لے جایا گیا۔ جہاں اس نے 29دسمبر کی صبح دم توڑ دیا۔ ایر انڈیا کے ایک چارٹرڈ طیارہ کے ذریعہ دیر رات متاثرہ لڑکی کی نعش کو لایا گیا اور30 دسمبر کی صبح ہندو رسم و رواج کے مطابق آخری رسم ادا کردی گئی۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے دلی ہائی کورٹ نے بھی کہا ہے کہ وہ دہلی اس اجتماعی آبروریزی کی واردات سے ”حیران“ ہے۔ عدالت نے اس بارے میں خواتین وکلاء کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس "شرمناک" واقعہ پر توجہ دے رہی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے اجتماعی آبروریزی کی اس واقعہ کا خود نوٹس لیتے ہوئے پانچ فاسٹ ٹریک عدالتیں بنانے کی تجویز پیش کی ہے تاکہ شہر میں عصمت دری کے معاملات سے فوری طور پر تصفیے کے کیا جا سکے۔ 
راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے جس قدر طرح پولیس کی بدتمیزی، بدسلوکی، دھکا دینے،زمین پر گرانے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہاتھرس آبروریزی کے متاثرہ خاندان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان سے ملاقات کی وہ یہاں کے لیڈروں کے لئے سبق ہے۔ بی جے پی کے لیڈران جب سے اقتدارمیں آئے ہیں کسی متاثرہ سے ملنا انہیں گوارہ نہیں ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں وقت ان کے ساتھ جو چاہیں کریں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ بہت جلد ذلت کا طوق کا ان کے گلے میں پڑنے والا ہے۔یہی وہ لوگ زانی او ر قاتل کی حمایت میں ترنگا یاترا نکالتے ہیں،عدالت کا محاصرہ کرتے ہیں، ججوں کو دھمکیاں دیتے ہیں، ان کی زندگی پوری جرائم سے عبارت ہے۔ اگر آج ہندوستان میں قانون کی حکمراں قائم ہوجائے تو بیشتر بی جے پی لیڈران جیل کی یاتراپر ہوں گے۔یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ جن کو جیل میں ہونا چاہئے تھا وہ آج حکمراں بنے بیٹھے ہیں۔ جب زانی، قاتل، مجرم حکمراں ہوں گے تو جرائم کو ہی بڑھاوا دیں گے۔ اسی آج اترپردیش جرائم کی راجدھانی بنی ہوئی ہے، جتنی بھی بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستیں ہیں وہاں جرائم کا بول بالا ہے۔ سب سے زیادہ ان ریاستوں میں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ لڑکیاں باہر نکلنے سے ڈرتی ہیں، آئے دن بی جے پی کے لیڈران آبرو لوٹنے کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ پولیس والے ان کے خلاف مقدمات درج نہیں کرتے،متاثرہ کو ہی الٹے ڈانٹ پھٹکارکر بھگا دیا جاتا ہے اور یاان پر معاملہ رفع دفع کرنے کا دباؤ ڈالاجاتا ہے۔ایسے کسی خواتین کے ساتھ انصاف کیسے ممکن ہے۔
خواتین کے ساتھ بدسلوکی، آبرویزی، جنسی زیادتی، جنسی فقرے کسنا عام بات ہے۔ہندوستان کی مرکزی کابینہ میں 14 مارچ 2013 کو منظورہونے والا اس نئے بل کے تحت خواتین کی عصمت دری اور دیگر جرائم کے لیے سخت سزا کا بندوبست کیا گیا تھا۔جوبعد میں قانون بن گیا تھا۔س میں  میں تیزاب سے حملہ کرنے، پیچھا کرنے، گھورنے اور چھپ کر تاک جھانک کرنے کو مجرمانہ فعل گردانا گیا ہے۔عصمت دری کی شکار متاثرہ کے ہلاک ہونے یا اس کے کوما جیسی حالت میں جانے پر مجرم کو موت کی سزا دینے کا اس میں انتظام کیا گیا ہے۔فوجداری قانون ترمیمی بل 2013 میں آبروریزی کوجنس سے منسلک مخصوص جرم مانا گیا ہے یعنی اسے خواتین مرکوز بنایا گیا ہے اور اس کے لئے صرف مردوں پر ہی الزام لگے گا۔ اسے نربھیا ایکٹ کا نام دیا گیا تھا۔جسٹس ورما کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کی بیشتر سفارشات کو حکومت نے تسلیم کرلیا تھا۔خواتین کے ساتھ زیادتی ہندوستانی سماجی ایک اہم حصہ ہے اور یہاں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑی حد تک عام ہیں۔ اس میں پڑھے لکھے یا جاہل کی قید نہیں ہے۔27 نومبر1973 کو اس پچیس سالہ خاتون کو اپنے ہی ہسپتال میں صفائی کرنے والے ایک ملازم سوہن لال بھارتہ نے اپنی ہوس کا شکار بنایا اور زنجیروں کی مدد سے ان کا گلا گھونٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔اس واقعے نے ارونا شانباگ کی جان تو نہ لی مگر ان کی زندگی ضرور چھن گئی۔ 2003 میں ایک اٹھائیس سالہ سوئس سفارتکار کو دلی کے ایک خوشحال علاقے سری فورٹ میں دو مردوں نے ان کی گاڑی میں دھکیلا اور ان میں سے ایک سفارتکار کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔جیلوں میں خواتین قیدی محفوظ نہیں ہیں۔ سوھنی سوری کو اکتوبر 2011 کوماؤنوازکی مدد کرنے کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ حراست ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور ان کی بچہ دانی میں پتھر گھسائے گئے۔2004 میں آسام رائفلز کے فوجی منی پور میں بتیس سالہ منوراما کو ان کے گھر سے باغیوں کی مدد کرنے کے الزام میں لے گئے تھے۔ چند گھنٹے بعد ان کی تشدد زدہ لاش ایک سڑک کے کنارے ملی اور ان کے پیٹ کے نیچے کئی گولیاں ماری گئی تھیں۔گذشتہ سال چودہ سالہ سونم کو اتر پردیش کے ایک پولیس سٹیشن کے اندر ہی زیادتی کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے دوران سیکڑوں مسلم خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی گئی تھی۔کشمیر میں کے سلسلے میں کئی تنظیم بار بار کہتی رہی ہیں کہ سکیورٹی اہکار خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔2007 شرواستی میں ایک مسلم گاؤں کی عورتوں کے ساتھ جس میں بچی سے بوڑھی تک شامل تھیں آبروریزی کی گئی تھی۔ ساتھ ہی ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کو اجتماعی سزا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔مگر حکومت کو یہاں کی عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی نظر نہیں آتی ہے۔ ہندوستان میں میں ہر اکیس منٹ کے بعد جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ رپورٹ کیا جاتا ہے۔ یہ تعداد وہ جس کی رپورٹنگ ہوتی ہے اگر سارے جنسی زیادتی کے واقعات کی رپورٹنگ ہوگی تو ہر منٹ ایک یہ تعداد پچاس سے اوپر پہنچ جائے گی۔
پورے ملک میں اس وقت خواتین کے جرائم کا سیلاب آیا ہوا ہے لیکن جس طرح منیشا کے ساتھ انتظامیہ کا وحشی چہرہ سامنے آیاہے وہ دل دہلانے والا ہے، کاش منیشا گائے ہوتی۔ اس سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ ملزموں کی حمایت میں ٹھاکر برادری کے لوگ جمع ہونے لگے ہیں، احتجاج، جلسے جلوس کرنے شروع کردئے ہیں، تصور کریں اگر اس واقعہ کو کسی مسلمان نے انجام دیاہو تو مسلمانوں کے گھر کو آگ کے حوالے کرکے تمام لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہوتا۔ علی گڑھ نواحی علاقے میں ایک بچی کے قتل کے واقعہ مسلمان ملوث تھے، معاملہ دینداری کا تھا،تو میڈیا کس طرح کا طوفان کھڑا کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دلتوں کو ہندو سمجھا نہیں جاتا تو اسے صرف ووٹ دینے کے وقت ہندو سمجھا جاتا ہے۔یہ بات دلتوں کو سمجھنا ہوگا ورنہ کبھی ان کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوگا۔

Comments