نئی دہلی، 23 ستمبر (عابد انور) شاہین باغ تحریک کو ملتوی ہوئے چھ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس کی گونج اہمیت کے ساتھ اب بھی پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ ٹائم میگزین نے شاہین باغ تحریک میں شامل تین دادیوں میں سے ایک 82سالہ بلقیس کو دنیا کی سو اہم شخصیات میں جگہ دی ہے۔یہ مسلم خواتین اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی مسلم خواتین کے باعث صد افتخار ہے۔
ٹائم میگزین نے اپنی سو بااثر شخصیات میں وزیر اعظم نریندر مودی اور فلمی اداکار آیوشمان کھرانہ کا بھی نام شامل کیا ہے۔
واضح رہے کہ شاہین باغ تحریک کی تین دادیاں اسماء، سروری اور بلقیس شاہین باغ کی دبنگ دادیوں کے نام سے مشہور ہیں۔ٹائم میگزین نے بلقیس (دادی) کو دوہزار بیس کی سوبا اثر شخصیات میں شامل کیا ہے۔انہوں نے سخت سردی اور بارش کے موسم میں بھی اپنی ہمت نہیں ہاری تھی اور نوجوان خواتین اور مظاہرے میں شامل تمام لوگوں کی قیادت کر رہی تھیں اور انہوں نے شاہین باغ تحریک پر ہر حملے کو نہایت ہی ثابت قدمی، عقل مندی اور حکمت عملی کے ساتھ جواب دیا تھا۔اس کی وجہ سے وہ دبنگ دادیوں کے نام بھی مشہور وہوئیں۔ یہی بھی قابل ذکر ہے کہ ہر موقع اور ہر محاذ پر تینوں دادیاں ہوا کرتی تھیں۔
شاہین باغ 15 دسمبر 2019 کو قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ اورشہریوں کے احتجاج پولیس کے تشدد اور طالبات کے ساتھ نازیبا سلوک، لائبری میں توڑ پھوڑ اور گھس کر طلبہ اور طالبات کی بے رحمی کے ساتھ پٹائی اور پھر مجرموں کی طرح ہاتھ اوپر کرکے نکلنے پر مجبور کیا تھا۔ان طالبات کو بھی نہیں بخشا گیا تھا جو باتھ روم میں گھس گئی تھیں۔راقم الحروف نے بذات خود طالبہ و طالبات سے بات کی تھی جس میں ا ن لوگوں نے پولیس کا غیر انسانی اور وحشی چہرہ پیش کیا تھا۔جامعہ کے طلبہ و طالبات پولیس کی اس درندگی کو کبھی نہیں بھول سکتیں۔ طلبہ و طالبات پر ہونے والے ان مظالم کے خلاف شاہین باغ کی خواتین نے دھرنا شروع کیا تھاجو تقریباً تین ماہ سے زائد عرصہ تک چلا تھا اور جنتا کرفیو کے اعلان اور لاک ڈاؤن کے اعلان کے پیش نظر پولیس نے دھرنا کو ختم کروادیا تھا۔شاہین باغ خواتین کاخیال تھا کہ جب ہمارے بچے ہی تعلیمی اداروں میں محفوظ نہیں ہیں، سڑکوں پر محفوظ نہیں ہیں، اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے پر ان پر تشدد کیا جاتا ہے تو ان کے گھر میں رہنے کا کیا مطلب ہے۔اسی سوچ نے انہیں نکلنے پر مجبور کیا۔پہلے چند خواتین سامنے آئی اور پھر رفتہ رفتہ خاتون مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی۔ کبھی کبھی یہ لاکھ میں پہنچ جاتی ہے اور مردوں کو شامل کرلیں تو بعض دنوں میں یہ پانچ چھ لاکھ تک لوگوں کی تعداد ہوجاتی تھی۔ مثال کے طور پر 26جنوری کے دن جب دبنگ دادیوں نے ترننگا لہرایا تھا تو اس وقت اس سے زیادہ بھیڑ ملک کے کسی حصہ میں نہیں ہوئی ہوگی۔
تحریک کے دوران دبنگ دادیوں نے تمام بڑے چینلوں کے تیز طرار صحافیوں کا سامنا کیا تھا اور اپنی بات مدلل طور پر رکھنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ قومی شہریت ترمیمی قانون، این سی آر اور این پی آر کے خلاف جاری شاہین باغ تحریک نے پورے ملک نے ہی پوری دنیا کو متاثر کیا تھا اور اس کی گونج امریکہ، یوروپ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں سنی گئی تھی۔اس تحریک کا اثر یہ ہوا تھا کہ ملک میں شاہین باغ کے طرز پرخواتین کی سیکڑوں تحر یکیں شروع ہوگئی تھیں اور یہ چوبیس گھنٹے تک جاری رہتی تھیں اور ان کی پنچایت سطح تک وسعت ہوگئی تھیں۔ اس نے پورے ملک اور ہر طبقے کو متاثر کیا تھا اور اور مسلم خواتین کے تئیں لوگوں کے نظریے میں بھی تبدیلی آئی تھی۔ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کے لوگ دیکھنے آتے تھے آخر خواتین کی قیادت میں چلنے والی تحریک اتنی دیرپا کیوں ہے۔ پوری دنیا کے میڈیا نے اس کو کور کیا تھا۔اس تحریک کی مقبولیت کی وجہ سے گودی میڈیا، مودی میڈیا اور ہندوتو میڈیا (ہندی میڈیا) کو بھی آنے پر مجبور کیا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے جنتا کرفیو کے اعلان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بلقیس نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کو ہم لوگوں کی اتنی ہی فکر ہے تو وہ قومی شہریت ترمیمی قانون واپس لے لیں اور ہم لوگ دھرنا فوراً ختم کردیں گے۔ان تینوں دادیوں کا احساس تھا کہ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو سڑکوں پر بیٹھی ماؤں اور دادیوں کی آواز سننی چاہئے۔انہیں اس کا بھی درد تھا اتنے لمبے عرصے تک چلنے والی خواتین کی تحریک کے بارے میں بات کرنے کے لئے حکومت کا کوئی نمائندہ نہیں آیا تھا۔ حکومت فرقہ پرستوں کی طرف سے غنڈے تحریک کو بدنام کرنے کے لئے ضرور بھیجے گئے لیکن حکومت کا کوئی نمائندہ ان خواتین کا درد جاننے کے لئے نہیں آیا۔یہ مسلم خواتین کے تئیں حکومت کی بے حسی کا زندہ ثبوت تھا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے مذاکرات کار جس انداز سے خواتین، دادیاں اور خاص طور پر نوجوان مسلم خواتین نے سامنا کیا، مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور محترمہ سادھنا یہ کہنے پر مجبور ہوئے جب تک آپ جیسی خواتین ملک میں زندہ نہیں ہیں ہندستانی جمہوریت کا بال بھی باکا نہیں ہوسکتا۔
شاہین باغ تحریک کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہندوستان کی پہلی تحریک تھی جو خواتین چلارہی تھیں اور اتنے عرصے تک چلنے کے باوجود کسی قسم کا پر تشدد واقعہ پیش نہیں آیا اور گولی چلنے اور سبوتاژ کرنے کی کوشش کے باوجود خواتین نے نہایت تحمل سے کام لیا اور اس تحریک کو تمام مذاہب کی خواتین کی حمایت حاصل تھی اور تمام مذاہب کی خواتین نے نہ صرف اس میں سرگرم حصہ لیا تھا بلکہ مسلم خواتین کی شانہ بشانہ کھڑی تھیں۔
ٹائم میگزین کے بلقیس دادی کو بااثرشخصیات میں شامل ہونے پر شاہین باغ تحریک سے وابستہ خواتین خوشی کا اظہار کرتے ہوئے خواتین کی تحریک کے لئے خوش آئندبتایا۔ تحریک سے وابستہ صائمہ خاں، ملکہ خاں، نصرت آراء، تہمینہ خاں،ترنم، سائشتہ ناز، کنیز فاطمہ ،شہلا اور دیگر خواتین نے بلقیس دادی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری تحریک کی کامیابی اور اس کے اعتراف کی دلیل ہے۔
Comments
Post a Comment