عابد انور
مجرم ہمیشہ مجرمانہ حرکت ہی کرتا ہے خواہ وہ کتنا بڑا آئینی عہدہ پر کیوں نہ پہنچ جائے۔یہی اترپردیش میں میں ہوا ہے اور غنڈہ راج اور غنڈوں کے راج میں بہتر کی توقع نہیں کی جاسکتی خاص طور پر اس وقت جب جرم کو مذہبی لبادہ اڑھادیا جائے اورمذہبی طور پر اسے ناگریز قرار دیا جائے۔ ہسٹری شیٹر اور 22 فوجداری مقدمات کے حامل جن کو جیل کی کال کوٹھریوں میں ہونا چاہئے وہ آئینی عہدہ پر براجمان ہے تو وکاس دوبے جیسے لوگوں کا پیدا ہونا معمولی بات ہے۔مختلف بہانے سے مسلمانوں کے قتل، مسلم خواتین کی آبروریزی اور مسلمانوں کی معاشی حالت حد درجہ خراب کرنے کو جائز ٹھہرانے کے لئے مذہبی اور ہندوؤں کی ضرورت قراردینا اور اس کا جشن منانے والوں سے اس سے اور کیا توقع کی جاسکتی تھی۔ سیاست اور جرائم کا ادغام کوئی نہیں بات نہیں ہے اور خاص طور پر وہ پارٹی جس کی خمیر میں جرائم ہو، مسلمانوں کا قتل عام کرنا، مسلمانوں کو ملک سے باہر نکالنا اور دلتوں اور کمزور طبقوں کی زندگی اجیرن کرنا مقصد رہا ہواس سے بہتر کی امید کرنابے وقوفی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔بی جے پی کے اراکین اسمبلی سے لیکر اراکین پارلیمنٹ تک جرائم میں دبدبہ رکھتے ہیں۔ اے ڈی آر کی رپورٹ اس کی گواہ ہے۔ مجرم کی یہ خوبی ہوتی ہے وہ ہر کام بے ڈھنگے پن سے کرتا ہے اور اس کی اسکرپٹ بھی سی گریڈ کی ہوتی ہے جو پہلی نظر میں بوکس معلوم ہوتی ہے لیکن وہ اکثریت کے نشے میں چور ہوتا ہے اس لئے اسے کسی چیز کا خوف نہیں ہوتا اور وہ قانون سے ہر حال میں اپنے آپ کو بالاتر سمجھتا ہے۔یہی سب وکاس دوبے معاملے میں ہوا ہے۔ وکاس دوبے بدنام زمانہ مجرم تھا اسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے لیکن ماورائے عدالت قتل کسی بھی صورت میں اسے جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق آٹھ پولیس اہلکاروں کے قتل کے ملزم وکاس دوبے کی آج مبینہ پولیس انکاونٹر میں ہلاکت نے حکومت، پولیس اور انتظامیہ کے رول پر ایک بار پھر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس مبینہ انکاونٹر کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں اعلی سطحی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ بعض دھماکہ خیز انکشافات کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینے کے مقصد سے وکاس دوبے کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ وکاس دوبے کو جس گاڑی میں مدھیہ پردیش سے اترپردیش لایا جارہا تھا وہ راستے میں پلٹ گئی۔ موقع کا فائد اٹھاکر وکاس نے ایک پولیس والے کی بندوق چھین کر بھاگنے کی کوشش کی جس کے بعد پولیس کی ’جوابی کارروائی‘ میں اسے گولی لگ گئی او راسپتال کے راستے میں اس کی موت ہوگئی۔ خیال رہے کہ مدھیہ پردیش اوراترپردیش دونوں ہی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔وکاس دوبے کو جمعرات کے روز مدھیہ پردیش کے اجین شہر میں ایک مندر سے انتہائی ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ اس نے خودسپردگی کی تھی یا واقعی پولیس نے اسے پکڑا تھا۔ آج اسے کانپور شہر لایا جارہا تھا، جہاں اس نے آٹھ پولیس اہلکاروں کا قتل کیا تھا۔
گوکہ پولیس اسے انکاونٹر بتارہی ہے لیکن اس مبینہ انکاونٹر پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مثلا ً یہ کہ جب اسے پکڑا گیا تھا اس وقت سے اس نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی تھی، پھر اچانک وہ پولیس کی ایک پوری ٹیم کے درمیان بندوق چھین کر بھاگنے کی کوشش کیوں کرے گا۔ دوسری بات یہ کہ پولیس نے اسے انتہائی خطرناک مجرم قرار دیا تھا لیکن اسے بغیر ہتھکڑی لگائے کیوں لارہی تھی؟ یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے کہ اترپردیش پولیس نے اسے کانپور لانے کے لیے قانونی طورپر ٹرانزٹ ریمانڈ کیوں نہیں لیا تھا؟ ان سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وکاس دراصل پولیس، مافیا اور سیاست دانوں کی ملی بھگت والے جرائم کے نیٹ ورک کا ایک بڑا گواہ تھا اور قانونی کارروائی کے تحت اس سے اس نیٹ ورک کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی تھی لیکن اب اس کی موت کے بعد یہ تمام راز ہمیشہ کے لیے دفن ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ وکاس دوبے کے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتو ں کے رہنماوں سے قریبی تعلقات تھے۔دراصل اترپردیش حکومت کے رول پر اسی وقت سوال اٹھنے لگے تھے جب پولیس اہلکاروں کے قتل کے بعد وکاس دوبے فرار ہوگیا تھا اور حکومت نے کسی قانونی کارروائی کے بغیر اس کے گھر کو منہدم اور وہاں رکھی گئی کئی گاڑیوں کو تباہ کردیا تھا۔ سپریم کورٹ کے وکیل اے رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ”اس سے قطع نظر کہ ملک کا کوئی قانون پولیس کو ایسی کسی بھی کارروائی کی اجازت نہیں دیتا، اس توڑ پھوڑ کا مقصد اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ وہاں موجود ثبوت و شواہد ضائع کردیے جائیں۔ حالانکہ پولیس نے انہدامی کارروائی کے دو روز بعد ملبے سے دیسی بم اور کارتوس وغیرہ برآمد کرنے کا دعوی کیا ہے لیکن انہدامی کارروائی کے بعد وہاں سے’برآمد شدہ‘کسی بھی شئے کو قانون شہادت کی روشنی میں دنیا کی کوئی عدالت بطور وجہ ثبوت قبول نہیں کرے گی۔“بھارت میں مبینہ انکاونٹر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پولیس بعض اوقات ثبوتوں کو ہمیشہ کے لیے ضائع کرنے کی خاطر ایسا کرتی ہے اور بعض اوقات جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ ملزم کے خلاف اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور اسے بدنامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تب بھی وہ انکاونٹر کا سہارا لیتی ہے۔“
انکانؤنٹر کے سلسلے میں ہندوستانی پولیس کا ریکارڈ بہت خراب رہا ہے۔ گجرات انکاؤنٹر سمیت ملک میں ہونے والے کوکون فراموش کرسکتا ہے۔ اترپردیش پولیس کا یوگی دور حکومت میں وکاس دوبے 119واں شکار تھا۔مدھیہ پردیش پولیس نے اسلام پسند طلبہ کی ممنوعہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کے ہندوستان کی محفوظ ترین جیلوں میں سے ایک بھوپال سینٹرل جیل سے فرار ہونے والے آٹھ مبینہ انتہا پسندوں کے اکتیس اکتوبر کو ایک مسلح تصادم کے دوران مارے جانے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا تھا لیکن موبائل فون سے بنائے گئے دو ویڈیوز کے منظر عام پر آ جانے سے اس بارے میں پولیس کے دعوے مشکوک ہوگئے ہیں۔ان میں سے ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح زمین پر گرے ہوئے ایک زخمی قیدی کو بہت قریب سے گولی ماری گئی جب کہ دوسری ویڈیو میں ایک شخص ایک دوسرے شخص کو ایک زخمی قیدی کو ماں کی گالی دیتے ہوئے اسے گولی مار دینے کے لیے کہتا سنائی دیتا ہے۔ ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد ہندوستانی اپوزیشن جماعتوں اور حقوق انسانی کی تنظیموں نے مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیا ہے۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مرکزی سیکرٹری اتل کمار انجان نے اس پولیس مقابلے کو ’ریاستی تعاون سے قتل‘ کا واقعہ قرار دیا اور کہا کہ قومی انسانی حقوق کمیشن کو اس پورے معاملے کی چھان بین کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ملک کی سپریم کورٹ کو بھی اس واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لینا چاہیے۔ اتل کمار انجان نے پوچھا کہ جیل میں رہنے کے باوجود ان قیدیوں کے جسموں پر بالکل نئے کپڑے اور ہاتھوں میں گھڑیاں تک آخر کہا ں سے آ گئی تھیں۔سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے، ”جہاں تک مجھے معلوم ہوا ہے، یہ مبینہ پولیس مقابلہ فرضی تھا۔ جو بھی اس کے لیے ذمہ دار ہے، نہ صرف وہ جنہوں نے یہ نام نہاد مقابلہ کیا اور وہ بھی جنہوں نے اس کا حکم دیا، تمام سینیئر افسران اور سیاسی رہنماؤں کو بھی موت کی سزا دی جانا چاہیے۔“ریٹائرڈ جسٹس کاٹجو نے دوسری عالمی جنگ کے بعد نیورمبرگ کی عدالت میں مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ نیورمبرگ میں ان افسران کو بھی سزا ئے موت سنائی گئی تھی، جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے تو صرف حکام بالا کے احکامات پر عمل کیا تھا۔اپوزیشن کانگریس پارٹی کے سیکرٹری جنرل دگ وجے سنگھ نے ٹوئٹر پر اپنے متعدد پیغامات میں لکھا، ”یہ بہت عجیب بات ہے کہ رات ڈھائی بجے وہ جیل سے فرار ہوئے اور صبح آٹھ بجے تک ایک ساتھ گھومتے رہے۔ یہ تمام باتیں اور ویڈیوز کے منظر عام پر آنے سے ایسا لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے۔ اس کی عدالتی انکوائری کرائی جانا چاہیے۔ اگر مفرور قیدیوں کو زندہ پکڑ لیا جاتا، تو پورے معاملے کی تفصیلات مل سکتی تھیں لیکن اس طرح پورا معاملہ بھی سامنے آ جاتا، شاید اسی لیے وہ سب مار دیے گئے۔“ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادو نے بھی اس مبینہ پولیس مقابلے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اس بارے میں ریاستی پولیس کے اعلیٰ افسران کے بیانات میں بھی اختلافات موجود ہیں۔دوسری طرف حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئر رہنما اور مرکزی وزیر ایم وینکیا نائیڈو کا کہنا ہے، ”کچھ لوگ ’سیمی‘ کے انتہاپسندوں کے ساتھ ہمدردی کیوں کر رہے ہیں؟ انتہاپسند پہلے بھی جیل سے بھاگے تھے، اس مرتبہ بھی ایک گارڈ کو مار کر فرار ہو رہے تھے، حالات کو دیکھتے ہوئے یہ انکاؤنٹر عمل میں آیا۔ اسے سیاسی شکل اور فرقہ ورانہ رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔“ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کا کہنا تھا، ”اس معاملے پر گندی سیاست کی جا رہی ہے۔“
حیدرآباد میں پانچ مسلم نوجوانوں کو ورنگل سینٹرل جیل سے سات اپریل2015 کوعدالت میں پیش کرنے کے لئے حیدرآباد لے جا رہی تھی کہ وقارالد ین احمد سمیت پانچ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔لیکن اس واقعے کے فورا بعد سے میڈیا میں جاری تصویروں پر شوسل میڈیا پر اس انکاونٹر پر سوال اٹھنے لگے ہیں، تصویروں میں سبھی پانچوں نوجوانوں کے ہاتھ میں ہتھکڑیا ں لگی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں رائفل پکڑا دی گئی تھی جسے دیکھ کر کسی بھی کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ انکاونٹر بھی ماضی میں ہوئے انکاونٹرس کی طرز پر فرضی طریقے سے انجام دیا گیا ہے۔حیدرآباد کے یہ پانچ مسلم نو جوان کو بہت ہی ڈرامائی انداز میں قتل کرکے تصادم کا جامہ پہنادیا گیا. حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ شخص ہتھکڑیوں میں جکڑا ہے، اپنی سیٹ پر بے ہوش سا پڑا ہے، اس کے پورے جسم پر خون کے چھینٹے ہیں ان کی یہ حالت تلنگانہ پولیس کے ساتھ ہوئے انکاؤنٹر میں ہوئی۔ انہیں 17 میبرس والی سکورٹی ٹیم نے مارا۔ وہ انہیں ایک پولیس وین میں ورنگل جیل سے حیدرآباد کورٹ لے جا رہے تھے۔وقار احمد کے ساتھی سید امجد علی عرف سلیمان کے بھائی سید امتیاز علی نے پولیس پر الزام عائد کیا تھاکہ زیر التواء مقدمات میں جرم ثابت کرنے میں ناکامی کے ڈر سے پولیس نے فرضی انکاؤنٹر کے ذریعہ ان کے بھائی کا قتل کیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کو ایک صحافی نے ویڈیو فلم دیا تھا جس میں یہ نظر آتا ہے کہ مارے جانے کے بعد یہ پانچوں قیدی پولیس وین میں بیٹھے ہیں اور سب کے ہتھکڑی لگی ہوئی ہے۔ایمنسٹی انترنیشنل انڈیا کے وی پی ابھیر نے کہا ”غیر عدالتی ہلاکت ہندستان میں ایک سنگین مسئلہ ہے کہ عدالت کے فیصلہ کے بغیر مجرموں کو بڑی بے خوفی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے چھوٹ بھی جاتے ہیں۔
کنڈا میں تعینات ڈی ایس پی ضیاء الحق کا شمار بہت ہی ایماندار افسر میں ہوتا تھا وہ ذاتی طور پر سرکاری گاڑیوں کے استعمال سے پرہیز کرتے تھے۔ کہیں کہیں تو وہ کسی تقریب میں سائکل چلاکر پہنچ جایا کرتے تھے جب کہ اس دور میں معمولی درجے کانسٹبل بھی موٹر سائیکل سے کم استعمال نہیں کرتا۔2008 میں جب ضیائالحق پی پی ایس امتحان پاس کیا تو پروین آزاد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم مکمل کر چکی تھیں۔ بہار کے ضلع سیوان کے بابودین آزاد کی بیٹی ڈاکٹر پروین آزاد سے ضیاء الحق کی نومبر 2011 میں کی منگنی ہو ئی تھی اور پھر 21 جنوری 2012 کو شادی ہوئی تھی۔ ضیاء الحق اور ڈاکٹر پروین آزاد کی شادی کا سفر محض 384 دن کا ہی رہا۔گزشتہ ۳ مارچ کوضلع پرتاپ گڑھ کے کنڈا علاقے بلی پور میں جس طرح بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیااور اس کی حفاظت کے لئے تعینات پولیس اہلکار جس طرح انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے جب کہ ان کا کام حفاظت کرنا تھا۔ یہ کوئی اچانک پیش آنے والا واقعہ نہیں تھا۔ جو کچھ بھی ہوا اس کی اسکرپٹ پہلے ہی تیار کی جاچکی تھی۔ پرتاپ گڑھ میں گرام پردھان کے قتل کے بعدجائے واردات کا معائنہ کرنے کے لئے ڈی ایس پی ضیاء الحق گئے تھے۔ جس بھیڑ نے ان پر حملہ کیا وہ کوئی اور نہیں رگھوراج عرف راجا بھیا کے حامی تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے اس قتل کی سازش رچنے والے اور اپنے حامیوں کے ذریعہ انجام تک پہچانے والے مجرم کو اب تک آزاد چھوڑ دیاگیا تھا۔اسی طرح 2018میں علی گڑھ میں نوشاد اور مستقیم کا فرضی طریقے سے میڈیا کے سامنے انکاؤنٹر کردیا گیا۔
وکاس دوبے انکاؤنٹر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ناراضگی سے توجہ ہٹانے کے لئے اس کا رخ ایک بار پھر مسلمانوں کی طرف موڑ دیا جائے گا۔ جرائم کو مسلمانوں کو جوڑ کر ان کا قتل، ان کے جائداد کو قرق کرنا،بے جا مقدمات پھنسانے اور ہر طرح سے ا ن کی معاشی ناکہ بندی کا عمل شروع ہوجائے گا۔ سی اے اے اور این آر سی اور این پی آرکے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کے نام پر پہلے حکومت اترپردیش بغیر کسی عدالتی کارروائی مسلمانوں کی املاک ضبط کرچکی ہے یا کرنے والی ہے۔ایک بات طے ہے کہ یوگی حکومت وکاس دوبے کا انکاؤنٹر بہت مہنگا ثابت ہونے والا ہے کیوں کہ اس نے ایک برہمن کو مارا ہے کسی دلت، یا مسلمان کو نہیں کہ عدالت کچھ نہیں کہے گی۔ اپنے جرائم کو چھپانے کے لئے حکومت وکاس دوبے کو انکاؤنٹر میں ضرور مار دیا ہے لیکن اس کا بھوت اس کا پیچھا کرے گا۔
Comments
Post a Comment