عابد انور
ہندوستان ’وشو گرو‘ بننے کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے بلکہ بن گیا ہے، ہمیں آپ کو نظر نہیں آرہا ہے کہ ہمیں اپنی آنکھوں کا علاج کرانا لینا چاہئے، پورے ملک ’وکاس‘ (ترقی) کی ندی بہہ رہی ہے، ابھی گزشتہ دنوں دہلی میں بھی وکاس میں (منٹو برج کے نیچے جمع پانی میں) بہہ کر ایک شخص دم توڑ دیا تھا۔ بہار اور آسام میں بھی وکاس کی آندھیاں چل رہی ہیں جس کی زد میں دونوں ریاستوں کے بیشتر اضلاع ہیں۔ ہمارے پردھان سیوک نے کہا تھا اور آتم نربھر (خود کفیل)بننے کا نعرہ دیا۔ اسے پورا ملک اپنا رہاہے اور لوگوں نے خود کفیل بنتے ہوئے خود ہی اپنا کام کر رہے ہیں۔ کورونا کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھاکر لوگوں کو خود کفیل بننے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے، ہم ہیں کہ اپنے پردھان سیوک میں میم میخ نکال رہے ہیں۔ایسا پردھان سیوک کہیں ملے گا جوگزشتہ چھ برسوں سے کسی کی بات سنے بغیر اپنے من کی بات پابندی سے کر رہے ہوں۔ وہ بڑی محنت سے اورمسلسل چھ سال سے سمجھا رہے ہیں عوام حکومت کو ٹیکس خشوع خضوع سے دے لیکن حکومت سے کوئی امید نہ رکھے۔انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی نئے ہندوستان کا تصور پیش کردیا تھا صرف حکومت چلانا حکومت کا کام ہے۔ ادارے قائم کرنا، چلانا، فیکٹری لگانا یا دیگر روزگار کے مواقع پیدا کرنے والا کام کرنا حکومت کا کام نہیں ہے۔اس لئے اس حکومت نے تمام اداروں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا اور فروخت کررہے ہیں۔ جو فروخت کرنے میں لطف آتا ہے وہ بنانے میں نہیں آتا۔ بنانے میں سیکڑوں جھنجھٹ ہوتے ہیں، زمین ایکوائر کرو، ڈھیر سارا پیسہ لگاؤ، کام کی نگرانی کرو، لیکن بیچنے میں کوئی محنت نہیں لگتی بلکہ سیدھے طور پر ہاتھ میں پیسہ آجاتا ہے اور اس پیسہ کو اڑانے میں جو مزہ آتا ہے اس کا کہنا ہی کیا۔ یہ بات بھی نہیں ہے کہ ہمارے پردھان سیوک صرف فروخت کرنے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ وہ خریداری بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے وہ کام کردیا ہے جو آج تک کسی نے کیا۔ آج تک تقریباً ڈیڑھ سو ایم ایل اے کے قریب خرید چکے ہیں۔ ہندوستان وشو گرو تو ایسے ہی کارناموں سے بنے گا نا۔ایک وزیر پاپڑ کھاکر کورونا کا علاج کرنے کا نسخہ بتارہے ہیں تو دوسری طرف ایک ان کی ہر دل عزیز رکن پارلیمنٹ اور گوبر اور گو موتر سے اپنے کینسر کا علاج کراچکی لیڈر کورونا کا علاج ہنومان چلیسا پڑھنے کو بتارہی ہے۔ یہی تو وشو گرو والی بات ہوئی نا۔ ا مریکہ اور برازیل کو معلوم نہیں ورنہ پاپڑ اور ہنومان چلیسا کا آرڈر دے چکے ہوتے اور اس سے ہزاروں کو لوگوں کو روزگار ملتا۔ لوگوں کے بارے میں کتنا سوچتے ہیں پردھان سیوک کے انویائی (جانشیں۔ متبع)۔ پھر بھی لوگوں کو شکایت ہوتی ہے وہ لوگ جنتا کا خیال نہیں کرتے۔پردھان سیوک کی محنت اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان میں 80کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ہندوستان کو وشو گرو بننے سے ہمیشہ روکتے رہے اس لئے یہاں کے عوام انہیں اقتدار میں آنے سے روک دیا۔ منموہن سنگھ کے نکمے پن کی وجہ سے خط افلاس سے نیچے زندگی گزار نے والوں کی تعداد 28کروڑ تک نیچے آگئی تھی۔ہمارے پردھان سیوک کوئی بھی چیز کو نیچے دیکھنا نہیں چاہتے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر ہندوستان ہر چیز میں بلند ہو۔ اس لئے غریبی، بھکمری، اظہار آزادی، خوش رہنے،خوش حالی، پریس کی آزادی اور دوسری تمام رینک میں ہم نہ صرف اپنے پڑوسی ممالک سے بلند ترین سطح پر ہیں بلکہ ہم بدترین حالت میں ہیں۔منفی رینک ہے تو کیا ہو بلند تو ہے نا۔
ہمارے پردھان سیوک نے ہندوستان کو وشو گرو بنانے کے لئے کوئی کالج، اسپتال یا فیکٹری یاادارے قائم نہیں کئے کیوں کہ یہ سب وشو گرو بننے میں روکاوٹ ہیں۔ پردھان سیوک نیچر کو پسند کرتے ہیں اس لئے انہوں نے یہ سب قائم نہ کرکے گوروکل میں تعلیم دینا چاہتے ہیں، درخت کے نیچے تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ جب تک درخت کے نیچے تعلیم نہیں دیں گے اس وقت تک ہندوستان وشو گرو نہیں بن سکتا۔ جب ہندوستان میں درخت کے نیچے تعلیم دی جارہی تھی تو ہندوستان پشپک ویمان (طیارہ) بنالیا تھا۔ پلاسٹک سرجری کرلی تھی، انٹرنیٹ کی ایجاد کرلی تھی جبھی تو سنجے مہا بھارت کی رپورٹنگ اور آنکھوں دیکھا حال مہاراجا کو بتاتے تھے۔ ہنومان جی پہاڑ اٹھالائے تھے۔ ستیہ ناس ہو مسلمانوں کا جنہو ں پشپک ویمان غائب کردیا۔انٹرنیٹ غائب کردی، ہندوستان جو وشو گرو تھا جہاں لوگوں کے بدن پر کپڑے نہیں تھے، کھانے کو اناج نہیں تھا، دلتوں اور کمزوروں طبقوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا، دلتوں کو مندرمیں جانے کی اجازت نہیں تھی، سنسکرت یا اشلوک سننے پر کان میں شیشہ پگھلاکر ڈالا جاتا ہے یازبان کاٹ دی جاتی تھی،عورتوں کو پستان ڈھکنے کی اجازت نہیں تھی۔ لوگ سلے کپڑے نہیں پہنتے تھے۔مسلمانوں نے ان سب کو تباہ کردیا اور انسان بنانے کی کوشش کی۔ اب ہمارے پردھان سیوک ان سب چیزوں کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے کورونا کے علاج کے لئے پہلے تھالی، تالی اور پھر دیا، ٹارچ اور موم بتی چلانے کی اپیل کی جس پر پورے ملک نے وشو گرو بننے کے لئے پردھان سیوک کی اپیل پر لبیک کہا۔ اگر یہ سب نہ کرتے تو کورونا کی تعداد کے معاملے میں ہم بہت پیچھے رہ جاتے، پوری دنیا میں ہمارا مذاق اڑایا جاتاکہ 135کروڑ کی آبادی والے ملک میں کورونا کے چند ہزار ہی معاملے ہیں اور وہ چھوٹے چھوٹے ممالک سے پیچھے ہے۔ اس پر بہت محنت کی گئی تب جاکر ہم نے تیسرا مقام حاصل کیا ہے جو وشو گرو بننے کی سمت میں ایک بہت بڑا قدم ہے۔ اگر اسی رفتار سے ہم آگے بڑھتے رہے تو ایک دن امریکہ کو مات دے دیں گے اور اس طرح ہندوستان عالمی نمبر ون بن جائے گا۔ سپر پاور نہیں بن سکے تو کیا ہو لیکن کسی میں تو نمبر ون بن جائیں گے۔یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔
وشو گرو بننے کے لئے ضروری ہے کہ کسی بھی وبا کو مواقع میں تبدیل کردینا۔ ہمارے پردھان سیوک نے اس سمت میں زبردست قدم اٹھایا ہے۔ وبا کے دور میں دنیا پھر ممالک اپنے یہاں کے عوام کو راحت پہنچانے کے طریقے پر کام کر رہے ہیں لیکن ہمارے پردھان سیوک عوام کی جیب سے پیسے کیسے نکالا جائے اس پر غور کرتے ہیں جبھی تو وبا کو موقع میں تبدیل کیا جائے گا۔ انہوں نے اس سمت میں کئی قدم اٹھائے ہیں۔ جہاں پوری دنیا میں ماسک، سینٹائزروغیرہ مفت تقسیم کئے جارہے ہیں وہیں ہمارے پردھان سیوک اس پر 18 فیصد جی ایس ٹی وصول کررہے ہیں۔ پیٹرول ڈیزل پر بے تحاشہ ٹیکس بڑھادیا ہے اور پوری دنیا میں سب سے مہنگا پیٹرول ڈیزل فروخت کیا جارہا ہے۔ وبا ان کے لئے بہترین موقع لے کرآیا ہے۔لوگ گھروں سے نکل کر احتجاج بھی نہیں کرسکتے۔ ویسے بھی یہاں کے لوگ کون سا احتجاج کرتے ہیں۔ سڑکوں پر جان دے دیں گے، بھوک سے مرجائیں گے، بغیر علا ج کے مر جائیں گے،تعلیم کی سہولت نہیں ہے کیا ہوا، لیکن اف تک نہیں کہیں گے۔ ایسا عوام آپ دنیا میں کہیں ملے گا۔یہاں کے لوگ بتائیں گے کہ وفاداری کیا ہوتی ہے، کھال ادھیڑ لینے کو ہی زندگی سمجھتے ہیں۔ مار پیٹ ہورہی ہے، آبروریزی ہورہی ہے، کھانے کو نہیں دیا جارہا ہے، شادی بیاہ اور آخری رسم ادا کرنے کی اپنی مرضی سے اجازت نہیں ہے، تو کیا ہو ا،زندہ رہنے کی اجازت دے رہے ہیں یہ کم ہے کیا۔ اسی کو وشو گرو کہتے ہیں۔
مرکزی اور بی جے پی کی حکمرانی والی حکومت نے وبا کو موقع کے طور پر سب سے زیادہ استعمال مسلمانوں کے خلاف کیا ہے۔ ہندوؤں اور حکمراں پارٹیوں کے کوئی کام نہیں رکے، لاکھوں کی تعداد میں گنگا میں اشنان کرتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں مندروں میں جاتے ہیں، اس سے کورونا نہیں پھیلتا۔ کورونا تو صرف مسلمانوں کے نماز پڑھنے سے پھیلتا ہے۔ اسی لئے حکومت نے وبا کو موقع کے طور پر استعمال کرتے ہوئے قربانی اورعیدا الاضحی کی اجتماعی نماز پر معتدد جگہ پابندی لگادی۔ اترپردیش میں ہزاروں مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے جرم میں جیل میں ڈال دیا ہے یا مقدمہ قائم ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی علی گڑھ کے جواں قصبہ میں جمعہ کے روز نماز کی ادائیگی کے بعد پولس نے مسجد سے جمعہ کی نماز ادا کرانے والے امام سمیت سبھی نماز ادا کرنے والے افراد کو گرفتار کر تھانے لے گئی جہاں امام مولانا محمد فیروز کومبینہ طور پر مجرموں کی طرح بے رحمی سے پیٹنے کے بعد سبھی نمازیوں کے سامنے گندی گندھی گالیاں بھی دی گئیں۔جامع مسجد جواں کے خطیب و امام مولانا فیروز عالم نے پریس کو دئے اپنے بیان میں کہا کہ محض 10 افراد کے ساتھ وہ مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرانے کے لئے مسجد میں داخل ہوئے تھے جبکہ اس سے قبل انہوں نے مسجد کے مائک سے ہی یہ بھی اعلان کیا تھا کہ سبھی حضرات اپنے اپنے گھروں میں ہی نماز ادا کریں۔نماز ختم ہوتے ہی پولس کے چند اہلکاروں نے مسجد سے ہی انہیں گرفتار کر لیا جبکہ کچھ لوگوں کو گھر سے اٹھا کر تھانے میں موجود ایک کمرے میں بند کرکے انکے ساتھ بد سلوکی کرتے ہوئے مبینہ طور پر مار پیٹ کی گئی جو کہ قانون کے خلاف ہے انہوں نے حکومت اتر پردیش سے منسلکہ پولس عملہ کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
رام مندر بنانے کے لئے سارے پروگرام کئے جارہے ہیں۔ پانچ اگست کو مندر کی تعمیر کے لئے بھومی پوجن بھی ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگ شرکت کریں گے لیکن اس سے کورونا بھاگ جائے گا۔ تروپتی کے مندر کے پجاری سمیت وہاں کے 170سے زائد لوگوں کو رونا مثبت آیا جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں میں کورونا پھیلنے کا خطرہ ہے اور وہاں کے سابق چیف پجاری کا کورونا سے انتقال بھی ہوگیا لیکن مندر کو بند نہیں کیا گیا۔ لیکن تبلیغی جماعت اب تک بند ہے۔ بنگلہ والی مسجد کو بھی بند کر رکھا ہے صرف، نماز کے وقت دو چار لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
کورونا وبا کے وبا کو پردھان سیوک نے سچ مچ میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کرنے، انہیں مذہبی ادئیگی سے روکنے اور ان پر ترقی کے راستے بند کرنے کے لئے موقع کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وبا کے دوران سیکڑوں کی تعداد میں ابھرتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔ وبا کے دوران جب کہ پوری دنیا میں مجرموں کو جیل سے رہا کیا جارہا ہے، ہندوستان میں بے قصور مسلمانوں کو جیل میں ٹھوسا جارہا ہے۔ہر اس شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جنہوں نے قومی شہریت قانون کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ وبا کو اوسر (موقع)کے طور پر استعمال ہمارے پردھان سیوک اور حکومت سے سیکھے۔ یہی خاصیت ہوگی وشو گرو ہندوستان کی۔ جہاں انصاف ناپید، امن و قانون معدوم،انسانیت دم توڑتی نظر آئے گی اورانسانی لاشوں پر لوگ جشن منائیں گے۔
Comments
Post a Comment