عابد انور
اس وقت جو بھی تعلیمی ادارہ قائم کر رہا ہے ان کی خواہش ہے کہ انہیں سرسید ثانی کہا جائے۔ بہت سے لوگ اسے کہتے بھی ہیں لیکن ذرا سوچئے یہ ادارے سرسید احمد خاں کے کتنے مقاصد کو پورا کرتے ہیں یا اس طرح کے تعلیمی ادارے قائم کرنے والوں کے ذاتی مقاصد پورے ہوتے ہیں جس میں ایم ایل سی اور راجیہ سبھاکی نشستوں کے علاوہ دیگر توقعات بھی شامل ہیں۔ سرسید احمد خاں کا مقصد کبھی تعلیم برائے تجارت نہیں تھا۔پوری زندگی انہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی، سماجی اورسیاسی ترقی کیسے ہو اسی سوچ میں گزار دی۔ آخری عمر تک اس کے لئے کوشاں رہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کرکے انہوں نے مسلمانوں نے راستہ دکھانے کی کوشش کی۔سرسید احمد خاں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ہی فیض ہے کہ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قدیم طلبہ پورے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں علی گڑھ کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں علی گڑھ کے سابق طلبہ نہ ہوں۔ وہ صنعت کار بھی ہیں، ڈاکٹر بھی ہیں، انجینئربھی ہیں، سائنس داں بھی ہیں، ماہر تعلیم بھی ہیں، مورخ بھی ہیں،ایروناٹیکل انجینئر بھی ہیں، خلائی سائنس داں بھی ویں۔ غرض کہ وہ ہر شعبے میں چھائے ہوئے ہیں لیکن دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ انہوں نے علی گڑھ کو کیا واپس کیا یا سرسید کے نام پر کتنے ادارے قائم کئے یا علی گڑھ کی طرح کوئی یونیورسٹی قائم کی توسناٹا چھا جاتا ہے۔ انفرادی طور پر کچھ لوگوں نے تعلیمی ادارے ضرور قائم کئے ہیں لیکن ان سے سرسید کا خواب پورا نہیں ہوتا۔سرسید خواب کا اسی وقت پورا ہوتا جب کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرح کئی دیگر یونیورسٹیاں علیگ برادران نے قائم کی ہوتی۔ایسا نہیں ہے کہ وہ لوگ اس کے قائم کرنے کے اہل نہیں ہیں یا ان کے پاس وسائل کی کمی تھی۔ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ اس کے لئے کوئی صنعت کار ہی قدم بڑھائے یا ثروت مند ہی آگے بڑھے۔ اگر یہ لوگ سچے سرسید احمد خاں کے پیروکار ہوتے تو وہی طریقہ اپناتے جو طریقہ سرسید احمد نے اپنایا تھا۔ انہوں نے کبھی بھی صرف مالداروں پر انحصار نہیں کیا تھا۔ قطرہ قطرہ جمع کیا تھا، لوگوں کی گالیاں کھائی تھیں، طعنے سنے تھے، بے عزتی برداشت کی تھی، کبھی پاؤں چندہ اکٹھا کرنے کے لئے پاؤں میں گھنگھروں بھی باندھے لیکن وہ اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹے تھے۔ مسلم یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے انہوں نے امیر و غریب سب کے دروازے پر دستک دی تھی۔ مگر علی گڑھ برادری نے ایسا کچھ نہیں کیا اور سرسید احمد خاں کو یاد کرنے کا مطلب صرف قورمہ بریانی ہی سمجھا اور وہ لوٹ کرکھانا کھانے کو۔ علی گڑھ اولڈ بوائز کے پورے ملک اور یہاں بیشتر غیر ممالک میں اولڈ بوائز فورم، یاالومنائی ایسوسی ایشن ہیں جہاں ہر سال دھوم دھام نے سر سید ڈے مناتے ہیں۔یہ خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے لیکن یہ تقریب صرف قیام و طعام تک محدود نہیں رہنا چاہئے تھا۔ صحیح معنوں میں سرسید کا خواب اور ویژن اسی وقت پورا ہوگا جب ملک کے مسلمان اور خاص طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قدیم طلبہ ان کے یوم پیدائش کے موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرح ہی کوئی یونیورسٹی قائم کرنے کا عہد کریں گے۔ دوسری طرف سرسید احمد خاں کے ہم سبق مجاہد آزادی، حجتہ الاسلام مولانا قاسمی کے قائم کردہ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں دینی ادارے قائم کئے۔ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ نے نہ صرف شہروں کے جنگل میں اذان دی بلکہ صحرا بھی میں اذان دی اور افریقی ممالک میں بھی مدرسے قائم کئے۔ پورے ملک، پاکستان، افریقہ اور دیگر ممالک میں دارلعلوم جیسے کئی ادارے قائم ہیں۔جسے دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ یااس کے فیض یافتہ نے قائم کئے ہیں۔ مگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسا ادارہ ہندوستان توکیا دوسرے ممالک میں علیگ برادری نے قائم نہیں کیا ہے۔علیگ برادران کو قاسمی برادری سے سبق لینے کی ضرورت ہ اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح قطرہ قطرہ سے دریا بن جاتا ہے۔
مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی تمام تر پسماندگی خواہ وہ تعلیمی ہو یا سماجی،سیاسی ہو یا معاشی اور اس طرح کی تمام بیماریوں کا علاج تعلیم میں ہی مضمر ہے۔گزشتہ سال پوری دنیا میں سرسید کا دوسو سالہ یوم پیدائش کا جشن پورے ملک میں دھوم دھام سے منایاگیا لیکن کہیں سے بھی یہ عہد یا عزم یا اعلان کا اظہار نہیں کیا گیا کہ ان کے نام پر کوئی تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے گا۔ خوشی کی بات ہے علی گڑھ برادری دنیا کے بیشتر ممالک اور تمام شعبہائے حیات میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں اور اعلی عہدے پر ہیں، کوئی بڑا صنعت کار ہے تو کوئی بڑا ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ وغیرہ لیکن دوسرا تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ آج تک ان لوگوں کی طرف سے سرسید کے نام پر کوئی بڑا ادارہ کے قیام کی اطلاع نہیں آئی ہے جب کہ اگر عزم کرلیں کوئی مشکل نہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرح دوسری یونیورسٹی قائم نہ کیا جاسکے۔صرف توجہ کرنے اور اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس سمت میں قدم بڑھاتے ہیں تو سر سید احمد خاں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی بہتر خراج عقیدت نہیں ہوسکتا۔
طویل عرصے سے سر سید احمد خاں کی یوم پیدائش کے موقع پر ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں دھوم سے سرسید ڈے منایاجاتاہے اور اس موقع پر مرغن غذا اور قورمہ بریانی ذوق و شوق سے کھائے جاتے ہیں لیکن ذرا سوچئے اگر ان کی سالگرہ پر قرآن خوانی کرکے اور قورمہ بریانی کے پیسے بچاکر جمع کرتے تو اب تک اتنے پیسے سے کئی یونیورسٹیاں قائم کرلیتے۔پوری مدت کو چھوڑئے صرف گزشتہ سال دو سوسالہ یوم پیدائش کا جشن جو پوری دنیا میں منایاگیا تھا اگر اس میں آنے والے اخراجات کو یونیورسٹی کھولنے کے مد میں جمع کردیا جائے تو ہم علی گڑھ جیسا ادارہ قائم کرنے کی سمت میں آگے بڑھ سکتے تھے۔ مسلمانوں میں جہالت پر ہر پروگرام میں بحث ہوتی ہے ا ور لمبی لمبی تقریریں کی جاتی ہیں لیکن ذرا غور کریں کہ کیا کبھی کسی بات پر عمل کیا جاتا ہے۔ ہماری ناکامی کی ایک بڑی وجہ تعلیم کا فقدان ہے اور اس سمت میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ ادارے قائم ہوبھی رہے ہیں تو ان تک غریب بچوں کی پہنچ نہیں ہورہی ہے اور صرف اہل ثروت کے بچے ہی ان اداروں میں جا پاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں ایسے ادارے کے قیام کی ضرورت ہے جہاں غریب کے بچے بھی تعلیم حاصل کرسکیں۔ مسلمانوں میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے ضرورت اس بات کی ہم ان صلاحیتوں کو تلاش کرکے ان کی رہنمائی کریں اور وسائل مہیا کرائیں پھر آپ امید افزا نتائج کا نظارہ کریں گے۔ مسلمانوں میں بڑی تعداد میں آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس، ڈاکٹرس انجینئر، وکلاء اور ججز پیدا ہوں گے۔بس ہمیں سرسید کے ویژن پر پوری توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔
سرسید کا خواب تھا کہ ہر مسلمان تعلیم یافتہ ہوں اور صاحب ثروت لوگ غریب بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کریں لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ مسلمان بچے فیس نہ بھر پانے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔ مسلمانوں کی بڑی بڑی تنظیمیں ہیں، بڑے بڑے صاحب ثروت افراد ہیں لیکن انہوں نے کبھی اس کے بارے میں نہیں سوچا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں گریجویٹ کی تعداد چار فیصد کے آس پاس ہے۔جب کہ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہے۔ یہ ہمارے لئے، صنعت کاروں، مالداروں اور تمام مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ علی گڑھ برادری کے بارے میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ یہ کام آسانی سے کرسکتے تھے۔ سارے ممبران سو پچاس، پانچ سو، ایک ہزار روپے اس مد میں جمع کرتے تو کرڑوں روپے چٹکیوں میں جمع ہوجاتے ہیں اور علی گڑھ جیسی یونیورسٹی قائم کرسکتے تھے۔ ان کے لئے یہ کام آسان تھا۔ مسلمانوں کی شرح تعلیم بڑھ جاتی۔ ابھی بھی وقت ہے اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے علیگ برادران تہیہ کرلیں کہ سرسید احمد خاں کے یوم پیدائش کے موقع پر ان کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرح ایک یونیورسٹی پیش کرکے خراج عقیدت پیش کریں گے۔ پوری دنیا میں پھیلے تمام اولڈ بوائز کے فورم اور ایسوسی ایشن پیسے اکٹھا کرکے اس سلسلے کو آگے بڑھائیں گے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بننے کے صد سالہ جشن کے موقع پر ایک دوسری یونیورسٹی قائم کرکے سرسید احمد خاں کو سچا خراج عقیدت پیش کریں گے۔ 1920میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو یونیورسٹی کا درجہ ملا تھا۔ اس وقت قوم نے 20لاکھ روپے چندہ اکٹھا کرکے بطور فیس ادا کیا تھا۔آزادی سے پہلے مسلمانوں نے اپنے چندے کے پیسے سے دو یونیورسٹیاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ قائم کیا تھا۔ لیکن ازادی کے بعد مسلمانوں نے اس طرح کا کوئی ادارہ قائم نہیں کیا۔ دونوں یونیورسٹی کے طلبہ نے اس سلسلے میں کوئی پہل نہیں۔ ذرا سو چئے اس وقت جب وسائل کی کمی تھی، مسلمانوں کے پاس پیسے نہیں تھے، کوئی بڑی صنعت نہیں تھی اس کے باوجود یونیورسٹیاں انہوں نے قائم کی لیکن اب جب کہ مسلمان کروڑ پتی، ارب پتی اور کھرب پتی ہیں تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسا ادارہ قائم نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ تنہائی میں ذرا س پر غور کریں۔ ان پر کیا فرض ہے اوراللہ تعالی نے ان کو صاحب حیثیت بنایا ہے تو ان پر کیا فرائض ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ مسلمان تعلیم یافتہ نہ ہوں اورپھر وہ ترقی کریں۔ یہ کیسے ممکن ہے۔
ادھر چند برسوں میں یہ خوش آئند بات پیدا ہوئی ہے کہ اب ایم اے یو اولڈ بوائز یا الومنائی ایسوسی ایشن کے پروگراموں میں اس پر بات ہونے لگی ہے اور مقررین اس بات کا ذکر کرنے لگے ہیں ہم نے اب تک کوئی کام نہیں کیا ہے سوائے قورمہ بریانی کھانے کے، اب اس لئے اس سمت میں کوئی قدم اٹھانا چاہئے اور اے ایم یو کی طرز پر ایک یونیورسٹی کاقیام ہوناچاہئے۔ گزشتہ ماہ اختتام پذیر اے ایم یو اولڈ بوائز کے انتخابات میں مقررین نے اس کا اعتراف کیا اور کچھ نہ کچھ کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ عمل کی پہلی سیڑھی سوچ ہے اب ان میں سوچ پیدا ہوگئی ہے انشاء اللہ کچھ نہ کچھ نتائج سامنے ضرور آئیں گے۔ اس کے علاوہ اے ایم یو اولڈ بوائز، الومنائی، اور ایسوسی ایشن اور تمام علیگ برادران سرسید احمد خاں کو بھارت رتن دینے کے لئے حکومت سے نہ صرف مطالبہ کریں بلکہ اسے مجبور کریں کہ وہ سرسید احمد خاں کو بھارت دے۔یہ سچا خراج عقیدت ہوگا۔ علیگ برادری کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس کام کو کرسکتے ہیں۔بس ایک چنگاری چھوڑنے کی ضرورت ہے اور خود بخود تحریک کی شکل لے لیگی۔
D-64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025
Mob. 9810372335
Comments
Post a Comment