مودی حکومت کے چھ سال: مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی و ظلم سے عبارت

عابد انور

Thumb

مودی حکومت کے چھ سال میں جہاں ہندوستانی معاشرہ میں نفرت، دشمنی، آپسی رنجش، مذہبی تعصب، اکثریت کے ذریعہ اقلیتوں کو ہراساں کرنے اور قتل، انصاف پسند صحافیوں کا قتل، سماجی کارکنوں کو پریشان کرنا، حق کی آواز اٹھانے والوں کو دنیا سے اٹھادینے اور منصفوں، شاعروں، ادیبوں، حق اطلاعات کے کارکنوں پر حملے اور حق و انصاف کی بات کرنے والوں پر حملے اور ہراسانی سے عبارت ہیں وہیں مسلمانوں کے لئے سب سے تکلیف دہ رہا ہے۔قومی شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے) این آر سی، این پی آر کے خلاف تحریک چلانے والوں کا قتل عام، تحریک کو کچلنے،تحریک ملتوی ہونے کے بعد اس کے کارکنوں کی گرفتاری، فساد سے منسلک کرکے ان پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرکے سیکڑوں مسلم نوجوانوں کی گرفتار ی، کورونا وبا کے دوران مسلمانوں پر حملے، مسلمانوں کے نفرت کی ملک گیر مہم چلانے والوں کی حکومت کی پشت پناہی اور بعض مرتبہ کھلم کھلا اعلان سے عبارت رہی ہے۔ خصوصاََ مسلم خواتین کے تعلق سب سے زیادہ تکلیف دہ، ہراسانی، آبروریزی اور قتل، چھیڑ خوانی، امتیاز،نقاب اور برقعہ کے بارے میں اعتراض اور کھینچنا وغیرہ جیسے پریشان کن واقعات پیش آئے ہیں۔ گزشتہ 2018میں رمضان کے مہینے میں ایک پولیس والے ہاتھوں ٹرین میں مسلم روزہ دار لڑکی کی آبروریزی کا گھناؤنا واقعہ پیش آیا تھا۔ جسے میڈیا نے دبانے کی پوری کوشش کی اور انتظامیہ کا رویہ تجاہل عارفانہ کا رہا۔ کہیں حالات خراب ہوتے ہیں تو سب سے آسان نشانہ خواتین ہوتی ہیں اور ہندوستان میں اگر اس طرح کے حالات پیش آتے ہیں تو اس کاآسان ہدف مسلم خواتین اور لڑکیاں بنتی ہیں۔ اگر ہندو یا دیگر طبقے کے خواتین کے ساتھ کچھ غلط ہوتا ہے تو ان کے پاس میڈیا، مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ، پولیس سب کچھ ہوتا ہے اور میڈیا اس قدر واویلا مچاتا ہے کہ انتظامیہ کارروائی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے لیکن مسلمانوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا بلکہ ان چاروں ستون کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ سارا نظام معاملے میں دبانے میں لگ جاتا ہے۔ یہ صرف مرکزی بی جے پی حکومت کا سیاہ کارنامہ نہیں ہے بلکہ جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت وہاں اس طرح کے واقعات کثرت سے ہوتے ہیں۔ وہاں سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیموں کو مسلمانوں اور مسلم خواتین کو پریشان کرنے، مارنے اور عزت و آبرو سے کھیلنے کا لائسنس مل جاتا ہے۔ جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہوتی وہاں بھی ایسے خاطیوں میں بیشتر کا تعلق سنگھ پریوار سے ہوتا ہے۔ 

بی جے پی حکمرانی والی ریاست میں مسلمانوں کی زندگی جس طرح دوبھر کی جارہی ہے گزشتہ چھ سال  میں ہونے والے واقعات اس کے ثبوت ہیں۔ جھارکھنڈ میں مسلم نوجوانوں کو گائے کے نام پر، کبھی لو جہاد کے نام،پر تو کبھی سوشل میڈیا پر کچھ لکھنے کے نام پر اور تو کبھی بچہ چوری کے نام پر قتل کیا جارہا ہے۔ اترپردیش، ہریانہ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، گجرات اور دیگر ریاستوں میں جس طرح مسلم خواتین کی بے حرمتی، مسلمانوں کو قتل اور زدوکوب کیا جارہا ہے وہ بی جے پی کی مسلمانوں کے تئیں نفرت کا آئینہ دار ہے۔ گزشتہ 2018میں ہی قومی دارالحکومت سے تقریبا 60 کلومیٹر دور درندگی کا ایک ایسا واقعہ پیش آیاتھا، جسے سن کر ہر کسی کا دل دہل جائے گا۔ گڑگاؤں سے ملحقہ ہریانہ کے سب سے پسماندہ ضلع میوات کے تاوڈو حلقہ کے گاؤں ڈنگرہیڑی میں بدھ کو 24,25 اگست کی رات درندوں نے وحشیانہ اور انسانیت کی ساری حدیں پار کر دی تھیں۔ حیوانوں نے سب کو یرغمال بنایا، پھر ماموں اور ممانی کے سامنے بھانجیوں کی اجتماعی آبروریزی کی اور پھر بدمعاشوں نے بھانجیوں کے سامنے ماموں اور ممانی کا بے رحمانہ قتل کردیا۔ڈنگرہیڑی گاؤں میں دو قتل، ایک نابالغ اور ایک شادی شدہ لڑکی کی اجتماعی آبروریزی کے واقعہ نے میوات میں لوگوں کو دہلادیا ہے۔ بدمعاشوں نے گھر میں رکھے زیورات اور نقدی کی لوٹ مار کی اور پھر لوہے کی چھڑی اوردھار دار ہتھیاروں سے سات افراد کو زخمی بھی کر دیاتھا۔ اس وحشیانہ واقعہ کو رات میں تقریبا ایک بجے انجام دیا گیا، جس وقت سبھی لوگ گہری نیند میں تھے۔آبروریزی کی شکار ہوئی دونوں لڑکیوں نے بتایا تھاکہ رات تقریبا ایک بجے بدمعاش آئے۔ پہلے ان کے والدین اور ماموں اور ممانی کے ہاتھ پیچھے کی جانب باندھ دیے۔ اس کے بعد انہوں نے لاٹھی مار کر ان کو جگایا۔ پھر ان کے والدین اور ماموں اور ممانی کے سامنے چار بدمعاشوں نے ریپ کیا اور اس کے بعد ان کے سامنے ہی ان کا قتل کر دیا۔ظہورالدین نے بتایا کہ بدمعاشوں نے اس کے بیٹے ابراہیم اور اس کی بیوی رشیدہ کا قتل کردیا۔ اس کے علاوہ سات دیگر افراد کو زخمی کر دیا اور ملزموں نے اسی دوران گھر میں رکھے سونے وچاندی کے زیور اتاور نقد رقم لوٹ کر فرار ہوگئے۔میوات میں مسلم لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کرنے والے ملزم آر ایس ایس سے منسلک  بتائے جاتے ہیں۔ 24 اگست کو گرفتارکئے گئے ملزم گورکشک کمیٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ملزم راہل ورما کے فیس بک آئی ڈی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آر ایس ایس کا کارکن ہے اور آر ایس ایس کے کیمپ میں مسلسل موجود رہتا آیاہے۔وہی راؤ امرجیت کے فیس بک پیج سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت رکھنے والا انسان ہے اور ساتھ ہی اس نے اپنے کو مودی بھکت بھی بتایا ہے۔

گزشتہ 2018میں ہی ضلع گوتم بدھ نگر کے جیور میں جو اندوہناک واقعہ پیش آیا اس کا بدترین پہلو یہ ہے کہ حکام کی منشا ہی نہیں تھی کہ مجرموں کے خلاف کارروائی ہو، اس کا ثبوت یہ ہے کہ متاثرہ خواتین کہہ رہی تھیں کہ ہمارے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی گئی ہے لیکن یوگی حکومت کے لیب میں یہ ثابت نہیں ہورہا ہے۔ایس ایس پی کابیان بھی نقل کررہے ہیں۔ ایس ایس پی لو کمار نے بتایا کہ جیور علاقے کے سبوتا گاؤں کے قریب گزشتہ رات نصف درجن مسلح بدمعاشوں نے ایکو گاڑی میں جا نے والے ایک خاندان کے ساتھ واردات کو انجام دیا۔ بدمعاشوں نے گاڑی کے ٹائر میں گولی مار کر اسے روکا۔ متاثرہ خاندان کے سربراہ کی بہن کی ڈیلیوری ہونے والی تھی۔ بدمعاشوں نے کار کو اپنا نشانہ بنایا۔ مخالفت کرنے پر بدمعاشوں نے خاندان کے سربراہ کو تین گولیاں ماریں، جس سے اس کی موقع پر ہی موت ہو گئی۔ بدمعاش متاثرہ خاندان سے زیور اور قریب 45 ہزار روپے لوٹ کر فرار ہوگئے۔ مغربی اترپردیش کے جیور کے قریب ایک شخص کے قتل اور چار خواتین کے ساتھ ہوئے مبینہ گینگ ریپ معاملے میں رپورٹ درج کرکے تحقیقات شروع کر دی گئی۔دوسری طرف اس معاملے میں ایک متاثرہ خاتون نے بی بی سی کے نامہ نگار دویا آریہ کو مبینہ واقعہ کی معلومات فراہم کی۔ اس عورت نے کہا، ”ہماری گاڑی پنکچر ہو گئی تھی۔ا سٹپنی  لگانے کے لئے ہم گاڑی سے اترے۔ وہاں چھ افراد جمع ہو کر آ گئے۔ہمیں مارتے اور چھیڑتے جنگلوں میں لے گئے۔ہماری تلاشی لی۔ ہمارے سارے پیسے، زیورات سب لے لئے۔ہمیں مار لگا کر ہمارے آدمیوں کو باندھ کر ہمارے ساتھ بدتمیزی (آبروریزی) کی۔وہاں میرا بچہ بھی تھا۔ وہ اسے گولی مارنے جارہے تھے۔میرے ہاتھ میں ہزار روپے رہ گئے تھے۔ پانچ پانچ سو روپے کے دو نوٹ میں نے بچے کی جیب میں رکھ دیئے۔ اس کی جیب میں سے ہزار روپے نکال کر وہ اسے گولی مارنے جارہے تھے تو میں نے کہا مجھے مار دو۔انہوں نے ہمارا منہ بند کر دیا تھا اور ہاتھ پاؤں باندھ دیے تھے۔پولیس وہاں تین چار گھنٹے کے بعد پہنچی۔ تب انہوں نے ہمیں بچایا۔ لوگوں نے بتایا کہ جب پولیس آئی تھی بدمعاش وہیں تھے اور پولیس کے آنے کے بعد ہی بھاگے تھے لیکن پولیس نے اس کا پیچھا نہیں کیا اورآسانی سے بدمعاشوں کو جانے دیا۔اس وقت تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں ہوئی تھی۔ یوپی حکومت کا رویہ دیکھ کراندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں متاثرین کو انصاف دلانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اسی طرح ابھی گزشتہ مہینے مظفر نگر میں ایک مسلم لڑکی کوراشن والوں نے راشن دینے کے نام پر بلایا اور چھ لوگوں نے اجتماعی آبروریزی کی، تین دن کے بعد معاملہ درج ہوا لیکن کاررائی صفر رہی۔
اسی طرح رام راجیہ مدھیہ پردیش میں ایک بار پھر ایک روح فرسا، دل دہلادینے والا، ملک کی گرد شرم سے جھکا دینے والا، عدالت کو منہ چڑھانے اور ٹھینگا دکھانے والا، انتظامیہ، مقننہ کی بے شرمی ثابت کرنے والا، مسلمانوں کے ساتھ امتیاز اور تعصب کو حتمی طور پر مہر ثبت کرنے والا شرمناک، المناک،وحشیانہ، جانوروں سے بھی بدتر،پوری دنیا میں درندگی کا انوکھا اور نادرمثال اور انسانی حقوق کمیشن کی بے حسی،بے غیرتی، امتیازی سلوک اور صرف ہندؤں کیلئے کام کرنے کے الزام کو ثابت کرنے والا واقعہ پیش آیا ہے۔ جسے سن کر روح تک کانپ اٹھتی ہے۔ یہ سانحہ وزیر اعلی شیو راج سنگھ کے آبائی ضلع سیہور کا ہے۔ ایک تھانے دار نے ایک مسلم خاندان کے ساتھ ایسا گھناؤنا کام کیا ہے جس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ بھوپال سے تقریباً 80 کلو میٹر دور مدھیہ پردیش پولیس نے ایک خاندان کو بہو کے قتل کے جرم میں گھر سے اٹھایا۔ خاندان میں ماں، باپ، بیٹا اور 4 نابالغ بچے شامل ہیں۔ انہیں کئی  دن تک تھانے میں بند رکھا۔بیٹے کو اس کی ماں کی پیشاب پلایا۔ پھر بیٹے کو ماں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا۔اتنا ہی نہیں باپ کو بیٹے کا پیشاب پینے پر مجبور کیا اور غیر فطری عمل کرنے پر بھی مجبور کیا۔یہ گھناؤنا کام ان کے بچوں کے سامنے کروایا گیا۔ 
مدھیہ پردیش کے ہی مندسور میں بیف کے شک میں دو مسلم خواتین سے مار پیٹ کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ جب گورکشک خواتین سے مار پیٹ اور گالی گلوچ کر رہے تھے تو پولیس والے بھی وہاں کھڑے تھے۔ واقعہ مندسور کے ریلوے اسٹیشن کاہے۔ مار پیٹ کے دوران ریلوے اسٹیشن پر کافی تعداد میں لوگ بھیڑ کے طور پر موجود تھے۔ لوگ تماش بین بن کر وہاں دیکھتے رہے، انہوں نے خواتین کو مار پیٹ کر رہے لوگوں سے چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ مکمل ماجرا دیکھنے والے لوگ ویڈیو بنانے میں مشغول تھے۔ ویڈیو میں خواتین کے ساتھ گورکشکو ں کے مار پیٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔پولیس نے بیچ بچاؤ کرنے کی کوشش کی، لیکن بھیڑ سے دونوں خواتین کو نہیں چھڑا پائی۔پولیس ریلوے اسٹیشن پر دونوں خواتین کو گرفتار کرنے پہنچی تھی۔ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ یہ دو عورتیں فروخت کے لئے بھاری مقدار میں بیف لے کر آ رہی ہیں۔ پولیس کی طرف سے دونوں خواتین کو پکڑے جانے کے بعد بھی اسٹیشن پر موجود بھیڑ خواتین کے ساتھ مار پیٹ کرتی رہی۔ ویڈیو میں دکھائی دے رہا ہے کہ بھیڑ نے خواتین کو گھیر رکھا ہے اور وہ گؤ ماتا کی جے کے نعرے لگا رہے تھے۔ خواتین کو تھپڑ اور گھونسے مارے جا رہے ہیں۔ مارنے والوں میں  جہاں مرد تھے وہیں خواتین کارکن بھی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بجرنگ دل کے کارکن تھے۔ جنہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔ پولیس کے سامنے بھیڑ خواتین کے ساتھ آدھے گھنٹے تک مار پیٹ کرتی رہی۔ ساتھ ہی پولیس نے دعوی کیا ہے کہ مقامی ڈاکٹروں کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ گوشت بھینس کا تھا نہ کہ گائے کا۔تاہم، دونوں خواتین کے خلاف اب بھی کارروائی کی جائے گی کیونکہ ان کے پاس گوشت فروخت کرنے کا اجازت نامہ نہیں تھا۔ جب کہ خواتین نے کہاکہ ان کے پاس اجازت نامہ جسے انہوں نے دکھایا تھا لیکن ان لوگوں نے اسے پھاڑ دیا تھا۔ لیکن پولیس نے خواتین کے ساتھ مار پیٹ کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ مندسور اور رتلام میں مسلم خواتین کے ساتھ ہندو تنظیموں کے ارکان کی مارپیٹ اور حکومت کا خاطیوں کو سزا دینے کے بجائے مسلم خواتین کو جیل میں بند کردیا گیا تھا۔

ہندوستان میں گجرات فسادات کے دوران سینکڑوں مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی تھی۔ ان میں سے کئی خواتین کے ساتھ اجتماعی آبروریزی بھی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ 2007میں شراوستی میں کئی درجنوں مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی تھی مقصد صرف خوف و دہشت قائم کرنا تھا۔ ابھی گزشتہ سال اترپردیش کے استھان میں بھی مسلم خواتین کے ساتھ جنسی تشد د کاواقعہ پیش آیا تھا۔ گزشتہ سال اترپردیش کے کئی شہروں میں پے درپے ہونے والے مسلم کش فسادات میں مسلم خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایاگیا تھا۔ مشہور مصنفہ اروندھتی رائے نے  دہلی میں 23 سالہ پیرا میڈیکل کی طالبہ کی اجتماعی آبروریزی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا، کشمیر میں سیکورٹی فورسز کرتے ہیں عصمت دری، منی پور میں بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اس وقت تو کوئی آواز نہیں اٹھاتا ہے۔کھیرلانجی میں دلت خاتون اور اس کی بیٹی کو ریپ کر کے انہیں جلا دیا گیا تھا۔ تب تو ایسی آواز نہیں اٹھی تھی۔ ایک جاگیردارانہ ذہنیت ہے لوگوں کی جو تبھی آواز اٹھاتا ہے جب بڑی ذات کے، غلبہ والے لوگوں کے ساتھ دلی میں کچھ ہوتا ہے۔فورسز غریب کشمیریوں کا ریپ کرتے ہیں تو سیکورٹی فورسز کے خلاف کوئی پھانسی کا مطالبہ نہیں کرتا۔ جب کوئی اونچی ذات کا آدمی دلت کا ریپ کرتا ہے تب تو کوئی ایسی مطالبہ نہیں کرتا۔کشمیر میں شورش کے دوران بڑے پیمانے پر عورتوں کی آبروریزی کو فوجیوں نے اسلحہ کے طور پر استعمال کیا تھا۔ مسلم طبقہ میں خوف و دہشت پیدا کرنے کے لئے مسلم خواتین کے ساتھ آئے دن ہندوستان میں آبروریزی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ کم سن لڑکیوں کو اٹھا لیا جاتاہے لیکن مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی جیسا کہ ابھی حال ہی میں اترپردیش کے پڈرونا میں ہوا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان کی ویب سائٹ‘ہالٹ دی ہیٹ’نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان میں سال 2016 سے نفرت انگیزی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور یہ ابتر صورت حال رواں برس کے ابتدائی 6 ماہ میں بدترین حد تک پہنچ گئی تھی۔2019 کے ابتدائی 6 ماہ میں 181 مبینہ نفرت انگیز واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو گزشتہ تین برس کے اس دورانیے سے دوگنا ہیں۔ستمبر 2015 سے جون 2019 تک 'ہالٹ دی ہیٹ' نے ہندوستان میں مجموعی طور پر 902 واقعات ریکارڈ کیے جن میں سے 181 مبینہ نفرت انگیز واقعات رواں برس جنوری سے جون کے درمیان پیش آئے اور ان میں 37 افراد ہلاک ہوئے۔جنوری سے جون 2019 کے دوران دو تہائی واقعات ہندوؤں کی نچلی ذات دلت کی شناخت پر پیش آئے اور دوسرے نمبر پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے 40 واقعات ریکارڈ ہوئے،آدیواسی 12، عیسائی 4 اور جنسی تفریق پر 6 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ اسی طرح متعدد واقعات دلت برادری کے افراد کو سرعام چلنے، پانی اور اسکولوں کی سہولت سے دور رکھنے سے متعلق تھے، گائے اور غیرت کے نام پر قتل کے 17 واقعات رپورٹ ہوئے۔جن خواتین نے خود کو دلت، مسلمان، عیسائی یا کسی جنس کے حوالے سے شناخت کرایا، ان کو تشدد کا نشانہ بنانے کے 58 واقعات پیش آئے۔ جن میں 30 خواتین کو یا تو ریپ کا نشانہ بنایا گیا یا جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔اسی طرح دہلی فسادات کے دوران مسلم خواتین نشانہ بناکر حملہ کیاگیا اور ان کا جنسی استحصال کیا گیا۔
مودی حکومت کے چھ سالہ دور حکومت میں اس طرح ہزاروں کے واقعات ہوئے ہیں جن میں متاثرین انصاف کے لئے ترس رہے ہیں اور مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔ بیشتر واقعات میں رپورت تک درج نہیں کی جاتی ہے۔ ابھی حال میں اناؤ میں ہندو مسلم لڑکی آبروریزی کی تو پولیس نے معاملے درج کرنے کے بجائے لڑکی کو بھگا دیا اور رپورٹ درج نہ کرانے کی دھمکی دے رہے تھے۔ اس طرح کے واقعات میں رپورت درج ہوتی بھی ہے تو پولیس مناسب کارروائی نہیں کرتی مگر اس کے برعکس متاثرہ ہندو اور خاطی مسلمان ہے تو پورا سسٹم متاثرہ کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے خواہ حقائق کچھ بھی ہو۔مجموعی طور پر اس حکومت میں مسلمانوں کے لئے تباہ کن صورت حال رہی۔ 
09810372335

Comments