عابد انور
جس کی شرشت میں نفرت ہو وہ اسے کیسے چھوڑ سکتا ہے خواہ وہ کتنے ہی بڑے آئینی عہدے پر کیوں نہ پہنچ جائے۔نفرت پھیلائے اور جھوٹ بولے بغیر چین نہیں آتا ہے۔ یہی کام وزیر اطلاعات و نشریات اور ماحولیات و جنگلات پرکاش جاؤیڈکر نے کیا ہے۔ ”مسٹر جاوڈیکر نے جمعرات کو یہاں ٹوئیٹ کرکے کہا کہ مرکزی حکومت نے کیرالہ کے ملا پورم میں اس ہتھنی کی موت کے واقعہ کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اس نے اس کی جانچ کرواکر قاتل کو سخت سے سخت سزا دلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہندوستانی ثقافت نہیں ہے کہ پٹاخے سے کسی جانور کو مار دیا جائے“۔
جب کہ یہ واقعہ ضلع پلکڑ کے منارکڑ فاریسٹ علاقہ میں پیش آیا ہے۔ ملاپورم کا یہ واقعہ نہیں ہے۔ حاملہ ہتھی ضلع پلکڑ میں مردہ پائی گئی ہے لیکن چوں کہ بی جے پی اور اس کے وزرائے کو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا ہے اور نفرت پھیلانا ہے۔ اس لئے بار بار بی جے پی کے وزراء اور لیڈران ملاپورم کا نام لے رہے ہیں کیوں کہ ملاپورم مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور وہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ بھی ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا اور انہیں حیوان اور وحشی درندہ بناکرپیش کرنا ہے۔
مسٹر جاویڈکرکے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے کیوں کہ انہوں نے جان بوجھ واقعہ کو غلط طریقے سے غلط جگہ کو پیش کیا ہے تاکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کیا جاسکے اور ان کے قتل کا راستہ ہموار ہوسکے۔اگر اس طرح کی بات کوئی اور کرتا تو اب تک پولیس دو فرقوں میں منافرت پھیلانے سمیت درجنوں دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیتی۔
واضح رہے کہ مشہور صحافی راجدیپ سردیسائی اور کوئنٹ نے بھی ملاپورم میں اس واقعہ کے ہونے کی تردید کی ہے۔
رہی بات ہندوستانی ثقافت کی تو یہ بالکل ہندوستانی ثقافت نہیں ہے لیکن مسٹر جاؤڈیکر آپ کی حکومت میں
گجرات میں حاملہ عورت کا پیٹ چیر کراس کے بچے کو تلوار کی نوک پر اٹھانے والوں کو بھی کیرالہ میں حاملہ ہتھنی کی موت پر افسوس ہورہا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ یہ ہندوستانی ثقافت نہیں ہے۔
حاملہ ہتھنی کے بہانے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی ہے، یہ ہندوستانی ثقافت ہے۔
سڑکوں میں متعدد حاملہ خواتین نے بچے کو جنم دینے پر مجبور ہوئی یہ ہندوستانی ثقافت ہے۔
کورونا وائرس کے دوران درجنوں خواتین نے اسپتال میں علاج نہ ہونے کی وجہ سے اسپتال کے باہر، آٹو میں، گاڑی یا دیگر جگہ پر دم توڑ دیا، کیا یہ ہندوستانی ثقافت ہے۔
شرمک ٹرین میں کھانا پانی نہ ملنے کی وجہ سے 80سے زائد مزدوروں نے دم توڑ دیا یہ ہندوستانی ثقافت ہے۔
سیکڑوں مزدوروں نے پیدل چلتے راستے میں دم توڑ دیا یہ ہندوستانی ثقافت ہے۔
کورونا وائرس کے دوران بھی آپ کے اراکین اسمبلی، اراکین پارلیمنٹ اور وزرائے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتے رہے یہ ہندوستانی ثفافت ہے۔
مدھیہ پردیش میں مسلم خواتین کو بی جے پی کے عنڈوں نے پیشاپ پینے پر مجبور کیا تھا کیا یہ ہندوستانی ثقافت ہے۔
دہلی فسادات کے دوران عورتوں کی آبروریزی، زندہ جلاکر مار ڈالنا کیا ہندوستانی ثقافت ہے۔
جموں وکشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں جنوری کے اوائل میں پیش آئے دل دہلانے والے آٹھ سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کے قتل اور عصمت دری واقعہ کے کلیدی ملزم ا سپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) دیپک کھجوریہ کی رہائی کے حق میں حلقہ انتخاب ہیرا نگر کے سینکڑوں لوگوں بشمول خواتین نے گگوال سے سب ضلع مجسٹریٹ ہیرا نگر کے دفتر تک احتجاجی مارچ نکالاتھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل کے ملزم کے حق میں نکلنے والے اس احتجاجی مارچ کے شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں ترنگے اٹھا رکھے تھے اور ریاستی پولیس کے اہلکار احتجاجیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلتے ہوئے نظر آئے۔ یہ احتجاجی مارچ ہندو ایکتا منچ نامی تنظیم کے بینر تلے منظم کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ جموں وکشمیر کرائم برانچ پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے 9 فروری کو گوجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کے قتل اور عصمت دری واقعہ کے کلیدی ملزم ایس پی او دیپک کھجوریہ کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاتھا۔ 28 سالہ ملزم ایس پی او پولیس تھانہ ہیرانگر میں تعینات تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دیپک کھجوریہ اُس پولیس ٹیم کا حصہ تھا جو آصفہ کے اغوا کے بعد اسے تلاش کررہی تھی۔ ملزم ایس پی او کے حق میں احتجاجی مارچ کی قیادت مبینہ طور پر ایک بی جے پی لیڈر کررہا تھا۔ وہ مطالبہ کررہے تھے کہ کیس کو کرائم برانچ کے بجائے سی بی آئی کے حوالے کردیا جائے۔ لوگوں کے ایک مبینہ ریپسٹ اور قاتل کے حق میں احتجاج اور احتجاج کے دوران قومی پرچم ساتھ رکھنے کے معاملے نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک سینئر کشمیری صحافی نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ’شیم۔ ہندو ایکتا منچ نے ایک آٹھ سالہ بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل کے ملزم کے حق میں احتجاج کیا۔ احتجاجیوں نے بڑی بے شرمی کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں قومی پرچم اٹھا رکھے تھے اور پولیس کو انہیں اسکارٹ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاؤں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کو 10 جنوری کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ حد تو اس وقت ہوگئی جب جموں بار کونسل کے وکلاء نے خاطیوں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے والے پولیس افسران کا راستہ اورانہیں فرد جرم عائد کرنے سے روکا۔ دنیا میں شاید کم ہی ہوتا ہوگا کہ مجرموں کے حق میں انصاف کے لئے لڑنے والوں نے راستہ روکا ہو۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر جموں و کشمیر کے بی جے پی کے دو وزیروں نے خاطیوں کے حق بیان دیا۔ دنیا میں کسی خطے میں ایسا ہوا ہوتا تو حکومت گرگئی ہوتی اور اس طرح کی حرکت کرنے والوں کو تختہ دار لٹکادیا جاتا۔ کیا یہ ہندوستانی ثقافت ہے۔
عابد انور
Comments
Post a Comment