عابد انور
فلم اداکار سوشنات سنگھ راجپوت کی خودکشی کے بعد ایک بار پھر خودکشی موضوع بحث ہے۔ سب کچھ رہتے ہوئے اور کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں۔ 2015کا لکھا یہ مضمون۔
زندگی بیش بہا عطیہ ہے اور اللہ تعالی نے کسی کو یہ اختیار نہیں دیاہے کہ وہ کسی انسان کا قتل کرے یا موت کو گلے لگالے۔ اس نے موت و حیات کا حق اپنے پاس محفوظ رکھا ہے۔ اس کے باوجود ابتداء آفرینش سے انسان کئی وجوہات سے ایک دوسرے کے خون کاپیاسا رہا ہے یادیگر وجوہات سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ کسی بھی مذہب میں کسی انسان کو زندگی کے خاتمے کااختیار حاصل نہیں ہے لیکن پھر انسان اپنی زیست کو موت کے حوالے کیوں کرتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان نے اس وقت بے انتہا ترقی کرلی ہے۔ وہ اپنی قوت متخیلہ، ذہنی پرواز، علوم،فنون،عقل وفکراورسائنس کاسہارا لیکر چاندستاروں کو مسخر کرچکا ہے۔ انسان کی جہاں علمی ترقی ہوئی ہے وہیں مادی ترقی بھی ہوئی ہے اور جائز و ناجائز خواہشات کے بے شمار دروازے بھی کھلے ہیں۔ جہاں ہر انسان قلانچیں بھرناچاہتا ہے لیکن اس دنیا میں ہر انسان محرومی اور مایوسی کاشکار ہے۔ خواہ وہ انسان اس دنیا کا امیر ترین ہو یا غریب ترین کہیں نہ کہیں وہ احساس کمتری اور مایوسی کے قفس میں قید ہے اوروہ انسان غریب ہے توجائز خواہشات کی عدم تکمیل کی وجہ سے اگروہ انسان امیر ترین ہے توہل من مزید،بلند اورناجائز خواہشات کی وجہ سے۔ محرومی بہر صورت ہر انسان میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتی ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ انسان رب کا شکراوراس کی تلقین صبر نہیں کرتا۔ ہندوستان میں گزشتہ دو ہائیوں میں جتنی مادی ترقی ہوئی ہے اتنا ہی اخلاقی زوال بھی آیا ہے۔ یہاں انسان کسی ضابطے یامحنت یا ایمانداری سے ترقی کرنے کی بجائے کسی کی لاش کوروند کر ترقی کرنے کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔1990میں جب سے اقتصادی انقلاب آیا ہے اور معاشی ترقی ہوئی ہے یہاں کے تمام انسانی اقدار کو کسی کونے میں رکھ دیا گیا ہے۔ غریبی اور امیری کے درمیان فرق میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ ہندوستان کی تمام دولت چند لوگوں کی مٹھی میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ یہاں کے غریب لوگ غریب ترین ہوتے گئے اورامیروں کی امارت میں ناقابل تصور اضافہ ہوتا گیا۔ ہندوستان کی پوری دولت کا دوتہائی حصہ ڈھائی فیصد لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کی وجہ سے سب سے زیادہ اثرعام لوگوں پرپڑا۔ مالی پریشانی، معاشی تنگی، بھوک اور جائز خواہشات کی عدم تکمیل کے سبب لوگوں میں زبردست محرومی پیداہوئی اور لوگوں نے جان دینا اس محرومی چھٹکاراپانے کاسب سے آسان طریقہ سمجھ لیا۔ اس طرح کا معاشرہ تشکیل پا گیاہے کہ اسے روکنے کے لئے کبھی حکومتی یامعاشرتی سطح پر کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔آج ہندوستان کاشمار خودکشی کرنے والے ممالک کی فہرست میں نمایاں ہے۔ خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ غریب یامعاشی تنگی کے شکار افراد ہی خودکشی کر رہے ہیں بلکہ اس صف میں جہاں سیاست داں ہیں، وہ نوکرشاہ بھی، جہاں ڈاکٹر ہیں وہیں انجینئربھی ہیں، جہاں اطلاعاتی تکنالوجی کے فیض یافتہ ہیں وہیں عام کسان اور مزدور بھی ہیں۔ آخر سبب کیا ہے۔ کسان اورمزدورکی بات توسمجھ میں آتی ہے کہ انہیں اقتصادی بدحالی اور قرض نے یہ سنگین قدم اٹھانے پر مجبور کردیا لیکن یہ اعلی طبقے کے افراد کو آخرکس بات نے مجبور کیا کہ وہ یہ انتہائی قدم اٹھائیں۔ دراصل اس کی جڑ میں ناجائز خواہشات کی عدم تکمیل کاٹھاٹھیں مارتاسمندر ہے۔
کسی شخص کو اپنے آپ کو قصداً اور غیر قدرتی طریقہ پر ہلاک کرنے کا عمل کانام خودکشی ہے۔ زیادہ تر لوگ دماغی خرابی کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں جو بیماری کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں۔ بیماری بھی دراصل دماغی توازن درہم برہم کر دیتی ہے اس طرح اپنے آپ کو ہلاک کرنے والوں کا تعلق بھی دماغ کے عدم توازن ہی سے ہوتا ہے۔ مردوں میں عمر کے ساتھ خودکشی کی شرح بڑھتی جاتی ہے لیکن عورتوں میں پچیس برس کی عمر کے بعد خود کشی کرنے کا رجحان تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ عورتوں کے مقابلے میں مرد اور سیاہ فام کے مقابلے میں سفید فام لوگ زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہیں۔جاپان میں خودکشی کو ایک مقدس اور بہادرانہ فعل سمجھا جاتا ہے اور لوگ ذرا ذرا سی بات پر ”ہتک عزت، کاروبار، نقصان، عشق میں ناکامی“ پر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتے ہیں۔ڈپریشن اور احسا س محرومی و ناکامی انسان کو یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔زیادہ تر طلبہ و طالبات امتحان میں ناکامی اور والدین کی امید پر کھرا نہ اترنے یااپنی من پسند سبجیکٹ نہ ملنے کی وجہ سے موت کو گلے لگالیتے ہیں۔خود کشی کے بڑھتے واقعات میں والدین، دوستوں، اقربا، اعزاء اور اساتذہ کے طعن و تشنیع اور لعن و طعن کا اہم کردار ہوتا ہے۔
دنیا میں تقریباَ دس لاکھ سے زائد افراد خودکشی کرتے ہیں اور دس ملین سے20 میلین کے درمیان افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔دنیا میں خودکشی کی سب سے زیادہ شرح سویڈن میں ہے۔ہندوستان میں ہر گھنٹے 16 افرادخودکشی کرتے ہیں۔ دنیا میں مجموعی طورپر خودکشی کرنے والوں میں 11 فیصد سے زائد ہندوستانیوں کا حصہ ہے۔2010 میں یہ تناسب 11.4 فیصد تھا۔یہ بات حالیہ رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈوبیورو (این سی آر بی) نے اپنی ایک پورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ہندوستان میں ہر گھنٹے 16 افراد کی موت کی وجہ خودکشی ہوتی ہے۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2011 میں ایک لاکھ پینتیس ہزار لوگوں کی موت خود کشی کے سبب ہوئی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیادہ تر خودکشیوں کے اسباب خانگی مسائل، ناجائز حمل اور کیریئر ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2011 میں طلاق کے سبب خودکشیوں میں 54 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ناجائز حمل کے سبب اموات میں 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال چودہ ہزار سے زیادہ کسانوں کی موت کا سبب بھی خودکشی رہی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں خودکشی کرنے والوں میں سے ستّر فیصد افراد شادی شدہ تھے اور اس معاملے میں راجستھان ایسی ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ کنبوں نے ایک ساتھ خودکشی کی ہے۔ اس سے قبل ایک بین الاقوامی مطالعے میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں ہر برس ایک لاکھ ستاسی ہزار افراد خودکشی سے موت کا شکار ہوتے ہیں اور خودکشی ہندوستان میں ٹریفک حادثوں میں ہلاکتوں کے بعد موت کا دوسرا سب سے بڑا سبب بن گئی ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے ایک جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ہندوستان میں نوجوانوں کی موت کی دوسری بڑی وجہ خود کشی ہے۔ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں لوگ سب سے زیادہ خود کشی کرتے ہیں۔ یہ تحقیق لندن سے شائع ہونے والے جریدے لانسٹ میں شائع ہوئی ہے۔ عالمی صحت کی تنظیم ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2010 میں ہندوستان میں ایک لاکھ نوے ہزار افراد نے خود کشی کی جبکہ عالمی سطح پر ہر سال تقریباً نو لاکھ افراد خود کشی کرتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق خود کشی کرنے والے افراد کی سب سے بڑی تعداد چین میں ہے جہاں اوسطاً دو لاکھ افراد ہر سال خودکشی کرتے ہیں۔ تحقیق کرنے والوں میں لندن سکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے وکرم پٹیل بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق ہندوستان میں 15 سے 29سال تک کے نوجوانوں میں خود کشی کے سبب ہونے والی اموات کی تعداد اتنی ہی ہوتی ہے جتنی سڑک حادثات میں۔ تحقیق کے مطابق ہندوستان میں 13 فیصد نوجوانوں کی موت خود کشی سے ہوتی ہے جبکہ 16فیصد خواتین کی موت کا سبب بھی خود کشی ہی ہے۔ لانسٹ کی یہ رپورٹ 2001 اور2003 کے درمیاں خود کشی کے اسباب پر رجسٹرار جنرل آف انڈیا کے قومی سروے پر مبنی ہے۔
کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں خودکشی کے واقعات سب سے زیادہ وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ مذہبی کی تلقین اوراسلام میں خودکشی حرام ہونے کے باوجود کشمیر میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہونا تشویش کا باعث ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر تعداد نوجوان کی ہے۔ کشمیر میں گزشتہ دو ہائیوں کے تشدد، وہاں عوام پر ہونے والے مظالم، بیواوں کی ایک لمبی فوج اور ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کی ہلاکت نے لوگوں کو ایک طرح کی نفسیات میں مبتلاکردیا ہے۔ جس کی وجہ سے اپنی پریشانیوں کا آسان علاج وہ خودکشی کوسمجھتے ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ علماء اورمذہبی افرادکشمیر میں خودکشی کے رجحان کو کم کرنے کے لئے تحریک چلارہے ہیں لیکن اس میں کمی ہونے کی بجائے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ 2006 میں 61 افراد نے خودکشی کی۔اس سال کے ابتدائی 5 ماہ میں ہی 42 افراد خود کشی کر چکے ہیں۔کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہونے سے پانچ سال پہلے اسپتال میں آنے والے کل معاملات میں سے خود کشی کی کوشش کے معاملے صرف ایک فیصد ہوتے تھے، لیکن 2001-2002 میں یہ اعداد و شمار بڑھ کر گیارہ فیصد تک ہو گئے۔ 1999-2000 میں کشمیر میں خود کشی کے تقریبا 2000 معاملے سامنے آئے تھے۔ 2010 میں جہاں 248 افراد نے خودکشی کی تھی وہیں 2011 میں ایک ہزار سے زائد معاملات خودکشی کے سامنے آئے۔ اس میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے اور خودکشی کرنے والوں میں 17 سے 25 سال کی عمر والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر کے کسانوں میں بھی خودکشی کارجحان بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ یو پی اے حکومت میں اسی ہزار کروڑروپے کے کسانوں کے قرضے معاف کئے تھے لیکن یہ قرض معافی اسکیم بھی ان رجحانوں کا سدباب کرنے میں ناکام رہی۔رپورٹ کے مطابق ریاست آندھرا پردیش، مہاراشٹر اور کیرالہ میں گزشتہ ایک برس میں 800 کاشتکاروں نے خودکشی کی ہے۔ان بیشتر خودکشیوں کے لیے عام طور پر غربت، قرض، قیمتوں میں اضافہ اور فصلوں کی تباہی جیسی وجوہات کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کا کہنا ہے کہ اگر یہ خبریں درست تو پھر’یہ غریب کسانوں کے انسانی حقوق کی شدید قسم کی پامالی ہے‘۔یہاں 1997سے اب تک تقریباً دو لاکھ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ ملک میں نوجوانوں تعداد جن عمر35سال تک ہے سترفیصدہے۔ یہ نوجوانوں کا ملک ہے لیکن پالیسی سازی میں وہ مقام انہیں مل رہا ہے جتنا انہیں ملنا چاہئے۔ یہ اعداد و شمار وہ ہیں جو رجسٹرڈہوتے ہیں لیکن عام طور پردیہاتوں کوخودکشی کے معاملات کو خوف کی وجہ سے دبادیا جاتاہے۔ اگر حقیقی تعدادکوشامل کرلیا جائے تو ہندوستان میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد تین گنی یاچارگنی ہوسکتی ہے۔
ہندوستان میں خودکشی کی وجہ سے محرومی اور خواہشات کی عدم تکمیل ہے۔ ہندوستان میں نوجوانوں، غریبوں، لاچاروں اورمستحقین کیلئے جو اسکیمیں لائی گئی ہیں ان میں سے بیشترلال فیتاشاہی کا شکارہوگئی ہیں اوران اسکمیوں کے فوائد اور کسان، مزدوراور لاچار لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ آئے دن اس طرح کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں کہ فلاں کنبہ نے مالی تنگی، بیٹی کی شادی نہ ہونے یا نوجوان نے نوکری نہ ملنے یا نوجوان نے ہراساں کئے جانے کے سبب خودکشی کرلی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت کی عدم مساویانہ تقسیم نے ملک کو انارکی کے دہانے پرلاکھڑاکیا ہے۔ بڑھتی ضروریات، مواقع کی کمی اور اشیا کی قیمتوں میں روزافزوں اضافے کے سبب لوگوں میں محرومی کا احساس پیداہورہاہے۔ حکومت نے اس سلسلے میں عوام کوبالکل بنیوں یابازار کے حوالے کردیا ہے جہاں رحم، رعایت، احساس، خیال، ایک دوسرے کی فکر اوراخلاقی قدروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خودکشی رجحان کو روکنا ہے یا کمی لانا ہے تو سرکاری اسکیموں کے صحیح نفاذ، لال فیتا شاہی پرلگام، بدعنوانی کا انسداد، دولت کی مساویانہ تقسیم اور ہر انسان کو اتنا موقع دینا کہ وہ اپنی جائزضروریات پوری کرلے اس طرح کی اسکیموں کو صدق دلی سے نافذکرنا ہوگا۔ معاشرہ کو اتنا حساس بنانا ہوگا کہ وہ اپنے پڑوسیوں کی ضروریات کاخیال رکھ سکیں۔اسی کے ساتھ انسان میں صبر و شکر مادہ پیدا بھی کرنا ہوگا تاکہ وہ دوسروں کودیکھ اپنی ضرورت متعین نہ کرسکیں۔ خودکشی کی ایک اہم وجہ دوسروں کی نقل بھی ہے۔آج انسان اپنی گھریلوں ضروریات دوسروں کو دیکھ کر طے کرتا ہے جس کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیداہوتے ہیں۔دنیای وی زرق برق، رنگا رنگی اور بازاری کشش کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھنا ہوگا۔ جتنی ضرورتیں کم ہوں گی اور خواہشات پر قابو ہوگا زندگی اتنی ہی سہل ہوگی۔
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment