عابد انور
عابد انور
(اضافہ اور وضاحت کے ساتھ)
دارالعلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین مفتی سعید احمد پالنپوری کے انتقال سے ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلالم ایک محدث، عالم اور فقیہ سے محروم ہوگیا ہے۔وہ ایسے استاذ تھے جس کا طلبہ بے حد احترام کرتھے، ان کی علمی صلاحیت تعلیم و تعلیم کا انداز نرالا تھا۔ وہ طلبہ کو گھول کر پلا دیتے تھے۔ خواہ وہ بیضاوی پڑھاتے ہوں یا ہدایہ سمجھانے کاانداز اتنا اچھا ہوتا تھا طلبہ ان کے درس میں کھینچے چلاآتے تھے۔ موجودہ دور میں ان کا درس بخاری اس قدر مقبول تھا طلبہ کھینچے چلے آتے تھے۔ سمجھانے کا انداز، حدیث کی تشریح،توضیح اور منظر پس منظر میں اس قدر دسترس حاصل تھاطلبہ اس دور میں داخل ہوجاتے تھے۔ وہ بہت ہی خوددار تھے۔ تعویذ گنڈے میں قطعی یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کی ایک بچی تھی جو بہت بیمار تھی ایک جھاڑ پھونک کرنے والے عالم نے کہاکہ میں تعویذ دے دیتا ہوں بچی ٹھیک ہوجائے گی لیکن مفتی سعید صاحب نے کہا کہ پڑھ کر پھونکنے کی اجازت ہے وہ آپ کردیجئے لیکن تعویذ ہر گز نہیں اور بچی کا بیماری سے انتقال ہوگیا لیکن انہوں نے تعویذ ڈلوانا گوارہ نہیں کیا۔ ان کی ایک عادت غضب کی تھی۔ وہ یہ سلام کرنے میں پہل کرتے تھے۔ طلبہ کی خوہش ہوتی تھی کہ وہ ان کو سلام کریں لیکن وہ کسی کو سلام کرنے کا موقع نہیں دیتے تھے۔ بعض طلبہ چھپ کراچانک آکر سلام میں پہل کرنے کی کوشش کرتے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوتے تھے۔ ایسے تھے استاذ محترم مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ۔ ان کی علمی کمالات کا تو کہنا ہی کیا۔ وہ طلبہ میں جوش بھرتے تھے۔ وہ طلبہ سے روٹھتے بھی تھے اور طلبہ اپنے استاذ محترم کو منابھی لیتے تھے اور وہ مان بھی جاتے تھے۔ انتہائی پرخلوص، بغض عناد سے پاک شخصیت کو اب تلاش کرنا مشکل ہے۔ ان کی زبان سے علم کے موتی جھڑتے تھے۔ان کی ایک اور خاص عادت کو بیشتر اساتذہ میں انہیں ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جب تک انہیں پیسے کی ضرورت تھی وہ تنخواہ لیتے رہے لیکن ہی اللہ نے انہیں نوازا انہوں نے نہ صرف دارالعلوم دیوبند سے تنخواہ لینا بند کردیا بلکہ جتنی تنخواہ انہوں نے لی تھی وہ حساب کتاب کرکے واپس کردی۔ یہ بہت موٹی رقم تھی۔اپنی کمائی واپس کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح مفتی سعید صاحب نے اس سے قبل جہاں بھی درس و تدریس کی خدمت انجام دی تھی وہاں سے بھی لی گئی تنخواہ انہوں نے واپس کردی۔اس دور میں یہ مثال مشکل سے ملے گی۔ زہد و تقوی اور بزرگی کا کیا عالم ہوگا صرف اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ّْ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدرالمدرسین مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری کے سانحہ ارتحال سے علم حدیث اور تحقیق تدریس کے میدان میں ایک زبردست خلاء پیدا ہوگیا ہے جس کا پر ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔مفتی سعید احمدعلم حدیث میں یکتائے روزگار تھے۔ جہاں وہ طلبہ میں بے پناہ مقبول تھے وہیں اساتذہ میں اور عام ملازمین کے ساتھا ن کا مشفقانہ رحم دلانہ سلوک تھا۔ان کے انتقال سے دارالعلوم دیوبند نے نہ صرف اپنے عظیم فرزند کو کھو دیا ہے بلکہ اساتذہ اپنے ساتھی اور طلبہ نے اپنے مشفق استاذکو کھو دیا ہے۔ مفتی صاحب نے47 سال سے زائد تک دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیئیے اور اس دوران وہ اہم کتابوں کے علاوہ ترمذی اور بخاری شریف بھی پڑھائی۔ دکھ کی اس کھڑی میں صبر و ضبط اور تحمل سے کام لیں اور تمام طلبہ،اساتذہ، تلامذہ اور متوسلین سے گزارش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب کا اہتمام کریں۔ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے سبب ہم میں کوئی بھی مفتی صاحب کے جنازے میں شامل نہیں ہوپائے گالیکن ان کے لئے دعائے مغفرت اور ایصاب ثواب کرکے اس کمی کو کسی حد تک پوری کرسکتے ہیں۔ وہ متعدد بار داخل اسپتال ہوئے تھے اور بیماری کو شکست دیکر اور صحت مند ہوکر باہر آئے تھے۔ ان کے انتقال سے ہر اس شخص کا جو ان سے منسلک تھے اور علمی پیاس بجھاتے تھے ان کا ذاتی نقصان ہوا ہے اور وہ اپنے اچھے استاذ سے محروم ہوگئے ہیں۔ مفتی صاحب کا انتقال کا دارالعلوم دیوبند کا عظیم خسارہ ہے اس کو اتنا قابل ذی استعداد، فقیہ اور مقبول عام ملنا مشکل ہے۔
مفتی صاحب ابتدائی ایام کے بارے میں: آپ کا نام والدین نے ”احمد“ رکھا تھا، سعید احمد آپ نے اپنا نام خود رکھا ہے، آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی ”یوسف“ اور دادا کا نام ”علی“ ہے، جو احتراماً ”علی جی“ کہلاتے تھے، آپ کا خاندان ”ڈھکا“ اور برادری ”مومن“ ہے، جس کے تفصیلی احوال ”مومن قوم اپنی تاریخ کے آئینہ میں“ مذکور ہیں۔جب آپ کی عمر پانچ، چھ سال کی ہوئی، تو والد صاحب نے آپ کی تعلیم کا آغاز فرمایا، لیکن والد مرحوم کھیتی باڑی کے کاموں کی وجہ سے، موصوف کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکتے تھے، اس لئے آپ کو اپنے وطن ”کالیڑہ“ کے مکتب میں بٹھا دیا، آپ کے مکتب کے اساتذہ یہ ہیں: مولانا داؤد صاحب چودھری رحمہ اللہ تعالیٰ مولانا حبیب اللہ صاحب چودھری رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مولانا ابراہیم صاحب جونکیہ رحمہ اللہ تعالیٰ، جو ایک عرصہ تک دارالعلوم آنند (گجرات) میں شیخ الحدیث رہے۔مکتب کی تعلیم مکمل کر کے، موصوف اپنے ماموں مولانا عبدالرحمن صاحب شیرا قدس سرہ کے ہمراہ ”چھاپی“ تشریف لے گئے، اور دارالعلوم چھاپی میں اپنے ماموں، اور دیگر اساتذہ سے فارسی کی ابتدائی کتابیں، چھ ماہ تک پڑھیں، چھ ماہ کے بعد، آپ کے ماموں دارالعلوم چھاپی کی تدریس چھوڑ کر گھر آ گئے، تو آپ بھی اپنے ماموں کے ہمراہ آ گئے، اور چھ ماہ تک اپنے ماموں سے ان کے وطن ”جونی سیندھی“ میں فارسی کی کتابیں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد مصلحِ امت حضرت مولانا نذیر میاں صاحب پالن پوری قدس سرہ کے مدرسہ میں جو پالن پور شہر میں واقع ہے، داخلہ لیا، اور چار سال تک حضرت مولانا مفتی محمد اکبر میاں صاحب پالن پوری، اور حضرت مولانا ہاشم صاحب بخاری رحمہما اللہ سے، عربی کی ابتدائی اور متوسط کتابیں پڑھیں، مصلح امت حضرت مولانا محمد نذیر میاں صاحب قدس سرہ وہ عظیم ہستی ہیں، جنھوں نے اس آخری زمانہ میں ”مومن برادری“کو بدعات و خرافات، اور تمام غیر اسلامی رسوم سے نکال کر، ہدایت وسنت کی شاہراہ پر ڈالا، اور ”مومن برادری“ کی مکمل اصلاح فرمائی، آج علاقہ پالن پور میں جو دینی فضا نظر آ رہی ہے، وہ حضرت مولانا ہی کی خدمات کاثمرہ ہے، اور حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ، بخاریٰ سے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم کے لئے تشریف لائے تھے، فراغت کے بعد پہلے پالن پور، پھر امداد العلوم وڈالی گجرات، پھر جامعہ حسینہ راند یر (سورت) پھر دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمات انجام دیں، اور آخر میں ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے، وہیں آپ کا انتقال ہوا، اور جنت البقیع میں مدفون ہیں۔پھر فقہ، حدیث، تفسیر اور فنون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے 1380ھ میں دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، دارالعلوم دیوبند میں داخل ہو کر، پہلے سال حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب بلندشہری رحمہ اللہ تعالیٰ سے، تفسیر جلالین مع الفوزالکبیر، حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی قدس سرہ سے ہدایہ اولین وغیرہ پڑھیں، اور1382?ھ موافق1962?ء میں، جو کہ دارالعلوم دیوبندکاسوواں سال ہے، دورہ حدیث کی تکمیل فرمائی، آپ نے دارالعلوم دیوبند میں جن حضرات اکابر سے پڑھا وہ مندرجہ ذیل ہیں:(۱) حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تعالیٰ (۲) حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلندشہری رحمہ اللہ تعالیٰ (۳) حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تعالیٰ (۴) حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب کیرانوی رحمہ اللہ تعالیٰ (۵) حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ (۶) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تعالیٰ (۷) حضرت مولانا فخر الحسن صاحب مرادآبادی رحمہ اللہ تعالیٰ (۸)حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تعالیٰ (۹) فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادی رحمہ اللہ تعالیٰ (10) امام المعقول و المنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی رحمہ اللہ تعالیٰ (11)مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری رحمہ اللہ تعالیٰ (12) شیخ محمود عبد الوہاب صاحب مصری رحمہ اللہ تعالیٰ۔ (مفتی امین کی معلومات سے اخذ کردہ)
واضح رہے کہ مفتی سعید صاحب کی پیدائش گجرات کے ضلع بناس کانٹھا موضع کالیڑہ میں 1940میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی اورمظاہر علوم سہارنپور ہوتے ہوئے 1962میں دارلعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔ جس آپ فارغ ہوئے تھے وہ قیام دارالعلوم کا سوواں سال تھا۔یہ عربی تاریخ کے حساب سے ہے اگر عیسوی تاریخ کو دیکھیں گے یہاں تو شک پیدا ہوجاتا ہے۔عیسوی تاریخ کے 98 سال عربی تاریخ کے 103 سال ہوتے ہیں۔ کیوں کہ دارالعلوم دیوبند کا سن قیام 1283ہجری ہے اور مفتی صاحب کا سن فراغت 1383ہے اس طرح سو سال ہوتے ہیں۔ جب کہ عیسوی سال کے حساب سے دارالعلوم کا سن قیام 1866ہے جب کہ مفتی صاحب کا سن فراغت عیسوی سال 1962یا 1963ہے۔ دونوں ملائیں گے تو تاریخ میں فرق پیدا ہوگا۔
مختلف جگہ درس و تدریس کی خدمات انجام دینے کے بعد آپ کی تقرری دارالعلوم دیوبند میں 1973میں ہوئی تھی۔ مفتی سعیداحمد کا درس ترمذی بہت مقبول تھا۔ وہ طول عرصے تک درس ترمذی دیتے رہے۔ 2008میں مولانا نصیر احمد خاں بلندی شہری کی علالت اور مستفعی ہونے کے بعد درس بخاری کے آپ کے ذمہ کیا گیا۔ اسی کے ساتھ صدر المدرسین بھی منتخب ہوئے۔ آپ کی تصانیف میں تحفت القاری شرح بخاری، تحفتہ الالمعی شرح سنن ترمذی، ہدایت القرآن جیسے درجنوں کتابوں شامل ہیں۔ان کے انتقال سے ایسا خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ایسے پایہ کا کوئی استاذ نہیں ہے جو ان کی جگہ لے سکے۔بخاری شریف اور سنن ترمذی پڑھانے والے آجائیں گے لیکن ان کے جیسا انداز معلومات کا خزانہ کون لٹائے گا۔
Comments
Post a Comment