عابد انور
ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ انسانیت سوز، وحشتناک،درندگی اورارذیت ناک صورت حال کے لئے بہت حد تک مسلمان بھی ذمہ دار ہیں کیوں کہ مسلمانوں نے،ان کے لیڈروں نے، ان کے قائدین نے (خواہ وہ مذہبی ہو یا سیاسی)اس بھیانک صورت حال سے نکلنے کے لئے زمینی سطح پر کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے کوئی راہ ہموار ہوتی۔ ہم صرف ابابیل کا انتظار کر تے رہے، معجزات اور کرامات کا انتظار کرتے رہے۔ عمل کے بجائے صرف دعا سے کام چلاتے رہے۔یہ انتظار کرتے رہے کہ مسلم ملکوں کی تنظیم تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی جس کی زمینی سطح پر کوئی حیثیت نہیں ہے یا اس نے قائم نہیں کی) اس ظلم و ستم کے بارے میں بات کرے گی، یاانکل سام ہندوستانی حکومت کو لتاڑ لگائے گی۔ فرانس، برطانیہ، جرمنی، دیگر یوروپی اور مغربی ممالک ہمارے لئے آواز اٹھائیں گے۔انسانیت کی بقاء اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے قائم اقوام متحدہ ہمارے خلاف جاری ظلم پر بات کرے گی اور ہندوستانی حکومت کو مجبور کرے گی کہ وہ اپنے اس ناپاک ارادے سے باز آجائے لیکن ہم نے خود کچھ نہیں کیا۔ ہم نے اپنی بات دنیا تک پہنچانا تو دور کی بات حکومت ہند تک بھی نہیں پہنچائی۔اپنی بات پہنچانے کے لئے ذرائع ابلاغ کی تشکیل کی نہ ہی کوئی میڈیا ہاؤس قائم کیا اور نہ ہی ہماری آواز میں اتنی طاقت رہی کہ ایوان حکومت میں زلزلہ آجائے۔ اپنی بات اپنے ہی لوگوں تک بھی نہیں پہنچاسکے۔اپنے درمیان اپنی ڈفلی بجاتے رہے،اپنی پیٹھ تھپتھپاتے رہے، ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہم کسی بات سننانہیں چاہتے،کسی بھی اہم موضوع پر ہم ماحول نہیں بناپاتے، کسی نے سوشیل میڈیا پر کوئی اچھی بات لکھی تواس کو آگے بڑھانے اور اسے ٹرینڈ کرانے کے بجائے ہر فیس بکیئے اسی طرز پر کاپی پیسٹ کرکے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگ جاتا ہے۔ جہاں کسی کو سو دو سو لائک مل جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو سب سے بڑا لیڈر اور مسیحا سمجھنے لگتا ہے۔ ہم نے کسی لیڈر شپ کو ابھارنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ دلت سماج میں چندر شیکھر راون ہے، بھومی ہار میں کنہیا کمار ہے، پٹیل برادری میں ہاردک پٹیل ہے، بہوجن سماج میں جگنیش میوانی ہے اور اس طرح ہر برادری سیکڑوں نوجوان ہیں جن کی آواز پر لاکھوں کی تعداد میں دلت اور بہوجن سماج کے لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ ہم صرف غیروں میں مسیحا تلاش کرتے رہے۔ اپنے سماج میں موجود سیکڑوں نوجوان کو نہیں دیکھا اگر ان کو سہارا دیتے، یا مدد کرتے یا ان پر سیاسی سرمایہ کاری کرتے تو ہمارے درمیان بھی کنہیا کمار، چندر شیکھر راون، ہاردک پٹیل، جگنیش میوانی جیسے نوجوان لیڈر موجود ہوتے لیکن ہم نے ایک دوسرے پر تنقید، ایک دوسرے کو کافر کہنے، مسلکی انتشار پھیلانے، بے جا اختلافات کو ہوا دینے، اپنے علماء اور لیڈروں پر کیچڑ اچھالنے، غیر ضروری مسائل میں اپنی قوت ضائع کرتے رہے۔ آج ہماری حیثیت بکری کی اس ریوڑ کی طرح ہوگئی ہے جب چاہتا ہے کوئی بھی کتا ہمارا شکار کرلیتا ہے اور ہم ممیانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرپاتے۔ آج ہماری سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی حیثیت دو کوڑی سے بھی کم کی رہ گئی ہے۔ آج ہمارے نوجوانوں کو پولیس ناجائز طور پر گرفتار کرکے غلط دفعات میں جیل بھیج رہی ہے اورہم بے بسی سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ کوئی حکومت سے سوال کرنے والا نہیں ہے کہ قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلم طلبہ پر انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمہ کیوں درج کیا گیا ہے۔ احتجاج کا حق جمہوری اور آئینی ہے اور سپریم کورٹ نے بار بار اپنے فیصلے اور ریمارکس میں کہا ہے۔یہاں تک شاہین باغ خاتون مظاہرین کے معاملے میں بھی کہا تھاکہ احتجاج کرنا آپ کا آئینی حق ہے۔تو پھر احتجاج کرنے والے طلبہ اور طالبات کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو مشترکہ طور پر سپریم کورٹ، حکومت، صدر جمہوریہ اور دیگر آئینی اداروں سے سوال کرنا ہوگا کہ ہمارے ساتھ اس طرح کی زیادتی کیوں جارہی ہے اور اگر آپ انصاف نہیں کرسکتے تو کھلم کھلا بتادیئجے کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنے کے اہل نہیں ہیں۔
پوری دنیا میں لاک ڈاؤن اور جسمانی دوری برقرار رکھنے کے لئے جیل میں بند قیدیوں اور گنہگاروں کو جیل سے رہا کیا جارہا ہے لیکن ہماری حکومت لاک ڈاؤن کو مسلمانوں کو پریشان کرنے، خوف و ہراس میں مبتلا کرنے، بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان کا مستقبل برباد کرنے کے ایک موقع کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔شرجیل امام، عمر خالد،میران حیدر، سلیم،صفورہ زرگر، گلفشاں اور عشرت جہاں (ایڈووکیٹ)خالد سیفی سمیت سیکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔لاک ڈاؤن کے دوران قومی شہریت(ترمیمی)قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہرہ کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک طالب علم آصف اقبال تنہا (24) کو پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ آصف جامعہ سے فارسی میں بی اے کر رہا ہے۔ وہ تیسرے سال کا طالب علم ہے۔ اس کے علاوہ وہ اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن کا فعال رکن بھی ہے۔ آصف اقبال تنہا،صفورہ، میران حیدر، سلیم سمیت پچاس سے زائد مسلم طلبہ و طالبات و دیگر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ شرجیل کو جس وقت گرفتار کیا گیا تھا اس وقت مسلمانوں نے بھی ان کو قصوروار ٹھہرانا شروع کردیا تھا۔ جب کہ میڈیا نے اس کے ایک ویڈیو کو کاٹ چھانٹ دکھایا تھا۔ اسی ویڈیوں کی بنیاد پر حکومت نے فوراً ن کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ قائم کردیا تھا۔ اگر اس وقت مکمل طور پر شرجیل امام کے ساتھ کھڑے ہوتے تو حکومت کی اتنی ہمت نہیں بڑھتی۔ لیکن ہم میڈیا کے بہکاوے میں آکر شرجیل امام کو قصوروار ٹھہرانے لگے۔ یہ بات ہمیں کب سمجھ میں آجائے گی۔ موجودہ حکومت ہم سب کو شکار کرنا چاہتی ہے لیکن ایک ایک کرکے تاکہ کوئی آواز اٹھانے والا نہ رہے۔ جمعےۃ علماء ہند (مولانا محمود مدنی)مسلم نوجوانوں کی اندھادھند گرفتاری پر دہلی ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کو قانونی پہلو کو پورا کرنے کی ہدایت دی ہے۔عدالت میں جمعےۃ علماء ہند نے ایسے 45لوگوں کے نام پیش کیے ہیں، جن کو اس درمیان گرفتار کیا گیا۔گرفتار شدگان کا تعلق جعفرآباد، مصطفی آباد، برہم پوری، چوہان بانگر،موہن پوری، عثمان پور، چاند باغ سے ہے۔ عدالت نے پولس کو ہدایت دی ہے کہ جو گرفتاری ہوئی ہے یا آئندہ جو بھی ہوگی، اس کو انجام دیتے وقت ڈ ی کے باسو بنام حکومت ویسٹ بنگال 1977مقدمے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ طے کردہ گائیڈ لائن کی مکمل پابندی کی جائے۔ جسٹس سدھارتھ مریدول،جسٹس سنگھ کی دورکنی بنچ نے اپنے آرڈر میں یہ بھی کہا ہے کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ ذیلی عدالت میں ریگولر بیل(مستقل ضمانت) کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ عدالت نے آیندہ سماعت کے لیے ۴۲/جون کی تاریخ طے کی ہے۔ ہائی کورٹ نے پولس کو ڈی کے باسو بنام اسٹیٹ آف ویسٹ بنگال 1977(1)SCC416 مقدمے میں سپریم کورٹ کے گائیڈ لائن کی پابندی کی ہدایت دی ہے جو اصلاح کی طرف بہترین قدم ہے۔اس گائیڈلائن میں کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے وقت گیارہ ہدایات دی گئی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کو گرفتار کرنے یا قید کرنے کے وقت پولس عملہ کی وردی پر صاف صاف لفظوں میں ناموں اور عہدے کا بلہ لگاہونا چاہیے او رمذکورہ پولس عملے کی تمام تفصیلات ایک رجسٹر میں ریکارڈ ہونی چاہئیں۔پولس عملہ کے پاس گرفتاری کا میمو ہونا چاہیے جس پر ایک گواہ کا دستخط بھی ہوجو گرفتار شدہ کے خاندان کا ممبر یا علاقے کا معزز شخص ہو، میمو پر گرفتار شدہ کا بھی دستخط ہو اور تاریخ اور وقت درج ہو۔جس شخص کو گرفتار کیا جارہا ہے، یا پولس لاک اپ میں رکھا جارہا ہے، اس کے سلسلے میں اس کے کسی رشتہ دار، دوست یا خیرخواہ کو جلد ازجلد مطلع کیا جائے، گرفتار شدہ کے قید کی جگہ، گرفتاری کا وقت نوٹیفائیڈ کیا جائے جب کہ اس کے رشتہ داریا یا دوست ضلع سے باہر رہتے ہوں، ضلع میں موجود لیگل ایڈ آرگنائزیشن کے ذریعہ سے یا اس علاقہ میں موجود پولس اسٹیشن کے ذریعہ سے گرفتاری کے آٹھ سے بارہ گھنٹے کے اندر رشتہ داراوں کو مطلع کیا جائے۔ گرفتار شدہ شخص کو اس کا یہ حق معلوم ہو نا چاہیے کہ وہ اپنی گرفتاری کی اطلاع کسی شخص کو دے سکتا ہے۔گرفتار شدہ شخص کی ہر اڑتالیس گھنٹے پر سرکاری طور سے منظور شدہ ٹرینڈ ڈاکٹر کے ذریعہ چانچ کرائی جائے۔ گرفتار شدہ شخص کو اپنے وکیل سے ملنے کی اجازت دی جانی چاہیے، ضلع اور صوبہ کے مرکز میں ایک پولس کنٹر ول روم میں قیدی کی گرفتاری اورنوٹس بورڈ پر اس کا نام درج ہونا چاہیے۔ اگر ان چیزوں پر عمل نہیں ہوتا ہے تو ذمہ دارشخض کے خلاف دفتری کارروائی کی جائے گی۔
مذہبی آزادی پر نگاہ رکھنے والے ادارے’یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم‘ (یو ایس سی آئی آر ایف) نے کووڈ۔ 19 کی وبا کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور انہیں رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے اسی لیے اسے ’انتہائی تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے، ”کووڈ۔ 19 کے بحران کے دوران ایسی اطلاعات ہیں کہ ہندوستانی حکومت ان مسلم کارکنان کو گرفتار کر رہی ہے جو شہریت قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، اس میں صفورہ زرگر بھی شامل ہیں جو اس وقت حاملہ ہیں۔ یہ وقت بھارت کو ایسے ضمیر کے قیدیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے رہا کرنے کا ہے، جو احتجاج کے لیے اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کر رہے ہیں۔“ یو ایس سی آئی آر ایف نے ایک دیگر ٹوئیٹ میں کہا، ”ہندسوستان میں 2019 کے دوران مذہبی آزادی میں زبردست گرواٹ آئی، بدقسمتی سے کووڈ۔ 19 کے بحران کے دوران بھی مسلمانوں کو قربانی کا بکرابنا کر اسی رجحان کا مظاہرہ کیا گیا۔ جس کی وجہ سے اس نے ہندوستان کو ”انتہائی تشویش والے ممالک کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی ہے۔“
ڈویچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق ”امریکی ادارے نے اپنی ٹوئیٹ کے ساتھ وہ تفصیلات بھی شائع کی ہیں جن کی بناپر ہندوستان کو انتہائی تشویش والے ممالک کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ اس میں شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو حکومت کی طرف سے دبانے، دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں پولیس کا جانبدارانہ رویہ، بی جے پی رہنماؤں اور بعض وزراء کے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز بیانات اور بڑے پیمانے پر ہجومی تشدد کے واقعات کو شامل کیا گیا ہے۔امریکی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 2019 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے ”اقلیتوں کے خلاف تشدد کی کھلی چھوٹ اور ان کے مذہبی مقامات کو بلا روک ٹوک نشانہ بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز اور تشدد کو بھڑکانے والے بیانات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے بلکہ اس کے رہنما بھی اس میں ملوث ہیں۔“
مسلمانوں کو اب یہ سبق سیکھ ہی لینا چاہئے کہ انہیں کوئی بچانے کے لئے نہیں آئے گا۔ دوسروں میں کنہیا کمار پیدا کرنے کے بجائے اپنوں میں کنہیا کمار اور دیگر لیڈروں کو پیداکریں، سماجی کارکن بنائیں۔ ان کو طاقت ور بنائیں اور خود ان کی طاقت بنیں۔ کسی بھی مسلمان کی گرفتاری ہوتی ہو ان کی حمایت میں سامنے آئیں۔ فرقہ، ذات پات، مسلک، علاقہ اور صوبہ نہ دیکھیں۔عام طور پر مسلم نوجوانوں کو پولیس گرفتار غلط طریقے سے ہی گرفتار کرتی ہے اور پندرہ بیس سال جیل میں سڑاکر ان کو رہا کردیتی ہے۔کپل مشرا، پرویش ورما، انوراگ ٹھاکر اس طرح کے لاکھوں لوگ ان کے یہاں مجرم نہیں ہیں۔سچ بولنے والے ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں مجرم ہیں؟ حکومت، پولیس، عدالت، مقننہ، میڈیا اور دیگر آئینی اداروں کی منشا کو سمجھیں۔ ساری چیزیں لکھنے کی نہیں ہوتیں۔اپنے دماغ کا استعمال کریں اور کم از کم سکھوں سے ہی سبق حاصل کریں۔
981037233
مسلم امہ کے لیے یہ انتہائی نازک دور ہے ایسے حالات میں ہمیں ہر قسم کےمسلکی اختلافات بھلا کر اپنے پیارے ملک بھارت کے جمہوری قوانین کے دائرے میں ہر ظلم وستم کے خلاف قانونی ا داروں
ReplyDeleteمیں متحدہ طور پر لائحئہ عمل مرتب کرکے قانون چارہ جوئی کرنا چاہئے۔
ji bilkul sahi mashwara
ReplyDelete