عابد انور
ہندوستانی حکومت، ہندوستانی پولیس اور ہندوستانی عدالت کا رویہ کس قدر غیر انسانیت والا ہے اس کو چند مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں۔اس وقت پوری دنیا کورونا جیسے موذی اور متعدی بیماری سے لڑ رہی ہے اور اس کی ساری توجہ کورونا کو شکست دینے پر مرکوز ہے لیکن ہندوستان میں کورونا سے لڑنے کے بجائے یہاں کی حکومت، پولیس، طبی عملہ، میڈیا اور عدالت مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑرہی ہے۔ ہندوستانی پولیس کورونا وائرس کو مسلمانوں کو گرفتار کرنے اور جیل میں سڑانے کے لئے موقع کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ شرجیل امام، خالد سیفی،ایڈووکیٹ عشرت جہاں، میران حیدر، صفورہ، آشو خاں اور ان جیسے درجنوں افراد کو سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے اور ان پر دہلی میں فساد پربا کرنے کا بھی الزام مڑھ دیا ہے۔ جب معاملہ عدالت میں پیش کیا جاتا ہوگا تو عدالت میں پوچھا جاتا ہوگا کہ کس جرم میں گرفتار کیا ہے اور کیوں گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا کیا ہے وہ درجن بھر سے زیادہ دفعات لگادیتی ہے اور یہاں کی عدالت پولیس کے بیان پرگیتاکی طرح ایمان لاتے ہوئے جیل بھیج دیتی ہے۔ انہی عدالتوں کے بھیجے گئے سیکڑوں مسلمان دس سال سے لیکر بیس سال تک جیل میں گزار کر باعزت بری ہوئے ہیں۔ اس وقت پولیس پورے ملک میں سی اے اے کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گرفتار کر رہی ہے۔ جب کہ احتجاج کرنا جمہوری حق ہے اور سپریم کورٹ نے اسے بار بار تسلیم کیا ہے۔ اس کے علاوہ آئین نے بھی اس کی اجازت دی ہے۔ اس کے باوجود پولیس مسلم نوجوانوں کو رات کے اندھیرے میں اٹھاکر لے جارہی ہے۔ کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب لوگ اپنے گھروں میں قید ہیں۔ کسی کچھ پتہ نہیں چلے گا اور ہوبھی یہی رہا ہے۔ لوگوں کو دوسرے دن پتہ چلتا ہے کہ فلاں کو گرفتار کیا گیاہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہی دہلی پولیس نے سیکڑوں مسلم نوجوانوں کوفساد کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ شاید ہندوستان دنیا کا پہلا ملک ہوگا یا ہندوستانی پولیس دنیا کی پہلی پولیس ہوگی جو متعدی اور موذی بیماری کو بھی موقٖع کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
مسلمان اگر پولیس پر حملہ کرتے ہیں تو قومی سلامتی ایکٹ سمیت سخت سے سخت دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرکے جیل بھیج دیا جاتا ہے لیکن یہی اگر ہندو کرتا ہے تو اس کا بال بھی باکا نہیں ہوتا۔جس دن مراد آباد میں طبی عملے پر حملہ ہوا اسی دن یوپی کے فیروز آباد،بہار سمیت متعدد جگہ پر حملہ ہوا لیکن خبر صرف مرادآباد کی بنی کیوں کہ حملہ کرنے والا مسلمان تھااور میڈیا نے یکطرفہ طور پرمسلمانوں کو بدنام کیا۔ مرادآباد میں اصل صورت حال جانے کے بغیر میڈیا نے یہاں تک کے مسلمانوں نے بھی مسلمانوں پر لعن طعن شروع کردی۔ میں طبی عملہ پر حملہ کرنے والے مسلمانوں کا دفاع ہرگز نہیں کر رہا ہوں لیکن صحافت کا تقٖاضہ ہے کہ صحیح صورت حال اور حقائق کو بھی سامنے لایا جائے۔ جن لوگوں پر حملہ کرنے کا الزام ہے وہ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم لوگوں کا ٹسٹ کرلیجئے اور جن لوگوں میں کچھ نظر آئے اور شبہ ہو اسے لے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گھر میں جوان لڑکیاں ہیں، ان کو کہاں لے جائیں گے، کہا ں رکھیں گے، اس کے لئے قرنطینہ میں رکھے جانے پر بارے میں ان کے دل میں شکوک شبہات تھے جیسا کہ زخمی ڈاکٹر نے این ڈی ٹی وی کو دئے گئے بیان میں کہا ہے۔ پولیس نے ان پر این ایس اے سمیت 19 سخت دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ 15لوگوں میں سات خواتین ہیں جس میں عدت گزارنے والی خاتون بھی شامل ہے۔اس لئے ان کے موقف کو یکسر مسترد نہیں کرسکتے۔مسلمان پاگل نہیں ہیں بلاسبب کسی پر پتھراؤ کریں کوئی بات تو ضرور ہوئی ہوگی جس کی وجہ سے وہ پتھراؤ کرنے پر مجبور ہوئے۔ مسلمانوں میں شہبات بلاوجہ بھی نہیں ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے مسلمانوں کا یہاں کے نظام سے پوری طرح بھروسہ اٹھ گیا ہے کیوں کہ یہاں کا نظام ہندو مسلم آئینے سے کارروائی کرتا ہے، من گھڑت باتو ں پر یقین کرتا ہے۔ خاص طور پر تبلیغی جماعت کے بارے میں حکومت، پولیس انتظامیہ اوردیگر عملے نے جس طرح دروغ گوئی اور بہتان تراشی سے کام لیا ہے اس کی وجہ سے کسی مسلمان کو پہلی نظر میں حکومت،پولیس اور انتظامیہ کا بیان جھوٹا نظر آتا ہے۔ تبلیغی جماعت والوں نے متعدد ویڈیو جاری کرکے کہا ہے کہ ہماری ساری رپورٹ نیگیٹو آئی ہے جب کہ میڈیا اور حکومت نے اسے پوزیٹو بتایا ہے۔ ابھی حال میں ٹیلی فونک بات چیت میں بدرپور میں کورنٹائن کئے گئے جماعت والوں نے بتایا کہ ہم یہاں 157لوگ ہیں اور ہماری مدت پوری ہوگئی ہے اس کے باوجود ہمیں جانے نہیں دے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 157میں سے پہلے کہا گیا ہے کہ 30 معاملے پوزیٹیو ہیں لیکن 30میں سے صرف چھ کو علاج کے لئے لے گئے اور پھر اسی دن ان چھ لوگوں کو بغیر کسی علاج واپس لے آئے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر 30پوزیٹو تھے تو ان کو سب کے ساتھ کیوں رکھا گیا ہے اور صرف چھ کو کیوں لے جایا گیا اور پھر بغیر علاج کے واپس پھر وہیں کیوں پہنچادیا گیا۔ اس کا مقصد کیا ہے۔ اگر واقعی وہ لوگ کورورنا متاثر ہیں تو انتظامیہ کا مقصد سب کوکورونا سے ہلاک کرنا ہے اور وہ لوگ سب نیگیٹو ہیں تووہ پھر 30کو پوزیٹیو کیوں کہا گیا۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت، پولیس، انتظامیہ اور طبی عملے کا مقصد کیا ہے اور تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کے لئے سب کو روکے ہوئے ہیں اور نیگیٹو کو بھی پوزیٹیو بتارہے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اضلاع جماعت والوں کے کورورنا سے متاثرین کی فہرست منگوائی جارہی ہے جن میں تبلیغی جماعت کے ساتھ ہندوؤں کے نام بھی شامل ہوتے ہیں اور سب کو تبلیغی جماعت سے وابستہ بتاکر مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضاء قائم کی گئی ہے۔ یہ بڑی سازش کا حصہ ہیں۔ پورے ملک سے اس طرح کی رپورٹ آئی ہے کہ وہ لوگ نیگیٹیو ہیں اور ان کو پوزیٹیو بتایا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ تبلیغی جماعت کو بدنام کیا جاسکے۔
ان سب کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا جائے۔ ان کاپوری طرح سماجی سطح پر اور اقتصادی سطح بائیکاٹ کیا جائے۔ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں میں نفرت اس قدر بھر دی جائے وہ ہر جرم کے لئے مسلمانوں کوذمہ دار ٹھہرائیں۔ حکومت کی مشنری اور میڈیا نے اس قدر افواہ پھیلائی ہے یہاں کا ہر ہندو یہ سمجھتا ہے کہ کورونا تبلیغی جماعت کی وجہ سے آیا ہے۔ جب کہ کوورنا کا پہلا واقعہ 30جنوری کا ہے اور تبلیغی جماعت کا معاملہ 28 مارچ سے آنا شروع ہوا ہے۔ جماعت والوں نے انتظامیہ سے کچھ نہیں چھپایا تھا سارے حالات سے آگاہ کردیا تھا لیکن انتظامیہ کا نشانہ کچھ اور تھا اس لئے وہ اس نے معاملے کو آگے بڑھنے دیا۔انتظامیہ اور میڈیا نے مل کر پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول بنادیا ہے کہ کوئی مسلمان سے نہ ملے اور، نہ ان سے کوئی خریداری کرے، نہ کوئی لین دین کرے۔ گجرات میں مسلم ڈرائیوروں کا ہندوؤں کے علاقے میں داخلہ ممنوع ہے اور مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر نوکریوں سے نکالنے کی تیاری شروع ہوگئی ہے۔ مسلمانوں کو اس نفرت انگیز مہم کے خلاف لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اس طوفان کا مقابلہ کیسے کریں۔ کس طرح حکومت، میڈیا اور فسطائی طاقتوں کی نفرت انگیز مہم کو ختم کریں۔
9810372335
Comments
Post a Comment