آخر یہ کس غزوۃ الہندکی تیاری ہے

دانش ریاض،معیشت،ممبئی

Thumb

رات کے دوسرے پہر جب میں نیٹ فلکس پرامریکن تھریلر ویب سیریز ختم کرکے مختلف ڈائیلاگ پر غور کررہا تھا توکمزور انسان کی قسمت کو دوش دینے والا ڈائیلاگ بہت بھایا۔یقیناً قسمت محض ایک فریب نہیںہےبلکہ وہ انتخاب کی طرف لےجانے والی لکیر بھی کھینچتی جاتی ہے جسے اوللعزم ہی بھانپ پاتے ہیں اور اس کے اٹھا پٹک میں اپنے کو سنبھالا دئے رہتے ہیں۔ پستی سے بلندی اور بلندی سے پستی پر آنے کے بعد جو لو گ جیتنے یا ہارنے کو انجوائے کرتے ہیںوہی قسمت کے ساتھ جینا یا مرنا بھی جانتے ہیں۔ جب آپ دل سے کسی کام کو انجام دے رہے ہوں تو اس کے اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں اور اسے طاقت پرواز بھی حاصل ہوجاتی ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ بعض تحریریں الہامی ہوا کرتی ہیں اوراگر وہ دل میں اتررہی ہوںتو اس کی صداقت پر ایمان لانا چاہئے ورنہ کفر کا راستہ اختیار کرنے والوں کی تو لمبی قطار ہمیشہ سے ہی لگتی رہی ہے۔
ان دنوں بہت کچھ لکھا جارہا ہے لیکن کچھ ہی تحریریں ایسی ہیں جو دل میں اتربھی رہی ہیںاور لوگوں کو سمت سفر بھی بتا رہی ہیں۔میں ان تحریروں کو پڑھنے کی کوشش کررہا ہوں جسے یا تو فلمایا جارہا ہے یا زبانی اظہار کے ذریعہ کسی رخ کو متعین کرنے کا اشارہ دیا جارہا ہے۔عالمی لاک ڈائون نے جہاں فضائی آلودگی کو کنڑول کیا ہے وہیں نظریاتی زہر پوری فضا کو مسموم کئے ہوئے ہے۔یقیناً ذرائع ابلاغ اس میں کلیدی رول ادا کررہا ہے اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا اپنے اثرات انڈیلنے میںکافی حد تک کامیاب ہوچکا ہےاور شایدانہیں کامیابیوں میں غزوۃ الہند کی وہ روایت بھی ہے جسے سنگھ پریوار کے لوگوں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے متعلقین میں موضوع بحث بنا دیا ہے۔ انوراگ کشیپ کے ڈائریکشن میں بنی ’’سیکرڈ گیمز ‘‘میں بھی تان غزوۃ الہند پر ہی لاکر توڑی گئی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ آج بھی ان روایات سے نہ صرف ناواقف ہے بلکہ اہل علم اسے خاطر میں ہی نہیں لانا چاہتے۔
غزوہ ہند کی پہلی روایت امام احمد بن حنبل کے حوالہ سے محمد بن عبد الله الحاكم النيسابوري نے اپنے المستدرک علی الصحيحين میں اس طرح درج کی ہے کہ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا، سو اگر میں شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا۔ اگر واپس آ گیا تو میں آزاد ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا‘‘۔
اسی روایت کو سنن نسائی میں اس طرح درج کیا گیا ہے کہ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کروں گا۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں سب سے افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا۔ اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابو ہرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوں گا جو عذاب جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے‘‘۔جبکہ امام احمد نے اپنی مسند میں اور امام نسائی نے اپنی مجتبیٰ میں جسےشيخ ألباني نے صحیح قرار دیاہے اس طرح رقم کیاہے کہ ’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے، سے روایت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہوں کو اﷲ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا‘‘۔
ان روایات پر گفتگو کرتے ہوئے شارحین نے یہ بات ضرور کہی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں جو جنگیں ہندوستان میں لڑی گئیں یا اس کے بعد جو جنگیں برپا ہوئیں وہ انہیں پیش گوئیوں پر محمول تھیں لیکن ایک گروہ وہ بھی ہے جو اس بات کی وکالت کرتا ہے کہ عیسی ابن مریم کی تحدید کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شاید وہ دور اب بھی باقی ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سنگھ پریوار آخر الذکر پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کارندے گڑھی ہوئی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں روایات کا حوالہ دیتے ہیں، سوشل میڈیا پر اس حدیث کی تبلیغ و اشاعت کا جیسا کام وہ کررہے ہیں ویسی کوئی کوشش مسلم اسکالرس کی طرف سے دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ 
آخر کیا وجہ ہے کہ اس وقت جبکہ پوری دنیا کرونا وائرس سے لڑنے میں اپنی توانائی صرف کررہی ہے سنگھ پریوار سماج میں زہریلا وائرس پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔صبح و شام میڈیا کی بحثوں میں مسلمان جس طرح موضوع بحث بنایا گیاہے ماضی میں کبھی ایسا دیکھنے کو نہیں ملا۔وہ لوگ جو سنگھ پریوار سے اتفاق نہیں رکھتے آخر وہ بھی کہیں نہ کہیں مسلمانوں کے تعلق سے منفی رویہ کا شکار نظر آتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے ہوں یا بہار کے ڈی جی پی گُپتیشور پانڈے وہ ان معاملات کو بخوبی سمجھ رہے ہیں اورشاید اسی لئے ان لوگوں نےمعاشرے کے خراب عناصر کے خلاف انتہائی کڑا رخ اختیار کررکھا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ نفرت کی اس پوری مہم میں جو لوگ Communal Virus کے شکار ہیں وہ اسے باہر سے امپورٹ کرنے میں انتہائی حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے عالمی صیہونی اداروں سے ایوارڈ کے ساتھ تعاون حاصل کیا ہو اور شاہ سرخیوں میں رہتے ہوں اگر ان کے کاموں کا تجزیہ کریں تو آپ کو ایسا ہی محسوس ہوگا کہ یہ ملک و سماج سے زیادہ کسی ایسی طاقت کی خدمت کررہے ہیں جو سماج میں انتشار چاہتاہو۔صیہونی مقتدرہ کی بھارت پر خاص نظر ہےلہذا کرونا وائرس کے پھیلائو سے زیادہ کمیونل وائرس کے پھیلائو پر توجہ دی جارہی ہے۔اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندوستان کا ایک طبقہ دوسرے طبقہ کے خلاف ایسا کھڑا ہوجائے کہ اس کے لئے جائے پناہ ڈھونڈھنا مشکل ہوجائے۔لیکن ایسے ہی دور میں وہ حدیثیں ہمیں تقویت پہنچاتی ہیں جس کا معنی و مفہوم بالکل عام ہے ۔حضرت ثوبانؓ سے صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ نے میرے لیے زمین کو لپیٹ دیا، پس میں نے زمین کے سارے مشرق بھی دیکھ لیے اور سارے مغرب بھی، میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جو مجھے لپیٹ کر دکھائے گئے.‘‘جبکہ مسند احمد کی روایت کہ ’’’’روئے ارضی پر نہ کوئی گھر جو اینٹ گارے سے بنا ہوا ہو، باقی بچے گا، نہ کمبلوں سے بنا ہوا خیمہ جس میں اللہ کلمۂ اسلام کو داخل نہ کر دے! خواہ کسی سعادت مند کو عزت دے کر خواہ کسی بدبخت کی مغلوبیت کے ذریعے.‘‘لہذا اب ان لوگوں کو سوچنا ہے کہ وہ زندگی کا کونسا معیار پسند کرتے ہیں۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
دانش ریاض معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں-

Comments

Post a Comment