عابد انور
قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین کی خواتین مظاہرے کو آج دو ماہ سے زائد ہوگئے ہیں اس دوران یہاں کی خاتون مظاہرین کو اس مظاہرہ کو جاری رکھنے کے لئے سخت آزمائشوں، امتحان، فائرنگ، شدت پسند تنظیموں کے حملے، پولیس کا دھرنا ختم کرنے کا دباؤ، طرح طرح کے طعنوں کا سامنا،پانچ سو روپے میں بکنے والی جیسے گھٹیا پروپیگنڈہ، مشترکہ تہذیب و وراثت و صلح کل کاپیغام دینے، جمہوریت اور سیکولرازم کو بچانے کے لئے سخت محنت کرنی پڑی اور وہ ہر امتحان سے سرخرو ہوکر نکلیں۔ گزشتہ 16دسمبر سے سریتاوہار کالند کنج روڈ پر اپنا مظاہرہ شروع کیا تھا۔ اس وقت یہ خاتون جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی اور قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مورچہ سنبھالا تھا جو اس وقت پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔اس وقت تقریباً دو سو سے زائد مقامات پر خواتین کا دن رات کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس وقت شاہین باغ دہلی، کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ’دہلی،آرام پارک خوریجی-حضرت نظام الدین، قریش نگر عیدگاہ، اندر لوک، نورالہی دہلی ’۔سیلم پور فروٹ مارکیٹ،دہلی، جامع مسجد، دہلی،ترکمان گیٹ، دہلی،ترکمان گیٹ دہلی، بلی ماران دہلی، شاشتری پارک دہلی، کردم پوری دہلی، مصطفی آباد دہلی، کھجوری، بیری والا باغ، بہار میں،رانی باغ سمری بختیارپور سہ بہار،سبزی باغ پٹنہ، ہارون نگر،پٹنہ’۔شانتی باغی گیا،۔مظفرپور،ارریہ سیمانچل،بیگوسرائے،پکڑی برواں نوادہ،مزار چوک،چوڑی پٹی کشن گنج،مگلا کھار‘ انصارنگر نوادہ،مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، دربھنگہ میں تین جگہ، مدھوبنی بہار،سیتامڑھی، سمستی پور‘ تاج پور، سیوان،۔گوپال گنج،کلکٹریٹ بتیا‘ہردیا چوک دیوراج، نرکٹیاگنج، رکسول، کبیر نگر بھاگلپور، رفیع گنج، مہاراشٹر میں دھولیہ،ناندیڑ، ہنگولی،پرمانی، آکولہ، پوسد،۔کونڈوا،پونہ،ستیہ نند ہاسپٹل، مالیگاؤں‘ جلگاؤں، نانڈیڑ، پونے، شولاپور، اور ممبئی میں مختلف مقامات، مغربی بنگال میں پارک سرکس کلکتہ‘ مٹیا برج، فیل خانہ، قاضی نذرل باغ، اسلام پو، مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناجپور، بیربھوم، داراجلنگ، پرولیا۔ علی پور دوار،اسلامیہ میدان، اترپردیش میں الہ آباد،روشن باغ منصور علی پارک الہ آباد،محمد علی پارک چمن گنج کانپور، گھنٹہ گھر لکھنو، البرٹ ہال رام نیواس باغ جئے پور راجستھان،کوٹہ، اودے پور،جودھپور،راجستھان، مدھیہ پردیش میں اقبال میدان بھوپال، جامع مسجد گراونڈ اندور،مانک باغ اندور، اجین، دیواس، کھنڈوہ،مندسور‘ احمد آباد گجرات، بنگلور، منگلور، شاہ گارڈن، میسور، پیربنگالی گرؤنڈ، یادگیر کرناٹک، آسام کے گوہاٹی، تین سکھیا۔ ڈبرو گڑھ، آمن گاؤں کامروپ، کریم گنج، تلنگانہ میں حیدرآباد، نظام آباد‘ عادل آباد۔ آصف آباد، شمس آباد، وقارآباد، محبوب آباد، محبوب نگر، کریم نگر، آندھرا پردیش میں وشاکھا پٹنم‘ اننت پور،سریکاکولم‘ کیرالہ میں کالی کٹ، ایرناکولم، اویڈوکی،، ہریانہ کے میوات اور یمنانگرفتح آباد،فریدآباد، وغیرہ،۔ اسی کے ساتھ جارکھنڈ کے رانچی، کڈرو،لوہر دگا، بوکارو اسٹیل سٹی، دھنباد کے واسع پور، جمشید پور وغیرہ سمیت سیکڑوں مقامات پر مظاہرہ کر رہی ہیں۔
شاہین باغ خاتون مظاہرین پر جس طرح حملے کئے گئے اسی طرح خواتین اس کا مدلل اور مہذب انداز میں جواب دیا اور اپنے مظاہرے کو مخالفین کی سوچ سے اپنی سوچ بڑی کرتی گئیں، کسی کی لکیر کو چھوٹی نہیں کیا بلکہ اس کے سامنے بڑی لکیر کھینچتی گئی۔ملک کا غدار کہا گیا تو وہاں انڈیا گیٹ اور ہندوستان کا نقشہ بناکر پیش کردیا گیا، جہاں وہاں آزادی کے نعرے لگے، آئین بچاؤ کے نعرے لگے، جے بھیم کے نعرے لگے وہیں جے شری رام کے نعرے بھی لگے، بھارت ماتا کی جے کے بھی نعرے لگے اور مسلم خواتین نے جوش و خروش کے ساتھ نعرے لگائے۔ جب اس مظاہرہ پر مسلم مظاہرہ ہونے کا الزام لگا تو درجنوں ہندو خواتین سامنے آئیں اور کہاکہ یہ مظاہرہ مسلمانوں کا نہیں ہے سب ہے اور ہم سب ملکر ملک کے آئین کو بچانے نکلی ہیں۔ اس مظاہرہ کو پورے ملک اور تمام قوم کا مظاہرہ بنانے کے لئے مظاہرہ گاہ میں ایک ساتھ ہون ہوا، سکھ بھائیوں نے گروگرونت کا پاٹھ پڑھا تو عیسائی بھائیوں نے بائبل پڑھا اور مسلمانوں نے قرآن کی تلاوت اور یہ سب ایک ہی اسٹیج پر ہوا۔ شاہین باغ مظاہرین کی حمایت میں ہون بھی کیا گیا اور مسلم خواتین نے ٹیکے بھی لگائے۔ یہ اس بات ثبوت ہے کہ اس مظاہرہ میں صرف ایک فرقہ کے لوگ نہیں بلکہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے خواتین باغ خواتین کا مظاہرہ کا تذکرہ نہ صرف ہندوستان کے کونے کونے میں ہورہا ہے بلکہ پوری دنیا میں اور دنیا کی ہر یونیورسٹی میں اس کا ذکر ہورہا ہے اوران کی حمایت میں مظاہرہ کئے جارہے ہیں۔
مظاہرہ کو بدنام کرنے کے لئے کئی ٹی وی چینل کے صحافی آئے، کسی وزرائے نے اسے توہین باغ قرار دیا۔ فسطائی طاقتوں نے کچھ لڑکے اور لڑکیوں کو برقعہ پہناکر بھیجا تاکہ مظاہرہ کو منتشر اور بدنام کیا جاسکے لیکن خاتون مظاہرین ان کو پکڑکرکسی کو کوئی تکلیف پہنچائے بغیر پولیس کے حوالے کردیا۔ کئی بار ہندو شدت پسند تنظیموں کے غنڈوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن خواتین کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین کی حمایت کرنے کے لئے پنجاب سے سکھوں دستہ مسلسل آتا رہا۔آنے والوں کے سابق ورزرائے، سابق اسپیکر، سابق اراکین پارلیمنٹ و اسمبلی، سماجی کارکن اور عام لوگ تھے۔ سردار ڈی ایس بندرا لنگر چلارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک گرودا لنگر چل رہا ہے جس میں تین ہزار لوگ روزانہ کھانا چاہتے ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہا یہ سامان اور پیسہ کہاں سے آتا ہے تو انہوں نے کہاکہ یہاں کے عوام دے جاتے ہیں۔ یہاں ہندو بھائی دے جاتے ہیں، سکھ بھائی دیتے ہیں، عیسائی بھی دیتے ہیں اور مسلمان بھی سامان رکھ جاتے ہیں اور ان لوگوں کے تعاون سے لنگر مسلسل چل رہا ہے۔ دو ماہ سے زائد کے شاہین باغ خواتین مظاہرہ میں کیا پڑھی لکھی کیا ان پڑھ خواتین حصہ لے رہی ہیں۔ ایک 20دن کے بچہ سے لیکر 90 سالہ خواتین بھی شریک ہیں۔ سب کا کہنا ہے کہ ہم آئین کو بچانے کے لئے آئے ہیں۔ جوں جوں رات جوان ہوتی ہیں خواتین اور دیگر مظاہرین کی تعدد بڑھتی جاتی ہے۔ پوری دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ آرہے ہیں اور شاہین باغ خواتین کے جذبے کو سلام کرنے کے ساتھ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ سکھ سماج کے ساتھ دلت سماج کی خواتین اور مرد بھی جوش و خروش کے ساتھ اس مظاہرے میں حصہ لے رہی ہیں۔ آٹھوں ریاستوں کی خواتین ایک وفد کی شکل میں آئیں۔ان خاتون مظاہرین نے کہا کہ بات صرف مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ اس ملک کے اتحاد و سالمیت کی ہے جسے ہم کسی قیمت پر نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ حکومت آتی جاتی رہتی ہے لیکن یہ ملک ہمیشہ رہے گا اور ہم اس ملک کی مشترکہ تہذیب اور ساجھی وارثت کو کسی صورت میں بھی ختم نہیں ہونے دیں گے کیوں کہ اس حکومت کا یہی منشا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ قانون صرف مسلمانوں کو پریشان کرے گا وہ اپنی غلط فہمی دور کرلیں آسام اس کی زندہ مثال ہے۔خاتون مظاہرین میں شامل ایک ہند وخاتون رینو کوشک نے کہاکہ سوشل میڈیا پر شاہین باغ خاتون مظاہرین کی بات دیکھ کر مظاہرہ میں شامل ہوئی ہوں اور میں ان خواتین کے ساتھ رات میں بھی یہیں رہتی ہوں۔ میں اس لئے یہاں رہتی ہوں کہ ان خواتین کی مانگ جائز ہے اور اسی کی حمایت کرنے کیلئے یہاں بیٹھی ہوں تاکہ کوئی یہ نہ سکے یہ لڑائی صرف مسلمانوں کی ہے۔ اس قانون کے نفاذ سے ہمارے ملک کی مشترکہ تہذیب و ثقافت اور ہندوستان کی پہچان ختم ہوجائے گی۔
شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی خاص بات ہے کہ یہ کسی منظم کے بغیر ہے، اس کے پیچھے کوئی تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی ہے۔ اس کے باوجود یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ شاہین باغ اور دور دراز سے لوگ کھانے کا پیکٹ گاڑیوں میں بھر کر لاتے ہیں یا خود تفسیم کرتے ہیں یا رضا کار کے حوالہ کردیتے ہیں۔ کوئی پانی کی بوتلیں لیکر آتا ہے تو کوئی سموسہ لیکر آتا ہے تو کوئی کھانے کی کوئی اور چیز، دلچسپ کی بات یہاں کی یہ ہے کہ یہاں ’سیکولر‘ چائے ملتی ہے۔جو مستقل بنتی رہتی ہے اور ہزاروں لوگ پیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بڑے بڑے تھرمس میں لوگ چائے بناکر لاتے ہیں اور مظاہرین میں تقسیم کرتے ہیں۔کوئی انڈا تقسیم کرتا ہے، کوئی بسکٹ لیکر آتا ہے۔کوئی گاڑی بھر کر بریانی کے پیکیٹ لیکر آتا ہے۔ یہاں پڑھنے کے لئے فاطمہ شیخ اور جیوتی با پھولے لائبریری بھی ہے۔
یہاں مکمل طور پر گنگا جمنی تہذیب کا نظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے ایک بینر پر اوم، اللہ، سکھ کا مذہبی نشان اور صلیب کا نشان ہے۔کئی بینر اس طرح کے ہیں جس پر لکھا ہے کہ ’نو کیش نو اکاؤنٹ‘،۔ شاہین باغ میں دہلی یونیورسٹی سے سیجو اور ابھتسا چوہان، خوشبو چوہان بھی ہیں جو اپنی ٹیم کے ساتھ شاہین باغ خواتین کا حوصلہ بڑھانے کے لئے آئی ہیں اوربابجے بجاکر اس سیاہ قانون کی مخالفت کر رہی ہیں۔ بچے ہاتھوں میں کینڈل جلاکر اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہا ں ایک چھوٹا سا میڈیکل کیمپ بھی ہے جو مختلف ڈاکٹر رضاکارانہ طور پر بیٹھتے ہیں اور چھوٹی موٹی بیماری کا علاج اور طبیعت خراب کرنے والوں کو دوائی دیتے ہیں۔اس کے علاوہ لیگل ہیلپ ڈیسک بنایا گیا ہے جسے محمد انور چلاتے ہیں۔تاکہ کوئی قانونی پریشانیوں کو حل کیا جاسکے اور کسی نوٹس کا جواب دیا جاسکے۔محمد انور کی ٹیم میں کئی وکلاء بھی شامل ہیں جو رضاکارانہ طور پر ساتھ دے رہے ہیں۔ اس مظاہرہ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی کارکن اس کی حمایت کر رہے ہیں۔گرچہ اس مظاہرے کو سیاست اور سیاسی پارٹیوں سے دور رکھا جارہا ہے لیکن کوئی نہ کوئی شخص اس کی حمایت کرنے کے آہی جاتا ہے۔ ان میں سیاست داں سماجی کارکن، فلمی ہستیاں، سابق نوکر شاہ، تعلیمی، معاشی اور سماجی ہستی شامل ہیں۔ کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور،منی شنکر ایر، مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی مشہور روحانی گرو سوامی اگنی ویش اور ہندوسینا کے سربراہ یووراج سنگھ کا بھی ساتھ ملا۔
شاہین باغ خاتون مظاہرین کو دیکھ جنگ آزادی کی تحریک کا احساس ہوتا ہے۔ شاید اسی طرح جنگ آزادی کے مجاہدین مختلف فرقوں کو ساتھ لیکر جنگ لڑی ہوگی اور شاہین پوری طرح اسی نظارے کا مظہر ہے۔ طالب علم، بچے، لڑکیوں کی ٹولی چھوٹے چھوٹے گروپ میں آزادی کے نعرے لگاتے، ملک کے مسائل اور خاص طور پر سی اے اے کے خلاف بات کرتے نظر آرہے ہیں۔ وہاں ایک الگ سماں کا احساس ہوتا ہے،جہاں ہندو مسلم، سکھ عیسائی سب مل کر تحریک چلارہے ہیں۔ وہاں یہ احساس نہیں ہوتا کہ کون مسلم ہے، کون ہندو ہے، کون عیسائی ہے۔ صلح کل اور مشترکہ وارثت اور گنگا جمنا تہذیب کا سنگم نظر آتا ہے اور یہی اس تحریک کی کامیابی ہے۔گزشتہ چھ برسوں میں کسی تحریک نے حکومت کے ناکوں میں دم کیا ہے تو وہ شاہین باغ تحریک ہے جس نے نہ صرف پورے ہندوستان کی بلکہ پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے۔ اس تحریک نے نہ صرف سوچنے، دیکھنے اور پرکھنے کا نظریہ بدلا ہے بلکہ نیا نظر یہ بھی قائم کیا ہے۔
Comments
Post a Comment