عابد انور
نئی دہلی 24/فروری - مذہب کی بنیادپر تفریق کرنے والے قانون سی اے اے، این آرسی اور این پی آرکی موجودہ شکل کو ہم مستردکرتے ہیں، ہمیں ایسا کوئی قانون منظور نہیں جو آئین کی بنیادکے منافی اورشہریوں کے حقوق کو سلب کرنے والا ہو۔ یہ بات جمعیتہ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے مجلس منتظمہ کے اختتامی اجلاس میں ممبئی کے تاریخی آزادمیدان میں منعقدہ تحفظ جمہوریت کانفرنس میں کہی۔
انہوں نے کہاکہ ہندومسلم اتحاد جمعیۃعلماء ہند کی بنیاد ہے اور آج انسانوں کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمند رمیں بھی ہندومسلم اتحاد کا عملی مظاہرہ ہورہا ہے، جمعیۃعلماء ہند اسی اتحادکے سہارے ان قوانین کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلائے گی ہم اب رکنے والے نہیں جب تک حکومت ان تینوں کو واپس نہیں لیتی ہماری تحریک جاری رہے گی ہم جھکنے والے نہیں، جس طرح ملک کے ہندواور مسلمانوں نے متحدہوکر انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا تھا ہم اس حکومت کو بھی جھکنے پر مجبورکردیں گے۔
انہوں نے اس پس منظرمیں آسام کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہاں کے ہندواور مسلمان اس امتحان سے گزرچکے ہیں جمعیۃعلماء ہند پچھلے پچاس برس سے اس مسئلہ میں ان لوگوں کے ساتھ عملی طورپر شریک رہی ہے،نشانہ وہاں کے 70۔80لاکھ مسلمانوں کو ریاست سے دربدرکردینے کا تھا۔ جمعیۃعلماء ہند نے اس کو لیکر مسلسل قانونی جدوجہد کی یہاں تک کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے جب 48لاکھ خواتین کے سروں پر شہریت کھونے کی تلوار لٹکی تویہ جمعیۃعلماء ہندہی تھی جو سپریم کورٹ گئی اور اس فیصلہ کے خلاف کامیابی حاصل کی، پنچایت سرٹیفیکٹ کو قانونی دستاویز تسلیم کرلیا گیا ان 48لاکھ میں تقریبا 20لاکھ ہندوخواتین تھیں۔
مولانامدنی نے مزید کہا کہ اس جماعت کو قائم کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے اس کے منشورمیں ہندومسلم اتحادکو ہی اولیت دی تھی تب سے یہ جماعت ہندومسلم اتحاد کی راہ پر گامزن ہے اور آئندہ بھی وہ اسی راہ پر چلتی رہے گی انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سی اے اے کے ذریعہ کسی کو شہریت دیتی ہے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں لیکن مذہب کی بنیادپر آپ اس ملک میں صدیو ں سے آبادلوگوں کی شہریت چھین لیں یہ ہمیں منظورنہیں، جمعیۃعلماء ہند ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض صوبائی حکومتوں نے اسمبلی میں تجویز پاس کرکے کہا ہے کہ وہ این پی آرکولاگونہیں کریں گی اس میں وہ کامیاب ہوں گی یانہیں یہ سوال بعد کاہے، اہم بات یہ ہے کہ عوام نے بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو مستردکردیا ہے، پہلے جھارکھنڈاوراب دہلی میں اسے دھول چاٹنی پڑی ہے، یہ تنہامسلمانوں کا کارنامہ نہیں ہے اگر ہندومسلم اتحادنہ ہوتاتو اس طرح کا نتیجہ کبھی نہیں آسکتاتھا ہم اسے اس لئے خوش آئند سمجھتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات میں یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، بی جے پی نے ان دونوں ریاستوں میں جیتنے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی۔
انہوں نے جو کچھ مسلم مخالف فیصلے کئے تھے اسے الیکشن میں ہر طرح سے کیش کرانے کی کوشش بھی کی دہلی میں تو ملک کے وزیر داخلہ نے سڑکوں سڑکوں گلیوں گلیوں گھوم کر ووٹ کی بھیک بھی مانگی، لیکن انہیں نہ تو ہندووں نے ووٹ کی بھیک دی اور نہ مسلمانوں نے، مولانا مدنی نے کہا کہ اسی لئے میں کہا کرتاہوں کہ ہندومسلم اتحاد ہی ہندوستان کی اصل طاقت ہے، اللہ نے چاہاتو بہار اور بنگال میں بھی ان کا یہی حشرہونے والا ہے اس کے لئے ہندومسلم اتحاد بہت ضروری ہے آپ تنہااس لڑائی کو جیت نہیں سکتے اس اتحادکو مضبوط کرنے کے لئے ہم پورے ملک میں کام کریں گے کیونکہ ہمارایہ یقین ہے کہ اگر ہندومسلم اتحادرہے گا تو یہ ملک چلے گا اور اگر یہ ٹوٹا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔
مولانا ارشد مدنی نے حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جس طرح 1951 سے 2010 تک مردم شماری ہوتی رہی ہے اگر اسی طرز پر مردم شماری کراؤ گے توہم تمہارے ساتھ ہیں مگر موجودہ شکل میں این پی آرکو ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں عوام کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے ہماراووٹ حکومت بناتاہے اور یہی ووٹ حکومت گرابھی سکتاہے، حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے مولانامدنی نے کہا کہ تمہیں ہماری طاقت کے آگے جھکنا پڑے گا، یہ طاقت ہندومسلم اتحادکی طاقت ہے۔
مولانا مدنی نے کہاکہ سی اے اے،این پی آراور این آرسی کے خلاف پورے ملک میں ہورہے تاریخی احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مظاہرہ کررہی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پردہ نشیں مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سڑکوں پر سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے کئی مہینوں سے سراپا احتجاج ہیں ہم ان کے جذبے اور حوصلہ کو سلام کرتے ہیں۔
وزیراعظم نریندرمودی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی جی دیکھ لویہ وہی خواتین ہیں جنہیں کل آپ اپنی بہن کہتے تھے اورجن کو انصاف دینے کے نام پر آپ نے ہماری شریعت میں مداخلت کی،طلاق کا قانون لائے اور تب آپ نے کہا تھا کہ ہم نے صدیوں سے ظلم کا شکارمسلم بہنوں کو انصاف دیا ہے آج وہی بہنیں آپ کے ذریعہ لائے گئے سیاہ قانون کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہی ہیں اور آپ ان کی آوازتک سننے کو تیارنہیں ہیں اس سے ثابت ہوا کہ آپ مسلم خواتین کے ہمدردنہیں بلکہ مسلم دشمنی میں آپ نے طلاق کو قابل سزا جرم بنایا ہے۔
مولانا مدنی نے احتجاج کرنے والوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ ہرگز نہ دیں بلکہ اسے ہندومسلم ملاجلااحتجاج بنائیں انہوں نے کہا کہ اگر آپ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ دیں گے تواس کامطلب ہوگا کہ آپ بی جے پی کے نظریہ کو تقویت دے رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آگ کو آگ سے نہیں پانی سے بجھایا جاتاہے اس لئے منافرت کی اس آگ کو محبت کی بارش سے بجھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی اے اے، این پی آراور این آرسی کی صورت میں جو مصیبت ملک پر مسلط کی گئی ہے یہ تنہامسلمانوں کیلئے مصیبت نہیں بلکہ یہ سب کی لڑائی ہے کیونکہ اس سے دلت اور دوسرے کمزورطبقات بھی متاثرہوں گے انہوں نے آخرمیں ایک بارپھرحکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اوراعلان کیا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوتاوہ خاموش نہیں بیٹھیں گے انہوں نے کہا کہ ہم اسی طرح کے جلسے پورے ملک میں کریں گے ہندوّں اورمسلمانوں کو ایک ساتھ لاکر تحریک چلائیں گے اور حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبورکردیں گے۔جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی مہارشٹراکائی کے صدرممبراسمبلی ابوعاصم اعظمی نے مولانا مدنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت آج کے اس اجلاس میں آپ ہماری رہنمائی کریں کہ اب ہمیں آگے کیا کرنا ہے ساتھ ہی انہوں نے ریاستی وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے سے یہ گزارش کی کہ رواں اسمبلی اجلاس میں وہ دوسری ریاستوں کی طرح سی اے اے، این پی آرکے خلاف تجویز منظورکریں۔
سابق ریاستی وزیر عارف نسیم خاں نے اپنی تقریرمیں جمعیۃعلماء ہند کی کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃنے ملک کے آئین کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ہندومسلم اتحادکو لیکر نہ صرف بڑاکام کیا ہے بلکہ ملک کی تعمیر وترقی میں بھی اس نے اہم رول اداکیاہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اس سیاہ قانون کی مخالفت کرتے ہیں اس لئے مہاراشٹرسرکارکو بھی اس پر اپنا موقف صاف کرنا چاہئے کیونکہ ہم نے شیوسینا کو کامن مینمم پروگرام کے تحت حمایت دی ہے۔
سابق جسٹس کولسے پاٹل نے کہا کہ آج سب کچھ جھوٹ پر مبنی ہے قانون توڑنے والے اب ہم سے شہریت کا ثبوت مانگ رہے ہیں انہوں نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی آئیڈیالوجی ساورکر اور گوالکر کی تھی اور اب اسی نظریہ کے تحت یہ نیا قانون لایا گیا ہے اورہمیں غلام بنانے کی سازش ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ اگر ملک کے دلت مسلمان اور قبائل ایک ساتھ آجائیں تو ہم ملک میں ایک نیا انقلاب لاسکتے ہیں اورمحض اپنی طاقت پر ان فرقہ پرست طاقتوں کو دھول چٹاسکتے ہیں۔
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی مہارشٹراکائی کے صدرممبراسمبلی ابوعاصم اعظمی نے مولانا مدنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت آج کے اس اجلاس میں آپ ہماری رہنمائی کریں کہ اب ہمیں آگے کیا کرنا ہے ساتھ ہی انہوں نے ریاستی وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے سے یہ گزارش کی کہ رواں اسمبلی اجلاس میں وہ دوسری ریاستوں کی طرح سی اے اے، این پی آرکے خلاف تجویز منظورکریں۔سابق ریاستی وزیر عارف نسیم خاں نے اپنی تقریرمیں جمعیۃعلماء ہند کی کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃنے ملک کے آئین کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ہندومسلم اتحادکو لیکر نہ صرف بڑاکام کیا ہے بلکہ ملک کی تعمیر وترقی میں بھی اس نے اہم رول اداکیاہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اس سیاہ قانون کی مخالفت کرتے ہیں اس لئے مہاراشٹرسرکارکو بھی اس پر اپنا موقف صاف کرنا چاہئے کیونکہ ہم نے شیوسینا کو کامن مینمم پروگرام کے تحت حمایت دی ہے
اس کانفرنس سے حاجی موسی بشیر پٹیل، مولانا عبدالعلیم فاروقی، جمعیۃعلماء مہاراشٹرکے صدرمولانا مستقیم احسن اعظمی، مولانا محموددریابادی، مولاناعبداللہ ناصر،مولانا حلیم اللہ قاسمی، کانگریس اقلیتی شعبہ کے چیئرمین ندیم جاوید کے علاوہ دیگر کئی مذہبی، سیاسی اورملی شخصیتوں نے خطاب کیا۔ قابل ذکر ہے کہ مجلس منتظمہ کے اجلاس میں دستورکے مطابق دونائب صدر اور خازن کا انتخاب عمل میں آیا جن کے نام یہ ہیں،مفتی عبدالرزاق بھوپال، مولانا عبدالعلیم اروقی لکھنو، اور حاجی جمال مدراس۔
انہوں نے کہاکہ ہندومسلم اتحاد جمعیۃعلماء ہند کی بنیاد ہے اور آج انسانوں کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمند رمیں بھی ہندومسلم اتحاد کا عملی مظاہرہ ہورہا ہے، جمعیۃعلماء ہند اسی اتحادکے سہارے ان قوانین کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلائے گی ہم اب رکنے والے نہیں جب تک حکومت ان تینوں کو واپس نہیں لیتی ہماری تحریک جاری رہے گی ہم جھکنے والے نہیں، جس طرح ملک کے ہندواور مسلمانوں نے متحدہوکر انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا تھا ہم اس حکومت کو بھی جھکنے پر مجبورکردیں گے۔
انہوں نے اس پس منظرمیں آسام کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہاں کے ہندواور مسلمان اس امتحان سے گزرچکے ہیں جمعیۃعلماء ہند پچھلے پچاس برس سے اس مسئلہ میں ان لوگوں کے ساتھ عملی طورپر شریک رہی ہے،نشانہ وہاں کے 70۔80لاکھ مسلمانوں کو ریاست سے دربدرکردینے کا تھا۔ جمعیۃعلماء ہند نے اس کو لیکر مسلسل قانونی جدوجہد کی یہاں تک کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے جب 48لاکھ خواتین کے سروں پر شہریت کھونے کی تلوار لٹکی تویہ جمعیۃعلماء ہندہی تھی جو سپریم کورٹ گئی اور اس فیصلہ کے خلاف کامیابی حاصل کی، پنچایت سرٹیفیکٹ کو قانونی دستاویز تسلیم کرلیا گیا ان 48لاکھ میں تقریبا 20لاکھ ہندوخواتین تھیں۔
مولانامدنی نے مزید کہا کہ اس جماعت کو قائم کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے اس کے منشورمیں ہندومسلم اتحادکو ہی اولیت دی تھی تب سے یہ جماعت ہندومسلم اتحاد کی راہ پر گامزن ہے اور آئندہ بھی وہ اسی راہ پر چلتی رہے گی انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سی اے اے کے ذریعہ کسی کو شہریت دیتی ہے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں لیکن مذہب کی بنیادپر آپ اس ملک میں صدیو ں سے آبادلوگوں کی شہریت چھین لیں یہ ہمیں منظورنہیں، جمعیۃعلماء ہند ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض صوبائی حکومتوں نے اسمبلی میں تجویز پاس کرکے کہا ہے کہ وہ این پی آرکولاگونہیں کریں گی اس میں وہ کامیاب ہوں گی یانہیں یہ سوال بعد کاہے، اہم بات یہ ہے کہ عوام نے بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو مستردکردیا ہے، پہلے جھارکھنڈاوراب دہلی میں اسے دھول چاٹنی پڑی ہے، یہ تنہامسلمانوں کا کارنامہ نہیں ہے اگر ہندومسلم اتحادنہ ہوتاتو اس طرح کا نتیجہ کبھی نہیں آسکتاتھا ہم اسے اس لئے خوش آئند سمجھتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات میں یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، بی جے پی نے ان دونوں ریاستوں میں جیتنے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی۔
انہوں نے جو کچھ مسلم مخالف فیصلے کئے تھے اسے الیکشن میں ہر طرح سے کیش کرانے کی کوشش بھی کی دہلی میں تو ملک کے وزیر داخلہ نے سڑکوں سڑکوں گلیوں گلیوں گھوم کر ووٹ کی بھیک بھی مانگی، لیکن انہیں نہ تو ہندووں نے ووٹ کی بھیک دی اور نہ مسلمانوں نے، مولانا مدنی نے کہا کہ اسی لئے میں کہا کرتاہوں کہ ہندومسلم اتحاد ہی ہندوستان کی اصل طاقت ہے، اللہ نے چاہاتو بہار اور بنگال میں بھی ان کا یہی حشرہونے والا ہے اس کے لئے ہندومسلم اتحاد بہت ضروری ہے آپ تنہااس لڑائی کو جیت نہیں سکتے اس اتحادکو مضبوط کرنے کے لئے ہم پورے ملک میں کام کریں گے کیونکہ ہمارایہ یقین ہے کہ اگر ہندومسلم اتحادرہے گا تو یہ ملک چلے گا اور اگر یہ ٹوٹا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔
مولانا ارشد مدنی نے حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جس طرح 1951 سے 2010 تک مردم شماری ہوتی رہی ہے اگر اسی طرز پر مردم شماری کراؤ گے توہم تمہارے ساتھ ہیں مگر موجودہ شکل میں این پی آرکو ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں عوام کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے ہماراووٹ حکومت بناتاہے اور یہی ووٹ حکومت گرابھی سکتاہے، حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے مولانامدنی نے کہا کہ تمہیں ہماری طاقت کے آگے جھکنا پڑے گا، یہ طاقت ہندومسلم اتحادکی طاقت ہے۔
مولانا مدنی نے کہاکہ سی اے اے،این پی آراور این آرسی کے خلاف پورے ملک میں ہورہے تاریخی احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مظاہرہ کررہی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پردہ نشیں مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سڑکوں پر سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے کئی مہینوں سے سراپا احتجاج ہیں ہم ان کے جذبے اور حوصلہ کو سلام کرتے ہیں۔
وزیراعظم نریندرمودی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی جی دیکھ لویہ وہی خواتین ہیں جنہیں کل آپ اپنی بہن کہتے تھے اورجن کو انصاف دینے کے نام پر آپ نے ہماری شریعت میں مداخلت کی،طلاق کا قانون لائے اور تب آپ نے کہا تھا کہ ہم نے صدیوں سے ظلم کا شکارمسلم بہنوں کو انصاف دیا ہے آج وہی بہنیں آپ کے ذریعہ لائے گئے سیاہ قانون کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہی ہیں اور آپ ان کی آوازتک سننے کو تیارنہیں ہیں اس سے ثابت ہوا کہ آپ مسلم خواتین کے ہمدردنہیں بلکہ مسلم دشمنی میں آپ نے طلاق کو قابل سزا جرم بنایا ہے۔
مولانا مدنی نے احتجاج کرنے والوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ ہرگز نہ دیں بلکہ اسے ہندومسلم ملاجلااحتجاج بنائیں انہوں نے کہا کہ اگر آپ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ دیں گے تواس کامطلب ہوگا کہ آپ بی جے پی کے نظریہ کو تقویت دے رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آگ کو آگ سے نہیں پانی سے بجھایا جاتاہے اس لئے منافرت کی اس آگ کو محبت کی بارش سے بجھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی اے اے، این پی آراور این آرسی کی صورت میں جو مصیبت ملک پر مسلط کی گئی ہے یہ تنہامسلمانوں کیلئے مصیبت نہیں بلکہ یہ سب کی لڑائی ہے کیونکہ اس سے دلت اور دوسرے کمزورطبقات بھی متاثرہوں گے انہوں نے آخرمیں ایک بارپھرحکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اوراعلان کیا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوتاوہ خاموش نہیں بیٹھیں گے انہوں نے کہا کہ ہم اسی طرح کے جلسے پورے ملک میں کریں گے ہندوّں اورمسلمانوں کو ایک ساتھ لاکر تحریک چلائیں گے اور حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبورکردیں گے۔جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی مہارشٹراکائی کے صدرممبراسمبلی ابوعاصم اعظمی نے مولانا مدنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت آج کے اس اجلاس میں آپ ہماری رہنمائی کریں کہ اب ہمیں آگے کیا کرنا ہے ساتھ ہی انہوں نے ریاستی وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے سے یہ گزارش کی کہ رواں اسمبلی اجلاس میں وہ دوسری ریاستوں کی طرح سی اے اے، این پی آرکے خلاف تجویز منظورکریں۔
سابق ریاستی وزیر عارف نسیم خاں نے اپنی تقریرمیں جمعیۃعلماء ہند کی کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃنے ملک کے آئین کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ہندومسلم اتحادکو لیکر نہ صرف بڑاکام کیا ہے بلکہ ملک کی تعمیر وترقی میں بھی اس نے اہم رول اداکیاہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اس سیاہ قانون کی مخالفت کرتے ہیں اس لئے مہاراشٹرسرکارکو بھی اس پر اپنا موقف صاف کرنا چاہئے کیونکہ ہم نے شیوسینا کو کامن مینمم پروگرام کے تحت حمایت دی ہے۔
سابق جسٹس کولسے پاٹل نے کہا کہ آج سب کچھ جھوٹ پر مبنی ہے قانون توڑنے والے اب ہم سے شہریت کا ثبوت مانگ رہے ہیں انہوں نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی آئیڈیالوجی ساورکر اور گوالکر کی تھی اور اب اسی نظریہ کے تحت یہ نیا قانون لایا گیا ہے اورہمیں غلام بنانے کی سازش ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ اگر ملک کے دلت مسلمان اور قبائل ایک ساتھ آجائیں تو ہم ملک میں ایک نیا انقلاب لاسکتے ہیں اورمحض اپنی طاقت پر ان فرقہ پرست طاقتوں کو دھول چٹاسکتے ہیں۔
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی مہارشٹراکائی کے صدرممبراسمبلی ابوعاصم اعظمی نے مولانا مدنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت آج کے اس اجلاس میں آپ ہماری رہنمائی کریں کہ اب ہمیں آگے کیا کرنا ہے ساتھ ہی انہوں نے ریاستی وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے سے یہ گزارش کی کہ رواں اسمبلی اجلاس میں وہ دوسری ریاستوں کی طرح سی اے اے، این پی آرکے خلاف تجویز منظورکریں۔سابق ریاستی وزیر عارف نسیم خاں نے اپنی تقریرمیں جمعیۃعلماء ہند کی کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃنے ملک کے آئین کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ہندومسلم اتحادکو لیکر نہ صرف بڑاکام کیا ہے بلکہ ملک کی تعمیر وترقی میں بھی اس نے اہم رول اداکیاہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اس سیاہ قانون کی مخالفت کرتے ہیں اس لئے مہاراشٹرسرکارکو بھی اس پر اپنا موقف صاف کرنا چاہئے کیونکہ ہم نے شیوسینا کو کامن مینمم پروگرام کے تحت حمایت دی ہے
اس کانفرنس سے حاجی موسی بشیر پٹیل، مولانا عبدالعلیم فاروقی، جمعیۃعلماء مہاراشٹرکے صدرمولانا مستقیم احسن اعظمی، مولانا محموددریابادی، مولاناعبداللہ ناصر،مولانا حلیم اللہ قاسمی، کانگریس اقلیتی شعبہ کے چیئرمین ندیم جاوید کے علاوہ دیگر کئی مذہبی، سیاسی اورملی شخصیتوں نے خطاب کیا۔ قابل ذکر ہے کہ مجلس منتظمہ کے اجلاس میں دستورکے مطابق دونائب صدر اور خازن کا انتخاب عمل میں آیا جن کے نام یہ ہیں،مفتی عبدالرزاق بھوپال، مولانا عبدالعلیم اروقی لکھنو، اور حاجی جمال مدراس۔
Comments
Post a Comment