عابد انور
شاہین باغ اس وقت صرف ایک مظاہرہ گاہ نہیں ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگ شامل ہوکر قومی یکجہتی، حب الوطنی، بھائی چارہ، مشترکہ تہذیب اور مشترکہ وراثت کی مثال پیش کر رہے ہیں بلکہ نہ صرف ہندوستان بھر میں بلکہ پوری دنیا میں احتجاج کی علامت بن چکا ہے۔ شاہین باغ نام آتے ہی احتجاج کرتی ہوئی خواتین کا چہرہ سامنے آجاتا ہے جس کے بارے میں کل تک کہا جاتا تھا کہ وہ باڑے میں رہتی ہیں، چہار دیواری میں قید ہیں۔ برقعہ اور حجاب نے ان سے ان کی آزادی چھین لی ہے۔ ان کے دماغ کی کھڑکیاں بند ہوتی ہیں، ان کی کوئی سوچ نہیں ہے، وہ شوہر کے اشارے پر چلتی ہیں، اس کے آگے ان کی کوئی سوچ نہیں ہے لیکن شاہین باغ باغ مظاہرین نے ان تمام مفروضات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے تمام لوگوں کو محو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ جس طرح منظم انداز میں مظاہرہ کررہی ہیں اور وہ بھی بغیر کسی تنظیم کی رہ نمائی کے، کسی کی پشت پناہی کے اور کسی کی سرپرستی کے بغیر پورے ملک میں دھرنا دے رہی ہیں اور احتجاج کر رہی ہیں۔ اس سے سب لوگ حیران ہیں، انہیں یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔ اس کی اواز میں آواز پوری دنیا میں ملائی جارہی ہے،صرف امریکہ میں ایک دن 30سے زائد مقامات پر شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ یوروپی یونین کے 700اراکین پارلیمنٹ میں سے چھ سو سے زائد نے چھ تجویزیں سی اے اے کے خلاف پیش کی ہیں۔ عرب ممالک میں جو دفعہ 370کے معاملے میں کھل کر نہیں بول رہے تھے آج دونوں پر اجلاس بلایا ہے۔ امریکہ اور یوروپ میں مسلم خواتین کے تئیں جو نظریہ تھا وہ بدل گیا ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے جو نظریہ پیدا کیا گیا تھا وہ اس میں تبدیلی آرہی ہے۔ یہ سب شاہین باغ خاتون مظاہرین کی بدولت ہوا ہے۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے ہندوستان کے منظر نامے کوبھی بدل دیا ہے۔ سب سے اہم کام یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے ذہن سے خوف و دہشت کو نکال دیا ہے جس کی وجہ سے مسلمان اپنے حق کی آواز نہیں اٹھاپارہے تھے۔ آج پورے ملک میں اس سیاہ قانون کے خلاف نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی آواز اٹھارہی ہیں اور اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنے طویل رات دن کا مظاہرہ اور دھرنا دے نئی تاریخ رقم کررہی ہیں۔ یہ خواتین کہتی ہیں کہ اس سے پہلے ہمارے بچے سڑکوں پر مرے ہم سڑکوں پر مرنے کو تیار ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 15 دسمبر کو پولیس کے حملے دوران مسلم لڑکیوں نے اس کا ثبوت دے بھی دیا ہے۔ ان کی بہادری کا اندازہ لگا ئیں ان کے خلاف معاملات درج کئے جارہے ہیں، ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیا جارہا ہے اور یہاں تک 500روپے میں بکنے والی تک کہا جارہاہے لیکن اس کے باوجود ان خواتین نے یہ ثابت کردیا کہ وقت آنے پر اور ملک میں خلاف قانون کوئی کام ہونے پر وہ کسی چیز کی پرواہ کئے بغیر ملک کی حفاظت کے لئے نکل سکتی ہیں اور نکل کر دکھا دیا ہے۔ شاہین باغ اور ملک کے دیگر حصے کے شاہین باغ خواتین نے بہت ہی باکمال کے پیغامات دئے ہیں جسے بین السطور پڑھنے کی ضرورت ہے۔
قومی شہرت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین نے 15دسمبر سے اپنا دھرنا شروع کیا تھا۔ یہ مظاہرہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کے حملے
کے خلاف شروع کیا اور جب جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اے بی وی پی کے غنڈوں نے حملہ کیا تو اس وقت بھی کھڑی ہوئی ہیں اور باضابطہ پریس کانفرنس کرکے جے این یو طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کی۔ بھیم آرمی کے سربرہا چندر شیکھر عرف راون کے خلاف پولیس کی زیادتی کی مذمت اور متعدد بار رہائی کی اپیل کی۔ دراصل شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والی خواتین احتجاج اور انصاف کے حق میں آواز بلند کرنے کی ایک علامت بن چکی ہیں۔ کوئی کچھ کہے، دھمکی دے یا بدتمیزی کرے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج کے واقعہ نے ان کی ہمت، حوصلہ اور جرات کو اور بھی بڑھادیا ہے۔شاہین باغ خاتون مظاہرین کے جوش و خروش، ہمت اورعزم میں ہندو شدت پسند تنظیمو ں کی دھمکی، گولی چلنے اور شاہین باغ سریتاوہار میں ان تنظیموں کی موجودگی کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی ہے اور پوری شدت اور دم خم کے ساتھ دٹی ہوئی ہیں۔شاہین باغ میں اس وقت خاتون پرامن طریقے سے دھرنا پر بیٹھی ہوئی ہیں لیکن سریتاوہار کی طرف سے پولیس کے ساتھ پچاس کے آس پاس ہندوشدت پسندوں کے رکن کھڑے ہیں۔ ابھی ان کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پولیس کے ساتھ وہ لوگ وہاں کیا کررہے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندو شدت پسند تنظیموں کو پولیس کی حمایت حاصل ہے ورنہ وہ لوگ یہاں آنے کی ہمت نہیں کرتے۔ کئی روز سے مسلسل دھمکی دی جارہی تھی۔ ہندو شدت پسند تنظیموں سے منسلک ارکان نے شاہین باغ کو خالی کرانے اور اس سے نمٹنے کی دھمکی دی تھی اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ لوگ یہاں آبھی گئے تھے۔ انتظامیہ ایسے شرپسند عناصرکو بڑھاوا دے رہی ہے۔ مرکزی وزائے رکن پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کھلے عام گولی مارنے کی بات کررہے ہیں لیکن پولیس، انتظامیہ، عدلیہ اور قومی انسانی حقوق کمیشن یہاں تک کے اقلیتی کمیشن بھی اس پر کوئی نوٹس نہیں لے رہا ہے جس کی وجہ سے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ اس کی جگہ اگر کوئی مسلمان گولی مارنے کی بات کرتا تو ان پر درجن بھر دفعات لگانے کے ساتھ جیل میں بھیج دیا گیا ہوتا اور پورے ملک میں ان کے خلاف نفرت کا ماحول تیار کیا جارہا ہوتا لیکن اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں فائرنگ کرنے والے کے ایک ہندو تنظیم نے انعام کا اعلان کیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پولیس اور عدلیہ کیا کارروائی کرتی ہے۔ پہلے پولیس نے اسے نابالغ قراردیا ہے جب کہ اس کے والد کی موت 20 سال پہلے ہوچکی ہے۔ ہندی میڈیا اور پولیس نے اسے نابالغ قرار دیا ہے دراصل وہ اس کی ماں کو گالی دے رہے ہیں۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جاری مظاہرے کے بارے میں مسلسل بی جے پی اور اس کی حکومت الٹے سیدھے بیان دے رہی تھی اور مطاہرین کو مارنے پر اکسا رہی تھی۔ گزشتہ دنوں ایک مرکزی وزیر اسٹیج پر دیش کے غداروں کو جوتے مارو.... نعرے لگواتے رہے اور یہ نعرہ پولیس کی موجودگی میں لگا لیکن وزیر داخلہ امت شاہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ وہ اسی طرح راستے پر چلتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی کہ اتنا زور سے بٹن دباؤ کے کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے اور کپل گوجر نامی کرنٹ پہنچ گیا۔ شاہین باغ میں کپل گوجر نے فائرنگ کرکے دہشت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی یہ انہی ذہنیت کی پیداوار ہے جو ذہن کچھ مرکزی وزراء اور کچھ کارکان پارلیمنٹ تیار کر رہے ہیں۔خاتون مظاہرین نے ہندوشدت پسند تنظیموں کے ارکان کی موجودگی کے بارے میں کہا کہ ہمارے عزم کو وہ لوگ متزلزل نہیں کرسکتے۔ ہم کسی کے کارندے یا کسی کے اشارے میں چلنے والے نہیں ہیں کسی سے ڈرجائیں۔ ہم ملک کے آئین اور دستور کو بچانے کے لئے نکلے ہیں۔ ہم کسی ذات مفادات کی تکمیل کے لئے نہیں بیٹھی ہیں اس لئے ہمیں کوئی فائرنگ، کوئی گیدڑ بھبکی، کوئی دھمکی ہمیں اپنے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹاسکتی۔ پورا ملک ہی نہیں پوری دنیا میں شاہین باغ مظاہرین کی علامت بن چکا ہے اس لئے یہ لوگ اسے ہٹانے کے لئے اور آپس میں خلل ڈالنے کے لئے ہر طرح کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین کومیڈیا کے ایک طبقے کے تئیں زبردست غضہ اور ناراضگی ہے ااور ان کا کہناکہ میڈیا کا ایک طبقہ نہ صرف ہمارے پرامن مظاہرے کو بدنام کر رہا ہے بلکہ ہمیں ’مینٹل ٹارچر‘ بھی کر رہا ہے۔ شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی وجہ سے ہر جگہ رکاوٹ کھڑی کرنے کے باوجود آج ملک میں سیکڑوں شاہین باغ چکے ہیں اور حکومت اس سے گھبرا گئی ہے اور قانون کو واپس لینے اور مظاہرین کی بات سننے کے بجائے میڈیا کے ذریعہ ہمارا ٹرائل کیا جارہاہے اور اپنے کارندوں کو بھیج کر شاہین باغ خاتون مظاہرین کے بارے میں طرح طرح باتیں کی جارہی ہیں۔ پہلے حکومت مختلف طرح سے احتجاج ختم کرانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب نہ ہوئی تو حکومت میڈیا کے ذریعہ اوچھی حرکت پر اترآئی ہے۔ میڈیا یا حکومت ہماری پریشانی سننے کے بجائے یہاں بریانی، پانچ سو روپے اور دیگر سطحی باتیں کررہی ہے۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے دنیا کے ایک مثال پیش کی ہے اس طرح بھی مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔ جو بھی صحیح بات کرنا چاہے اس کا خیرمقدم ہے اور یہاں دنیا بھر کے میڈیا والے آتے ہیں لیکن کچھ ایسے میڈیا والے بھی جو صرف ہمیں بدنام کرنے آتے ہیں۔ جو خواتین کبھی میڈیا سے بات نہیں کرپاتی تھی آج میڈیا کو شکست دے رہی ہیں اور بے بات جواب دیکر نہ صرف اپنا دفاکررہی ہیں بلکہ میڈیا،اور حکومت کو آئینہ دیکھا رہی ہیں۔وزیر داخلہ امت شاہ کے اس بیان پر کہ زور سے اس طرح بٹن دباَؤ کے اس کا کرنٹ شاہین تک پہنچے، پر ایک خاتون نے کہا تھا کہ اس طرح کی سوچ پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے اور وہ اس سے بہتر کچھ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمیں ان کی حالت پر اور ان کی سوچ پر ترس آتا ہے.، غصہ نہیں۔ ایک دیگر خاتون مظاہرین نے روی شنکر کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ان کو ہر جگہ ہندو مسلمان نظر آتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے لڑانا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے اور ان کے مظاہرے کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ایسے لوگ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑا کر رہے ہیں جن لوگوں نے ملک کی آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ شاہین باغ نے گنگا جمنی تہذیب اور ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کی بہترین مثال پیش کی ہے۔ہم ہندوؤں کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں۔ ہمیں جتنا اعتماد آئین پر ہے یہاں کے قانون پر اتنا اعتماد کو ان کونہیں ہے کیوں کہ ان میں سے کچھ لوگ ہمیشہ آئین کے خلاف کام کرتے نظر آتے ہیں۔
بی جے پی لیڈروں کو شاہین باغ مظاہرہ کس قدر پریشانی ہے کہ شاہین باغ معاملے پر الٹے سیدھے بیان دے رہے ہیں۔ ان میں سے کسی میں بھی مسئلہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے اس لئے وہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کے تعلق سے غلط اور ہتک آمیز بیان بازی کر رہے ہیں۔ شاہین باغ خاتون پر پانچ سوروپے لیکر دھرنا دینا کا الزام لگاتی ہے تو جینے کی آزاد ی کو جناح کی آزادی قرار دیتی ہے اور شرجیل امام کے علی گڑھ میں کی گئی تقریر کو شاہین کی تقریر کہہ کر شاہین باغ خاتون مظاہرین کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔دہلی الیکشن میں شاہین باغ کو موضوع بنانے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہی ہاتھ لگی۔شاہین باغ خاتون مظاہرین کا مطالبہ سننے کے بجائے روز نئے نئے وزیر، لیڈر اور میڈیا کے ایک طبقیے کو میدان میں اتارتی ہے اس سے گھٹیا سوچ اور کیا ہوگی۔شاہین باغ خواتین مظاہرہ نے ملک میں ایک پیغام دے دیا ہے نتیجہ خواہ اس کا کچھ بھی آئے لیکن لیکن مسلمان بیدار ہوچکے ہیں اور اسی طرح بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہی اثاثہ ہمیں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مہمیز کا کام کرے گا۔
Comments
Post a Comment