عابد انور
نئی دہلی، 23 فروری (مسرت نیوز)دہلی پولیس اور اترپردیش پولیس کی بربریت رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔گزشتہ 19دسمبر سے قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف جاری مظاہرے کو ناکام کرنے کے لئے اترپردیش پولیس نے درندگی کی انتہا کردی تھی اور 15 دسمبر 2019کو اترپردیش پولیس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اور دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بغیر اجازت کے داخل ہوکر طلبہ و طالبات پر بربریت کا مظاہرہ کیا تھا۔ طالبات کے ہوسٹلوں میں گھس کران کے ساتھ نازیبا حرکت کی تھی۔ بعض طالبات جو باتھ روم میں گھس گئی تھیں دہلی پولیس نے ان کو بدتمیزی کا نشانہ بنایاتھا۔ اب تازہ ترین معاملے میں جعفرآباد، موج پوری، حوض رانی میں مظاہرین اور خاص طور پر خاتون مظاہرین کے ساتھ وحشیت کا مظاہرہ کیا ہے۔حالانکہ یہ مظاہرین پرامن طریقے سے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔اب تک ان کے سارے مظاہرے پرامن رہے ہیں البتہ فسطائی طاقتوں نے اپنے غنڈوں اور ورکروں کو بھیج کر گولی چلانے سے لیکر پتھراؤ تک کیا ہے لیکن ا ن مظاہرین نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
شمال مشرقی دہلی کے موج پور ی علاقے میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون(سی اے اے)، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف کے خلاف مظاہرہ کر نے والے اور اس کی حمایت میں آئے لوگوں کے درمیان خشت باری ہوئی ہے جس کی وجہ سے پولیس کو آنسو گیس چھوڑ کر حالات قابو کرنے پڑے۔ سابق رکن ِ اسمبلی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے شدت پسند لیڈر کَپل مشرا نے ٹوئٹر کے ذریعہ لوگوں سے موج پور چوک پر پہنچنے کے لئے کہا تھا۔ موج پور میں سے اے اے کی حمایت میں آئے مظاہرین نے نعرے بازی کی اور اس کے بعد خشت باری شروع ہو گئی۔ ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ کچھ دیر کے لئے خشت باری ہوئی لیکن اب حالات قابو میں ہیں۔ علاقے میں کشیدگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے موج پور اور بابر پور میٹرو اسٹیشن کو کچھ وقت کے لئے بند کر دیا گیا تھا۔ وہیں مسٹر مشرا نے ٹویٹ کر کے دہلی پولیس کو تین دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے”جعفر آباد اور چاند باغ کی سڑکیں خالی کرواے۔ اس کے بعد ہمیں مت سمجھا ئیے گا۔ ہم آپ کی بھی نہیں سنیں گے، صرف تین دن“۔انہوں نے ایک مزید ٹویٹ میں کہا کہ دہلی میں دوسرا شاہین باغ نہیں بننے دیں گے۔اس کے ساتھ ہی مسٹر مشرا نے پولیس کے سامنے بھی سڑکوں کو خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا اور کہا کہ ان کے حامیوں کی جانب سے پتھراؤ نہیں کیا گیا ہے۔سی اے اے کے خلاف احتجاج کے مدِ نظر جعفر آباد، سیلم پور، چاندباغ، موج پور اور اس کے ارد گرد اضافی سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔
دریں اثناء جنوبی دہلی کے مالویہ نگر علاقے میں اتوار کو شہریت ترمیمی قانون (سی ایاے) کے خلاف مارچ کو روکنے کے لئے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا جس سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔ مالویہ نگر علاقے کے حوض رانی میں مظاہرین بھیم آرمی کے بھارت بند کی کال کی حمایت میں مارچ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن پولیس کی جانب سے مارچ نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔جنوبی دہلی کے پولیس ڈپٹی کمشنر اتل ٹھاکر نے بتایا کہ مظاہرین نے مالویہ نگر علاقے میں کئی مقامات پر سڑک کو جام کر دیا۔ اس دوران پولیس اہلکاروں کے ساتھ ان کی نوک جھونک بھی ہوئی۔اس کے بعدپولیس نے طاقت کا استعمال کیا۔ اس دوران کئی خواتین پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئی ہیں۔ ایک خاتون مظاہرین نے بتایا کہ پولیس نے خواتین کو تیزی کے ساتھ دھکیل دیا جس کی وجہ سے خواتین ایک دوسرے پر گر گئی۔ پولیس نے لاٹھیوں کے سہارے پیچھے دھکیلا جس کی وجہ سے کئی خواتین زخمی ہو گئی۔ انہوں نے بتایا کہ جن خواتین کی گود میں بچے تھے انہیں بھی نہیں بخشا گیا۔
قبل ازیں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف دہلی کے شاہین باغ کی طرز پر جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے قریب ہفتہ کو دیر رات اچانک خواتین نے جمع ہوکر احتجاج شروع کر دیا۔سینکڑوں خواتین آدھی رات کو جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے سے گزرنے والی سڑک پر بیٹھ گئیں اور سی اے اے، این پی آر اور این آرسی کے خلاف نعرے بازی کرنے لگیں۔’پنجرہ توڑ آندولن‘ کی ایک رکن دیوانگنا لتا نے بتایا کہ جعفرآباد میں طویل عرصہ سے مظاہرہ ہورہاہے لیکن کل دیر رات تقریبا ایک ہزار خواتین اپنے دھرے کے مقام سے کوچ کر کے جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے بیٹھ گئیں۔ یہاں بڑی تعداد میں پولیس فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ پولیس نے ان سے سڑک سے ہٹنے کی اپیل کی لیکن مظاہرین مذکورہ قوانین کے خلاف کے نعرے لگاتی رہیں۔
ایک سوال کے جواب میں دیوانگنا نے کہا کہ احتجاج و مظاہرہ کو مکمل طور پر مقامی خواتین نے شروع کیا ہے۔ ’پنجرہ توڑ‘ پر یہاں کی سڑک کو جام کرنے کا الزام لگانا بالکل بے بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں بھی احتجاج ہورہا ہے وہاں کے لوگوں اور سماجی تنظیموں کو بدنام کرنے کے لئے طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں تاکہ تحریک کو کمزور کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ آئین بچانے کی جنگ میں سماج کے ہر فرقہ کے لوگ خود گھروں سے نکل کر آرہے ہیں اور مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے قریب بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔
علی گڑھ سے موصولہ اطلاع کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ کے پرامن مظاہرہ پر پولیس نے لاٹھی چارج کرکے بربریت کا مظاہرہ کیا۔ اترپردیش پولیس کا ریکارڈ نہایت بھیانک رہا ہے۔اس سے پہلے بھی اے ایم یو طلبہ پر پولیس درندگی کا مظاہرہ کر چکی ہے۔کسی نہ کسی بہانے پولیس ظلم کا پہاڑ توڑنے سے باز نہیں آرہی ہے۔ حالانکہ اے ایم یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا رجسٹرار آئی پی ایس افسر ہے اس کے باوجود دونوں جگہ طلبہ پر پولیس نے مظالم ڈھائے ہیں۔ تازہ ترین ظلم اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس کا مقصد احتجاج کو کچلنا ہے۔
وہیں بھیم آرمی کی جانب سے ’بھارت بند‘ کی حمایت میں چاندباغ (مصطفیٰ آباد) کے مظاہرین نے راج گھاٹ تک مارچ نکالنے کا اعلان کیا ہے۔قابل غور ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ کے ساتھ حوض خاص، جعفرآباد، سیلم پور، مصطفیٰ آباد، نظام الدین، اندرلوک اور منڈاؤلی سمیت دس سے زائد مقامات پر دھرنا و احتجاج ہورہے ہیں۔
Comments
Post a Comment