اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کا وزیر اعلی بننا، مسلمانوں کے لئے معنی
عابد انور
اترپردیش جیسی ریاست میں جہاں سب سے زیادہ پارلیمانی حلقے ہیں اورسب سے زیادہ اسمبلی کی سیٹیں ہیں، یہ ریاست ملک کے رخ طے کرنے سمیت وزیر اعظم سے لیکر صدر جمہوریہ کے انتخاب میں بھی اہم رول ادا کرتی ہے۔ سب سے زیادہ وزیر اعظم اسی ریاست نے دیا ہے۔ یہ سب سے زدیادہ آ بادی والی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی کی اچھی خاصی ہے۔ وہ صرف اپنے بل بوتے پر تقریباً 120نشستیں جیت سکتے ہیں۔ لیکن اس بار اس کے حصے میں صرف 26سیٹیں آئی ہیں۔اس کے کیا اسباب ہیں، کیا کھیل ہوا، صف بندی کتنی ہوئی، سیکولر فورس کتنی کامیاب ہوئی اور انہوں نے کتنی محنت کی کے قطع نظر اپنی توجہ اس بات پر مرکوز کرتے ہیں کہ اترپردیش میں بی جے پی کے اتنی بڑی کامیابی کے معنی ہوں گے اس پر سونے پر سہاگہ اس ریاست کی حکومت کا کمان ایسے شخص کو دیا گیا ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی، انہیں دھمکی دینے،مسلم خواتین کو قبر سے نکال کر آبروریزی کرنے، پاکستان بھیج دینے، ایک ہندو خاتون کے بدلے دس مسلم لڑکیوں کے ساتھ ناجائز سلوک کرنے کا بیان دے چکے ہیں بلکہ نصف درجن سے زائد ان پر مجرمانہ مقدمات بھی ان پردرج ہیں۔ ا ن کی زیر سرپرستی چلنے والی ہندو یووا واہنی اور دیگر تنظیموں میں غیر سماجی سرگرمیاں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اس کے خلاف قابل اعتراض پوسٹ کرنے والے ایک مسلم طلبہ لیڈر عبدالرزاق کو تو گرفتار کرلیا گیا، سریش کندر کو معافی مانگی پڑی، اکشے کمار کی اہلیہ فلم اداکارہ ٹوئنکل کھنہ کو بھی برے کمنٹ برداشت کرنے پڑے۔ لیکن ہندوستان میں اور خاص طور پر اترپردیش میں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا اعلان کرنے والے پر اب تک کوئی حرف نہیں آیا ہے۔
اترپردیش میں نئے وزیر اعلی کے انتخاب کا مسلمانوں کے لئے کیا معنی رکھتے ہیں۔ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، گورکشک دل ، ہندو یوواواہنی، درگا واہنی، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور اس طرح کی دیگر آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظموں کی سرگرمیوں کا مرکز اترپردیش ہی ہے۔ اترپردیش جہاں مسلمانوں کی بھی بہت سی تنظیمیں،ان پر کیا اثر پڑے گا۔ دونوں کے درمیان کس حد تک ٹکراؤ ہوگا۔ یہ بات تو طے ہے اور چھوٹے موٹے واقعات سلسلہ چل پڑا ہے اوراس میں شدت آئے گی۔ مسلمانوں کی دکا نوں، مکانوں، فیکٹریوں اور دیگر تنصیبات پر حملے ہوں گے، کسی بھی مسلم ہوٹل کو گائیے کے گوشت کے نام پر نشانہ بناکر تہس نہس کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ریاستی انتظامیہ سمیت ضلعی انتظامیہ کی کہیں خاموش تو کہیں کھلم کھلا بھاگیداری شامل رہے گی۔ اسٹیج سے بھید بھاؤ اور امتیاز سے پاک انتظامیہ کا اعلان توکیا جائے گا لیکن کریں گے وہی جو حکومت کی منشا ہے ۔ اس کے لیڈر اور اس کے سرپرست آر ایس ایس جوچاہتے ہیں۔ آر ایس ایس کبھی اپنا نظریہ نہیں بدلتی بلکہ موقع کے حساب سے اور وقت کے لحاظ سے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لاتی ہے۔ ان کا نشانہ ہندو راشٹر کا قیام ہے اور وہ اس نظریہ سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔سپریم کورٹ سینئر وکیل فالی نریمن نے یوگی آدتیہ ناتھ کو اترپردیش کا وزیر اعلی بنایا جانا ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی جانب ایک پہل قرار دیا ہے۔اس پرعمل کے لئے آر ایس ایس کے پاس حکمت عملی تیار ہے۔وہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کرنا نہیں چاہتی بلکہ چھوٹے موٹے فساد کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں میں خوف دہشت کا ماحول قائم کرنا چاہتی ہے۔ کیوں کہ اگر گجرات اور مظفر نگر جیسے فسادات ہوں گے تو ملک کی بدنامی ہوگی اور اس کا اثر ملک کے بنیوں پر پڑے گا جو حکومت اور آر ایس ایس والے کبھی نہیں چاہیں گے کہ بنیوں پر اثر پڑے۔ کیوں کہ آر ایس ایس کو فنڈنگ کرنے والے ہندوستان کے بنئے ہی ہیں۔ اس لئے آر ایس ایس نے گجرات فسادات کے بعد ہی اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرلی تھی۔ ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے فسادات، مکانوں، دکانوں، راہ چلتے مسلمانوں پر ، گائے اور جانوروں کی تجارت کرنے والے مسلمانوں پر ، سفر کے دوران،غرضیکہ ہر جگہ مسلمانوں کے لئے دہشت کا ماحول قائم کرنا چاہتے ہیں۔ فسادات خوف و دہشت قائم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اترپردیش میںیوگی کے نام کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں اور ان کے گھروں پر حملے شروع شروع ہوگئے تھے۔
اترپردیش فسادات کے لئے سب سے زرخیز زمین ثابت ہوا ہے۔فسادات کی لمبی تاریخ ہے۔ اترپردیش کے حساس ہونے کی وجہ سے فسادات کی کھیتی جلدی لہلہانے لگتی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے حلف لیتے ہی غیر قانونی مذبح کے نام پر مسلمانوں کی دکانوں، مکانوں اور کاروباری ادارے پر حملے شروع ہوگئے۔ امروہہ میں گائے چوری کے الزم میں ایک مسلم نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا۔ گجرات کے پاٹن میں مسلمانوں پر پانچ ہزار ہندوؤں نے حملہ کرکے ان کے گھروں کو آگے لگادی اور اس واقعہ میں تین مسلمان ہلاک ہوگئے اور دمتعدد زخمی ہوگئے ۔ وہاں پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ اترپردیش میں متعدد جگہ پر مسلمانوں پر حملے ہوچکے ہیں۔ تازہ معاملہ ہاپوڑ کا ہے۔ چار لوگوں کے گھروں پر حملہ کرکے پانچ لوگوں کو زخمی کردیا۔ خوف یہ عالم ہے کہ پولیس کی تعیناتی کے باوجود سات کنبے کے 40افراد گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ضلع کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر حملہ کرکے خوف کے نفسیات میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ دھولانا علاقے میں ایک مسلمان کو اکثریتی فرقہ کے افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہ تو صرف ایک ٹیلر ہے ، پوری فلم ابھی باقی ہے۔ فسادات میں ہمیشہ مسلمانوں کا ہی نقصان ہوا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کام مسلمانوں کو انصاف فراہم کرنا نہیں ہوتا بلکہ ہندو فرقہ کے لوگوں کو بچانا ہوتا ہے۔ آر ایس ایس خوف کے ذریعہ مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی غلام بنانا چاہتی ہے۔یاد رکھنے والی یہ بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم خوف زدہ ہوتی ہے توان کی ترقی کے سارے دروازے اپنے آپ بند ہوجاتے ہیں۔
یوگی آدیہ ناتھ کے اترپردیش کے کمان سنبھالنے کے بعد جس طرح کے بیانات آرہے ہیں اور جس طرح وہ لوگوں کو قانون ہاتھ نہ لینے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔یہ ہاتھی کے دانت کی مانند ہے جو کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ ان کے جو اہداف متعین تھے وہ اب بھی ہیں۔ مسلمانوں پر گاہے بگاہے حملے جاری رہیں گے۔جب ان کو ضرورت پڑے گی تو اترپردیش میں دوسرا گجرات اور مظفر نگر کو دہرایا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کے وزیر یہ اعلان کرہی چکے ہیں کہ مظفر نگر کے فسادات کے ملزمین کے مقدمے واپس لئے جائیں گے۔ہندو یووا واہنی نے دھمکی دی ہے کہ اگر کسی نے اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کئے یا بدنام کرنے کی کوشش کی اس کی خیر نہیں ۔ ایسی صورت حال اترپردیش میں خوف سے پاک سماج کا تصور مشکل نظرآرہا ہے۔ مسلمان اس وقت زبردست خوف کے شکار ہیں۔اترپردیش میں بہت سے کاروبار غیر رجسٹرڈ اور غیر لائسنس یافتہ ہوتے ہیں لیکن ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے اور صرف مسلمانوں کے کاروبار پر نشانہ لگایا ہے۔درحقیقت اس حکومت کا منشا بھی مسلمانوں کو خوف کے حصار میں قید کرنا ہے۔اس کی جانب یوگی حکومت نے اپنے قدم تیزی سے بڑھانے شروع کردئے ہیں۔ جگہ جگہ حملے ہورہے ہیں، اینٹی رومیو اسکواڈ کے بہانے وہ لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ اور بدتمیزی عام بات ہوگی، موٹر سائیکل پر کسی رشتے دار کے ساتھ جانے والی لڑکی کو سر راہ بے عزت کیا جائے گا، ان کو جسمانی طور پر پریشان کیا جائے گا۔ چھوٹے موٹے دنگے ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں پر حملہ عام بات ہوگی، پولیس کی کارروائی یکطرفہ ہوگی۔ ہندویووا واہنی،درگا واہنی،بجرنگ دل اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیمیں پولیس کی نگرانی میں مسلمانوں پر، ان کے کاروبار پر اور ان کی عزت و آبروریزی پر حملے کریں گے۔ پولیس ان لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرے گی اور اگر کرے گی بھی تو اتنے ہلکے دفعات میں مقدمات درج ہوں گے پہلی ہی سماعت میں انہیں ضمانت مل جائے گی۔ عدالت ان شدت پسندوں کے خلاف سخت فیصلہ نہیں کرپائے گی۔ امن کا مطلب ہندو شدت پسندوں کی غنڈہ گردی ہوگا۔ کوئی بھی امن پسند اور سیکولرلوگ ان کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو ان کو مارنے کی دھمکی دی جائے گی، اگر کوئی خاتون ہے تو ا ن کی اجتماعی آبروریزی کی دھمکی دی جائے بلکہ دی جانی شروع ہوگئی ہے۔ سیکولر اورانصاف کی بات کرنے والوں کے خلاف طوفان کی بدتمیزی ، گالی گلوج،ماں بہن کی گالی اور پورے خاندان کو تذلیل کرنے کا سلسلہ تو مودی کے عروج کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ اس میں بہت شدت آگئی ہے اور اب یہ بڑے پیمانے پر ہوگا۔ ہندوستان کی سول سوسائٹی تو پہلے ہی سے نامرد تھی اور اب مکمل طور پر سجدہ ریز ہوجائے گی۔ تعلیمی اداروں میں خوف و دہشت کے ماحول میں تعلیم دی جائے گی، لوگ اپنی مرضی کے مطابق نہ تو کھانا کھا سکیں گے اور نہ ہی کپڑے پہن سکیں گے۔ ہندو شدت پسندوں کا غنڈہ کہیں بھی آکر کسی کو پریشان کرسکے گا۔ ان غنڈوں کو پولیس کی گاڑی مہیا ہوگئی ہے۔ اس سے اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے یوگی حکومت کا خاموش پیغام کیا ہے۔غنڈہ وہ کس کو کہہ رہے ہیں، مجرم سے مراد کیا ہے۔ اترپردیش میں جس طرح کے حالات ہیں اور جس طرح ہندو شدت پسندوں کو کھلے عام شکار کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیاہے کا اس کاموازنہ طالبان ، بوکوحرام،برما کے شدت پسند بودھسٹ اور دیگر شدت پسند گروپوں سے کیا جاسکتا ہے۔ ان گروپوں اور ہندو شدت پسند گروپوں میں فرق یہ ہے کہ وہاں ان لوگوں کو حکومت کی حمایت حاصل نہیں ہے جب کہ ہندوستان میں ان کو حکومت کی شہہ حاصل ہے۔ یہ لوگ پارٹی کے ووٹر ہیں اور پارٹی کے لئے مہم چلاتے ہیں۔ پارٹی انہیں مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے۔
abidanwarun@gmail.com
9810372335
9891596593
عابد انور
اترپردیش جیسی ریاست میں جہاں سب سے زیادہ پارلیمانی حلقے ہیں اورسب سے زیادہ اسمبلی کی سیٹیں ہیں، یہ ریاست ملک کے رخ طے کرنے سمیت وزیر اعظم سے لیکر صدر جمہوریہ کے انتخاب میں بھی اہم رول ادا کرتی ہے۔ سب سے زیادہ وزیر اعظم اسی ریاست نے دیا ہے۔ یہ سب سے زدیادہ آ بادی والی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی کی اچھی خاصی ہے۔ وہ صرف اپنے بل بوتے پر تقریباً 120نشستیں جیت سکتے ہیں۔ لیکن اس بار اس کے حصے میں صرف 26سیٹیں آئی ہیں۔اس کے کیا اسباب ہیں، کیا کھیل ہوا، صف بندی کتنی ہوئی، سیکولر فورس کتنی کامیاب ہوئی اور انہوں نے کتنی محنت کی کے قطع نظر اپنی توجہ اس بات پر مرکوز کرتے ہیں کہ اترپردیش میں بی جے پی کے اتنی بڑی کامیابی کے معنی ہوں گے اس پر سونے پر سہاگہ اس ریاست کی حکومت کا کمان ایسے شخص کو دیا گیا ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی، انہیں دھمکی دینے،مسلم خواتین کو قبر سے نکال کر آبروریزی کرنے، پاکستان بھیج دینے، ایک ہندو خاتون کے بدلے دس مسلم لڑکیوں کے ساتھ ناجائز سلوک کرنے کا بیان دے چکے ہیں بلکہ نصف درجن سے زائد ان پر مجرمانہ مقدمات بھی ان پردرج ہیں۔ ا ن کی زیر سرپرستی چلنے والی ہندو یووا واہنی اور دیگر تنظیموں میں غیر سماجی سرگرمیاں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اس کے خلاف قابل اعتراض پوسٹ کرنے والے ایک مسلم طلبہ لیڈر عبدالرزاق کو تو گرفتار کرلیا گیا، سریش کندر کو معافی مانگی پڑی، اکشے کمار کی اہلیہ فلم اداکارہ ٹوئنکل کھنہ کو بھی برے کمنٹ برداشت کرنے پڑے۔ لیکن ہندوستان میں اور خاص طور پر اترپردیش میں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا اعلان کرنے والے پر اب تک کوئی حرف نہیں آیا ہے۔
اترپردیش میں نئے وزیر اعلی کے انتخاب کا مسلمانوں کے لئے کیا معنی رکھتے ہیں۔ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، گورکشک دل ، ہندو یوواواہنی، درگا واہنی، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور اس طرح کی دیگر آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظموں کی سرگرمیوں کا مرکز اترپردیش ہی ہے۔ اترپردیش جہاں مسلمانوں کی بھی بہت سی تنظیمیں،ان پر کیا اثر پڑے گا۔ دونوں کے درمیان کس حد تک ٹکراؤ ہوگا۔ یہ بات تو طے ہے اور چھوٹے موٹے واقعات سلسلہ چل پڑا ہے اوراس میں شدت آئے گی۔ مسلمانوں کی دکا نوں، مکانوں، فیکٹریوں اور دیگر تنصیبات پر حملے ہوں گے، کسی بھی مسلم ہوٹل کو گائیے کے گوشت کے نام پر نشانہ بناکر تہس نہس کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ریاستی انتظامیہ سمیت ضلعی انتظامیہ کی کہیں خاموش تو کہیں کھلم کھلا بھاگیداری شامل رہے گی۔ اسٹیج سے بھید بھاؤ اور امتیاز سے پاک انتظامیہ کا اعلان توکیا جائے گا لیکن کریں گے وہی جو حکومت کی منشا ہے ۔ اس کے لیڈر اور اس کے سرپرست آر ایس ایس جوچاہتے ہیں۔ آر ایس ایس کبھی اپنا نظریہ نہیں بدلتی بلکہ موقع کے حساب سے اور وقت کے لحاظ سے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لاتی ہے۔ ان کا نشانہ ہندو راشٹر کا قیام ہے اور وہ اس نظریہ سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔سپریم کورٹ سینئر وکیل فالی نریمن نے یوگی آدتیہ ناتھ کو اترپردیش کا وزیر اعلی بنایا جانا ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی جانب ایک پہل قرار دیا ہے۔اس پرعمل کے لئے آر ایس ایس کے پاس حکمت عملی تیار ہے۔وہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کرنا نہیں چاہتی بلکہ چھوٹے موٹے فساد کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں میں خوف دہشت کا ماحول قائم کرنا چاہتی ہے۔ کیوں کہ اگر گجرات اور مظفر نگر جیسے فسادات ہوں گے تو ملک کی بدنامی ہوگی اور اس کا اثر ملک کے بنیوں پر پڑے گا جو حکومت اور آر ایس ایس والے کبھی نہیں چاہیں گے کہ بنیوں پر اثر پڑے۔ کیوں کہ آر ایس ایس کو فنڈنگ کرنے والے ہندوستان کے بنئے ہی ہیں۔ اس لئے آر ایس ایس نے گجرات فسادات کے بعد ہی اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرلی تھی۔ ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے فسادات، مکانوں، دکانوں، راہ چلتے مسلمانوں پر ، گائے اور جانوروں کی تجارت کرنے والے مسلمانوں پر ، سفر کے دوران،غرضیکہ ہر جگہ مسلمانوں کے لئے دہشت کا ماحول قائم کرنا چاہتے ہیں۔ فسادات خوف و دہشت قائم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اترپردیش میںیوگی کے نام کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں اور ان کے گھروں پر حملے شروع شروع ہوگئے تھے۔
اترپردیش فسادات کے لئے سب سے زرخیز زمین ثابت ہوا ہے۔فسادات کی لمبی تاریخ ہے۔ اترپردیش کے حساس ہونے کی وجہ سے فسادات کی کھیتی جلدی لہلہانے لگتی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے حلف لیتے ہی غیر قانونی مذبح کے نام پر مسلمانوں کی دکانوں، مکانوں اور کاروباری ادارے پر حملے شروع ہوگئے۔ امروہہ میں گائے چوری کے الزم میں ایک مسلم نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا۔ گجرات کے پاٹن میں مسلمانوں پر پانچ ہزار ہندوؤں نے حملہ کرکے ان کے گھروں کو آگے لگادی اور اس واقعہ میں تین مسلمان ہلاک ہوگئے اور دمتعدد زخمی ہوگئے ۔ وہاں پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ اترپردیش میں متعدد جگہ پر مسلمانوں پر حملے ہوچکے ہیں۔ تازہ معاملہ ہاپوڑ کا ہے۔ چار لوگوں کے گھروں پر حملہ کرکے پانچ لوگوں کو زخمی کردیا۔ خوف یہ عالم ہے کہ پولیس کی تعیناتی کے باوجود سات کنبے کے 40افراد گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ضلع کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر حملہ کرکے خوف کے نفسیات میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ دھولانا علاقے میں ایک مسلمان کو اکثریتی فرقہ کے افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہ تو صرف ایک ٹیلر ہے ، پوری فلم ابھی باقی ہے۔ فسادات میں ہمیشہ مسلمانوں کا ہی نقصان ہوا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کام مسلمانوں کو انصاف فراہم کرنا نہیں ہوتا بلکہ ہندو فرقہ کے لوگوں کو بچانا ہوتا ہے۔ آر ایس ایس خوف کے ذریعہ مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی غلام بنانا چاہتی ہے۔یاد رکھنے والی یہ بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم خوف زدہ ہوتی ہے توان کی ترقی کے سارے دروازے اپنے آپ بند ہوجاتے ہیں۔
یوگی آدیہ ناتھ کے اترپردیش کے کمان سنبھالنے کے بعد جس طرح کے بیانات آرہے ہیں اور جس طرح وہ لوگوں کو قانون ہاتھ نہ لینے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔یہ ہاتھی کے دانت کی مانند ہے جو کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ ان کے جو اہداف متعین تھے وہ اب بھی ہیں۔ مسلمانوں پر گاہے بگاہے حملے جاری رہیں گے۔جب ان کو ضرورت پڑے گی تو اترپردیش میں دوسرا گجرات اور مظفر نگر کو دہرایا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کے وزیر یہ اعلان کرہی چکے ہیں کہ مظفر نگر کے فسادات کے ملزمین کے مقدمے واپس لئے جائیں گے۔ہندو یووا واہنی نے دھمکی دی ہے کہ اگر کسی نے اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کئے یا بدنام کرنے کی کوشش کی اس کی خیر نہیں ۔ ایسی صورت حال اترپردیش میں خوف سے پاک سماج کا تصور مشکل نظرآرہا ہے۔ مسلمان اس وقت زبردست خوف کے شکار ہیں۔اترپردیش میں بہت سے کاروبار غیر رجسٹرڈ اور غیر لائسنس یافتہ ہوتے ہیں لیکن ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے اور صرف مسلمانوں کے کاروبار پر نشانہ لگایا ہے۔درحقیقت اس حکومت کا منشا بھی مسلمانوں کو خوف کے حصار میں قید کرنا ہے۔اس کی جانب یوگی حکومت نے اپنے قدم تیزی سے بڑھانے شروع کردئے ہیں۔ جگہ جگہ حملے ہورہے ہیں، اینٹی رومیو اسکواڈ کے بہانے وہ لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ اور بدتمیزی عام بات ہوگی، موٹر سائیکل پر کسی رشتے دار کے ساتھ جانے والی لڑکی کو سر راہ بے عزت کیا جائے گا، ان کو جسمانی طور پر پریشان کیا جائے گا۔ چھوٹے موٹے دنگے ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں پر حملہ عام بات ہوگی، پولیس کی کارروائی یکطرفہ ہوگی۔ ہندویووا واہنی،درگا واہنی،بجرنگ دل اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیمیں پولیس کی نگرانی میں مسلمانوں پر، ان کے کاروبار پر اور ان کی عزت و آبروریزی پر حملے کریں گے۔ پولیس ان لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرے گی اور اگر کرے گی بھی تو اتنے ہلکے دفعات میں مقدمات درج ہوں گے پہلی ہی سماعت میں انہیں ضمانت مل جائے گی۔ عدالت ان شدت پسندوں کے خلاف سخت فیصلہ نہیں کرپائے گی۔ امن کا مطلب ہندو شدت پسندوں کی غنڈہ گردی ہوگا۔ کوئی بھی امن پسند اور سیکولرلوگ ان کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو ان کو مارنے کی دھمکی دی جائے گی، اگر کوئی خاتون ہے تو ا ن کی اجتماعی آبروریزی کی دھمکی دی جائے بلکہ دی جانی شروع ہوگئی ہے۔ سیکولر اورانصاف کی بات کرنے والوں کے خلاف طوفان کی بدتمیزی ، گالی گلوج،ماں بہن کی گالی اور پورے خاندان کو تذلیل کرنے کا سلسلہ تو مودی کے عروج کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ اس میں بہت شدت آگئی ہے اور اب یہ بڑے پیمانے پر ہوگا۔ ہندوستان کی سول سوسائٹی تو پہلے ہی سے نامرد تھی اور اب مکمل طور پر سجدہ ریز ہوجائے گی۔ تعلیمی اداروں میں خوف و دہشت کے ماحول میں تعلیم دی جائے گی، لوگ اپنی مرضی کے مطابق نہ تو کھانا کھا سکیں گے اور نہ ہی کپڑے پہن سکیں گے۔ ہندو شدت پسندوں کا غنڈہ کہیں بھی آکر کسی کو پریشان کرسکے گا۔ ان غنڈوں کو پولیس کی گاڑی مہیا ہوگئی ہے۔ اس سے اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے یوگی حکومت کا خاموش پیغام کیا ہے۔غنڈہ وہ کس کو کہہ رہے ہیں، مجرم سے مراد کیا ہے۔ اترپردیش میں جس طرح کے حالات ہیں اور جس طرح ہندو شدت پسندوں کو کھلے عام شکار کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیاہے کا اس کاموازنہ طالبان ، بوکوحرام،برما کے شدت پسند بودھسٹ اور دیگر شدت پسند گروپوں سے کیا جاسکتا ہے۔ ان گروپوں اور ہندو شدت پسند گروپوں میں فرق یہ ہے کہ وہاں ان لوگوں کو حکومت کی حمایت حاصل نہیں ہے جب کہ ہندوستان میں ان کو حکومت کی شہہ حاصل ہے۔ یہ لوگ پارٹی کے ووٹر ہیں اور پارٹی کے لئے مہم چلاتے ہیں۔ پارٹی انہیں مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے۔
abidanwarun@gmail.com
9810372335
9891596593
Comments
Post a Comment