کارپوریٹ گھرانے کی نذر دہلی کی کیجریوال حکومت تیشہ فکر عابد انور /kejriwal govt. corporate and corruption/abid anwar
کارپوریٹ گھرانے کی نذر دہلی کی کیجریوال حکومت
تیشہ فکر عابد انور
کیجریوال حکومت کے خاتمہ سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ کوئی حکومت یہاں کے کارپوریٹ گھرانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ کارپوریٹ گھرانے اس قدرطاقتور ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر حکومت کا کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ ہندوستان میں ہمیشہ ہی بنیوں کا دبدبہ رہا ہے وہ ایک حریف گروپ کی مدد کرکے تختہ الٹنے کی سازش میں شامل رہے ہیں۔ بادشاہ اور ان کے شہزادے بنیوں کے مقروض رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مغلیہ خاندان کے شہزادوں کا ذکر کیا جاسکتا ہے اورنمک حرام کی حویلی کی مثال دی جاسکتی ہے۔ اس کا مقصد بنیوں کا دبدبے کاذکر کرنا مقصود ہے ۔بنیوں کی لابی کس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ کوئی بھی حکومت اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) حکومت کے دوران بنیوں نے کافی ترقی کی تھی۔ امید تھی کہ قومی ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت بینوں اورصنعتی گھرانوں پرنکیل کس کر ہندوستانی عوام کو راحت کا سامان مہیا کرائے گی اور مہنگائی سے سسکتے بلکتے عوام کو نجات دلائے گی لیکن کانگریس کی اس دس سالہ حکومت میں بنیوں اور صنعتی گھرانوں کو جم کر دونوں ہاتھوں سے ملکی دولت لوٹنے کا موقع ملا۔ ان بنیوں کی ذاتی دولت میں بے تحاشہ اضافہ سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ٹو جی اسپیکٹرم، کوئلہ، دولت مشترکہ اوردیگر گھپلوں سے دس سال کے دوران بنیوں اورصنعتی گھرانوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس کے صنعتی گھرانوں کو ضروری اشیا کو کنٹرول رکھنے کیلئے تقریباً پچاس لاکھ کروڑ روپے کی سبسڈی اور دوسری رعایت دی گئی اس کے باوجود مہنگائی آسمان سے باتیں کرتی ہے اور غریب بدترین غربت کے شکار ہیں۔ دراصل حکومت صنتعی گھرانوں سے کئی گنا ریٹ پر سامان خریدتی ہے جس سے کمپنیوں کو اربوں کھربوں روپے کا فائدہ ہوتاہے اورکمپنیاں ان اربوں کھربوں کی ناجائز کمائی سے حکومت ، وزرائے سیاسی پارٹیوں کی پروش کرتی ہیں۔ وقت آنے پر وہ لوگ کمپنیوں کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پارلیمنٹ اوراسمبلی خرید و فروخت میں جو رقم خرچ ہوتی ہے وہ وہ رقم یہی کارپوریٹ گھرانے فراہم کرتے ہیں۔ نرسمہا راؤ نے پورے پانچ سال تک اقلیتی حکومت چلائی تھی اس میں کاپوریٹ گھرانے نے فنڈ مہیا کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ اس کے بعد کئی ممبران کے اکاؤنٹ میں خطیر رقم پائی گئی تھی اور اس کے بعد کئی ممبران پارلیمنٹ کے خلاف کئی سال تک مقدمہ بھی چلاتھا۔ لیکن وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے کہ امیر آرام سے تمام جرائم سے پاک صاف ہوکر نکلتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیاہے کہ سزا یافتگان میں 83 فیصد کاتعلق کمزور طبقہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ صنعتی گھرانے کے خلاف میدان میں آئیں جس نے کوشش کی ان کا وجود مٹ گیا۔اس لئے کسی حکومت کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ان کاپوریٹ گھرانوں کے خلاف کوئی فیصلہ کریں اوراس پر عمل کروائیں۔ سابق وزیر پیٹرولیم جے پال ریڈی نے مقررہ مقدارمیں گیس نہ نکالنے کی وجہ سے ایک صنعتی گروپ کے خلاف سو کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا ۔ کمپنی نے جرمانہ ادا تو نہیں کیا البتہ جے پال ریڈی کی کرسی چلی گئی۔ ان کی جگہ لینے والے وزیر نے جرمانہ کی رقم وصولنے کی زحمت نہیں کی۔ کارپوریٹ گھرانے کی لابی اور مکڑ جال اس قدر مضبوط ہے کہ آج تک اسے کوئی توڑ نہیں سکا ہے۔ کیجریوال نے ایف آئی آر درج کرکے ہمت دکھائی ان کی حکومت کے دوکٹر حریف اور مخالف اس کے خلاف ایک ساتھ اکٹھے ہوگئے اور کیجریوال حکومت نے استعفی دے دیا۔یہ کاپوریٹ گھرانے کی طاقت کی ادنی سی مثال۔
کیجریوال حکومت کا وہی حشر ہوا جس کی ابتداء سے ہی قیاس آرائی کی جارہی تھی۔جہاں بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کی بانچھیں کھل گئی ہیں وہیں کانگریس اپنی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہے۔ اس حکومت سے کوئی سب سے زیادہ پریشان تھا وہ بی جے پی تھی اور اس کے لیڈر ہرش وردھن تھے جن کے چہرے پر ہر وقت مایوسی، غصہ، جھنجھلاہٹ، نفرت اور کسی حدتک جانے آثار نمایاں ہوتے تھے۔ کانگریس کے لیڈروں سے عیاری ٹپک رہی تھی۔خصوصاً تعلیم مافیا کے نام مشہور اس کے سابق وزیر کی جھنجھلاہٹ قابل دید تھی۔ انہیں اس پر غصہ آتا تھا ہماری حمایت پر کیجریوال حکومت چلارہے ہیں اور ہمیں ہی کھرا کھوٹا کہنے اوربدعنوانی میں الزام میں ہمارا محاصرہ کرنے پر وقت تلے نظر آتے ہیں۔ آج کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکومت بنتے ہی کسی حکومت کے خلاف حمایت کرنے والی اور اپوزیشن گروپ تلوار لیکر میدان جنگ میںآجائے۔ چھ مہینے اور سال بھر کا وقت دیا جاتا ہے تاکہ وہ حکومت کو سمجھ سکے، نظام کا مطالعہ کرسکے۔ اس کے بعداس پر تنقید کی جاتی ہے، حملہ کیا جاتا ہے لیکن کیجریوال حکومت پر پہلے دن سے ہی بی جے پی اور کانگریس کیجریوال حکومت کے خون کے پیاسے تھے۔ اروند لولی کی بے شرمی قابل دید تھی جن ٹیچروں کو وہ پانچ تک وزیر تعلیم رہتے ہوئے مستقل نہ کرسکے تھے وہ کیجریوال حکومت سے چند دنوں میں مستقل کرنے کامطالبہ کرنے پہنچ گئے۔ یہی نہیں بلکہ عارضی ٹیچروں کے دھرنے میں شامل ہو گئے۔ شیلا حکومت نے اپنے پندرہ سالہ دور اقتدار میں مسلم اداروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ وقف بورڈ، اقلیتی کمیشن، اردواکیڈمی اور دیگر اداروں کو ناکارہ بنادیا۔ دہلی حکومت میں درجنوں اردو کے عہدے کو یا تو ختم کردیا گیا یااسے کبھی پر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس کے مسلم وزیر ہارون یوسف نے مسلمانوں کے لئے قبرستان حاصل کرنے کے بجائے قبرستان کی زمین ملینیم پارک کے لئے دے دی۔ مرکزی حکومت کے دس برسوں کے دوران ڈی ڈی اے نے سیکڑوں وقف مساجد اور قبرستانوں کو منہدم کرکے قبضہ کیالیکن دہلی اور مرکزی حکومت کسی وزیر یا مسلم وزیروں نے اسے روکنے کی کبھی زحمت نہیں کی۔لیکن یہی وزیر کیجریوال حکومت پر چند ہفتوں کے اقتدار میں تمام مسائل حل نہ کرنے کیلئے تنقید کررہے ہیں۔ سیاست میں اخلاقیات عنقاہے ۔ اس کے باوجود کیجریوال نے حکومت کو ٹھوکروں پر رکھا۔ اسی بات کاثبوت انہوں نے استعفی دے کر دیا ہے۔
دہلی اسمبلی میں جن لوک پال بل پیش نہ کر پانے سے ناراض دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے جمعہ کو عہدے سے استعفی دے دیا ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بدعنوان لوگوں کے خلاف کارروائی کے ڈر سے کانگریس اور بی جے پی نے مل کر یہ بل پیش نہیں کرنے دیا ۔ اپنے استعفی کے ساتھ کیجریوال نے دہلی اسمبلی تحلیل کرکے فوری طور پر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ۔صدر جمہوریہ نے لیفٹننٹ گورنر کی صدر راج کے نفاذ کی سفارش کو منظور کرتے ہوئے ا دہلی میں صدر راج نافذ کردیا۔ اب دہلی میں بالواسطہ کانگریس کی حکومت ہے ۔ اس کا خمیازہ لوک سبھا الیکشن میں اسے بھگتناپڑ سکتا ہے۔ 2 اکتوبر2012 یعنی گاندھی جینتی کے دن عام آدمی پارٹی کی تشکیل کرنے والے اروند کیجریوال نے 2014 کے ویلنٹائن ڈے یعنی محبت کے دن پر اپنی حکومت قربان کر دی ۔ حکومت چلانے کے 49 ویں دن انہیں یہ بخوبی احساس ہو گیا کہ موجودہ حالات میں جن لو کپال کے ساتھ ان کی محبت کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ جمعہ کو دہلی اسمبلی میں بھاری ہنگامے کے درمیان کیجریوال حکومت نے جن لوکپال بل پیش کرنے کی کوشش کی ، لیکن کانگریس اور بی جے پی نے یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ لیفٹننٹ گورنر کی اجازت کے بغیر یہ بل پیش ہی نہیں ہو سکتا ۔ایوان میں اس مسئلے پر ووٹنگ ہوئی ہوا اور بل پیش کرنے کی تجویز گر گئی۔ اس کے بعد کیجریوال نے دیر نہیں کی ۔انہوں نے پارٹی دفتر پہنچ کر جوش میں بھرے کارکنوں کے درمیان استعفی دینے کا اعلان کر دیا ۔کیجریوال نے دو دن پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ اگر وہ جن لوکپال بل پیش اور پاس نہیں کر پائے تو استعفی دے دیں گے ۔ انا ہزارے نے کہا کہ جن لوک پال اور محلہ سبھا پر کیجریوال نے جو بل لایا تھا اس پر مخالف جماعتوں نے احتجاج کیا تو کیجریوال نے استعفی دے دیا ۔کیجریوال کو استعفی دینا بدقسمتی ہے ۔دونوں اہم بل ہیں۔کیجریوال نے اسمبلی میں کانگریس اور بی جے پی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کے مکیش امبانی کے اشارے پر جن لوک پال کی مخالفت کی ہے۔ مکیش امبانی کے معاملے پر دونوں پارٹیاں اکٹھی ہوگئی ہیں۔
اروند کیجریوال نے بدعنوانی ،حکومت کے خزانے کو نقصان پہنچانے اور گیس کی منمانی قیمت پردینے کے سلسلے میں مکیش امبانی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کے خلاف اینٹی کرپشن بیورو کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا ۔ جس پر رہنما سمیت یہ لوگ چراغ پا تھے۔ یہ پہلی بار ایسانہیں ہوا ہے کہ کیجریوال نے مکیش امبانی پر بدعنوانی کا الزام لگایا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس طرح الزامات لگاتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے انڈیا اگینسٹ کرپشن کے تحت اروند کیجریوال نے الزام لگایا تھا کہ ایچ ایس بی سی بینک کے جنیوا برانچ میں 700 لوگوں کے 6000 کروڑ روپے کا کالا دھن جمع ہے۔ اروند کیجریوال نے کہا تھا کہ حکومت انہیں بچانے کی کوشش کر رہی ہے اور جرائم کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ انہیں یہ معلومات ایک کانگریس کے رہنما سے ملی ہے، کیجریوال نے کہا کہ ان کے پاس کچھ ہی نام ہیں اور سارے 700 لوگوں کی فہرست نہیں ہے۔ انہوں نے ان میں کئی بڑے صنعت کاروں کے نام لئے۔ اس کے علاوہ کیجریوال نے جن لوگوں کے نام لئے ہیں، ان میں ایک سابق ایس افسر اور ایک کانگریس ممبر پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔روند کیجریوال نے جن لوگوں پر یہ الزام لگائے تھے، ان میں سے مکیش امبانی کی ریلائنس انڈسٹریز نے انڈیا اگینسٹ کرپشن کے لگائے تمام الزامات سے انکار کیا تھا۔
عام آدمی پارٹی (آپ) نے کانگریس اور بی جے پی کو بدعنوانی کے فروغ میں یکساں شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ دونوں پارٹیاں کارپوریٹ گھرانوں کا کھلونابنی ہوئی ہیں۔ اس نے بجلی کے معاملے پر بی جے پی سے پانچ سوال کئے تھے۔ایک، کیا بی جے پی کو اس بات کی جانکاری تھی کہ ڈی ای آر سی نے اپریل 2010 میں دہلی میں بجلی کی شرح میں 23 فیصد کمی کرنے والا ایک حکم تیار کیا تھا؟ دو، کیا بی جے پی کو جانکاری تھی کہ شیلا دکشت حکومت نے ڈی ای آر سی کے اس حکم کو دبا دیا ہے؟ تین، کیا یہ سچ ہے کہ بی جے پی نے اس بارے میں دہلی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں کوئی سوال نہیں پوچھا؟ اگر پوچھا تھا تو کیا؟ چار، کیا یہ سچ ہے کہ بی جے پی نے ار ٹی ائی کے ذریعہ بجلی کے دام کو 23 فیصد تک کم کرنے والا ڈی ای آر سی کا حکم حاصل کر لیا تھا؟ پانچ، اگر بی جے پی نے ڈی ای آر سی کا وہ حکم حاصل کر لیا تھا تو وہ اس پر چپ کیوں بیٹھی رہی ۔کانگریس اور بی جے پی کی منشا انسداد بدعنوانی کی روک تھام ہوتی تووہ جن لوک پال کے طریقہ کار سوال اٹھانے کے بجائے اس کی حمایت کرتی۔ اگر یہ بل پیش کرنے طریقہ غلط تھا تو اس کافیصلہ عدالت کرتی۔ لیکن جس طرح عجلت میں دونوں پارٹیوں نے قدم اٹھایا اس سے کیجریوال کا راستہ خود بخود ہموار ہوگیا ۔ اب کیجریوال کو شہید کا درجہ حاصل ہوگیا ہے اور یہ کہاجانے لگا ہے کہ انہوں نے بدعنوانی کے خلاف کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور اس کیلئے اپنی حکومت قربان کردی۔ گرچہ کانگریسی وزرائے اور لیڈران راست بدعنوانی میں نام نہیں آرہا ہے لیکن اتحاد ی ہونے کی صورت میں اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ بدعنوانی اتحادی کی بدعنوانی کی سزا کانگریس کو ملے گی۔اس کے علاوہ دہلی کے لیفٹننٹ گورنر جامعہ کے وائس چانسلر بننے سے پہلے ریلائنس کے ساتھ وابستہ تھے اور ریلائنس کو اس وقت بہت سارے ٹھیکے دئے گئے تھے جب کہ مرکزی حکومت میں سکریٹری تھے اور اس کے بعد ابھی حالیہ امبانی کی لیفٹننٹ گورنر سے ملاقات یہ اپنے آپ میں بہت کچھ کہتا ہے کہ دال میں کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے۔اس ملاقات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کاپوریٹ گھرانہ کا دبدبہ کس قدر ہے۔ اس کے اشارے کے بغیر حکومت کچھ بھی نہیں کرسکتی۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آخر کار کیجریوال نے جلدبازی میں یہ فیصلہ کیوں کیا ۔ اس کی وجہ وہ دہلی کے عوام سے کیا گیا وہ وعدہ ہے جس میں انہوں نے کہاکہ حکومت کی تشکیل کے پندرہ دن کے اندر جن لوک پال بل لائیں گے۔ اگریہ بل پاس ہوجاتا تو لوک سبھا الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو زبردست فائدہ ہوتا۔ بجلی، پانی پر اپنا وعدہ جزوی طور پر پوراکرچکے ہیں۔اس بل کے پاس ہونے کی صورت میں پورے ہندوستان میں زبردست پیغام جاتا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے نظریے سے جہاں کچھ لوگ اسے عاجلانہ قدم قرار دیا ہے وہیں کچھ ماہرین لوک سبھا انتخابات زبردست فائدہ اٹھانے والاقدم بتایا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عوام کے درمیان زبردست پیغام گیا ہے۔ اروند کیجریوال کا استعفی ایک ماسٹر سٹروک ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان کانگریس کو ہو سکتا ہے اور یہ بی جے پی کو بھی غیر آرام دہ پوزیشن میں ڈال سکتا ہے۔ لیکن سیاست میں دو اور دو ہمیشہ چار نہیں ہوتے۔ چیزیں اتنی آسان نہیں ہوتیں جتنی کہ نظر آتی ہیں۔یہ سوال ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ کیا عام آدمی پارٹی کی سیاسی زمین اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ وہ دوبارہ انتخاب کے لئے تیار نظر آنے کی کوشش کر رہی ہے۔عام آدمی پارٹی کی پیدائش ہی بدعنوانی مخالف تحریک کی کوکھ سے ہوئی تھی۔ اس لئے اس کا فائدہ اسے حاصل ہوگا۔ جن لوک پال بل کے سلسلے میں بھی قانونی ماہرین کی رائے منقسم ہے۔بہر حال ایک بات تو طے ہے کہ صنعتی لابی بہت مضبوط ہے وہ نہ صرف افسران کی تبدیلی کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ حکومت کو بھی بدلنے کی اہلیت ان میں ہے۔ اس لئے جب ان صنعتی گھرانوں پر نکیل نہیں کسا جاتا اس وقت تک ہندوستان سے بدعنوانی اور مہنگائی دور نہیں ہوگی۔
ڈی۔64، فلیٹ نمبر10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔25
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
تیشہ فکر عابد انور
کیجریوال حکومت کے خاتمہ سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ کوئی حکومت یہاں کے کارپوریٹ گھرانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ کارپوریٹ گھرانے اس قدرطاقتور ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر حکومت کا کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ ہندوستان میں ہمیشہ ہی بنیوں کا دبدبہ رہا ہے وہ ایک حریف گروپ کی مدد کرکے تختہ الٹنے کی سازش میں شامل رہے ہیں۔ بادشاہ اور ان کے شہزادے بنیوں کے مقروض رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مغلیہ خاندان کے شہزادوں کا ذکر کیا جاسکتا ہے اورنمک حرام کی حویلی کی مثال دی جاسکتی ہے۔ اس کا مقصد بنیوں کا دبدبے کاذکر کرنا مقصود ہے ۔بنیوں کی لابی کس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ کوئی بھی حکومت اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) حکومت کے دوران بنیوں نے کافی ترقی کی تھی۔ امید تھی کہ قومی ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت بینوں اورصنعتی گھرانوں پرنکیل کس کر ہندوستانی عوام کو راحت کا سامان مہیا کرائے گی اور مہنگائی سے سسکتے بلکتے عوام کو نجات دلائے گی لیکن کانگریس کی اس دس سالہ حکومت میں بنیوں اور صنعتی گھرانوں کو جم کر دونوں ہاتھوں سے ملکی دولت لوٹنے کا موقع ملا۔ ان بنیوں کی ذاتی دولت میں بے تحاشہ اضافہ سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ٹو جی اسپیکٹرم، کوئلہ، دولت مشترکہ اوردیگر گھپلوں سے دس سال کے دوران بنیوں اورصنعتی گھرانوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس کے صنعتی گھرانوں کو ضروری اشیا کو کنٹرول رکھنے کیلئے تقریباً پچاس لاکھ کروڑ روپے کی سبسڈی اور دوسری رعایت دی گئی اس کے باوجود مہنگائی آسمان سے باتیں کرتی ہے اور غریب بدترین غربت کے شکار ہیں۔ دراصل حکومت صنتعی گھرانوں سے کئی گنا ریٹ پر سامان خریدتی ہے جس سے کمپنیوں کو اربوں کھربوں روپے کا فائدہ ہوتاہے اورکمپنیاں ان اربوں کھربوں کی ناجائز کمائی سے حکومت ، وزرائے سیاسی پارٹیوں کی پروش کرتی ہیں۔ وقت آنے پر وہ لوگ کمپنیوں کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پارلیمنٹ اوراسمبلی خرید و فروخت میں جو رقم خرچ ہوتی ہے وہ وہ رقم یہی کارپوریٹ گھرانے فراہم کرتے ہیں۔ نرسمہا راؤ نے پورے پانچ سال تک اقلیتی حکومت چلائی تھی اس میں کاپوریٹ گھرانے نے فنڈ مہیا کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ اس کے بعد کئی ممبران کے اکاؤنٹ میں خطیر رقم پائی گئی تھی اور اس کے بعد کئی ممبران پارلیمنٹ کے خلاف کئی سال تک مقدمہ بھی چلاتھا۔ لیکن وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے کہ امیر آرام سے تمام جرائم سے پاک صاف ہوکر نکلتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیاہے کہ سزا یافتگان میں 83 فیصد کاتعلق کمزور طبقہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ صنعتی گھرانے کے خلاف میدان میں آئیں جس نے کوشش کی ان کا وجود مٹ گیا۔اس لئے کسی حکومت کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ان کاپوریٹ گھرانوں کے خلاف کوئی فیصلہ کریں اوراس پر عمل کروائیں۔ سابق وزیر پیٹرولیم جے پال ریڈی نے مقررہ مقدارمیں گیس نہ نکالنے کی وجہ سے ایک صنعتی گروپ کے خلاف سو کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا ۔ کمپنی نے جرمانہ ادا تو نہیں کیا البتہ جے پال ریڈی کی کرسی چلی گئی۔ ان کی جگہ لینے والے وزیر نے جرمانہ کی رقم وصولنے کی زحمت نہیں کی۔ کارپوریٹ گھرانے کی لابی اور مکڑ جال اس قدر مضبوط ہے کہ آج تک اسے کوئی توڑ نہیں سکا ہے۔ کیجریوال نے ایف آئی آر درج کرکے ہمت دکھائی ان کی حکومت کے دوکٹر حریف اور مخالف اس کے خلاف ایک ساتھ اکٹھے ہوگئے اور کیجریوال حکومت نے استعفی دے دیا۔یہ کاپوریٹ گھرانے کی طاقت کی ادنی سی مثال۔
کیجریوال حکومت کا وہی حشر ہوا جس کی ابتداء سے ہی قیاس آرائی کی جارہی تھی۔جہاں بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کی بانچھیں کھل گئی ہیں وہیں کانگریس اپنی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہے۔ اس حکومت سے کوئی سب سے زیادہ پریشان تھا وہ بی جے پی تھی اور اس کے لیڈر ہرش وردھن تھے جن کے چہرے پر ہر وقت مایوسی، غصہ، جھنجھلاہٹ، نفرت اور کسی حدتک جانے آثار نمایاں ہوتے تھے۔ کانگریس کے لیڈروں سے عیاری ٹپک رہی تھی۔خصوصاً تعلیم مافیا کے نام مشہور اس کے سابق وزیر کی جھنجھلاہٹ قابل دید تھی۔ انہیں اس پر غصہ آتا تھا ہماری حمایت پر کیجریوال حکومت چلارہے ہیں اور ہمیں ہی کھرا کھوٹا کہنے اوربدعنوانی میں الزام میں ہمارا محاصرہ کرنے پر وقت تلے نظر آتے ہیں۔ آج کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکومت بنتے ہی کسی حکومت کے خلاف حمایت کرنے والی اور اپوزیشن گروپ تلوار لیکر میدان جنگ میںآجائے۔ چھ مہینے اور سال بھر کا وقت دیا جاتا ہے تاکہ وہ حکومت کو سمجھ سکے، نظام کا مطالعہ کرسکے۔ اس کے بعداس پر تنقید کی جاتی ہے، حملہ کیا جاتا ہے لیکن کیجریوال حکومت پر پہلے دن سے ہی بی جے پی اور کانگریس کیجریوال حکومت کے خون کے پیاسے تھے۔ اروند لولی کی بے شرمی قابل دید تھی جن ٹیچروں کو وہ پانچ تک وزیر تعلیم رہتے ہوئے مستقل نہ کرسکے تھے وہ کیجریوال حکومت سے چند دنوں میں مستقل کرنے کامطالبہ کرنے پہنچ گئے۔ یہی نہیں بلکہ عارضی ٹیچروں کے دھرنے میں شامل ہو گئے۔ شیلا حکومت نے اپنے پندرہ سالہ دور اقتدار میں مسلم اداروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ وقف بورڈ، اقلیتی کمیشن، اردواکیڈمی اور دیگر اداروں کو ناکارہ بنادیا۔ دہلی حکومت میں درجنوں اردو کے عہدے کو یا تو ختم کردیا گیا یااسے کبھی پر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس کے مسلم وزیر ہارون یوسف نے مسلمانوں کے لئے قبرستان حاصل کرنے کے بجائے قبرستان کی زمین ملینیم پارک کے لئے دے دی۔ مرکزی حکومت کے دس برسوں کے دوران ڈی ڈی اے نے سیکڑوں وقف مساجد اور قبرستانوں کو منہدم کرکے قبضہ کیالیکن دہلی اور مرکزی حکومت کسی وزیر یا مسلم وزیروں نے اسے روکنے کی کبھی زحمت نہیں کی۔لیکن یہی وزیر کیجریوال حکومت پر چند ہفتوں کے اقتدار میں تمام مسائل حل نہ کرنے کیلئے تنقید کررہے ہیں۔ سیاست میں اخلاقیات عنقاہے ۔ اس کے باوجود کیجریوال نے حکومت کو ٹھوکروں پر رکھا۔ اسی بات کاثبوت انہوں نے استعفی دے کر دیا ہے۔
دہلی اسمبلی میں جن لوک پال بل پیش نہ کر پانے سے ناراض دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے جمعہ کو عہدے سے استعفی دے دیا ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بدعنوان لوگوں کے خلاف کارروائی کے ڈر سے کانگریس اور بی جے پی نے مل کر یہ بل پیش نہیں کرنے دیا ۔ اپنے استعفی کے ساتھ کیجریوال نے دہلی اسمبلی تحلیل کرکے فوری طور پر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ۔صدر جمہوریہ نے لیفٹننٹ گورنر کی صدر راج کے نفاذ کی سفارش کو منظور کرتے ہوئے ا دہلی میں صدر راج نافذ کردیا۔ اب دہلی میں بالواسطہ کانگریس کی حکومت ہے ۔ اس کا خمیازہ لوک سبھا الیکشن میں اسے بھگتناپڑ سکتا ہے۔ 2 اکتوبر2012 یعنی گاندھی جینتی کے دن عام آدمی پارٹی کی تشکیل کرنے والے اروند کیجریوال نے 2014 کے ویلنٹائن ڈے یعنی محبت کے دن پر اپنی حکومت قربان کر دی ۔ حکومت چلانے کے 49 ویں دن انہیں یہ بخوبی احساس ہو گیا کہ موجودہ حالات میں جن لو کپال کے ساتھ ان کی محبت کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ جمعہ کو دہلی اسمبلی میں بھاری ہنگامے کے درمیان کیجریوال حکومت نے جن لوکپال بل پیش کرنے کی کوشش کی ، لیکن کانگریس اور بی جے پی نے یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ لیفٹننٹ گورنر کی اجازت کے بغیر یہ بل پیش ہی نہیں ہو سکتا ۔ایوان میں اس مسئلے پر ووٹنگ ہوئی ہوا اور بل پیش کرنے کی تجویز گر گئی۔ اس کے بعد کیجریوال نے دیر نہیں کی ۔انہوں نے پارٹی دفتر پہنچ کر جوش میں بھرے کارکنوں کے درمیان استعفی دینے کا اعلان کر دیا ۔کیجریوال نے دو دن پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ اگر وہ جن لوکپال بل پیش اور پاس نہیں کر پائے تو استعفی دے دیں گے ۔ انا ہزارے نے کہا کہ جن لوک پال اور محلہ سبھا پر کیجریوال نے جو بل لایا تھا اس پر مخالف جماعتوں نے احتجاج کیا تو کیجریوال نے استعفی دے دیا ۔کیجریوال کو استعفی دینا بدقسمتی ہے ۔دونوں اہم بل ہیں۔کیجریوال نے اسمبلی میں کانگریس اور بی جے پی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کے مکیش امبانی کے اشارے پر جن لوک پال کی مخالفت کی ہے۔ مکیش امبانی کے معاملے پر دونوں پارٹیاں اکٹھی ہوگئی ہیں۔
اروند کیجریوال نے بدعنوانی ،حکومت کے خزانے کو نقصان پہنچانے اور گیس کی منمانی قیمت پردینے کے سلسلے میں مکیش امبانی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کے خلاف اینٹی کرپشن بیورو کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا ۔ جس پر رہنما سمیت یہ لوگ چراغ پا تھے۔ یہ پہلی بار ایسانہیں ہوا ہے کہ کیجریوال نے مکیش امبانی پر بدعنوانی کا الزام لگایا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس طرح الزامات لگاتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے انڈیا اگینسٹ کرپشن کے تحت اروند کیجریوال نے الزام لگایا تھا کہ ایچ ایس بی سی بینک کے جنیوا برانچ میں 700 لوگوں کے 6000 کروڑ روپے کا کالا دھن جمع ہے۔ اروند کیجریوال نے کہا تھا کہ حکومت انہیں بچانے کی کوشش کر رہی ہے اور جرائم کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ انہیں یہ معلومات ایک کانگریس کے رہنما سے ملی ہے، کیجریوال نے کہا کہ ان کے پاس کچھ ہی نام ہیں اور سارے 700 لوگوں کی فہرست نہیں ہے۔ انہوں نے ان میں کئی بڑے صنعت کاروں کے نام لئے۔ اس کے علاوہ کیجریوال نے جن لوگوں کے نام لئے ہیں، ان میں ایک سابق ایس افسر اور ایک کانگریس ممبر پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔روند کیجریوال نے جن لوگوں پر یہ الزام لگائے تھے، ان میں سے مکیش امبانی کی ریلائنس انڈسٹریز نے انڈیا اگینسٹ کرپشن کے لگائے تمام الزامات سے انکار کیا تھا۔
عام آدمی پارٹی (آپ) نے کانگریس اور بی جے پی کو بدعنوانی کے فروغ میں یکساں شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ دونوں پارٹیاں کارپوریٹ گھرانوں کا کھلونابنی ہوئی ہیں۔ اس نے بجلی کے معاملے پر بی جے پی سے پانچ سوال کئے تھے۔ایک، کیا بی جے پی کو اس بات کی جانکاری تھی کہ ڈی ای آر سی نے اپریل 2010 میں دہلی میں بجلی کی شرح میں 23 فیصد کمی کرنے والا ایک حکم تیار کیا تھا؟ دو، کیا بی جے پی کو جانکاری تھی کہ شیلا دکشت حکومت نے ڈی ای آر سی کے اس حکم کو دبا دیا ہے؟ تین، کیا یہ سچ ہے کہ بی جے پی نے اس بارے میں دہلی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں کوئی سوال نہیں پوچھا؟ اگر پوچھا تھا تو کیا؟ چار، کیا یہ سچ ہے کہ بی جے پی نے ار ٹی ائی کے ذریعہ بجلی کے دام کو 23 فیصد تک کم کرنے والا ڈی ای آر سی کا حکم حاصل کر لیا تھا؟ پانچ، اگر بی جے پی نے ڈی ای آر سی کا وہ حکم حاصل کر لیا تھا تو وہ اس پر چپ کیوں بیٹھی رہی ۔کانگریس اور بی جے پی کی منشا انسداد بدعنوانی کی روک تھام ہوتی تووہ جن لوک پال کے طریقہ کار سوال اٹھانے کے بجائے اس کی حمایت کرتی۔ اگر یہ بل پیش کرنے طریقہ غلط تھا تو اس کافیصلہ عدالت کرتی۔ لیکن جس طرح عجلت میں دونوں پارٹیوں نے قدم اٹھایا اس سے کیجریوال کا راستہ خود بخود ہموار ہوگیا ۔ اب کیجریوال کو شہید کا درجہ حاصل ہوگیا ہے اور یہ کہاجانے لگا ہے کہ انہوں نے بدعنوانی کے خلاف کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور اس کیلئے اپنی حکومت قربان کردی۔ گرچہ کانگریسی وزرائے اور لیڈران راست بدعنوانی میں نام نہیں آرہا ہے لیکن اتحاد ی ہونے کی صورت میں اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ بدعنوانی اتحادی کی بدعنوانی کی سزا کانگریس کو ملے گی۔اس کے علاوہ دہلی کے لیفٹننٹ گورنر جامعہ کے وائس چانسلر بننے سے پہلے ریلائنس کے ساتھ وابستہ تھے اور ریلائنس کو اس وقت بہت سارے ٹھیکے دئے گئے تھے جب کہ مرکزی حکومت میں سکریٹری تھے اور اس کے بعد ابھی حالیہ امبانی کی لیفٹننٹ گورنر سے ملاقات یہ اپنے آپ میں بہت کچھ کہتا ہے کہ دال میں کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے۔اس ملاقات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کاپوریٹ گھرانہ کا دبدبہ کس قدر ہے۔ اس کے اشارے کے بغیر حکومت کچھ بھی نہیں کرسکتی۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آخر کار کیجریوال نے جلدبازی میں یہ فیصلہ کیوں کیا ۔ اس کی وجہ وہ دہلی کے عوام سے کیا گیا وہ وعدہ ہے جس میں انہوں نے کہاکہ حکومت کی تشکیل کے پندرہ دن کے اندر جن لوک پال بل لائیں گے۔ اگریہ بل پاس ہوجاتا تو لوک سبھا الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو زبردست فائدہ ہوتا۔ بجلی، پانی پر اپنا وعدہ جزوی طور پر پوراکرچکے ہیں۔اس بل کے پاس ہونے کی صورت میں پورے ہندوستان میں زبردست پیغام جاتا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے نظریے سے جہاں کچھ لوگ اسے عاجلانہ قدم قرار دیا ہے وہیں کچھ ماہرین لوک سبھا انتخابات زبردست فائدہ اٹھانے والاقدم بتایا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عوام کے درمیان زبردست پیغام گیا ہے۔ اروند کیجریوال کا استعفی ایک ماسٹر سٹروک ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان کانگریس کو ہو سکتا ہے اور یہ بی جے پی کو بھی غیر آرام دہ پوزیشن میں ڈال سکتا ہے۔ لیکن سیاست میں دو اور دو ہمیشہ چار نہیں ہوتے۔ چیزیں اتنی آسان نہیں ہوتیں جتنی کہ نظر آتی ہیں۔یہ سوال ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ کیا عام آدمی پارٹی کی سیاسی زمین اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ وہ دوبارہ انتخاب کے لئے تیار نظر آنے کی کوشش کر رہی ہے۔عام آدمی پارٹی کی پیدائش ہی بدعنوانی مخالف تحریک کی کوکھ سے ہوئی تھی۔ اس لئے اس کا فائدہ اسے حاصل ہوگا۔ جن لوک پال بل کے سلسلے میں بھی قانونی ماہرین کی رائے منقسم ہے۔بہر حال ایک بات تو طے ہے کہ صنعتی لابی بہت مضبوط ہے وہ نہ صرف افسران کی تبدیلی کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ حکومت کو بھی بدلنے کی اہلیت ان میں ہے۔ اس لئے جب ان صنعتی گھرانوں پر نکیل نہیں کسا جاتا اس وقت تک ہندوستان سے بدعنوانی اور مہنگائی دور نہیں ہوگی۔
ڈی۔64، فلیٹ نمبر10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔25
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment