پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا پارلیمانی الیکشن پر دور رس اثرت

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا پارلیمانی الیکشن پر دور رس اثرت
عابد انور 
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا کے عام انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا جوش و خروش بڑھتا جارہا ہے۔ان انتخابات کولوک سبھا انتخابات کے لئے سیمی فائنل سمجھا جارہا ہے اسی لئے ترکش کے تمام تیر استعمال کئے جارہے ہیں۔ سام ،ڈنڈ، بھیدکا بی جے پی بڑے پیمانے پر استعمال کر رہی ہے ۔یہ ریاستی الیکشن تمام انتخابات سے کئی معنوں میں جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں ان دونوں (اسمبلی اور لوک کے سبھا عام انتخابات) الیکشن میں جہاں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے اپنی تمام طاقتوں کو جھونک دیا ہے وہیں بی جے پی اپنے لئے کرو یا مرو کی پوزیشن کے تحت تمام حربے آزمانے کے درپے ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ الیکشن آر ایس ایس بنام کانگریس ہے اور لوک سبھا کا الیکشن بھی اسی کے ارد گھومے گا۔ دونوں الیکشن فرقہ پرستی بنام نام نہاد سیکورلرزم لڑا جائے گا۔ لال کرشن اڈوانی کو پوری طرح کنارے لگاتے ہوئے جس طرح سے نریندر مودی کو بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کا دعویدار اعلان کیا گیا ، اس کے بعد سیاسی تجزیہ نگار وں کی حتمی رائے یہی ہے کہ سال 2014 میں ہونے والا عام انتخابات کانگریس اور آر ایس ایس کے درمیان لڑا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں، اس بات کے اشارے بار بار مل رہے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے آرایس ایس براہ راست بی جے پی کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اس لئے اس نے بی جے پی میں اپنے سب سے پرانے اور سب سے زیادہ قابل اعتماد لیڈر اڈوانی تک کوٹھکانے لگاکر مودی کو آگے کردیا۔ اس کے لئے آر ایس ایس کے لیڈروں نے کئی سطح پر معاہدہ کئے ہیں کیونکہ آر ایس ایس سے نریندر مودی کا رشتہ نشیب و فراز سے پر رہا ہے۔ بابو بجرنگی اور دیگر وشو ہندو پریشد کے لیڈروں کو سزا ہونے کی وجہ سے آر ایس ایس مودی سے درمیان میں خفا بھی رہا ہے ۔ مودی میں ڈکٹیٹر شپ کی بھی خاصیت پائی جاتی ہے جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے مستقبل کے لئے دردسر ثابت ہوسکتی ہے۔ کئی ایسے معاملے آئے ہیں جہاں انہوں نے آر ایس ایس کی نہیں سنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کے ہی ایک سینئر لیڈر کے مطابق ’’آر ایس ایس میں اس بات کو لے کر یہ سوچ بھی ہے کہ کہیں وہ ایک نئی شکل میں اندرا گاندھی (جیسی شخصیت ) کو تو اقتدار میں نہیں لارہے ہیں‘‘۔بی جے پی کی ملک میں منعقدہ ریلیوں میں نریندر مودی کی باڈی لنگویج ،زبان و بیان طرز تکلم سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نظر میں کوئی محترم شخص نہیں۔ کسی پر بھی وہ کچھ بھی الزام لگاسکتے ہیں، کسی کے ساتھ بھی بدتمیزی کرسکتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 2007کے گجرات اسمبلی انتخابات کے دوران انہوں نے راہل گاندھی پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ’’ ان کو یہاں کوئی ڈرائیور تک رکھنا پسند نہیں کرے گا‘‘۔نریندر مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’مودی سے اگر آپ متفق نہیں ہیں تو آپ ان کے دشمن ہیں‘‘ بہت سے لوگ مودی کو فیصلہ کن مگر لوگوں کو تقسیم کرنے والے رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اقتدار کے ساتھ آر ایس ایس کا ہمیشہ محبت کا رشتہ رہا ہے۔نہرو اور اندرا گاندھی کے دور میں آر ایس ایس اقتدار کے فریم میں فٹ نہیں ہوسکا تھا لیکن ایمرجنسی کے بعد اس نے اقتدار کی سیاست میں اپنی جڑیں پیوست کرلی جس کا خمیازہ آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں۔ پہلے جنتا پارٹی کی حکومت میں اور پھر دو دہائی بعد اٹل بہاری واجپئی کے دور میں آر ایس ایس کا اثر زبردست طریقے سے بڑھا۔اقتدار کا فائدہ آر ایس ایس کو بھرپور طریقہ سے ملا اور اس کے حامی افسرشاہ تمام اہم عہدوں پر پہنچ گئے۔ لیکن گزشتہ دس سال سے بی جے پی اقتدار سے باہر ہے اور اس بار کے بی جے پی کے انتخابات ہارنے کا مطلب مسلسل پندرہ سال تک دہلی کے اقتدار سے دوری ہے ۔ اسی سوچ نے آرا یس ایس کو پریشان کردیا ہے۔ نریندر مودی آر ایس ایس کی پسند نہیں مجبوری ہیں اور وہ اس کے لئے کسی طرح کا کوئی رسک لینا نہیں چاہتا۔ اسی لئے مودی کو مقبول بنانے اور ترقی کا چہرہ پیش کرنے کے لئے آر ایس ایس اور اس کے تربیت یافتہ صحافیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار اعلان کرتے ہی آر ایس ایس کے اقتدار کی سیڑھی چڑھنے کا راستہ آسان ہوجائے گا۔ ان کی راہ میں ان گنت روڑے ہیں جو بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاتی ہے اور یہ سچ بھی ہے دہلی کے اقتدار کا راستہ اترپردیش سے ہوکرگزرتاہے اس لئے مرکز میں برسراقتدار آنے کے لئے اس ریاست میں پارٹی کا مضبوط ہونا بے حد ضروری ہے لیکن اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پارٹی کی حالت مسلسل خستہ ہوتی چل گئی ہے۔جب 1990 میں رام مندر تحریک بلندیوں پر تھی اس وقت ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کو 45ء31 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور 221 سیٹیں ملی تھیں جب کہ اس سال لوک سبھا انتخابات میں ووٹ کا تناسب بڑھ کر 28ء32 فیصد ہوگیا تھا اور 85 میں سے 51 سیٹیں ملی تھیں۔ 1996 کے لوک سبھا انتخابات میں ملنے والے ووٹ کی 44ء33فیصد ہوگئی اور سیٹیں بھی بڑھ کر 52 ہوگئیں۔ لیکن 1993 کے اسمبلی انتخابات میں سیٹوں کی تعداد گھٹ کر 177 ہوگئی اور ووٹ فیصد 3ء33 رہ گیا۔لوک سبھا کے 2004 اور 2009 میں پارٹی کو 80 میں سے 10،10 سیٹیں ملی لیکن ووٹ کا تناسب بالترتیب 17ء22 اور 54ء17 پرٹھہرگیا۔سال 2012 کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی حالت سب سے زیادہ کمزور ہوگئی کیوں کہ صرف 15 فیصد ووٹ ملے اور سیٹوں تعداد 47 رہ گئی۔ مسٹر مودی کے سامنے اب سخت چلینج ہے کہ پارٹی کو 1998 کی حالت میں اترپردیش میں کیسے لے جائیں۔ اس کے لئے فسادات کا سہارا لیا جارہا ہے۔ مظفر نگر فسادات اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ 
نریندر مودی کے لئے اتحاد سے باہر حمایت حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اتنا ہی نہیں، انہیں پارٹی کے اندر کی مخالفت سے نمٹنا ہوگا۔ ساتھ ہی ، نریندر مودی کو قومی سطح پر خود کو ثابت کرنا پڑے گا۔2014 کے انتخابی دنگل کی تصویر صاف ہے۔ بی جے پی اور نریندر مودی انتخابات جیتنے ، نئے ووٹر کو پاس لانے اور نئے ساتھیوں کو شامل کرنے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں اس پر بی جے کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ امریکی اخبار’’نیو یارک ٹائمز ‘‘کے ادارتی بورڈ نے کہا ہے کہ بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی اگر لوگوں میں’ خوف ‘ اور ’دشمنی‘کو فروغ دیتے ہیں تو ان سے ہندوستان کو متاثر کن قیادت دینے کی امید نہیں کر سکتے۔ اخبار کے ادارتی بورڈ نے 63 سالہ مودی پر لکھے اداریہ میں کہا ،’’ مودی میں اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنے اور مخالفت کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں دکھائی دیتی ہے‘‘۔اداریہ میں کہا گیا ہے کہ مودی نے پہلے ہی بی جے پی کے 17 سال پرانے اتحادی جنتا دل ( یو ) کو الگ کر دیا۔دونوں جماعتوں کا اتحاد ٹوٹ گیا کیونکہ جے ڈی یو نے پایا کہ \' مودی قابل قبول نہیں ہیں۔ \' اس میں کہا گیا ’’ ہندوستان کثیر المذاہب ملک ہے اور مودی سے مؤثر قیادت دینے کی امید نہیں کر سکتے اگر وہ اپنے بہت سارے لوگوں کے درمیان خوف اور دشمنی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘‘۔ نیویارک ٹائمس کے اداریہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مودی کے بارے میں لوگوں کے کیا تاثرات ہیں۔ اس کے باوجود ہندوستانی میڈیا سے انہیں ہیرو بنانے پر کمر بستہ ہے۔ ان کی ایک ایک سرگرمی کو راست نشر کرتا ہے۔ 
راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور دہلی میں راست مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے۔میزورم میں بی جے پی کا کوئی وجود نہیں ہے۔لیکن چاروں ریاستوں کے انتخابات خصوصاَ دہلی، راجستھان اور مدھیہ پردیش مسلمانوں کے خصوصیت کے حامل ہیں۔مسلمانوں کو ریزرویشن، دفعہ 341 کے فوائد سے مسلمانوں کو استثنی کرنے کی قید ختم کرنا اور مساوی مواقع کے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کمر کس لیناچاہئے۔ یہاں مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر امیدوار کو منتخب کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کو اسمبلی انتخابات میں کس پارٹی کو ووٹ دینا اور کس کو نہیں ، یہ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ان ریاستوں میں کانگریس اقتدار میں یا آئے یا بی جے پی ہندوؤں کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مسلمانوں کو اس سے بہت فرق پڑتا ہے کہ کون سی پارٹی برسراقتدار آرہی ہے۔ ان کی ذرا سی بھول پانچ برس ہی نہیں ایک لمبا عرصہ تک ان کی زندگی تباہ کرسکتی ہے۔ مسلمانوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ برادران وطن کے کام کے لئے ادنی سے اعلی سطح تک کے افسران موجود ہیں لیکن مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنے کے لئے کوئی نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں مسلمانوں کا نظر انتخاب انہیں امیدواروں پر جانی چاہئے جن کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ ہو۔ جو مسلمانوں کے بارے میں سوچتے ہوں۔ سارے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے خاص طور پر ان مسلمانوں کی جن میں علماء، صلحاء، مشائخ، دانشور، لیکچرر، پروفیسر، اساتذہ اور مختلف شعہبائے حیات سے وابستہ ہر وہ افراد جو گلی محلے سے لے کربلاک، ضلع، ریاست اور ملک میں اپنا کچھ بھی اثرو رسوخ رکھتے ہوں ، ان پر فرض عین ہے کہ وہ اس میدان میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ آپ کسی پارٹی کی مخالفت یا حق میں خم ٹھوک کر میدان میں انتخابات میں کود پڑیں بلکہ وہ حضرات اس بات کی کوشش کریں کہ مسلمانوں کا ووٹ تقسیم نہ ہو۔ کیوں کہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرنے کی سازش تیار کی جاچکی ہے، مہرے ، پیادے اور کارندے تیار ہوچکے ہیں جو آپ کو خوشنما خواب دکھاکر آپ کے ووٹ کو بانٹنے کی تگ و دو میں لگ گئے ہیں۔ ایسے خوبصورت اور مذہبی لباس میں آر ایس ایس کے نمائندے آپ کے سامنے پیش ہورہے ہیں جو بات تو کریں گے اتحاد و اتفاق کی، مسلمانوں کی ترقی اور فلاح بہبود کی، مسلمانوں کی یک لخت حالت بدلنے کی لیکن سچ وہ آپ کی بھلائی نہیں آ پ کے ووٹ کو پارہ پارہ کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی کے کام کو آسان بنانے کے لئے میدان میں ہیں۔ اس بارملک میں جس طرح کا سیاسی کھیل بی جے پی بہت ہی خاموشی سے کھیل رہی ہے اس کا احساس عام لوگوں کو تو کیا میدان میں سیاست بہت سے آزمودہ کھلاڑیوں کو بھی نہیں ہے۔ وہ صرف نام نہاد کامیابی کے غبارے پر سوار ہیں اور زعم ہے کہ اس کی حمایت کے بغیر کسی پارٹی کی حکومت نہیں بنے گی۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں اعظم کا واقعہ سامنے ہے جہاں بی جے پی آج تک وہاں کامیابی نہیں ملی تھی وہ صرف ووٹوں کی تقسیم کے سہارے اعظم گڑھ کو فتح کرنے میں کامیاب رہی۔ اسی پارٹی اور اس کے میڈیا کارندے نے اعظم گڑھ کو ’’آتنک گڑھ‘‘ کہہ کر بدنام کیا تھا۔ نئی اور پرانی سیاسی پارٹیوں کی چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو خود طے کرنا ہے کہ انہیں خوف و دہشت ، ذلت، بدنامی اور مجبوری کی زندگی پسند ہے یا عزت کی۔ اگر عزت کی زندگی پسند ہے تو انہیں اس کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ اس کا خمیازہ اگلے پانچ سال تک بھگتنا پڑے گا۔ہر پانچ سال کے بعد مسلمانوں کوحساب چکانے کا موقع ملتا ہے اگر یہ بھی چند کے عوض ذاتی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا تو پھر شکایت کرنے کے لئے بھی ہمارے پاس کچھ نہیں رہے گا۔ 
پانچ ریاستوں کے نتائج آٹھ دسمبر کو آجائیں گے حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سی پارٹی فاتح ہوگی یا کون سی مفتوح لیکن پولنگ کا مرحلہ جوں جوں قریب آرہا ہے حالات میں تبدیلی آرہی ہے۔ پہلے تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دہلی، مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ میں کانگریس یقینی شکست سے دوچار ہوگی لیکن وہاں حکومت مخالف لہر دھیرے دھیرے سے پیدا ہونے لگی ہے اور مودی کا لہر بھی اب دھیرے دھیرے کم ہور ہا ہے۔جو حالات بتاتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے وہاں کانگریس مقابلے میں بھی نہیں تھی لیکن اب مقابلے میں ہیں اوربہت ممکن ہے کہ وہ دہلی سمیت مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں حکومت بنالے۔ ان پانچ ریاستوں کے انتخابات کی خصوصیت یہ ہے کہ چاروں ریاستوں کے نتائج نریندر مودی کے مستقبل طے کریں گے۔میزورم میں ہونے والا اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کا کوئی وجود نہیں ہے اس لئے اس پر کوئی بات نہیں کی جارہی ہے۔ یہ چاروں ریاستوں کے نتائج یہ بھی طے کریں گے کہ نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی بھی رہ پائیں گے یا نہیں۔ راجستھان میں جاٹ لیڈر کروڑی مل مینا کانگریس کی حمایت کرکے بی جے پی کی فتح کی راہ میں پریشانی پیدا کردی ہے۔ اب راجستھان میں بھی کانگریس کا امکان نظر آرہا ہے۔دہلی میں عام آدمی پارٹی نے بھی بی جے پی کی راہ میں روڑے پیدا کئے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت بوکھلائی ہوئی ہے۔ نتائج خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ پانچ ریاستوں کے نتائج آئندہ لوک سبھا کے انتخابات پر دوررس اثرات مرتب کریں گے اس لئے اسے 2014 کا سیمی فائنل کہا جارہا ہے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335 
abidanwaruni@gmail.com

Comments