مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فسادات: امت شاہ کی فصل لہلہانے لگی/UP, muzaffar nagar violence bjp and secularism./ abid anwar
مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فسادات: امت شاہ کی فصل لہلہانے لگی
تیشہ فکر عابد انور
ہندوستان کو پوری دنیا میں کثیر المذاہب ، کثیر الثقافت، رنگارنگی اور گنگا جمنی تہذیب کے لئے جانا جاتا ہے اور پوری دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ گوناگوں اختلافات کے باوجودمختلف مذاہب کے لوگ اور مختلف نظریات کے حامل افراد ایک ساتھ رہتے ہیں ۔اس طرح ہندوستان کی کثرت میں وحدت کے طور پر بھی شناخت ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آئینی طور پر ہندوستان میں تمام برادران کے ساتھ مسلمانوں کو بھی یکساں سلوک، یکساں مواقع اورہر شعبہ میں مساویانہ حقوق حاصل ہیں لیکن کسی چیزکا کا غذ پر درج ہونا اور عملی جامہ پہننا دونوں الگ الگ بات ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو آئینی طورپر تمام اختیارات دئے گئے ہیں اور کہیں بھی تفریق نہیں برتی گئی ہے سوائے دفعہ ۳۴۱ کے جس میں صدارتی نوٹی فیکشن کے ذریعہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ تفریق برتی گئی۔ ہندوستان کا آئین دنیا کے بہترین آئین میں سے ایک ہے لیکن عمل کے اعتبار سے اتنا ہی خراب ہے ۔آج بھی یہاں اسی روایتی قانون کا بول بالا ہے ’جس کی لاٹھی اسی کی بھینس‘ ۔ مسلمانوں کے پاس لاٹھی نہیں ہے اس لئے مسلمانوں کی یہاں نہ تو جان محفوظ ہے، نہ ہی عزت و عفت اور نہ ہی مال و متاع۔ لاٹھی والے کاجب بھی دل کرتا ہے فسادات کے بہانے مسلمانوں کی تینوں چیزیں عزت ، جان اور مال چھین لیتاہے اور ہندوستان کا سیکولر آئین اس لاٹھی والے کا بال بھی باکا نہیں کرپاتا۔ ہندوستان میں سیکولرزم پر بہت بات ہوتی ہے۔ اس کے سیکولر ہونے پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا رہاہے اور کہاجاتا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور فسادی عناصر مٹھیوں میں ہیں لیکن جب یہی مٹھی بھر فسادی عناصر سڑکوں پر کھلے عام مسلمانوں کی تینوں چیزیں لوٹ رہے ہوتے ہیں تو ہندوستان کا سیکولر طبقہ ، سیکولر آئین اور سیکولر حکومت کنبھ کرن کی نیند سوجاتی ہے اور جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں یہ سب سانپ کی لکیر پیٹنے آجاتے ہیں۔ ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد سے آج تک یہ معمول کا حصہ ہے۔ ہندوستان اگر سیکولر ملک ہے تو اسے ثابت کرنے یا کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ ثابت اسے کیا جاتا ہے جس میں کوئی کھوٹ یا ہو اس میں کوئی شبہ ہو یا سب پر اظہر من الشمس نہ ہو۔ دوسرے جمہوری ملکوں خاص طور پرمغربی ممالک کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہاں کا حکمراں سیکولر ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وہاں کے عوام سیکولر ہوتے ہیں ۔ ہندوستان کی خاص بات یہ ہے کہ نہ تو یہاں کے عوام سیکولر ہیں اور نہ ہی حکومت۔ سیکولر حکومت کا دم بھرنے والے وزرائے میں بھی اکثریت خاکی نیکر والی ذہنیت کے حامل افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ افسران کی بات تو جانے دیں ۔ سوائے چند ایک کو چھوڑ کر ایسا محسوس ہوتا ہے وہ یو پی ایس سی سے کامیاب ہونے کے بجائے ششو مندر سے راست طور پر یہاں آئے ہیں۔ اترپردیش میں اتنے بڑے پیمانے پر اور مسلسل اور تواتر کے ساتھ فسادات ہونے کے باوجود فسادیوں پر نکیل نہ کسنا یہ سیکولر حکومت اور اس کے افسران کا کمال فن نہیں تو کیا ہے؟اس وقت مظفر نگر اور اس کے اطراف کے اضلاع فسادات کی زد میں ہیں اور فسادی کھلے عام گھوم رہے ہیں۔
مغربی اترپردیش کے مظفر نگر میں کوتوالی جانسٹھ علاقہ کے گاؤں کوال میں ایک لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی مخالفت کرنے جانے والے لڑکی کے دو بھائیوں نے شاہنواز کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ قتل کے بعد گاؤں کے ہی دیگر نوجوانوں نے لڑکی کے دونوں بھائیوں کو پتھروں سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ان قتل کی وجہ سے گاؤں میں کہرام مچ گیا۔پولیس نے لڑکی کے بھائیوں کا قتل کرنے والے کئی نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔لڑکی مظفرنگر کے ایک ڈگری کالج میں بی اے کی طالبہ ہے۔لڑکی کی شکایت کرنے کے باوجود بھی یہ منچلا اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہا تھا۔لڑکی نے تنگ آکر اپنے بھائی سچن کو شاہنواز کی حرکت کے بارے میں بتایا۔ سچن اپنے کزن گوروکے ساتھ گاؤں کوال جا پہنچا۔ شاہنواز اور سچن و گورو کے درمیان بات بڑھ گئی اس پر سچن نے طمنچہ نکال کر شاہنواز کو گولی مار دی اورگولی لگتے ہی اس کی موقع پر ہی موت ہو گئی۔اس معاملہ کو فرقہ پرست عناصر نے فرقہ وارانہ رنگ دینے میں دیر نہیں لگائی۔ قصبہ جانسٹھ سے تقریبا تین کلومیٹر دور آباد کوال گاؤں کی تقریبا پندرہ ہزار کی آبادی میں ہندو اور مسلمان تقریبا برابر کی تعداد میں ہیں۔یہاں کئی ذاتوں کے ہندو اور مسلمان ہمیشہ سے مل جل کر رہتے آئے ہیں لیکن اب کوال گاؤں میں سناٹا چھایا ہے اور بہت کم ہی لوگ نظر آ رہے ہیں۔ جانسٹھ قصبے کے قریب نگلا مڈوڑ گاؤں کے انٹر کالج کے میدان میں ہفتہ کو بی جے پی کی قیادت میں مہاپنچایت ہوئی تھی۔پنچایت میں بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ لوک دل ، بھارتی کسان یونین اور کھاپ پنچایتوں کے افراد شامل تھے۔ حالانکہ علاقے میں دفعہ 144 کا نفاذ تھا اس کے باوجود انتظامیہ نے پنچایت ہونے دیا انتظامیہ کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے اس کے خاطی افسران سخت سزا دی جانی چاہئے ۔ پولیس کے مطابق مہاپنچایت میں شامل ہونے کے لئے آنے والی بھیڑ نے راستے میں اقلیتی برادری کے ایک شخص کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا تھا۔اس سے قبل مظفرنگر شاملی کے راستے پر واقع ایک گاؤں میں مہاپنچایت میں جا نے والے لوگوں اور اقلیتی طبقوں کے لوگوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں تھیں، جس میں کئی لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ اقلیتی طبقہ کے نوجوان کے قتل کی خبر کے بعد مظفر شہر میں بھی کشیدگی پھیل گئی تھی اور ہفتہ کی دوپہر بعد بازار بند ہو گئے تھے۔ اس سے پہلے جمعرات کو بی جے پی نے مظفر نگر بند کا اعلان کیا تھا۔اس دوران بھی پورے شہر میں سناٹا رہا اور حالات کو بگڑنے کا بھرپورموقع ملا۔بتایا جاتاہے کہ مہاپنچایت میں شامل ہونے والے اکثریتی طبقہ کے افراد مسلح تھے ان کے پاس لاٹھی، ڈنڈے، بھالا، بلم، پھرسا وغیرہ جیسے روایتی گھریلو ہتھیار تھے۔ پنچایت میں مقررین نے نفرت کی بیج بونے کی بھرپور کوشش کی اوراس کا نتیجہ مظفرنگر فساد کی شکل میں سامنے آیا۔ پنچایت سے واپس ہوتے وقت وہ مسلمانوں کے گاؤں پر حملہ کرتے گئے۔ گرچہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہلوکین کی تعداد26ہے لیکن غیر سرکاری اور مشاہدین کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچاس سے زائد ہے ۔مظفرنگر میں 800 سے زیادہ فوجی جوان اور نیم فوجی دستوں کی 38 کمپنیاں اور1000 سے زیادہ پولیس والے بھی قانون و انتظام پر نظر رکھ رہے ہیں۔ فوج کے محاذ سنبھالنے کے باوجود تشدد کی واردات جاری ہے اوراتوار کی صبح بھی ضلع کے کئی علاقوں میں جھڑپیں مسلسل ہو رہی تھی اور لوگوں کے مرنے، لاپتہ ہونے اور زخمی ہونے کی خبریں سامنے آ رہی تھیں۔ حالانکہ ضلع مجسٹریٹ نے فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا ہے ۔ مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے مطابق مرکز نے یوپی حکومت کو پہلے ہی وارننگ دے دی تھی۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال فسادات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال ان کی تعداد 410 تھی جو اس سال اب تک 451 ہو گئی ہے۔ نوجوانوں کی آخری رسوم ادا کرکے واپس ہونے والی ہجوم نے 28 اگست کو مذہبی مقامات اور گھروں میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ خوف و دہشت کی وجہ سے مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔فرقہ پرست عناصر نے دو لوگوں کے درمیان کی اس ذاتی لڑائی کو بیرونی لوگوں کی وجہ سے فرقہ وارانہ شکل دے دیا۔اقلیتی طبقہ کے زیادہ تر گھروں میں تالے لگے ہیں ۔کچھ گھروں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی ہے۔
اترپردیش میں فسادات بھڑکنے کا خدشہ اسی دن سے ظاہر کیا جانے لگا تھا جس دن گجرات کے سابق وزیر داخلہ اور کئی فرضی تصادم کے کیس میں ملزم امت شاہ کو یوپی کی کمان سونپی گئی تھی۔معمولی سے معمولی بات پر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تصادم ہوتاتھا یا تصادم کی نوبت آتی تھی۔15مارچ 2012کو جب اکھلیش سنگھ یادو نے سماج وادی پارٹی کی واضح اکثریت سے کامیابی کے بعد حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی فسادات کے اشارے ملنے لگے تھے۔ اس کے بعد کئی ریاستوں میں بی جے پی کی شکست اور خصوصاً کرناٹک میں جس میں نریندر مودی نے انتخابی مہم چلائی تھی، بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔ بی جے پی کی روزافزوں کم ہوتی مقبولیت نے اس کا چودہ طبق روشن کردیا تھا۔ کانگریس کی قیادت والی ترقی پسند اتحاد حکومت کے متعدد گھپلوں، مہنگائی اور بدعنوانی میں گھرنے کے باوجود بی جے پی کو اس کا کوئی فائدہ ملتا نظر آرہا تھا۔ کرو یا مرو کی کیفت میں پہنچنے والی بی جے پی اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے نریندر مودی کو میدان میں اتارا اور انہیں مرکزی انتخابی مہم کمیٹی کاچیرمین بنانے کے ساتھ ہی وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بھی غیر رسمی طور پر نامزدکردیا۔ ا س کے باوجود بی جے پی کے ناتواں جسم میں کوئی بڑی حرکت نظر نہیں آئی تو فسادات کے لئے مشہور اترپردیش میں ا مت شاہ کو میدان میں اتار دیا اور انہوں نے میدان میں آتے ہی رام مندر کا موضوع چھیڑا لیکن اس پر عوام کی کوئی بڑی حمایت نہیں ملی ۔ اس کے بعد آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم وشو ہندو پریشد نے اجودھیا میں پریکرما کے بہانے اترپردیش کو آگ میں جھونکنے کی ناپاک سعی کی مگر اس میں اسے کوئی کامیابی نہیں ملی توآزمودہ حربہ فسادات کا سہارا ہی رہ گیا تھا۔اس بار فرقہ پرست عناصر کی تیاری کچھ زیادہ ہی ہے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے تمام وسائل کا سہارا لیا ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فرضی ویڈیو اور فوٹو اپلوڈ کرکے نفرت اور اشتعال انگریزی میں اضافہ کررہے ہیں۔ ایک ایسا ہی ویڈیو فیس بک پر موجود تھا۔جسے پولیس نے فرضی قرار دیا ہے۔یہ دو سال پرانا ویڈیو فوٹیج ہے۔ مظفر نگر کے ایک نوجوان نے اپنے سستے چینی موبائل پر ایک ویڈیو دکھاتے ہوئے کہا کہ دیکھئے کتنی بے رحمی سے دونوں نوجوانوں کو مارا گیا ہے۔سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ کے ذریعہ اشتراک کیا گیا یہ ویڈیو لوگوں کے موبائل میں پہنچ گیا اور اس کو شیئر کیا جانے لگا ہے۔پولیس تفتیش میں فرضی پائے گئے اس ویڈیو کو شیئر کرنے کے لیے ایک بی جے پی رکن اسمبلی سمیت کئی افراد پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ حالانکہ نوجوان یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہ ویڈیو فرضی ہے۔اس ویڈیو سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پورے ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ جھونکنے کی فرقہ پرست عناصر کس قدر اچھی تیاری ہے۔
کچھ عرصہ سے مغربی اترپردیش میں فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیوں کی خبریں مسلسل آرہی تھیں ۔ مسلم نوجوانوں سمیت دارالعلوم دیوبند کے طلبا کے ساتھ ٹرینوں میں مار پیٹ، ٹرین سے پھینکنا، بس اڈہ پر ان کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات مسلسل آرہے تھے اس کے باوجود یوپی حکومت نے اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا اور نہ ہی ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ مسلمان اگر خاطی ہوتاہے کہ وہ کسی کونے میں ہو اس گرفتار کرکے میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتاہے لیکن اس طرح کی دہشت گردی کیمرے پر انجام دینے والے ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ارکان کو کھلم کھلم چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ مظفر نگر اور اس کے اطراف کا فساد ہے۔ اس سے قبل اترپردیش میں علی گڑھ کے کئی گاؤں میں جاٹ برادری نے مسلمانوں کا بائیکاٹ شروع کر دیا تھا ، جس سے علاقے میں ماحول کشیدہ تھا۔ یہ فیصلہ جاٹ پنچایت نے پلاچد گاؤں کے ایک مسلم لڑکے اور ہندو برادری کی ایک لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر ' فرار ' ہونے کے بعد کیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ضلع صدر دیوراج سنگھ کے مطابق اتوار کو جاٹوں کی ایک پنچایت نے بائیکاٹ کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا۔اس میں کئی دیہاتوں 1200 جاٹ شریک تھے۔اس کے علاوہ اترپردیش میں گزشتہ دو برسوں کے درمیان ایک درجن سے زائد بڑے فساد ات ہوچکے ہیں لیکن اکھلیش یادو حکومت نے ان لوگوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی۔ مظفر نگر فسادات کو ٹالا جاسکتاتھا اگر انتظامیہ چاہتی اور مہاپنچایت میں شامل ہونے والے بی جے پی، راشٹریہ لوک دل اور بھارتیہ کسان یونین اور دیگر فرقہ پرست لیڈروں کو قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کرتی۔ مگر ان لوگوں کو فسادات پھیلانے، قتل و غارت گری کے لئے کھلم کھلا چھوڑ دیا گیا۔ انتظامیہ نے مقامی جاٹ رہنماؤں پر کارروائی کیوں نہیں کی ،اس مہاپنچایت میں سماج وادی پارٹی کے افراد بھی شریک تھے اس لئے انتظامیہ نے اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کی۔ اس مہاپنچایت میں اشتعال انگیز تقریروں سے بھیڑ کو مشتعل کیاگیا۔ ضلع انتظامیہ بھی اس بات کو تسلیم کرچکی ہے کہ فسادات لیڈروں کی اشتعال انگیز تقریروں سے پھیلی ہے۔مظفر نگر کے جب تمام لوگوں کو معلوم ہے کہ کس نے اشتعال تقریر کی تھی تو حکومت کو کیوں نہیں معلوم ہے اور اس نے بی جے پی ممبرا سمبلی (سردھنہ) سنگیت سوم ، حکم سنگھ اور تھانہ بھون کے ممبر اسمبلی سریش رانا کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔
مسلمانوں کیلئے اترپردیش ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ایک آزمائش کی گھڑی آنے والی ہے جہاں انہیں نہایت سمجھداری سے جہاں چھوٹے موٹے واقعات کو نظرانداز کرنا ہے وہیں حتی الامکان ناخوشگوار واقعہ انجام دینے سے بچنا ہے۔ فرقہ پرستوں نے پوری تیار ی کرلی ہے کہ وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں تشدد کے سہارے ہی اپنی ڈوبتی نیا پارلگائیں گے۔ اس کے علاوہ انسداد فرقہ وارانہ بل کی اہمیت بھی اجاگرہوگئی ہے ۔ یوپی اے حکومت کو چاہئے کہ وہ آئندہ اجلاس میں اسے پاس کرائے۔ ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ حکومت فرقہ پرستوں کو چھوٹ دیناچاہتی ہے اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنا نہیں چاہتی۔ فرقہ پرستی سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ہندوستان میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں کاازسرنو جائزہ لیا جائے خواہ وہ سرکاری اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہوں یا پرائیویٹ اسکولوں میں کیوں کہ فرقہ پرستی کا زہروہیں سے سرایت کرنا شروع ہوتا ہے۔ مسلم تنظیموں اور مسلمانوں کے نام نہاد تھنک ٹینک اداروں نے اس ضمن میں بیان بازی کے علاوہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دیاہے۔ مسلم تنظیموں کو چاہئے کہ وہ مشترکہ طورپرایک ایسا گروپ تشکیل کریں جو ہندوستانی نصابوں میں گہرائی سے جائزہ لے اور مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جو جھوٹا اور نفرت آمیز موادشامل کیا گیاہے اس کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائے اور ضرورت پڑنے پر عدالت سے بھی رجوع کرے اور دنیا کے سامنے پیش کرے۔کوئی سیکولر پارٹی مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی بلکہ وہ خفیہ طور پر فسادیوں کو آئینی تحفظ فراہم کرتی ہے تاکہ مسلمان مجبور ہوکر اس کے آئیں۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
تیشہ فکر عابد انور
ہندوستان کو پوری دنیا میں کثیر المذاہب ، کثیر الثقافت، رنگارنگی اور گنگا جمنی تہذیب کے لئے جانا جاتا ہے اور پوری دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ گوناگوں اختلافات کے باوجودمختلف مذاہب کے لوگ اور مختلف نظریات کے حامل افراد ایک ساتھ رہتے ہیں ۔اس طرح ہندوستان کی کثرت میں وحدت کے طور پر بھی شناخت ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آئینی طور پر ہندوستان میں تمام برادران کے ساتھ مسلمانوں کو بھی یکساں سلوک، یکساں مواقع اورہر شعبہ میں مساویانہ حقوق حاصل ہیں لیکن کسی چیزکا کا غذ پر درج ہونا اور عملی جامہ پہننا دونوں الگ الگ بات ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو آئینی طورپر تمام اختیارات دئے گئے ہیں اور کہیں بھی تفریق نہیں برتی گئی ہے سوائے دفعہ ۳۴۱ کے جس میں صدارتی نوٹی فیکشن کے ذریعہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ تفریق برتی گئی۔ ہندوستان کا آئین دنیا کے بہترین آئین میں سے ایک ہے لیکن عمل کے اعتبار سے اتنا ہی خراب ہے ۔آج بھی یہاں اسی روایتی قانون کا بول بالا ہے ’جس کی لاٹھی اسی کی بھینس‘ ۔ مسلمانوں کے پاس لاٹھی نہیں ہے اس لئے مسلمانوں کی یہاں نہ تو جان محفوظ ہے، نہ ہی عزت و عفت اور نہ ہی مال و متاع۔ لاٹھی والے کاجب بھی دل کرتا ہے فسادات کے بہانے مسلمانوں کی تینوں چیزیں عزت ، جان اور مال چھین لیتاہے اور ہندوستان کا سیکولر آئین اس لاٹھی والے کا بال بھی باکا نہیں کرپاتا۔ ہندوستان میں سیکولرزم پر بہت بات ہوتی ہے۔ اس کے سیکولر ہونے پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا رہاہے اور کہاجاتا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور فسادی عناصر مٹھیوں میں ہیں لیکن جب یہی مٹھی بھر فسادی عناصر سڑکوں پر کھلے عام مسلمانوں کی تینوں چیزیں لوٹ رہے ہوتے ہیں تو ہندوستان کا سیکولر طبقہ ، سیکولر آئین اور سیکولر حکومت کنبھ کرن کی نیند سوجاتی ہے اور جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں یہ سب سانپ کی لکیر پیٹنے آجاتے ہیں۔ ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد سے آج تک یہ معمول کا حصہ ہے۔ ہندوستان اگر سیکولر ملک ہے تو اسے ثابت کرنے یا کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ ثابت اسے کیا جاتا ہے جس میں کوئی کھوٹ یا ہو اس میں کوئی شبہ ہو یا سب پر اظہر من الشمس نہ ہو۔ دوسرے جمہوری ملکوں خاص طور پرمغربی ممالک کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہاں کا حکمراں سیکولر ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وہاں کے عوام سیکولر ہوتے ہیں ۔ ہندوستان کی خاص بات یہ ہے کہ نہ تو یہاں کے عوام سیکولر ہیں اور نہ ہی حکومت۔ سیکولر حکومت کا دم بھرنے والے وزرائے میں بھی اکثریت خاکی نیکر والی ذہنیت کے حامل افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ افسران کی بات تو جانے دیں ۔ سوائے چند ایک کو چھوڑ کر ایسا محسوس ہوتا ہے وہ یو پی ایس سی سے کامیاب ہونے کے بجائے ششو مندر سے راست طور پر یہاں آئے ہیں۔ اترپردیش میں اتنے بڑے پیمانے پر اور مسلسل اور تواتر کے ساتھ فسادات ہونے کے باوجود فسادیوں پر نکیل نہ کسنا یہ سیکولر حکومت اور اس کے افسران کا کمال فن نہیں تو کیا ہے؟اس وقت مظفر نگر اور اس کے اطراف کے اضلاع فسادات کی زد میں ہیں اور فسادی کھلے عام گھوم رہے ہیں۔
مغربی اترپردیش کے مظفر نگر میں کوتوالی جانسٹھ علاقہ کے گاؤں کوال میں ایک لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی مخالفت کرنے جانے والے لڑکی کے دو بھائیوں نے شاہنواز کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ قتل کے بعد گاؤں کے ہی دیگر نوجوانوں نے لڑکی کے دونوں بھائیوں کو پتھروں سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ان قتل کی وجہ سے گاؤں میں کہرام مچ گیا۔پولیس نے لڑکی کے بھائیوں کا قتل کرنے والے کئی نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔لڑکی مظفرنگر کے ایک ڈگری کالج میں بی اے کی طالبہ ہے۔لڑکی کی شکایت کرنے کے باوجود بھی یہ منچلا اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہا تھا۔لڑکی نے تنگ آکر اپنے بھائی سچن کو شاہنواز کی حرکت کے بارے میں بتایا۔ سچن اپنے کزن گوروکے ساتھ گاؤں کوال جا پہنچا۔ شاہنواز اور سچن و گورو کے درمیان بات بڑھ گئی اس پر سچن نے طمنچہ نکال کر شاہنواز کو گولی مار دی اورگولی لگتے ہی اس کی موقع پر ہی موت ہو گئی۔اس معاملہ کو فرقہ پرست عناصر نے فرقہ وارانہ رنگ دینے میں دیر نہیں لگائی۔ قصبہ جانسٹھ سے تقریبا تین کلومیٹر دور آباد کوال گاؤں کی تقریبا پندرہ ہزار کی آبادی میں ہندو اور مسلمان تقریبا برابر کی تعداد میں ہیں۔یہاں کئی ذاتوں کے ہندو اور مسلمان ہمیشہ سے مل جل کر رہتے آئے ہیں لیکن اب کوال گاؤں میں سناٹا چھایا ہے اور بہت کم ہی لوگ نظر آ رہے ہیں۔ جانسٹھ قصبے کے قریب نگلا مڈوڑ گاؤں کے انٹر کالج کے میدان میں ہفتہ کو بی جے پی کی قیادت میں مہاپنچایت ہوئی تھی۔پنچایت میں بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ لوک دل ، بھارتی کسان یونین اور کھاپ پنچایتوں کے افراد شامل تھے۔ حالانکہ علاقے میں دفعہ 144 کا نفاذ تھا اس کے باوجود انتظامیہ نے پنچایت ہونے دیا انتظامیہ کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے اس کے خاطی افسران سخت سزا دی جانی چاہئے ۔ پولیس کے مطابق مہاپنچایت میں شامل ہونے کے لئے آنے والی بھیڑ نے راستے میں اقلیتی برادری کے ایک شخص کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا تھا۔اس سے قبل مظفرنگر شاملی کے راستے پر واقع ایک گاؤں میں مہاپنچایت میں جا نے والے لوگوں اور اقلیتی طبقوں کے لوگوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں تھیں، جس میں کئی لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ اقلیتی طبقہ کے نوجوان کے قتل کی خبر کے بعد مظفر شہر میں بھی کشیدگی پھیل گئی تھی اور ہفتہ کی دوپہر بعد بازار بند ہو گئے تھے۔ اس سے پہلے جمعرات کو بی جے پی نے مظفر نگر بند کا اعلان کیا تھا۔اس دوران بھی پورے شہر میں سناٹا رہا اور حالات کو بگڑنے کا بھرپورموقع ملا۔بتایا جاتاہے کہ مہاپنچایت میں شامل ہونے والے اکثریتی طبقہ کے افراد مسلح تھے ان کے پاس لاٹھی، ڈنڈے، بھالا، بلم، پھرسا وغیرہ جیسے روایتی گھریلو ہتھیار تھے۔ پنچایت میں مقررین نے نفرت کی بیج بونے کی بھرپور کوشش کی اوراس کا نتیجہ مظفرنگر فساد کی شکل میں سامنے آیا۔ پنچایت سے واپس ہوتے وقت وہ مسلمانوں کے گاؤں پر حملہ کرتے گئے۔ گرچہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہلوکین کی تعداد26ہے لیکن غیر سرکاری اور مشاہدین کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچاس سے زائد ہے ۔مظفرنگر میں 800 سے زیادہ فوجی جوان اور نیم فوجی دستوں کی 38 کمپنیاں اور1000 سے زیادہ پولیس والے بھی قانون و انتظام پر نظر رکھ رہے ہیں۔ فوج کے محاذ سنبھالنے کے باوجود تشدد کی واردات جاری ہے اوراتوار کی صبح بھی ضلع کے کئی علاقوں میں جھڑپیں مسلسل ہو رہی تھی اور لوگوں کے مرنے، لاپتہ ہونے اور زخمی ہونے کی خبریں سامنے آ رہی تھیں۔ حالانکہ ضلع مجسٹریٹ نے فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا ہے ۔ مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے مطابق مرکز نے یوپی حکومت کو پہلے ہی وارننگ دے دی تھی۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال فسادات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال ان کی تعداد 410 تھی جو اس سال اب تک 451 ہو گئی ہے۔ نوجوانوں کی آخری رسوم ادا کرکے واپس ہونے والی ہجوم نے 28 اگست کو مذہبی مقامات اور گھروں میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ خوف و دہشت کی وجہ سے مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔فرقہ پرست عناصر نے دو لوگوں کے درمیان کی اس ذاتی لڑائی کو بیرونی لوگوں کی وجہ سے فرقہ وارانہ شکل دے دیا۔اقلیتی طبقہ کے زیادہ تر گھروں میں تالے لگے ہیں ۔کچھ گھروں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی ہے۔
اترپردیش میں فسادات بھڑکنے کا خدشہ اسی دن سے ظاہر کیا جانے لگا تھا جس دن گجرات کے سابق وزیر داخلہ اور کئی فرضی تصادم کے کیس میں ملزم امت شاہ کو یوپی کی کمان سونپی گئی تھی۔معمولی سے معمولی بات پر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تصادم ہوتاتھا یا تصادم کی نوبت آتی تھی۔15مارچ 2012کو جب اکھلیش سنگھ یادو نے سماج وادی پارٹی کی واضح اکثریت سے کامیابی کے بعد حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی فسادات کے اشارے ملنے لگے تھے۔ اس کے بعد کئی ریاستوں میں بی جے پی کی شکست اور خصوصاً کرناٹک میں جس میں نریندر مودی نے انتخابی مہم چلائی تھی، بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔ بی جے پی کی روزافزوں کم ہوتی مقبولیت نے اس کا چودہ طبق روشن کردیا تھا۔ کانگریس کی قیادت والی ترقی پسند اتحاد حکومت کے متعدد گھپلوں، مہنگائی اور بدعنوانی میں گھرنے کے باوجود بی جے پی کو اس کا کوئی فائدہ ملتا نظر آرہا تھا۔ کرو یا مرو کی کیفت میں پہنچنے والی بی جے پی اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے نریندر مودی کو میدان میں اتارا اور انہیں مرکزی انتخابی مہم کمیٹی کاچیرمین بنانے کے ساتھ ہی وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بھی غیر رسمی طور پر نامزدکردیا۔ ا س کے باوجود بی جے پی کے ناتواں جسم میں کوئی بڑی حرکت نظر نہیں آئی تو فسادات کے لئے مشہور اترپردیش میں ا مت شاہ کو میدان میں اتار دیا اور انہوں نے میدان میں آتے ہی رام مندر کا موضوع چھیڑا لیکن اس پر عوام کی کوئی بڑی حمایت نہیں ملی ۔ اس کے بعد آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم وشو ہندو پریشد نے اجودھیا میں پریکرما کے بہانے اترپردیش کو آگ میں جھونکنے کی ناپاک سعی کی مگر اس میں اسے کوئی کامیابی نہیں ملی توآزمودہ حربہ فسادات کا سہارا ہی رہ گیا تھا۔اس بار فرقہ پرست عناصر کی تیاری کچھ زیادہ ہی ہے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے تمام وسائل کا سہارا لیا ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فرضی ویڈیو اور فوٹو اپلوڈ کرکے نفرت اور اشتعال انگریزی میں اضافہ کررہے ہیں۔ ایک ایسا ہی ویڈیو فیس بک پر موجود تھا۔جسے پولیس نے فرضی قرار دیا ہے۔یہ دو سال پرانا ویڈیو فوٹیج ہے۔ مظفر نگر کے ایک نوجوان نے اپنے سستے چینی موبائل پر ایک ویڈیو دکھاتے ہوئے کہا کہ دیکھئے کتنی بے رحمی سے دونوں نوجوانوں کو مارا گیا ہے۔سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ کے ذریعہ اشتراک کیا گیا یہ ویڈیو لوگوں کے موبائل میں پہنچ گیا اور اس کو شیئر کیا جانے لگا ہے۔پولیس تفتیش میں فرضی پائے گئے اس ویڈیو کو شیئر کرنے کے لیے ایک بی جے پی رکن اسمبلی سمیت کئی افراد پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ حالانکہ نوجوان یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہ ویڈیو فرضی ہے۔اس ویڈیو سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پورے ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ جھونکنے کی فرقہ پرست عناصر کس قدر اچھی تیاری ہے۔
کچھ عرصہ سے مغربی اترپردیش میں فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیوں کی خبریں مسلسل آرہی تھیں ۔ مسلم نوجوانوں سمیت دارالعلوم دیوبند کے طلبا کے ساتھ ٹرینوں میں مار پیٹ، ٹرین سے پھینکنا، بس اڈہ پر ان کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات مسلسل آرہے تھے اس کے باوجود یوپی حکومت نے اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا اور نہ ہی ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ مسلمان اگر خاطی ہوتاہے کہ وہ کسی کونے میں ہو اس گرفتار کرکے میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتاہے لیکن اس طرح کی دہشت گردی کیمرے پر انجام دینے والے ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ارکان کو کھلم کھلم چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ مظفر نگر اور اس کے اطراف کا فساد ہے۔ اس سے قبل اترپردیش میں علی گڑھ کے کئی گاؤں میں جاٹ برادری نے مسلمانوں کا بائیکاٹ شروع کر دیا تھا ، جس سے علاقے میں ماحول کشیدہ تھا۔ یہ فیصلہ جاٹ پنچایت نے پلاچد گاؤں کے ایک مسلم لڑکے اور ہندو برادری کی ایک لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر ' فرار ' ہونے کے بعد کیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ضلع صدر دیوراج سنگھ کے مطابق اتوار کو جاٹوں کی ایک پنچایت نے بائیکاٹ کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا۔اس میں کئی دیہاتوں 1200 جاٹ شریک تھے۔اس کے علاوہ اترپردیش میں گزشتہ دو برسوں کے درمیان ایک درجن سے زائد بڑے فساد ات ہوچکے ہیں لیکن اکھلیش یادو حکومت نے ان لوگوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی۔ مظفر نگر فسادات کو ٹالا جاسکتاتھا اگر انتظامیہ چاہتی اور مہاپنچایت میں شامل ہونے والے بی جے پی، راشٹریہ لوک دل اور بھارتیہ کسان یونین اور دیگر فرقہ پرست لیڈروں کو قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کرتی۔ مگر ان لوگوں کو فسادات پھیلانے، قتل و غارت گری کے لئے کھلم کھلا چھوڑ دیا گیا۔ انتظامیہ نے مقامی جاٹ رہنماؤں پر کارروائی کیوں نہیں کی ،اس مہاپنچایت میں سماج وادی پارٹی کے افراد بھی شریک تھے اس لئے انتظامیہ نے اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کی۔ اس مہاپنچایت میں اشتعال انگیز تقریروں سے بھیڑ کو مشتعل کیاگیا۔ ضلع انتظامیہ بھی اس بات کو تسلیم کرچکی ہے کہ فسادات لیڈروں کی اشتعال انگیز تقریروں سے پھیلی ہے۔مظفر نگر کے جب تمام لوگوں کو معلوم ہے کہ کس نے اشتعال تقریر کی تھی تو حکومت کو کیوں نہیں معلوم ہے اور اس نے بی جے پی ممبرا سمبلی (سردھنہ) سنگیت سوم ، حکم سنگھ اور تھانہ بھون کے ممبر اسمبلی سریش رانا کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔
مسلمانوں کیلئے اترپردیش ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ایک آزمائش کی گھڑی آنے والی ہے جہاں انہیں نہایت سمجھداری سے جہاں چھوٹے موٹے واقعات کو نظرانداز کرنا ہے وہیں حتی الامکان ناخوشگوار واقعہ انجام دینے سے بچنا ہے۔ فرقہ پرستوں نے پوری تیار ی کرلی ہے کہ وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں تشدد کے سہارے ہی اپنی ڈوبتی نیا پارلگائیں گے۔ اس کے علاوہ انسداد فرقہ وارانہ بل کی اہمیت بھی اجاگرہوگئی ہے ۔ یوپی اے حکومت کو چاہئے کہ وہ آئندہ اجلاس میں اسے پاس کرائے۔ ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ حکومت فرقہ پرستوں کو چھوٹ دیناچاہتی ہے اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنا نہیں چاہتی۔ فرقہ پرستی سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ہندوستان میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں کاازسرنو جائزہ لیا جائے خواہ وہ سرکاری اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہوں یا پرائیویٹ اسکولوں میں کیوں کہ فرقہ پرستی کا زہروہیں سے سرایت کرنا شروع ہوتا ہے۔ مسلم تنظیموں اور مسلمانوں کے نام نہاد تھنک ٹینک اداروں نے اس ضمن میں بیان بازی کے علاوہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دیاہے۔ مسلم تنظیموں کو چاہئے کہ وہ مشترکہ طورپرایک ایسا گروپ تشکیل کریں جو ہندوستانی نصابوں میں گہرائی سے جائزہ لے اور مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جو جھوٹا اور نفرت آمیز موادشامل کیا گیاہے اس کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائے اور ضرورت پڑنے پر عدالت سے بھی رجوع کرے اور دنیا کے سامنے پیش کرے۔کوئی سیکولر پارٹی مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی بلکہ وہ خفیہ طور پر فسادیوں کو آئینی تحفظ فراہم کرتی ہے تاکہ مسلمان مجبور ہوکر اس کے آئیں۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment