فسادات : مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنا سیکولر جماعت کی پالیسی تیشہ فکر عابد انور /lalu prasad yadav verdict and scam/ abid anwar
لالو یادو کو سزا: کیا اڈوانی کو گرفتار کرنے کا شاخسانہ ہے؟
تیشہ فکر عابد انور
ہندوستان میں بدعنوانی یہاں کے عوام میں رچی بسی اور خون میں سرایت کی ہوئی ہے۔یہاں کے ہر نظام کا حصہ ہے خواہ عدلیہ ہو، مقننہ ہو، انتظامیہ ہو یا میڈیا۔ جس طرح آلودگی خصوصاً ندیوں کی آلودگی پر قابوپانا ممکن نہیں ہے اسی طرح بدعنوانی پر قابو پانا بہت مشکل ہے ۔بہتر یہی ہوگا کہ بدعنوانی اور آلودگی کو بھی جمہوریت کا پانچواں ستون قرار دے دیا جائے۔جو شعبہ بدعنوانی کے خلاف سب سے زیادہ شور مچارہا ہے وہ بھی صرف ایک خاص طبقے کی بدعنوانی پر، وہ سب سے زیادہ بدعنوانی میں ملوث ہے۔ پرنٹ میڈیا ہو الیکٹرونک میڈیا وہ بدعنوانی میں پوری طرح ڈوبا ہوا ہے اور پیڈ نیوز، پلانٹیڈ اسٹوری اور ڈیسک اسٹوری عام بات ہے۔ خاص طبقہ کے اشارے اور اس کے مفادات کے تحفظ کے لئے اس طرح کے اسٹوری لکھوائے جاتے ہیں۔ میڈیا سے وابستہ حضرات تن من دھن اور خوشی خوشی اس کو شائع اور نشر کرتے ہیں۔ ایک تحریک جس نے ہندوستان میں بدعنوانی کے تئیں کچھ بیداری کی تھی اس نے بھی کبھی اس بات پر دھیان نہیں دیا کہ جو لوگ اسے چندہ دے رہے ہیں وہ بدعنوانی میں کہاں تک ملوث ہیں۔ اس طرح کی تحریکوں کو ہوا دینے میں سب سے زیادہ بنیوں کے چندے کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو بدعنوانی کا جنم داتا ہے، ملاوٹی اشیا بیچ کر اپنا تجوری کو بھرتے ہیں اور وزارت صحت کے ہر منصوبے کو ناکام بنادیتے ہیں۔ ہندوستان میں ذیابطیس جیسی مہلک بیماریاں ان بنیوں کی دین ہیں۔ لیکن چندہ لینے والی پارٹیاں، میڈیا اور بدعنوانی کے خلاف گلا پھاڑ پھاڑ کر تحریک چلانے والے یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ان پیسوں پر کتنے معصوم لوگوں کے خون کا دھبہ ہے۔ میڈیا ان کی مصنوعات کی تشہیر کرکے ان کے گناہ میں نہ صرف حصہ دار ہیں بلکہ اسے فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ مگر جب کوئی غیر برہمن یا غیر اعلی ذات کا کوئی بدعنوانی میں ملوث پایا جاتا ہے تو میڈیا خم ٹھوک کر میدان میں آجاتا ہے۔ ایسی ایسی دور کی کوڑی لاتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے مہم جو ہیں۔ مہنگائی ملک کے عوام کا سب سے بڑا موضوع ہے اور مہنگائی کی وجہ سے ہی عام آدمی بنیادی سہولت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے لیکن میڈیا کبھی اس بات کو نہیں اٹھاتا کیوں کہ مہنگائی میں اضافہ کی وجہ صنعت وتجارت سے وابستہ افراد ہیں۔ کمپنی نقصان میں ہوتی ہے لیکن کمپنی مالک کے منافع میں کوئی کمی نہیں آتی۔ جو معمولی دکان کرتے تھے وہ کروڑوں اور اربوں میں کھیل رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پیاز کی بے تحاشہ بڑھتی قیمت پر خاصہ بحث ہوئی ہے لیکن کبھی میڈیا نے اس کے ذمہ دار لوگوں پردہ فاش نہیں کیا۔ کیوں کہ میڈیا کا فائننسر یہی طبقہ ہے۔ پیاز کے ایک معمولی کاروباری نے کہا کہ پیا ز کی جمع خوری سے اس نے 40لاکھ سے زائد روپے کمائے۔ ایک معمولی کاروباری کی یہ کمائی ہے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ بڑے بنیوں نے کتنے کمائے ہوں گے۔ پیاز کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اس کی قیمت 20روپے سے 80 روپے تک پہنچایا۔ حکومت پر بنیوں پر خاص اثر ہوتا ہے اس لئے حکومت نے کبھی بنیوں کے خلاف کبھی کوئی سخت قدم نہیں اٹھایا۔ دو تین سال قبل بھی پیاز کی قیمت بڑھی تھی تو انکم ٹیکس محکمہ نے چھاپہ مار کرناجائز اثاثہ اور پیاز کا بڑا ذخیرہ ضبط کیا تھا بنیوں نے ہڑتال کردی تھی اور حکومت کو مجبور کردیا تھا کہ وہ چھاپے ماری کی کارروائی کو فوری طور پر روک دے اور حکومت نے بنیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے چھاپہ ماری بند کردی تھی۔جذبات کے سامنے قوانین اور حقائق کاکوئی معنی نہیں ہے۔ یہاں عدالتیں بھی عوام کے جذبات پر ہی فیصلہ کرتی ہیں۔ افضل گرو کا معاملہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ابھی حال میں اندور سے اسٹوڈینٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کے چھ ارکان جیل سے فرار ہوگئے ۔ میڈیا اپنی رپورٹ میں انہیں خونخوار دہشت گرد قرار دیا کئی دنوں کے سارے نیوز چینل نے بڑی بڑی اسٹوری کی لیکن کسی نے یہ نہیں دکھایا کہ ان لوگوں کے خلاف مقدمہ کیا تھا اور ان لوگوں کو 2011میں عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا لیکن مقامی لوگوں (ہندؤں) کی مخالفت کی وجہ سے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔میرے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہاں عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، میڈیا کس طرح کام کرتے ہیں۔کیا عوامی حمایت یا مخالفت کسی کے مجرم ، بے قصوریا کسی کی پھانسی کی وجہ ہوسکتی ہے؟یہی رویہ لالو پرساد یادو کے سلسلے میں بھی اپنایا گیاہے۔ میرا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ لالو یادو بے داغ ہیں یا وہ چارہ گھپلہ میں ملوث نہیں ہیں۔لیکن اس فیصلے سے جرم سے کہیں زیادہ ایک طبقہ کے مفادات اور منشا کی تکمیل کی بو آتی ہے۔
لالو یادو کے سلسلے میں سی بی آئی کا رویہ ہمیشہ معاندانہ رہا۔ ملک کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا کسی سیاست داں کو گرفتار کرنے کے لئے فوج بلائی گئی تھی۔ اس حرکت سے سی بی آئی کی نیت پر شبہ ہوجاتا ہے۔ لالویادو کسی کے مجرم ہوں یا نہ ہوں لیکن ہندوتو کے علمبردار، میڈیا، عدلیہ، مقننہ اورا نتظامیہ کے ازلی دشمن ضرور ہیں۔ یہی وجہ ہے جیسے ہی رانچی کی سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے لالو یادو کو قصوروار قرار دیامیڈیا کی بانچھں کھل اٹھیں۔ تمام ٹی وی نیوز چینلوں نے شور و غوغا کرنا شروع کردیا کہ اب لالو یادو کا سیاسی کیریر ختم ہوگیا ہے اور ان کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل مالا کے دانوں کی طرح بکھر جائے گی۔ پیڈ صحافیوں نے گلا پھاڑ پھاڑ کرلالو یادو کے خاتمہ اور بی جے پی کی فتح قرار دنیے لگے۔ میڈیا کا بس چلتا تو اسی وقت 2014کے نتائج کا اعلان کرکے نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے پر بٹھادیتے۔ 30 ستمبر کو خصوصی سی بی آئی عدالت نے لالو پرساد سمیت 44 ملزمان کو مجرم ٹھہرایا تھا۔اس معاملے میں جج تبدیل کرنے کی لالو یادو کی عرضی سپریم کورٹ نے 13 اگست کو خارج کر دی تھی۔لالو یادو نے اپنی درخواست میں ٹرائل کورٹ کے جج پی سنگھ پر امتیازی سلوک برتنے کا الزام لگایا تھا۔ لالو یادو نے فیصلہ کے بعد کہا تھا کہ جس چیز کا ڈر تھا وہی اور انہیں معلوم تھا کہ انہیں یہاں انصاف نہیں ملے گا۔ ایک دوسرے مجرم جگدیش شرما نے کہا، "میں بے قصور ہوں‘‘ ریٹائرڈ آئی اے ایس مہندر پرساد کا کہنا تھا، "میں نے عدالت کو بہت دستاویز دیئے تھے، لیکن میرا موقف کسی نے نہیں سنا‘‘۔
بہار کے گوپال گنج میں ایک یادو خاندان میں پیدا ہونے والے لالو پرساد یادو نے سیاست کا آغاز جے پرکاش نارائن کے جے پی تحریک سے کی جب وہ ایک طالب علم رہنما تھے اور اس وقت کے سیاست داں ستیندر نارائن سنہا کے کافی قریبی رہے تھے۔ 1977 میں ایمرجنسی کے بعد لوک سبھا انتخابات میں لالو یادو فاتح ہوئے اور پہلی بار 29 سال کی عمر میں لوک سبھا پہنچے۔ 1980 سے 1989 تک وہ دو بار اسمبلی کے رکن رہے اور حزب اختلاف کے رہنما کے عہدے پر بھی رہے۔ 1990 میں وہ بہار کے وزیر اعلی بنے اور 1995 میں بھی بھاری اکثریت سے کامیاب رہے۔لالو یادو کی عوامی حمایت میں ایم وائی (MY ) یعنی مسلم اور یادو فیکٹر کا زبردست دخل رہا اور انہوں نے اس سے کبھی انکار بھی نہیں کیا ہے۔1997 میں جب مرکزی تفتیش بیورو (سی بی آئی) نے ان کے خلاف چارہ گھپلہ کے معاملے میں فرد جرم داخل کی تو انہیں اپنے عہدے سے استفعی دینا پڑا۔ اپنی بیوی رابڑی دیوی کو اقتدار سپرد کرکے وہ راشٹریہ جنتا دل کے صدر بن گئے اور درپردہ طور سے اقتدار کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھا ۔ چارہ گھپلہ کے معاملے میں لالو یادو کو جیل بھی جانا پڑا اور وہ کئی ماہ تک جیل میں رہے ۔1998 میں مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں حکومت بنی تھی۔دو سال بعد اسمبلی کا انتخاب ہوا تو راشٹریہ جنتا دل اقلیت میں آ گئی۔ سات دن کے لئے نتیش کمار کی حکومت بنی لیکن وہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے اور ایک بار رابڑی دیوی پھروزیر اعلی بنیں۔ کانگریس کے 22 رکن اسمبلی ان کی حکومت میں شریک ہوئے۔2004 کے لوک سبھا انتخابات میں لالو پرساد ایک بار پھر کنگ میکر کے کردار میں نظرآئے اورترقی پسند اتحاد کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی لالو یادو ریلوے کے وزیر بنے۔ یادو کے دور میں ہی کئی دہائیوں سے خسارے میں چلنے والی ریلوے پھر سے منافع کی پٹری پرآئی۔ ہندوستان کے تمام بڑے منیجمنٹ اداروں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے بزنس اسکول لالو یادو کے منیجمنٹ کے قائل ہوگئے اور ہندوستانی ریلوے کی ترو تازہ صورت حال تحقیق کا ایک موضوع بن گئی۔اپنی بات کہنے کا لالو یادو کا خاص انداز نے ان کو باقی سیاستدانوں سے الگ کردیا۔ صحافی اسی انتظار میں رہتے تھے کہ کب لالو یادو کچھ بولیں اور وہ لوگ اس کو شائع یا نشر کریں۔لیکن اگلے ہی سال 2005 میں بہار سے راشٹریہ جنتا دل کی حکومت کی کا خاتمہ ہوگیا اور 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں ان کی پارٹی ( آر جے ڈی ) کے صرف چار ممبران پارلیمنٹ ہی جیت سکے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ لالو کو مرکزی حکومت میں جگہ نہیں ملی۔ داغدار عوامی نمائندوں کو بچانے والا آرڈیننس کھٹائی میں پڑ گیا اور اس طرح لالو کا سیاسی مستقبل منجدھار میں پھنس گیا ۔
اس فیصلے سے لالویادو اور اس کی پارٹی جھٹکا ضروری لگا ہے لیکن یہ پارٹی اس طرح کے حالات سے پہلی بار دوچار نہیں ہوئی ہے۔ لالو پرساد یادوکے ذاتی کریئر پر کوئی خاص اثرنہیں پڑنے والا ہے۔عدالت نے انہیں پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔ اب وہ انتخاب نہیں لڑ سکیں گے بھلے ہی آگے اپیل ہوگی اور معاملہ چلتا رہے گا۔ان کی پارٹی تو چلتی ہی رہے گی۔ پارٹیاں بند نہیں ہوتی ہیں جہاں تک ان کی ساکھ کا سوال ہے اس میں بھی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ لالو یادو بہت بڑے لیڈر ہیں۔ 90 کی دہائی میں جن لوگوں نے ان کو دیکھا ہے انہیں معلوم ہے کہ لوگوں کے درمیان ان کا کیا اثر تھا۔وہ شکست کھاکر بھی 18 سے 20 فیصد ووٹ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ان کے جیل جانے کے بعد بھی کئی سارے ایسے لوگ ہیں ، جن کی وفاداری ان کے تئیں ڈگمگایا نہیں ہے اور وہ لالو کو مجرم ماننے کو تیار نہیں ہیں۔یہاں تک کہ وہ لالو کے لئے جان تک دینے کو تیار ہیں۔ ایسی ہی ایک واقعہ مظفر پور میں پیش آیا۔ لالو کو سزا ملنے کے بعد مظفر پور کے سریکا بلاک تحت بستپر گاؤں کے 70 سالہ بتی لال ساہ جمعرات کو لالو یادو کا صدمہ برداشت نہیں کرپایا اور ان کی موت ہوگئی۔سارن ضلع کے ڈٹرا پرسیلی گاؤں کے باشندے رام رائے لالو کے جیل جانے سے اتنا دلبرداشتہ ہیں کہ انہوں نے دانہ پانی چھوڑ دیا ہے۔ لالو یادو کی مقبولیت دلیل یہ ہے اس کی حریف پارٹی کے ممبران اسمبلی سے لیکر ممبران پارلیمنٹ اس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں۔آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد کو پھنسایا گیا ہے۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ بالا عدالت میں انہیں انصاف ضرور ملے گا۔یہ باتیں پٹنہ صاحب سے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اور سنے اداکار شتروگھن سنہا نے کہی۔ لالو پرساد کو اپنا بڑا بھائی اور عزیز بتاتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کے سب سے زیادہ مقبول رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ان کے اوپر آئے بحران کے بادل چھٹ جائیں گے اور وہ زیادہ مضبوطی کے ساتھ ابھرے گی۔ شتروگھن سنہا نے یہ بھی کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں وہ لالو پرساد کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سی بی آئی پر سوال اٹھ رہا ہے کہ کانگریس ، بی جے پی اور جے ڈی یو کے کئی سینئر لیڈر شامل ہیں۔چارہ گھوٹالے کی جانچ میں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار، شیوانند تیواری اور للن سنگھ جیسے سیاسی شخصیات کے نام بھی اجاگر ہوئے ہیں ، لیکن پراسرار طریقے سے سی بی آئی نے ان لیڈروں کو کیوں چھوڑ دیاہے۔کیا سی بی آئی سنگھ پریوار، کانگریس، جے ڈی یو اور بی جے پی کے اشارے پر کام کر رہی ہے یہ سوال بہار کے ہر انسان کے دماغ میں کوند رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ دیگر رہنماؤں کو کیوں چھوڑ دیا گیا۔ کیا لالو پرساد یادو کو 1990میں سمستی پور کے مسری گراری میں گرفتار کرنے کی سزا دی گئی ہے؟یا ان کے خلاف برہمن اور بھومیہار کا اتحاد کا نتیجہ ہے۔ نتیش کمار کا نام بھی شامل تھا پھر اس پر اتنی مہربانی کیوں؟ کیا کانگریس نے مستقبل کے اتحادی ہونے کی وجہ سے بچایا ہے۔بابری مسجد شہید کرنے کے ملزم اور سپریم کورٹ کے حلفیہ بیان پر عمل نہ کرنے والا کلیان سنگھ کو سپریم کورٹ نے صرف ایک دن کی علامتی سزا کیوں دی تھی؟، کیا اڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوؑ ہر جوشی، پروین توگڑیا، نریندر مودی، آدتیہ ناتھ اور دیگر ہندتووا کے علمبردار رہنما کا لالو یادو سے گناہ کم ہے؟ ہزاروں انسانوں کے قاتل آزاد کیوں ہیں؟ لالو یادو کو سب کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن وہ فرقہ پرست نہیں ہیں انہوں نے مشکل سے مشکل حالات میں سیکولرزم سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔اس وقت جب سارے لیڈر بی جے پی کی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے تھے لالو پرساد یادو ہی تنہا انسان تھا جنہوں نے ہتھیار نہیں ڈالا تھا۔ گودھرا کا سچ جاننے کے لئے یو سی بنرجی کمیشن قائم کیا۔ سیکولر اور مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والوں کو سزادینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل مہیش بھٹ جو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں ان کی آواز کو دبانے کے لئے ان کے بیٹے راہل بھٹ کو کولمین کے معاملے میں بے جا ہراساں کیا گیا۔ سنجے دت جنہوں نے اپنے والد کے ساتھ 1992میں ممبئی فسادات کے دوران مسلمانوں کی ہر طرح کی مدد کی اور بازآبادکاری کیمپ میں ٹھہرایا تھا ایک ہتھیار کے معاملے میں انہیں پانچ سال کی سزا دی گئی جب کہ انہوں نے یہ ہتھیار پولیس کی حفاظت فراہم نہ کرنے اور فرقہ پرست عناصر کی دھمکیوں کے خوف سے چند ایام کے لئے حاصل کیا تھا جسے بعد میں تلف کردیا تھا۔ اس سے پہلے کئی سیاسی لیڈروں پر بدعنوانی کے مقدمات چلے ہیں لیکن سب ایک کے بعد ایک بری ہوتے گئے کیوں کہ لالو نے فسطائی طاقتوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیاتھا اس لئے انہیں یہ سزا دی گئی۔اس میں کانگریس بھی مشترکہ طور پر شریک ہے تاکہ وہ بہار میں اپنا کھویا مقام حاصل کرسکے۔
ڈی۔ ۶۴ فلیٹ نمبر ۱۰، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا ، نئی دہلی۔ ۲۵
abidanwaruni@gmail.com
9810372335
تیشہ فکر عابد انور
ہندوستان میں بدعنوانی یہاں کے عوام میں رچی بسی اور خون میں سرایت کی ہوئی ہے۔یہاں کے ہر نظام کا حصہ ہے خواہ عدلیہ ہو، مقننہ ہو، انتظامیہ ہو یا میڈیا۔ جس طرح آلودگی خصوصاً ندیوں کی آلودگی پر قابوپانا ممکن نہیں ہے اسی طرح بدعنوانی پر قابو پانا بہت مشکل ہے ۔بہتر یہی ہوگا کہ بدعنوانی اور آلودگی کو بھی جمہوریت کا پانچواں ستون قرار دے دیا جائے۔جو شعبہ بدعنوانی کے خلاف سب سے زیادہ شور مچارہا ہے وہ بھی صرف ایک خاص طبقے کی بدعنوانی پر، وہ سب سے زیادہ بدعنوانی میں ملوث ہے۔ پرنٹ میڈیا ہو الیکٹرونک میڈیا وہ بدعنوانی میں پوری طرح ڈوبا ہوا ہے اور پیڈ نیوز، پلانٹیڈ اسٹوری اور ڈیسک اسٹوری عام بات ہے۔ خاص طبقہ کے اشارے اور اس کے مفادات کے تحفظ کے لئے اس طرح کے اسٹوری لکھوائے جاتے ہیں۔ میڈیا سے وابستہ حضرات تن من دھن اور خوشی خوشی اس کو شائع اور نشر کرتے ہیں۔ ایک تحریک جس نے ہندوستان میں بدعنوانی کے تئیں کچھ بیداری کی تھی اس نے بھی کبھی اس بات پر دھیان نہیں دیا کہ جو لوگ اسے چندہ دے رہے ہیں وہ بدعنوانی میں کہاں تک ملوث ہیں۔ اس طرح کی تحریکوں کو ہوا دینے میں سب سے زیادہ بنیوں کے چندے کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو بدعنوانی کا جنم داتا ہے، ملاوٹی اشیا بیچ کر اپنا تجوری کو بھرتے ہیں اور وزارت صحت کے ہر منصوبے کو ناکام بنادیتے ہیں۔ ہندوستان میں ذیابطیس جیسی مہلک بیماریاں ان بنیوں کی دین ہیں۔ لیکن چندہ لینے والی پارٹیاں، میڈیا اور بدعنوانی کے خلاف گلا پھاڑ پھاڑ کر تحریک چلانے والے یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ان پیسوں پر کتنے معصوم لوگوں کے خون کا دھبہ ہے۔ میڈیا ان کی مصنوعات کی تشہیر کرکے ان کے گناہ میں نہ صرف حصہ دار ہیں بلکہ اسے فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ مگر جب کوئی غیر برہمن یا غیر اعلی ذات کا کوئی بدعنوانی میں ملوث پایا جاتا ہے تو میڈیا خم ٹھوک کر میدان میں آجاتا ہے۔ ایسی ایسی دور کی کوڑی لاتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے مہم جو ہیں۔ مہنگائی ملک کے عوام کا سب سے بڑا موضوع ہے اور مہنگائی کی وجہ سے ہی عام آدمی بنیادی سہولت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے لیکن میڈیا کبھی اس بات کو نہیں اٹھاتا کیوں کہ مہنگائی میں اضافہ کی وجہ صنعت وتجارت سے وابستہ افراد ہیں۔ کمپنی نقصان میں ہوتی ہے لیکن کمپنی مالک کے منافع میں کوئی کمی نہیں آتی۔ جو معمولی دکان کرتے تھے وہ کروڑوں اور اربوں میں کھیل رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پیاز کی بے تحاشہ بڑھتی قیمت پر خاصہ بحث ہوئی ہے لیکن کبھی میڈیا نے اس کے ذمہ دار لوگوں پردہ فاش نہیں کیا۔ کیوں کہ میڈیا کا فائننسر یہی طبقہ ہے۔ پیاز کے ایک معمولی کاروباری نے کہا کہ پیا ز کی جمع خوری سے اس نے 40لاکھ سے زائد روپے کمائے۔ ایک معمولی کاروباری کی یہ کمائی ہے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ بڑے بنیوں نے کتنے کمائے ہوں گے۔ پیاز کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اس کی قیمت 20روپے سے 80 روپے تک پہنچایا۔ حکومت پر بنیوں پر خاص اثر ہوتا ہے اس لئے حکومت نے کبھی بنیوں کے خلاف کبھی کوئی سخت قدم نہیں اٹھایا۔ دو تین سال قبل بھی پیاز کی قیمت بڑھی تھی تو انکم ٹیکس محکمہ نے چھاپہ مار کرناجائز اثاثہ اور پیاز کا بڑا ذخیرہ ضبط کیا تھا بنیوں نے ہڑتال کردی تھی اور حکومت کو مجبور کردیا تھا کہ وہ چھاپے ماری کی کارروائی کو فوری طور پر روک دے اور حکومت نے بنیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے چھاپہ ماری بند کردی تھی۔جذبات کے سامنے قوانین اور حقائق کاکوئی معنی نہیں ہے۔ یہاں عدالتیں بھی عوام کے جذبات پر ہی فیصلہ کرتی ہیں۔ افضل گرو کا معاملہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ابھی حال میں اندور سے اسٹوڈینٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کے چھ ارکان جیل سے فرار ہوگئے ۔ میڈیا اپنی رپورٹ میں انہیں خونخوار دہشت گرد قرار دیا کئی دنوں کے سارے نیوز چینل نے بڑی بڑی اسٹوری کی لیکن کسی نے یہ نہیں دکھایا کہ ان لوگوں کے خلاف مقدمہ کیا تھا اور ان لوگوں کو 2011میں عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا لیکن مقامی لوگوں (ہندؤں) کی مخالفت کی وجہ سے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔میرے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہاں عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، میڈیا کس طرح کام کرتے ہیں۔کیا عوامی حمایت یا مخالفت کسی کے مجرم ، بے قصوریا کسی کی پھانسی کی وجہ ہوسکتی ہے؟یہی رویہ لالو پرساد یادو کے سلسلے میں بھی اپنایا گیاہے۔ میرا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ لالو یادو بے داغ ہیں یا وہ چارہ گھپلہ میں ملوث نہیں ہیں۔لیکن اس فیصلے سے جرم سے کہیں زیادہ ایک طبقہ کے مفادات اور منشا کی تکمیل کی بو آتی ہے۔
لالو یادو کے سلسلے میں سی بی آئی کا رویہ ہمیشہ معاندانہ رہا۔ ملک کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا کسی سیاست داں کو گرفتار کرنے کے لئے فوج بلائی گئی تھی۔ اس حرکت سے سی بی آئی کی نیت پر شبہ ہوجاتا ہے۔ لالویادو کسی کے مجرم ہوں یا نہ ہوں لیکن ہندوتو کے علمبردار، میڈیا، عدلیہ، مقننہ اورا نتظامیہ کے ازلی دشمن ضرور ہیں۔ یہی وجہ ہے جیسے ہی رانچی کی سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے لالو یادو کو قصوروار قرار دیامیڈیا کی بانچھں کھل اٹھیں۔ تمام ٹی وی نیوز چینلوں نے شور و غوغا کرنا شروع کردیا کہ اب لالو یادو کا سیاسی کیریر ختم ہوگیا ہے اور ان کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل مالا کے دانوں کی طرح بکھر جائے گی۔ پیڈ صحافیوں نے گلا پھاڑ پھاڑ کرلالو یادو کے خاتمہ اور بی جے پی کی فتح قرار دنیے لگے۔ میڈیا کا بس چلتا تو اسی وقت 2014کے نتائج کا اعلان کرکے نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے پر بٹھادیتے۔ 30 ستمبر کو خصوصی سی بی آئی عدالت نے لالو پرساد سمیت 44 ملزمان کو مجرم ٹھہرایا تھا۔اس معاملے میں جج تبدیل کرنے کی لالو یادو کی عرضی سپریم کورٹ نے 13 اگست کو خارج کر دی تھی۔لالو یادو نے اپنی درخواست میں ٹرائل کورٹ کے جج پی سنگھ پر امتیازی سلوک برتنے کا الزام لگایا تھا۔ لالو یادو نے فیصلہ کے بعد کہا تھا کہ جس چیز کا ڈر تھا وہی اور انہیں معلوم تھا کہ انہیں یہاں انصاف نہیں ملے گا۔ ایک دوسرے مجرم جگدیش شرما نے کہا، "میں بے قصور ہوں‘‘ ریٹائرڈ آئی اے ایس مہندر پرساد کا کہنا تھا، "میں نے عدالت کو بہت دستاویز دیئے تھے، لیکن میرا موقف کسی نے نہیں سنا‘‘۔
بہار کے گوپال گنج میں ایک یادو خاندان میں پیدا ہونے والے لالو پرساد یادو نے سیاست کا آغاز جے پرکاش نارائن کے جے پی تحریک سے کی جب وہ ایک طالب علم رہنما تھے اور اس وقت کے سیاست داں ستیندر نارائن سنہا کے کافی قریبی رہے تھے۔ 1977 میں ایمرجنسی کے بعد لوک سبھا انتخابات میں لالو یادو فاتح ہوئے اور پہلی بار 29 سال کی عمر میں لوک سبھا پہنچے۔ 1980 سے 1989 تک وہ دو بار اسمبلی کے رکن رہے اور حزب اختلاف کے رہنما کے عہدے پر بھی رہے۔ 1990 میں وہ بہار کے وزیر اعلی بنے اور 1995 میں بھی بھاری اکثریت سے کامیاب رہے۔لالو یادو کی عوامی حمایت میں ایم وائی (MY ) یعنی مسلم اور یادو فیکٹر کا زبردست دخل رہا اور انہوں نے اس سے کبھی انکار بھی نہیں کیا ہے۔1997 میں جب مرکزی تفتیش بیورو (سی بی آئی) نے ان کے خلاف چارہ گھپلہ کے معاملے میں فرد جرم داخل کی تو انہیں اپنے عہدے سے استفعی دینا پڑا۔ اپنی بیوی رابڑی دیوی کو اقتدار سپرد کرکے وہ راشٹریہ جنتا دل کے صدر بن گئے اور درپردہ طور سے اقتدار کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھا ۔ چارہ گھپلہ کے معاملے میں لالو یادو کو جیل بھی جانا پڑا اور وہ کئی ماہ تک جیل میں رہے ۔1998 میں مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں حکومت بنی تھی۔دو سال بعد اسمبلی کا انتخاب ہوا تو راشٹریہ جنتا دل اقلیت میں آ گئی۔ سات دن کے لئے نتیش کمار کی حکومت بنی لیکن وہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے اور ایک بار رابڑی دیوی پھروزیر اعلی بنیں۔ کانگریس کے 22 رکن اسمبلی ان کی حکومت میں شریک ہوئے۔2004 کے لوک سبھا انتخابات میں لالو پرساد ایک بار پھر کنگ میکر کے کردار میں نظرآئے اورترقی پسند اتحاد کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی لالو یادو ریلوے کے وزیر بنے۔ یادو کے دور میں ہی کئی دہائیوں سے خسارے میں چلنے والی ریلوے پھر سے منافع کی پٹری پرآئی۔ ہندوستان کے تمام بڑے منیجمنٹ اداروں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے بزنس اسکول لالو یادو کے منیجمنٹ کے قائل ہوگئے اور ہندوستانی ریلوے کی ترو تازہ صورت حال تحقیق کا ایک موضوع بن گئی۔اپنی بات کہنے کا لالو یادو کا خاص انداز نے ان کو باقی سیاستدانوں سے الگ کردیا۔ صحافی اسی انتظار میں رہتے تھے کہ کب لالو یادو کچھ بولیں اور وہ لوگ اس کو شائع یا نشر کریں۔لیکن اگلے ہی سال 2005 میں بہار سے راشٹریہ جنتا دل کی حکومت کی کا خاتمہ ہوگیا اور 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں ان کی پارٹی ( آر جے ڈی ) کے صرف چار ممبران پارلیمنٹ ہی جیت سکے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ لالو کو مرکزی حکومت میں جگہ نہیں ملی۔ داغدار عوامی نمائندوں کو بچانے والا آرڈیننس کھٹائی میں پڑ گیا اور اس طرح لالو کا سیاسی مستقبل منجدھار میں پھنس گیا ۔
اس فیصلے سے لالویادو اور اس کی پارٹی جھٹکا ضروری لگا ہے لیکن یہ پارٹی اس طرح کے حالات سے پہلی بار دوچار نہیں ہوئی ہے۔ لالو پرساد یادوکے ذاتی کریئر پر کوئی خاص اثرنہیں پڑنے والا ہے۔عدالت نے انہیں پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔ اب وہ انتخاب نہیں لڑ سکیں گے بھلے ہی آگے اپیل ہوگی اور معاملہ چلتا رہے گا۔ان کی پارٹی تو چلتی ہی رہے گی۔ پارٹیاں بند نہیں ہوتی ہیں جہاں تک ان کی ساکھ کا سوال ہے اس میں بھی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ لالو یادو بہت بڑے لیڈر ہیں۔ 90 کی دہائی میں جن لوگوں نے ان کو دیکھا ہے انہیں معلوم ہے کہ لوگوں کے درمیان ان کا کیا اثر تھا۔وہ شکست کھاکر بھی 18 سے 20 فیصد ووٹ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ان کے جیل جانے کے بعد بھی کئی سارے ایسے لوگ ہیں ، جن کی وفاداری ان کے تئیں ڈگمگایا نہیں ہے اور وہ لالو کو مجرم ماننے کو تیار نہیں ہیں۔یہاں تک کہ وہ لالو کے لئے جان تک دینے کو تیار ہیں۔ ایسی ہی ایک واقعہ مظفر پور میں پیش آیا۔ لالو کو سزا ملنے کے بعد مظفر پور کے سریکا بلاک تحت بستپر گاؤں کے 70 سالہ بتی لال ساہ جمعرات کو لالو یادو کا صدمہ برداشت نہیں کرپایا اور ان کی موت ہوگئی۔سارن ضلع کے ڈٹرا پرسیلی گاؤں کے باشندے رام رائے لالو کے جیل جانے سے اتنا دلبرداشتہ ہیں کہ انہوں نے دانہ پانی چھوڑ دیا ہے۔ لالو یادو کی مقبولیت دلیل یہ ہے اس کی حریف پارٹی کے ممبران اسمبلی سے لیکر ممبران پارلیمنٹ اس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں۔آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد کو پھنسایا گیا ہے۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ بالا عدالت میں انہیں انصاف ضرور ملے گا۔یہ باتیں پٹنہ صاحب سے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اور سنے اداکار شتروگھن سنہا نے کہی۔ لالو پرساد کو اپنا بڑا بھائی اور عزیز بتاتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کے سب سے زیادہ مقبول رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ان کے اوپر آئے بحران کے بادل چھٹ جائیں گے اور وہ زیادہ مضبوطی کے ساتھ ابھرے گی۔ شتروگھن سنہا نے یہ بھی کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں وہ لالو پرساد کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سی بی آئی پر سوال اٹھ رہا ہے کہ کانگریس ، بی جے پی اور جے ڈی یو کے کئی سینئر لیڈر شامل ہیں۔چارہ گھوٹالے کی جانچ میں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار، شیوانند تیواری اور للن سنگھ جیسے سیاسی شخصیات کے نام بھی اجاگر ہوئے ہیں ، لیکن پراسرار طریقے سے سی بی آئی نے ان لیڈروں کو کیوں چھوڑ دیاہے۔کیا سی بی آئی سنگھ پریوار، کانگریس، جے ڈی یو اور بی جے پی کے اشارے پر کام کر رہی ہے یہ سوال بہار کے ہر انسان کے دماغ میں کوند رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ دیگر رہنماؤں کو کیوں چھوڑ دیا گیا۔ کیا لالو پرساد یادو کو 1990میں سمستی پور کے مسری گراری میں گرفتار کرنے کی سزا دی گئی ہے؟یا ان کے خلاف برہمن اور بھومیہار کا اتحاد کا نتیجہ ہے۔ نتیش کمار کا نام بھی شامل تھا پھر اس پر اتنی مہربانی کیوں؟ کیا کانگریس نے مستقبل کے اتحادی ہونے کی وجہ سے بچایا ہے۔بابری مسجد شہید کرنے کے ملزم اور سپریم کورٹ کے حلفیہ بیان پر عمل نہ کرنے والا کلیان سنگھ کو سپریم کورٹ نے صرف ایک دن کی علامتی سزا کیوں دی تھی؟، کیا اڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوؑ ہر جوشی، پروین توگڑیا، نریندر مودی، آدتیہ ناتھ اور دیگر ہندتووا کے علمبردار رہنما کا لالو یادو سے گناہ کم ہے؟ ہزاروں انسانوں کے قاتل آزاد کیوں ہیں؟ لالو یادو کو سب کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن وہ فرقہ پرست نہیں ہیں انہوں نے مشکل سے مشکل حالات میں سیکولرزم سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔اس وقت جب سارے لیڈر بی جے پی کی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے تھے لالو پرساد یادو ہی تنہا انسان تھا جنہوں نے ہتھیار نہیں ڈالا تھا۔ گودھرا کا سچ جاننے کے لئے یو سی بنرجی کمیشن قائم کیا۔ سیکولر اور مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والوں کو سزادینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل مہیش بھٹ جو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں ان کی آواز کو دبانے کے لئے ان کے بیٹے راہل بھٹ کو کولمین کے معاملے میں بے جا ہراساں کیا گیا۔ سنجے دت جنہوں نے اپنے والد کے ساتھ 1992میں ممبئی فسادات کے دوران مسلمانوں کی ہر طرح کی مدد کی اور بازآبادکاری کیمپ میں ٹھہرایا تھا ایک ہتھیار کے معاملے میں انہیں پانچ سال کی سزا دی گئی جب کہ انہوں نے یہ ہتھیار پولیس کی حفاظت فراہم نہ کرنے اور فرقہ پرست عناصر کی دھمکیوں کے خوف سے چند ایام کے لئے حاصل کیا تھا جسے بعد میں تلف کردیا تھا۔ اس سے پہلے کئی سیاسی لیڈروں پر بدعنوانی کے مقدمات چلے ہیں لیکن سب ایک کے بعد ایک بری ہوتے گئے کیوں کہ لالو نے فسطائی طاقتوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیاتھا اس لئے انہیں یہ سزا دی گئی۔اس میں کانگریس بھی مشترکہ طور پر شریک ہے تاکہ وہ بہار میں اپنا کھویا مقام حاصل کرسکے۔
ڈی۔ ۶۴ فلیٹ نمبر ۱۰، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا ، نئی دہلی۔ ۲۵
abidanwaruni@gmail.com
9810372335
Comments
Post a Comment